working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

اسلام پر صوفی ازم کے اثرات
جولین بالڈک
 
جولین بالڈک کنگز کالج لندن میں تقابل ادیان کے استاد ہیں۔ ان کی کئی کتابیں چھپ کر مقبول عام ہو چکی ہیں۔ زیرنظر مضمون دراصل ان کی کتاب "Mystical Islam" کی تلخیص ہے جسے قارئینِ ''تجزیات'' کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ (مدیر)
اسلام پر صوفی ازم کے اثرات سمجھنے کے لیے ان تاریخی اور سماجی حقائق کا مطالعہ ضروری ہے جو مشرق وسطیٰ اور خصوصاً عرب دنیا میں اسلام کے متعارف ہونے سے پہلے موجود تھے۔ساتویں صدی عیسوی کے شروع میں اپنے عہد کی دو عظیم سلطنتیں اپنا وجود رکھتی تھیں یعنی بنی بازنطینی دوم کا آخری دور ، جو کہ مصر، شام ، فلسطین اور ترکی کے علاقوں پر محیط تھا۔ جبکہ دوسری جانب فارسیوں کی حکومت تھی جو کہ ایران اور عراق پر مشتمل تھی۔ یہ دونوں سلطنتیں انحطاط پزیر تھیں جس کی بنیادی وجوہات میں اقلیتوں کے ساتھ بد سلوکی، جنگیں اور حکومتی اداروں کی من مانیاں سر فہرست تھیں یہ تمام عوامل اس بات کے متقاضی تھے کہ اب ایک ایسی نئی تحریک عمل میں آئے جو عالمی بھائی چارے پر اپنی بنیاد قائم رکھے اور محرومین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرے اور یہی وہ موزوں ترین وقت تھا جب صحرائے عرب سے ایک نیا دین سامنے آیا حالانکہ یہ خطہ پہلے مہذب دنیا کی نظروں سے اوجھل تھا ۔ ابتدائی حالات سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام نے دنیا کو ایک خوش نما تصور پیش کیا جس سے عربوں کے پرانے اور غیر مہذب رویے بہتر صورت میں سامنے آئے۔ اسلام کا اجمالی جائزہ بھی محل نظر نہ ہوگا۔

اسلام کا احیاء کرنے والی عظیم شخصیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 570عیسوی میں مغربی عرب کے مرکز مکہ میں متولد ہوئے610ء میں انہیں جبرئیل فرشتے کی وساطت سے وحی ملنا شروع ہو ئی جو کہ خدائے واحد کے اصلاحی پیغامات اور عبادات پر مشتمل تھی اور جسے قرآن کی شکل میں مجتمع کیا گیا جہاں انہوں نے ایک اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی اور پھر وہیں 632ء میں رحلت فرما گئے۔ حضور کے بعد خلفائے راشدین کا دور دورہ رہا۔ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کے عہد (634-44) میں عربوںنے نہایت سرعت سے فلسطین، مصر ،شام، عراق اور ایران پر قبضہ کر لیا۔ بعد ازاں حکومت بنی امیہ کے ہاتھ آگئی اور دارالحکومت دمشق منتقل ہو گیا اور فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ اس طرح سپین اور ہندوستان تک اسلام پھیل گیا۔ اوراسلامی تاریخی روایات مخلوط ثقافت کے زیر اثر سیاسی اور سماجی اثرات سے متاثر ہونے لگیں۔

نو مسلم جو عربوں کے مفتوحہ علاقوں میں رہتے تھے مقامی روحانی قدروں سے عہد قدیم سے ہی متاثر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مورخین کی رائے میں اسلامی صوفی ازم نے عیسائیت کے روحانی ماحول میں نشو نما پائی ہے۔ جیسا کہ صوفی قدیم عرب لفظ صوف سے مُشتق ہے جو کہ اونی کپڑے کے مفہوم میں آتا ہے اورایسے ملبوسات مشرق میں رہنے والے قدیم عیسائی صوفی استعمال کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اسلام کی آمد سے پہلے کے عیسائی لوگوں کے کپڑے مثلاً مختلف رنگوں کے ٹکڑے آپس میں جوڑ کر گدڑی سلانے یا غم کا لباس جو عموماً کالے رنگ کا ہوتا زیبِ تن کرنے کا رواج عام تھا اگر عیسائی صوفی خیالات پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان میں تارک الدنیا ہونا مذہب کا حصہ قرار پا چکا تھا اور اسے یونانی نظریات نے مزید نکھارا ۔ جس میں جسم کا تصور ایک فانی حیثیت سے سامنے آیا غربت کو سراہا گیا اور مختلف عبادات پر زور دیا گیا جیسا کہ اسلامی صوفیاء خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نصرانیت میں رہبانیت کو قبول کرلیا تھا۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں''رہبانیت ان لوگوں نے(یعنی عیسائیوںنے) خود ایجاد کی تھی ہم نے اس کا حکم نہیں دیا تھا انہوں نے یہ طریقہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اختیار کیا مگر اسے صحیح طورپر نبھا نہ سکے( سورہ حدید-آیت 27)

عیسائیت کے ابتدائی اثرات اسلامی صوفی ازم میں نہیں ملتے جیسا کہ مجردپن جسے سریانی زبان میں ''قدش'' کہتے ہیں۔ اس میں ہمیشہ پاک صاف رہنے کے لیے خاندانی جھنجھٹ سے دور رہنے کا تصور تھا۔ لیکن اسلامی صوفی ازم یاسیرو سلوک میں ایسا کوئی تصور نہیں ملتا اور کوئی صوفی معاشرے سے کٹ کر نہیں رہتا۔ اسلام میں خدا سے محبت کے پیمانے ایک خاص توازن پر قائم ہیں اس میں خدا کی سرپرستی بھی ضروری خیال کی جاتی ہے اور اس پر مکمل بھروسہ رکھا جاتا ہے۔اسلام میں ابتدائی عیسائی دور کے چند اہم ثقافتی عوامل کا پر تو بھی ملتا ہے مثلاً مصرجو کہ روایتی عیسائیت کا گڑھ تھا جہاں رہبانیت عام تھی اور روزے رکھنے پر زور دیا جاتا تھا اسی طرح ملکِ شام میں گوشت خوری پرقد غن تھی سبزی کھانے کا دستور تھا اور عیسائی صوفی لوہے کے وزنی زنجیر زیب تن کرتے تھے اور مسلمانوں کے چند طبقے بھی ایسا کرتے ہیں۔ جبکہ عراق کی صورت حال کچھ مختلف تھی وہاں علمی ماحول پایا جاتا تھا۔ اور اسے یونانی فلسفے کی روایات کا امین خیال کیا جاتا تھا۔

ایک اور قدیم روایت نے بھی اسلام میں خاصا فروغ پایا ہے جس میں خدا کے ناموں کو مسلسل دہرایا جاتا ہے اسے تورات میں ''ذکر ''سے معمون کیا گیا ہے۔ اسے اسلام میں عبادت کی شکل بھی دے دی گئی ہے اسے''ذکر اللہ'' کہتے ہیں اس میں اللہ کے مختلف ناموں کا ذکر کیا جاتا ہے۔

سیر و سلوک میں انسان کو تین اجزا میں منقسم کیا گیا ہے جس میں ایک روح، دوسرا نفس اور تیسرا جسم ہے اورتعلیمات میں ذات کی نفی، پاکیزگی اور مکمل ادراک ضروری ہے اور پہلے مرحلے میں نفس پر قابو پانے کے لیے روزے رکھے جاتے ہیں۔ صدقہ خیرات تقسیم کیا جاتا ہے اور رات بھر جاگ کر عبادت کی جاتی ہے۔ دوسرے مرحلے میں پڑوسیوں سے محبت، انسانیت اور نیکی کے کام ہیں۔ صوفی ازم میں سیر و سلوک کے حوالے سے یہ دونوں مرحلے نہایت اہم ہیں یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد ان دونوں کے بغیر صوفی مکمل نہیں ہوتا اور پھر تیسرے مر حلے میں خدا کی خوشنودی حاصل ہو جاتی ہے جو کہ صوفی کا انتہائی مقام ہے۔ جس میں امن اور محبت کو فوقیت دی جاتی ہے۔

صوفی کو عربی میں فقیر اور فارسی میں درویش بھی کہا جاتا ہے اس سے مراد ایک روحانی لبادے والا انسان ہے جو کہ صوفی سے بھی ماورا خیال کیا جاتا ہے تمام درویش بھی صوفی نہیں ہوتے کیونکہ کئی مجاہدوںاور محنت کے بعد درویشی حاصل ہوتی ہے۔

کئی مستند ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ عیسائیت کے شروع کے سالوں میں یہودی اور عیسائیوں کے مختلف امور پر رہن سہن اور تعلیمات وہی تھیںجو بعدمسلمانوں میں مقبول ہوئیں جیسے چند یہودی قوانین ، بچوںکے ختنے ، اور سینٹ پال کے نظریات کے برعکس یہ اعتقاد کہ حضرت عیسیٰ محض مسیح تھے خدا کے بیٹے نہیں تھے اور حضرت آدم کی طرح ایک پیغمبر تھے اسی طرح عبادات سے پہلے وضو اور طہارت ،اس کے علاوہ مباشرت کے بعد نہانے کا تصور، جنسی تعلقات کے بجائے رشتہ ازدواج پر زور دینا یہ تمام قوانین پہلے سے رائج تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کو وہاں پھلنے پھولنے میں کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔ دوسری جانب یہ دیکھا گیا ہے کہ یہودیت نے اسلامی صوفیا ء پر براہ راست اثرات مرتب نہیں کئے لیکن ایسی حدود کا تعین ضرور کیا جس میں روحانیت کا پرتو جھلکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان صوفیاء کی سوچ میں ایک ندرت اورو اضح زاویہ نگاہ پایا جاتا ہے۔ عیسائیت میں روحانیت کے حوالے سے گہرا فلسفہ موجود تھا جس سے مسلم صوفیا ء میں بھی وہی روحانی الفاظ مستعمل ہوئے جو عیسائی فقرأ کے ہاں رائج تھے یوں تو یہودی راہبوں کی چند صفات بھی دیکھنے میں ملتی ہیں مگر مسلم صوفیاء میں ظاہر و باطن کے استعارے مشرقی عیسائیوں کی سریانی زبان سے خاصے متاثرمعلوم ہوتے ہیں۔ جبکہ عبرانی میں محض سطحی اور عمومی درجے کی اثر پزیری پائی جاتی تھی عربی جو کہ اسلام کی زبان تصور کی جاتی ہے ان دونوں زبانوں کے باہمی اتصال کا نتیجہ ہی تھی یہ بات بھی واضح ہے کہ یہودیوں کی رہبانیت یا روحانیت نے صوفی ازم کی احیاء میں کوئی خاص حصہ نہیں لیا۔ فلپ جو ڈیسی(40عیسوی) کے عہد کا مکتبہ فکر جو کہ ذو معنی اور تصوراتی اظہا رپر زور دیتا تھا بہت پہلے ہی دم توڑ چکا تھا صرف ''مرکباہ'' یا ''تختِ خدا'' طرز کی روحانی جماعت کا تصور اسلام سے پہلے موجود تھا۔ جس میں خدا کے تخت کی جانب روح کی پرواز کے لیے سات سیاروں کے آسمانوں کے تصوراتی سفر کی نشاندہی کی گئی تھی یہ تخیل یونانیوں کے روایتی فلسفے سے بھی جوڑ رکھتا ہے اور مسلمان صوفیاء میں بھی ملتے جلتے نظریات فروغ پا چکے تھے۔ یہودی روحانیت کا عظیم سکالر گرہم شولم کے بقول فرانس میں1200عیسوی میں فروغ پانے والا''قابلا'' کے تصور سے پہلے اسلام میں یہودی روحانیت کا کوئی تصور نہیں ملتا۔ اس سے اس حقیقت کو بھی تقویت ملتی ہے کہ 13ویںصدی عیسوی تک مسلم ممالک کے بسنے والے یہودیوں نے صرف صوفیاء کے نسخوں کو ہی نقل کیا تھا۔

''ینوپلوٹونک'' اسکول کے اثرات بھی عیسائیت پر مرتب ہوئے جس سے صوفی ازم کو مزید تقویت ملی افلاطون نے بذاتِ خود عیسائی روحانیت کو مضبوط بنیادیں فراہم کی تھیں جس میں آلودہ حسیات سے روح کی اٹھان، علم کی انتہائی بلندی اور سچے حسن کی محبت وغیرہ شامل تھیں اور ''پلوٹو نس '' کے نئے مکتبہ فکر (270عیسوی) نے بھی اسی بنیاد پر اپنے نظریات کو مزید نکھارا اور روح اور وجوہات کی نئی منطق مربوط کی اور اس نظریے نے عیسائیت کو بھی متاثر کیا اور یہی یونانی اثرات جو کہ عیسائی مترجموں اور اساتذہ نے پیش کیے تھے دھیرے دھیرے نویں دسویں عیسوی میں مسلمانوں تک بھی آپہنچے۔

''نیو پلوٹونک'' مکتبہ فکر کے تخیلات کو فارسی شعرا نے آخری 12ویں صدی اور 13ویں صدی میں اپنے اشعار میں استعمال کیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ صوفی ازم کے کئی ایک اسباق اسی ذریعے سے آگے بڑھے لیکن سکالرز نے اس جانب کوئی خاص دھیان نہیں دیا۔ یونانی فلسفے میں صوفی ازم کی ابتدا کے دوران ''سائنک'' صوفیاء کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے ان غیر مہذب یا آوارہ گرد بھکشوئوں نے معاشرے کے مروجہ اصولوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے عرفان حاصل کرنے کے لیے مختصر راستہ اپنا لیا تھااور ان کے اصول ان عیسائیوں سے ملتے جلتے تھے جو اپنے آپ کو خاصا حقیر خیال کرتے تھے خیال کیا جاتا ہے کہ سائنک کا تصور عیسائیت سے ہوتا ہوا صوفیاء تک پہنچا چھٹی اور ساتویں عیسوی میں سائنکوں کا کوئی ذکر نہیں ملتا جس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو مکمل طور پر عیسائیت کی رہبانیت میں ڈھال لیا تھا اور پھر انہوں نے آوارہ گرد بھکشوئوں کا روپ دھار لیا۔ ان کے پیرو کار بعد میں مسلمان درویش کی صورت میں نظر آتے ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ سائنک کی جڑیں یونان سے بھی قدیم مشرقی اور شمالی ایشیا کے اسکول ''شامن ازم'' میں پیوستہ تھیں جس میں جادو، بارش برسانا،بیماروں کو شفا بخشنا اور آسمان کی جانب پرواز کا تذکرہ موجود ہے۔ شامن ازم کے حوالے سے ایک نہایت اہم مسئلہ درپیش رہاہے کہ اس نام کا مذہب دنیا کے ہر خطے میں ملتا ہے۔ اور کئی شواہد سے پتہ چلتاہے کہ اس سکول نے صوفیا کے تصور کو براہ راست متاثر کیا ہے جیسا کہ رقصِ درویش کا تصورہے جو کہ بارش برسانے کے حوالے سے اہم خیال کیا جاتا ہے او ریہ روایت مشرقی ایشیا سے آئی ہے جبکہ خوبصورتی کو سراہنے کا تصور ترکوں کے ہاں ملتا تھا۔ اسی طرح ہوا میں صوفیاء کے اڑنے کا تصور شمال مشرقی ترکوں کے ہاں پہلے سے ہی مستعمل تھا اور اپنی ذات کی نفی بھی صدیوں سے ان علاقوں میںفروغ پار رہی تھی۔ موجودہ دور کے جدید فلاسفر ان نظریات کو ''شامن'' کے ساتھ جوڑنے سے ہچکچاتے ہیں ان کی رائے میں یہ روایات قدرتی ماحول میں خود بخود فروغ پا رہی تھیں اور ان کے پیچھے کسی خاص گروہ کی کوئی متحرک قوت موجود نہیں تھی۔

مشرقِ وسطیٰ میں دوسری صدی عیسوی کے لگ بھگ بحیرہ روم کے ارد گرد پنپنے ولا ایک نیا مکتبہ فکر یعنی گناسٹک ازم بھی روحانی طور پر ''شامن'' سے متاثر دکھائی دیتا ہے۔ یہ اسکول بلند تر علم(گناسس) کو متقی لوگوں کی میراث سمجھتا ہے۔ اس تحریک کی تعلیمات اس بنیاد پر قائم ہیں کہ ہر انسان میں ایک الہامی روشنی پائی جاتی ہے جو کہ اس کی خلقت کے وقت وجود کا حصہ قرار پاتی ہے۔ اسلام سے پہلے یہ تصورات عرب دنیا کے شمالی علاقوں میں بسنے والے یہودی عیسائی اپنا چکے تھے اور اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مسلمان صوفیاء بھی''گناسٹک'' اثرات سے محفوظ نہ رہ سکے۔

عراق کی سرزمین کے مسلمان ان نظریات کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔ ''گناسٹک '' اسکول کے اثرات مسلمانوں کے شیعہ مکتبہ فکر میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ماضی میں اسلام پر صوفی ازم کے اثرات کو آریا اور ہندو یورپی نسلی خیالات پر بھی جانچنے کی کوشش ہوئی ہے۔ کیونکہ سریانی عرب ماضی میں ایرانیوں کے محکوم بھی رہ چکے تھے لیکن ایران میں پائے گئے مذاہب اور روحانیت سے اس قدر سروکار نہیں رکھتے تھے ان میں مذدک اور زرتشت کی مثال دی جاسکتی ہے جبکہ اسلام کے ظہور کے وقت یہ دونوں ہی خاصی کمزور صورت میں آخری سانسیں لے رہے تھے۔

ایرانی عوامل کا صوفی ازم پر اثرات ایک طویل بحث کا حامل موضوع ہے اور استغراق اور مراقبے صدیوں کا سفر طے کر کے ایران میں رائج تھے سانس پر قابو پانے کی مشقیں صوفیوں نے ہندوستانیوں سے سیکھیں اور پھر عیسائیوں نے انہیں اپنایا حالانکہ 13ویں صدی سے پہلے ان میں ایسی کوئی کیفیت موجود نہیں تھی مثلاً الٹالٹک کرعبادت کرنا، کنویں میں معلق ہو جانا یا بلیڈ کا استعمال یقینا یہ طریقے بدھسٹ سے مسلمانوں نے عیسائیوں کے حوالے کیے۔13ویں اور14ویں صدی میں صوفیاء نے رنگوں کے استعمال کا ہنر ہندوستان کے ہندوئوں سے ہی سیکھا تھا۔

قرآن کے اثرات
قرآن ایک گہری کتاب ہے اس میں بعض آیات تو واضح ہیں مگر بعض متشابہات پر مشتمل ہیں اس لیے اس کو سمجھنے کے لیے خاص تدبر اور علم کی ضرورت ہے ۔ قرآن میں عیسائیوں اور ان کے رہبانیت کے حوالے سے ہمدردی کے جذبات پائے جاتے ہیں مثلاً''یقینی طور پر تم یہود اور مشرقین کو مومنین کی دشمنی میں سب لوگوں سے بڑھا ہوا پائو گے لیکن وہ لوگ کہ جو خود کو عیسائی کہتے ہیں انہیں تم مومنین کے ساتھ دوستی میں قریب تر پائو گے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں کچھ دانشمند اور دنیا سے دور افراد موجود ہیں اور وہ حق کے مقابلے میں تکبر نہیں کرتے۔''اور وہ جس وقت پیغمبر پر نازل ہونے والی آیات سنتے ہیں تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے (فرطِ شوق میں) آنسو جاری ہو جاتے ہیں کیونکہ انہوں نے حق کو پہچان لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں پروردگار! ہم ایمان لے آئے ہیں پس تم ہمیں حق کی گواہی دینے والوں میں لکھ لے(5:82-3)قرآن میں بعض جگہ پر عیسائیوں کو گمراہ ہو جانے کی تنبیہ بھی کی گئی ہے مثلاً ''وہ خدا کے مقابلے میں علماء اور راہبوں(تارکین دنیا) کو ہی معبود قرار دیتے ہیں اور اس طرح مریم کے بیٹے مسیح کو حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ ایک ہی معبود جس کے سوا کوئی معبود نہیں کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں۔ وہ اس سے پاک و مبرا ہے کہ جسے اس کاشریک قرار دیتے ہیں۔''(9:31)

''اے ایمان والو:(اہل کتاب کے) بہت سے علماء اور راہب لوگوں کا مال باطل طور پر کھاتے ہیں اور (انہیں خدا کی راہ سے روکتے ہیں اور وہ جو سونا چاند ی کا خزانہ جمع کر (اور چھپا کر) رکھتے ہیں اور خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی بشارت دے دو۔''(8:34)

قرآن خدا اور بندے کے درمیان ایک معاہدے کا ذکر کرتا ہے جو کہ مشرق کے عیسائیوں میں بھی خاصا مقبول تصور کیا جاتا رہا ہے۔''اس وقت کو یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے اولادِ آدم کی صلب سے ان کی ذریت کو لیا اور انہیں ان کے اپنے نفسوں پر گواہ بنا دیا(اور پھر ان سے سوال کیا) کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں انہوں نے کہا کہ ہاں ہم گواہی دیتے ہیں(خدا نے ایسا کیوں کیا) اس لیے کہ وہ قیامت کے دن یہ عذر پیش نہ کریں کہ ہمیں معلوم نہ تھا۔''(7:172)

قرآن حکیم میں اولیاء کرام کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اس کے علاوہ اولیاء اللہ اور خدا کے درمیان محبت کا تذکرہ بھی آیا ہے جیسے صوفیا عموماً اپنی طرف اشارہ سمجھتے ہیں(10:62) میں ایک مثال اور بھی ہے مثلاً ''اے ایمان والو! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا(وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کرے گا) خدا آئندہ ایک ایسا گروہ لے آئے گا جسے وہ دوست رکھتا ہے اور وہ لوگ (بھی) اسے دوست رکھتے ہیں جو مومنین کے سامنے متواضع اور کفار کے مقابلے میں طاقتور ہیں اور وہ راہِ خدا میں جہاد کرتے ہیں اور سرزنش کرنے والوں کی سرزنش سے نہیں ڈرتے۔ یہ خدا کا فضل و کرم ہے، وہ جسے چاہتا ہے (اور اہل سمجھتا ہے) عطا کرتا ہے اور (خدا کا فضل) وسیع ہے، اور خدا جاننے والا ہے(5:54)قرآن میں بھی متعدد جگہ انجیل کی طرح اللہ کے ذکر پر زور دیا گیا ہے۔(دیکھئے5:91اور 13:28 وغیرہ وغیرہ) اس کے علاوہ نفس، روح، امر اللہ، کا تذکرہ بھی بدرجہ اتم موجود ہے جس کا صوفیا کے ہاں ایک خاص مقام ہے۔ علاوہ ازیں قرآن میں قلبِ سلیم(2:97اور2:204وغیرہ وغیرہ) کا ذکر بھی مرقوم ہے۔ اس طرح صوفی روح، جسم اور دل کے درمیان جنگی کیفیت سے دوچار رہا ہے اور پھرکہیں جاکر اسے پاکیزگی اور سچائی نصیب ہوتی ہے۔

روایات اورا حادیث کے اثرات
حدیث سے مراد وہ رپورٹ ہے جو کہ حضرت محمدۖسے منسوب ہوتی ہے یا وہ عمل جو انہوں نے انجام دیا ہوتا ہے اس کا لفظی مطلب خبر بھی ہے۔ پہلے پہل یہ ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی رہیں جس کی وجہ سے چند غریب اور غلط روایات بھی شامل کر لی گئیں جبکہ ان احادیث کو جمع کرنے کا کام9ویں صدی عیسوی میں انجام پایا تصوف میں احادیث بنیادی کر دار رہا ہے۔ خصوصاً حدیثِ قدسی کے حوالے سے خاصی روحانی غذا ملتی ہے یہودیوں اور عیسائیوں میں بھی ایسے نظریات دیکھے گئے ہیں جو ان احادیث سے خاصے ملتے جلتے ہیں۔ مثلاً ایک حدیث قدسی ہے۔''میرا بندہ میرے قریب آنے کے لیے دن رات محنت کرتا ہے حتیٰ کہ وہ میری محبت جیت لیتا ہے اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان میں جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے اس کے ہاتھ بن جاتاہوں جن سے وہ کام کرتا ہے اور اس کے پائوں بن جاتا ہوں جن سے سفر کرتا ہے۔'' بعض احادیث ایسی ہیں جن میں خدا ، حضور کی وساطت سے نہیں بولتا بلکہ حضور سے مروی ہوتی ہیںجیسے کہ وہ فرماتے ہیں''عاجزی میری شان ہے''۔احادیث اور روایات سے ہی یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ آسمانوں تک بلند کیے گئے اور خداوند کریم کے رُو برو حاضر ہوئے اور شرفِ ملاقات حاصل کی۔ اس کے علاوہ سیرت کی تمام کتابیں بھی انہی روایات کی روشنی میں ترتیب دی گئی ہیں۔اصحاب صُفہ کے حوالے سے بھی ایک جماعت سامنے آئی ہے حضور کے زمانے میں مدینہ کے غریب اور نادار لوگوں کا ایک جتھہ حضور کے ارد گرد جمع رہتا تھا اور وہ جس مقام پر تشریف فرماہوتے تھے اسے صفہ سے تعبیر کیا جاتا تھا شاید صوفی کی وجہ تسمیہ میں ایک یہ عنصر بھی شامل ہو۔ کیونکہ اہل صفہ نے متعدد احادیث رقم کی ہیں صُفہ سے مراد چبوترا ہے۔

صوفی کا لفظ کب مستعمل ہوا اس کے متعلق خاصا ابہام پایا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں گوران اوگن کی تحقیق سامنے آئی ہے اس کی رائے سے مکمل اتفاق تو نہیں کیا جاسکتا تاہم اس کے بقول مسلم صوفیاء میں سب سے پہلے عراق کا باشندہ ابو ہاشم ہی پہلا شخص مانا جاتا ہے جو صوفی کے لقب سے مشہور ہوا کہا جاتا ہے کہ اس کا انتقال 776ء کے لگ بھگ ہوا لیکن اس توجیح پر بھی مکمل اعتماد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ ان مسلم شہادتوں کے خلاف ہے جن کے بقول یہ اصلاح816ء کے قریب منظر عام پر آئی ا س سے پہلے یہ تارک الدنیا لوگ مختلف ناموں سے پہچانے جاتے تھے۔ 776ء میں ایسا کوئی گروہ نظر سے نہیں گذرا جو اپنے آپ کو صوفی کہلاتا ہو۔ البتہ نویں صدی میں عباسی خاندان کی حکومت کے دوران خلیفہ کے دارالحکومت بغداد میں ایسے عناصر کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے ۔ عباسیوں نے ہی دمشق کی بنو امیہ کی حکومت کی جگہ عنانِ اقتدار سنبھالی تھی۔

عمومی طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ صوفی کا اصل مطلب ہے اون کا لباس پہننے والا اور عربی میں اس کے لیے صوف کا لفظ استعمال ہوتا ہے اسلام سے پہلے قدیم عیسائیوں میں اون کا استعمال عام تھا اور وہ اسے بیٹھنے کے لیے چادر کے طور پر بچھاتے تھے جس سے قبر مراد لی جاتی تھی جس پر بیٹھنے سے دنیاداری کے حوالے سے وہ اپنے آپ کو مردہ تصورکرتے تھے۔ اس طرح مسلمانوں میں رفتہ رفتہ یہ خیال در آیا کہ اصل ملنگ ہی اونی لباس زیب تن کرتا ہے اسی طرح وہ ادنیٰ خیالات کا حامل بن جاتا ہے اور پھر اس میں انسانیت عود کر آتی ہے سب جانتے ہیں کہ قرونِ اولیٰ کے صوفیوں نے اس لباس کو اپنایا اور پھر خود ہی صوفی کا نام بھی تجویز کر دیا۔

1893ء میں البرٹ مرکس کا ایک نیا نظریہ سامنے آیا اس کے خیال میں صوفی کا مطلب ''اونی لباس پہننے ولا نہیں ہے کیونکہ منطقی طور پر ایک عربی''صوفی'' کے لفظ کا ترجمہ کیا جائے تو اس کا مطلب ہوگا''اون کا بنا ہوا'' یا پھر''اون کا کاروبار کرنے ولا'' اس کے بقول صُوفی کا ماخذ یونانی لفظ''صوفس'' یعنی دانا حکیم ہے جیسا کہ یونانی لفظ''فیلوسفس'' یعنی فلاسفر عربوں میں آ کر ''فیلسوف'' کی شکل اختیار کر گیا۔ اس کے علاوہ صوفی ازم کئی حوالوں سے یونانی فلاسفی یعنی پولوٹونسٹ روایات سے بھی ملتا جلتا ہے اور یہ لفظ یعنی صوفی اسی وقت منظرِ عام پر آیا جب یونانی فلاسفی کو عربی میں ترجمہ کیا جارہا تھا۔ اور اسے 750ء عیسوی سے ہی بغداد کے عباسی خلفاء کی سرپرستی بھی حاصل تھی۔

بہر حال اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ یہ الفاظ پہلے سے ہی موجو دالہامی مذاہب میں بھی نشوونما پارہے تھے مگر اس وقت ان کی درست سمت کا تعین نہیں ہوا تھا۔اب ان مضبوط شواہد پر نظر ڈالتے ہیں جو کتابوں کی صورت میں نویں صدی کے ارد گرد وجود میں آئے یہ قصے ان روایات اور معروضی واقعات پر مشتمل تھے جو اس زمانے میں زبانِ زد عام تھے اور انہوں نے رفتہ رفتہ صوفی ازم کے ڈھانچے کو مضبوط بنیادوں فراہم کیں اس دور کی ایک قد آور شخصیت حارث محاسبی ہے جو 857ء میں فوت ہوا جوزف وین ایس کے بقول وہ نہ تو صوفی تھا اور نہ ہی درویش بلکہ ایک متقی اور نیک شخص تھا۔ اس کا کسی خاص مکتبہ فکر سے تعلق نہیں تھا اس کو یونانی اثرات کے خلاف آزاد خیال رویے اور منفرد نظریات کی وجہ سے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ صوفی ازم کے مختلف مراحل طے کرنے کے لیے''مقامات'' کا قائل نہیں تھا حالانکہ روحانیت میں ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں وہ صرف خدا کے خوف کا تذکرہ کرتا تھا اور مذہبی ذمہ داریاں بجا لانے پر زور دیتا تھا۔ وہ نفس پر قابو پانے کی تلقین کرتا اس نے''ریا'' کے حوالے سے لوگوں میں منافقانہ رویوں کی پرزور مخالفت کی۔ اس کے علاوہ اس نے غیر مساویانہ تقسیم، معاف کر دینے کی عادت اور دل کی دیگرروحانی بیماریوں کا تذکرہ کیا ہے اس کے علاوہ خدا کی خاطر لوگوں سے محبت کے پیغام کو عام کرتا ہے۔ وہ اس وقت کے صوفیا کے اونی کپڑوں یا چیتھڑوں کے لباس کو راہبوں کی باقیات سے تعبیر کرتا تھا وہ مراقبہ اور نفس کے محاسبہ کا کمال مقام رکھتا تھا اس کے متعلق بعد میں آنے والے تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ وہ سما ، شاعری اور موسیقی کو خدا سے لو لگانے کی حد تک پسند کرتا تھا۔ محاسبی نے صوفی کی ابتدا کو مکہ، شام، عراق اور جنوبی افریقہ کی پیداوار قرار دیا ہے۔

مصر کا رہنے والا ذوالنورین مصری بھی اپنے عہد کا مشہور صوفی تھا وہ 861ء کے لگ بھگ فوت ہوا اس نے کیمسٹری، جادو اور ادوایات مذہب میں متعارف کرائیں بطور استاد انہوں نے سیروسلوک کا براہِ راست علم(معرفت) سے خدا اور مختلف علمی منزلوں(مقامات) کو زیر بحث لایا اور صوفیا کے راستے(احوال)کی نشاندہی بھی کی۔ اس پر بھی کچھ نوافلاطونی فلسفہ کے اثرات نظر آتے ہیں جیسے کی دھاتون کی کیمسٹری اور ادویات کا استعمال خالصتاً یونانی تہذیب سے مماثلت رکھتا ہے اسی طرح اپنے نظریات کے حوالے سے ذوالنورین اور محاسبی دو قطبین پر بیٹھے نظر آتے ہیں۔

بایزید بسطامی کا تذکرہ بھی مختلف حوالوں سے ملتا ہے وہ شمالی ایران کے شہر بوستان کا باشندہ تھا اور 875ء میں فوت ہوا اس سے متعدد وضائف منسوب ہیں جو کہ ''شاتھ'' کہلاتے ہیں ۔ اس کی تعلیمات میں ہندوئوں کی مقدس کتب اپنشد اور ودانت کے حوالے سے مماثلت بھی ملتی ہے۔ لیکن اغلب خیال یہی ہے کہ اس نے روحانیت کے حوالے سے جن واقعات کا تذکرہ کیا ہے وہ قرآن سے مستعار لیے ہیں۔اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ شاید وہ پہلا شخص تھا جس نے فناء فی اللہ کا نظریہ پیش کیا۔

ایک اکابر سہل بن عبداللہ تستری کا شمار اپنے دور کے جید صوفیاء میں ہوتا ہے نفس کے مجاہدے کے حوالے سے فرقہ سہلیہ ان سے منصوب ہے۔ ان کا انتقال 886ء میں ہوا۔ وہ جنوب مغربی ایران میں پیدا ہوا اور پھر مغربی عراق کے شہر بصرہ کی راہ لی اس کی تعلیم کے مطابق خدا نے سب سے پہلے اپنے نور سے محمدۖ کو تخلیق کیا اور پھر صدیوں کے بعد حضرت آدم کی خلقت عمل میں آئی اور یوں دنیا کا سلسلہ آگے چلا۔ تستوری کے بقول اگلے جہاں میں وہی لوگ کامیاب ہوں گے جو خدا کی نعمتوں کا شکر بجا لائیں گے اور مشکلات میں ثابت قدم ہوں گے اور یوں ہمیشہ کی ''بقا'' انہیں نصیب ہوگی وہ خدا کی حقیقی تجلی سے مستفید ہونگے۔ وہ کہتا ہے کہ روح کے اندر''سیر''پوشیدہ ہے جس کی وساطت سے خدا بندے سے گفتگو کرتا ہے۔ اس کی تعلیمات کا دارومدار''یقین'' پر قائم ہے ۔ یقین پر اس کا خاصا اعتقاد تھا وہ ''نو ر الیقین''کو خدا کا بندے سے قرب کا وسیلہ قرار دیتا ہے جس سے علم الیقین پیدا ہوتا ہے جو''حق الیقین'' کو تقویت دینے کا باعث ہے۔ وہ مکاشفہ کا درس بھی دیتا ہے جیسا کہ خدا حضرت موسیٰ سے صحرائے سینا میں مخاطب ہوا اس کی تعلیمات میں ''مُعائینہ کا تذکرہ موجود ہے مثلاً خدا نے حضرت ابراہیم کا غیبی مظاہرے سے ایمان مضبوط کیا اور ''مشاہدے'' کے زمرے میں حضورۖ کی معراج کا واقعہ ایک واضح مثال ہے۔علم الیقین کے نور کی مثالوں میں اس نے راست باز علم اور مذہب کی سمت ہدایت کو فوقیت دی۔

تستوری کا ایک ہم عصر خاراز تھا یہ دونوں صوفی ازم کے بانیوں میں تصور ہوتے ہیں اس نے 899ء میں وفات پائی صوفی روایات میں اسے پہلا شخص تسلیم کیا جاتا ہے جس نے بغداد میں سب سے پہلے''فنا'' اور''بقا'' کا فلسفہ روشناس کرایا خاراز کی کتاب''کتابِ صدق'' خاصی مقبول ہوئی جس میں صدق یعنی سچائی کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔ وہ پیغمبر کے درجے کو خد اکے بعد سب سے بلند خیال کرتا ہے جبکہ نیک لوگوں کی روحوں کو روشنی کی اور برے لوگوں کو اندھیرے کی پیداوار قرار دیتا ہے۔

ایک اور صوفی ترمذی835ء میں پیدا ہوا۔ وہ روسی وسطی ایشیاء سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے ستائیس برس تک علم ، فقہ، حدیث وغیرہ کی تعلیم حاصل کی جب اس نے مکہ جاکر حج کیا تو دنیا چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ جب اسے کوئی استاد کامل نہ ملا تو حضورۖ نے خود خواب میں آکر اس کی راہنمائی کی چنانچہ اس طرح کچھ عالم رفقاء کا ساتھ میسر آگیا کچھ دشمنوں نے اس کی تعلیمات کے حوالے سے خدا اور بندے کے درمیانی رشتے کو غلط انداز میں پیش کرنے پر صوبائی گورنر کو رپورٹ کی نتیجتاً اس کے محبت کے موضوع پر مزید اظہار خیال کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اپنی انا کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے ایک رات اسے دل چسپ واقعہ پیش آیامحلے کے کتے اس کے گرد جمع ہو کر بھونکنے لگے مگروہ مطمئن رہا اسے یوں لگا کہ چاند اور ستارے زمین پر اتر آئے ہیں اس نے ایک انتہا کے اطمینان، محبت اور تسکینِ ذات کا تجربہ کیا اور وہ خدا کی حکومت کا قرب حاصل کرنے کے قریب پہنچ گیا۔دشمن اس کا گھیرائو کرتے۔ لیکن وہ اپنے الفاظ کی طاقت سے عوام الناس کے دل جیت لیتا تھا ایک مرتبہ اسے خوب میں ہدایت کی گئی کہ بھوکا پیاسا رہنا ترک کر دے اور غرباء اور کمزور لوگوں کی مدد کے لیے میدان میں اترے۔

ترمذی نے اولیاء کے متعدد درجات اور اقسام بیان کی ہیں وہ یونانی آفاقی ذہنیت اور منطق سے کماحقہ، آگاہی رکھتا تھا۔ جو کہ بالاآخر انتہائی حکمت پر منتج ہوتی تھی----وہ دل کی مختلف تصاویر سامنے لاتا ہے اور اس کو تین ، چار اور سات اعضاء پر منقسم کرتا ہے جس میں دل کو بادشاہ کا درجہ حاصل ہے اور ذہانت اس کا وزیر اعظم ہے۔

ترمذی استاد کے سامنے زانوئے علم تلمذ کا نہ تو قائل ہے اور نہ صاف انکار کرتا ہے چونکہ اس نے خود کتابی علم حاصل کیا اس لیے روحانی طلباء پر یہ انتخاب چھوڑ دیتا ہے اور یہ بھی نصیحت کرتا ہے کہ مکمل طور پر استاد کا محکوم بھی نہیں ہونا چاہیے۔ وہ کہتا ہے کہ اپنی انا پر قابو پائو اس سے خدا کی تجلی کی جانب رہنمائی ملتی ہے۔

صوفیاء میں جنید بغدادی کا مقام بعض اوقات سب سے بلند ماناگیا تاہم 910ء میں فوت ہونے والی یہ شخصیت روحانی دنیا کی ایک بہت معزز ہستی سمجھی جاتی ہے۔ا س نے اپنے تجربات کی روشنی میں نئے تصورات پیش کئے۔جن کا علمی استدلال دو اہم ستونوں کے گرد گھومتا ہے یعنی ''covenent '' اور ''فنا'' جن کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے وہ اولیاء کی بقا فنا میں ڈھونڈتا ہے وہ روحانی درجوں کا ذکر کرتا ہے جو ایک ایک کر کے راہ میں آتے ہیں لیکن یہ صوفی کی پہچان کا پیمانہ نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی منزل قرار پاتا ہے وہ فنا کو ہی انتہائی درجہ قرار دیتا ہے جو بقا کا ضامن ہے اور یہی نفس مطمئنہ کا موجب بھی ہے اور یہی صوفی ازم کی سند بھی قرار پاتا ہے۔ جنید بغدادی نے ابو یزید کی پرندے کی طرح کی اڑان کی مخالفت کی ہے وہ کہتا ہے کہ ابویزیدنے مزید آگے کی روحانی منازل طے کی ہوتیں تو وہ پرندوں،اجسام ،فضائوں اور اس طرح کی دوسری خرافات کا تذکرہ نہ کرتا۔ وہ باغیانہ عوامل اور خیالات کو محرومی اور گناہ کا باعث سمجھتا ہے اور اسلامی شعائر پر نکتہ چینی کو لغو اور بے ہودہ قرار دیتا ہے وہ صوفیاء کے لباس سے بھی عاری تھی اور حارث محاسبی کے بھی شاگرد تھے۔

صوفیاء کے سلسلے میں ایک مشہور شخصیت حسین بن منصور حالاج کا ذکر بھی ضروری ہے جسے 922ء میں بغداد میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ وہ جنوبی ایران میں 860کے لگ بھگ پیدا ہوا اور تستری کے شاگردوں میں شامل تھا وہ عراق میں جنید کے حلقہ اثر کو نظر انداز کرنے کے بعد واپس ایران لوٹ آیا وہاں آکر اسے شہرت ملی مگر اس کی تعلیمات صوفیاء میں ہلچل پیدا کرنے کی موجب بنیں اس نے اس مخصوص لباس سے بھی برات کا اظہار کیا جو اس دور میں صوفی حضرات میں پہننے کا رواج عام تھا۔ بالاآخر وہ بھی بغداد آکر آباد ہو گیا۔وہ عوام میں تبلیغ کرتا بعض نے اس پر شعبدہ بازی کا الزام لگایا کچھ لوگوں کے خیال میں وہ معجزے یا جادو کرتا تھا چنانچہ اسے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا جہاں بعد ازاں اسے پھانسی دے دی گئی۔اس پر الزام تھا کہ وہ کہتا پھرتا ہے کہ مکہ میں جائے بغیر بھی حج کا فریضہ ادا ہو جاتا ہے اس کے علاوہ اس کو شیعہ مکتبہ فکر کا ایجنٹ سمجھا گیا مزید برآں اس کی ذومعنی تعلیمات سے اس نے''اناالحق'' کا نعرہ بلند کیا جس کا مطلب خدا لیا گیا اس نے اشعار بھی تحریر کیے۔یہ تمام صوفیا اپنے زمانے کے ذہین لوگ تھے نہ تو یہ پیشہ ور فلسفی تھے اور نہ ہی باقاعدہ سکالر سمجھے جاتے تھے۔ یہ لوگ اپنے عقائد اور طریقہ کار کو کسی واضح حقائق سے پیش نہیں کرتے تھے۔ ان تمام میں مورثی طور پر روحانی اور اولیاء کے اوصاف موجود تھے۔ مگر انہوں نے محبت،انا ، وجود، بقا،فنا، نفس اور روح کے متعلق اپنے اپنے عقائد وضع کر لیے تھے ، خدا سے بندے کا تعلق اور اس کی ذات سے بے پایاں محبت کے سلسلے صوفیاء کا بنیادی مرکز نگاہ رہا۔ مفکر خیال کرتے ہیں کہ یہ اولیاء خدا کے خاص بندے تھے اور پیغمبر کے بعد ان کی حیثیت مسلم تھی۔ بعض سکالرز یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ لوگ اپنی ہی پہچان کی بھول بھلیوں میں بھٹک گئے تھے۔

10ویں صدی کے شروع تک صوفی ازم کے مکتب نے اپنے آپ کو باقاعدہ منوا لیا تھا اور ان کے اصول اور ضابطے مرتب ہو گئے ۔ لیکن جہاں تک صوفیا ء کی جماعت کا تعلق ہے اس کے خدوخال ابھی واضح نہیں تھے تاہم 15 ویں صدی کے اختتام تک یہ مضبوطی سے اپنے قدم جما چکے تھے۔

عباسی حکومت 9ویں صدی میں اپنے عروج کی حدوں کو چھو رہی تھی اور ثقافتی سرگرمیاں بھی زوروں پر تھیں جبکہ عراق کی شہری زندگی بھی آسائیشوں کے حوالے سے اوجِ ثریا پر تھی تاہم ڈاکہ زنی اور راہ زنی کی وارداتیں عام تھیں اور ظالمانہ کارروائیاں بھی کسی طرح کم نہ تھیں۔ پہلے پہل یہی خیال عام تھا کہ شاید صوفیاء کی تحریک دولت کے ارتکاز اور امراء کے اللوں تللوں کے ردِ عمل کے طور پر سامنے آئی لیکن اب مختلف شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نظریہ اس دور کے مراعات یافتہ طبقے اور شہروں کے بسنے والے نسبتاً امیر لوگوں کے اختراع پر مبنی ہو سکتا ہے جنہوں نے رہبانیت کو محض اس لیے ہوا دی تاکہ اپنی دنیاوی آسائیشوں کا تحفظ کر سکیں۔ اور اس وقت نسخے ہاتھوں سے لکھے جاتے تھے اس لیے کتابیں خاصی مہنگی ہوتی تھیں۔10ویں صدی کے وسط میں جو پچاس سال کا صوفیاء کی تحریک کے حوالے سے قحط الرجال آیا اس کے پیچھے عراق کا معاشی بحران تھا جس نے لٹریچر کو بھی متاثر کیا یہی وجہ ہے کہ منصور حالاج اور ترمذی کے درمیانی وقفے میں مکمل خاموشی طاری رہی دسویں صدی کے اس اقتصادی بحران نے سیاسی اور مذہبی تبدیلیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا۔ عباسی خلافت کا زوال ہوا945ء میں مذہبی اداروں کا کردار برقرار رہا۔جبکہ عراق اور مغربی ایران نئی ایرانی حکومت''بائید'' کے ہاتھوں میں آگئی جوکہ اعتدال پسند شیعہ تھے۔ تمام دسویں صدی میں شیعہ نظریات کا پھیلائو ہوا جیسا کہ مصر میں انتہا پسند اسماعیلی بھی خلافت کے مخالف تھے جبکہ مشرقی اسلامی دنیا بھی شیعہ نظریات کے پروپیگنڈے کے زیر اثر آچکی تھی جس کی وجہ سے حکمرانوں کے خلاف باغیانہ سرگرمیاں سر اٹھا رہی تھیں اور بعض جگہ انہیں کامیابی بھی نصیب ہوئی۔

ان انقلابی اور مخلوط اسلامی اجزاء نے ایک نئے معاشرے کی خاموشی سے ترکیب جاری رکھی جس کا مرکزجنوبی عراق تھا اور یہ لوگ اپنے آپ کو ''اخوان الصفا'' یعنی پارسا برداران کہلواتے تھے۔ انہوں نے یونانی اور ایرانی فلسفے کے ساتھ ساتھ ہندوستانی نظریات بھی اپنائے۔ اس کے علاوہ قدیم فیثاغورث کے علم الاعداد کو بھی روشناس کرایا۔ انہوں نے آزاد خیالی کے ساتھ ساتھ علم افلاک کو فروغ دیا۔ ان نظریات نے بھی اسلام پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

10 ویں صدی کے وسط میں شیعہ نظریات کے سیاسی اثرات نے صوفیاء کے علمی تشخص پر گہرا اثر ڈالا خصوصاً منصور الحاج کی پھانسی نے تو رُخ ہی بدل دیا اور صوفیا ء یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ وہ احتیاط اور خاموشی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور شرعی حدود کا احترم کریں۔

یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ 896ء میں تستوری کی رحلت کے بعد اس کے لاتعداد شاگرد بصرہ چھوڑ کر بغداد آباد ہو گئے۔ انہوں نے اپنی شناخت ترک کر دی اور کچھ جنید بغدادی کے پیروکار بن گئے جنید کے شاگرد کسی خاص اہمیت کے حامل نہیں تھے سوائے اس کے وہ لوگ ماضی کے صوفیاء کے حالاتِ زندگی کے متعلق معلومات فراہم کرتے ان کے دلچسپ واقعات رقم کرتے۔ لیکن تستوری کے وہ پیروکار جو کہ بصرہ میں سکونت پزیر تھے انہوں نے منفرد مکتبہ فکر ترتیب دیا جو کہ محمدابن سلیم(تاریخ وفات909 ئ) کے نام پر سلیمیہ مشہو ر ہوا۔ اس سلسلے کی خاصی مخالفت ہوئی مذہبی اور دوسرے روحانی حلقوں نے اس پر خوب نکتہ چینی کی اس فرقے کا ایک نظریہ یہ بھی تھا کہ دوسری دنیا میں خدا بذاتِ خود ایک انسانی شکل میں نظر آئے گا۔وہ یہ بھی کہتے تھے کہ اگر تمام رازوں سے پردہ اٹھالیا جائے تو تمام دنیا کا نظام درہم برہم ہو جائے گا نہ خدا کی خدائی باقی رہے گی اور نہ ہی پیغمبروں کا مشن سلامت رہے گا۔

شیراز ایران کے رہنے والے ایک صوفی ابنِ خفیف نے سلیمیہ سلسلے کو آڑے ہاتھوں لیا اس کا انتقال 982ء میں ہوا۔ وہ کہتا ہے کہ خدا تک پہنچنے کا راستہ خدمتِ خلق میں مضمر ہے اور اس دنیا میں اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ اور اپنے نفس پرقابو پا کر ہی خدا کا بندہ بناجاسکتا ہے اور ایسے لوگوں کو فنا نہیں ہوتی۔ وہ خدا سے ملنے کے بعد موت سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ پانی پر بھی چل سکتے ہیں نظروں سے غائب کی استطاعت رکھتے ہیں۔ وہ نو آموز صوفیاء کو محفلِ سما، موسیقی اور شاعری کی ممانعت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بہتری اسی میں ہے کہ فنونِ لطیفہ سے احتراز ہی بر تا جائے۔

نفیر(عراق)کا رہنے والا ایک مختلف ڈھب کا صوفی نفیری بہت مشہور ہوا وہ977ء کے لگ بھگ فوت ہوا نفیری پر بہت کم توجہ دی گئی ہے لیکن درحقیقت اس کا مسلمان صوفیاء میں بلند مقام ہے اس کا تدریسی کام''کتاب الموافق'' میں محفوظ ہے۔

10 ویں صدی کے اواخر میں صوفیاء کے قدیم دستو ر عمل اور کتابچے سامنے آئے یقینا یہ ان ثقافتی اثرات کے زیر اثر تھے جو صدی کے وسط میں انقلابی تبدیلیوں سے دوچار ہونے کے بعد خاص مشکل میں ڈھل چکے تھے اور ان ثقافتی سرگرمیوں کا دوبارہ احیاء یقینا ''بائید'' کی حکومت کا نتیجہ ہی تھا جو شیعہ نظریات تو عوام پر نہیں ٹھونستے بلکہ وہ آزادی رائے کے اظہار میں بھی کبھی رکاوٹ کا موجب نہیں بنے۔

اسی دور میں شمالی ایران کے مشہور صوفی سراج(تاریخ وفات988ئ) کی ''کتاب العلومیہ'' سامنے آئی جس میں اس نے وقوف اور مختلف روحانی جہتوں کا تذکرہ کیا پھر ابو طالب جو کہ مکہ کے رہنے والے تھے اور 996ء میں فوت ہوئے کی مشہور کتاب''قوت القلوب'' چھپی جو علمِ تصوف میں معتبر درجہ رکھتی ہے۔ اس میں سیروسلوک ، یقین کے درجے، صبر واستقامت، ہمدردی، رویے، امیدوبیم، خوف دنیا سے بے زاری،خدا پر بھروسہ اور محبت پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ''علم القلوب'' میں خدا کے راہ کے مسافروں کی منزلیں بیان کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ دالانی اور سلانی کی کتب میں بھی عشق حب پر خاصا مواد ملتا ہے دالانی شمالی ایران کا رہنے والا تھا وہ ابنِ خفیف کا شاگرد رشید تھا اور اس کے حالات زندگی بھی لکھے اس نے اپنی محبت کے حوالے سے کتاب میں یونانی فلسفی اور روایات کا تذکرہ بھی کیا ہے جبکہ سلانی جو کہ دالانی کا ہم عصر بھی تھا اور شمالی مشرقی ایران کا باشندہ تھا اور1021ء میں اس کا انتقال ہوا وہ ایک امیر آدمی تھا''ملامتیہ'' سلسلے کے زیر اثر اس کی تربیت ہوئی ان کے نظریات اس کی کتاب کی وجہ سے ہی منظرِ عام پر آئے اُس نے اسلام سے پہلے کی ایرانی روایات پر بھی بحث کی ہے۔

10 ویں صدی میں چونکہ اقتدار شیعہ فرقے کے پاس تھا اور مسلم دنیا مختلف حصوں میں بٹی ہوئی تھی ۔ چنانچہ ایرانی نظریات ہی صائب سمجھے گئے۔ مگر 11 ویں صدی میں مختلف مشاہدے سامنے آئے سُنی مسلمانوں کی اکثریت نے دوبارہ سیاسی غلبہ پایا۔ خصوصاً ترکوں کی شکل میں مسلمانوں کے بڑے علاقے پربراجمان ہو گئے۔ترک وسطی ایشیا سے آئے تھے اور ہندوستان کا وسیع علاقہ فتح کیا اور اسلام کے جھنڈے گاڑے انہوں نے شام تک کا علاقہ مفتوح بنایا اور موجودہ ترکی کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کیا۔ ایک طرف تو انہوں نے سُنی اسلام کی نشر واشاعت کی تاکہ دشمنوں سے نمٹنے میں آسانی ہو دوسری جانب انہوںنے اپنی قبائلی، خانہ بدوشی اور علاقائی ثقافتوں میں پنپ کر ابھرنے والے اپنے وسطی ایشیائی صوفیانہ خیالات کا پرچار کیا۔ترکوں نے علاقے میں پہلے سے موجود صوفی تنظیموں کو بھی استعمال کیا اس سلسلے میں جنوبی ایران کے شہر خازاران کے صوفی خازارانی کا نام لیا جاسکتا ہے۔ وہ ایک استاد تھا اور پرانے ایرانی مذدکیت سے متاثر تھا اور شیعیت سے بھی علاقہ رکھتا تھا۔ وہ خدا کی لافانی محبت کا قائل تھا جو اس کی مخلوق کے لیے مخصوص ہے اس نے صوفیاء کے مکتبہ فکر ''ریبات'' کی داغ بیل ڈالی جو کہ فارسی لفظ خانقاہ کے مترادف ہے۔ اور اسلامی حلقوں میں''دیار'' کے نام سے معنون ہے۔کازارانی مسافروں اور غرباء کو مُفت کھانا کھلاتا اور رہائش مہیا کرتا تھا خانقاہ کے ساتھ مسجد بھی بنائی گئی کازارانی کے شاگردوں نے ایسی ہی 65سرائیں بنوائیں جس کے لیے وہ خود رقم اکٹھے کرتے اور ان مسافر سرائوں میں بانٹ دیتے جہاں غربائ، مساکین اور غربا کی گوشت اور پھلوں سے مُفت میں خدمت کی جاتی۔ اور ان کا بنیادی مقصد خدمتِ خلق ہی تھا کازارانی نے 1035ء میں وفات پائی۔ اس کے نائب خلیفہ اور خطیب کہلاتے تھے۔ اور اس کے شاگردوں کو اصحاب کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ پو پھوٹتے ہی بیدار ہوتے اور قرآن حکیم کی تلاوت کرتے اور عبادت و ریاضت میں جت جاتے دن کے وقت غرباء کی خدمت کرتے حضرت محمدۖ کی تعلیمات سنتے اور خدا کے ناموں کا وظیفہ کرتے اور 14ویں صدی تک ان کا جال ترکی اور چین تک پھیل گیااور اسے ایک مخصوص طریقت یا بھائی چارے کا نام دیا گیا۔

اسی دور کا ایک مشہور نام ابو سعید ابوالخیر کا ہے جو کہ وسطی ایشیاء سے تعلق رکھتا تھا اور تقریباً 1049ء میں فوت ہوا ان کے حالاتِ زندگی علی ہجویری(وفات1075 ) نے رقم کیے ہیں ابو سعید نے غربت کی نسبت امارت کو ترجیح دی جبکہ صوفیانہ ذوق میں غربت محض ایک خیالی استعارہ ہے وہ خدا کی طرح امیر رہنے کا قائل تھا اس نے شاہانہ زندگی بسر کی وہ مصری سُوتی کپڑے پہنتا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ اصلی عرفان اور صوفیاء اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں مقامات اور منازل ختم ہو چکے ہیں۔ ہجویری فرماتے ہیں کہ ابو سعید نے کتابوں کی تعلیم سے دور رہ کر محض دنیاوی آسائشوں کو ترک کرنے اور خود کو خدا سے جڑے رہنے کا سبق دیا ۔

دو مسلمان مفکرین کا تذکرہ بھی محلِ نظر نہ ہوگا۔ ان میں سب سے پہلا ابن سینا ہے جو بخارا سے آیا تھا اور 1037 ء میں فوت ہوا اس نے منطق اور عارف پر خاصی بحث کی ہے۔ طریقت کو محض ایسا راستہ قرار دیتا ہے جس میں خدا کی تجلی نصیب ہوتی ہے جو کہ وصل کی گھڑی ہوتی ہے۔ وہ تذکیہ نفس پر زور دیتا ہے ۔ اس کا فلسفہ خاصا مقبول ہے اور اس کے علم کا تذکرہ صوفیاء کے ہاں عمل مشہور ہے اس نے علم عرفان پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور اس کی کتب سیروسلوک میں اہم مقام رکھتی ہیں۔

دوسرا مشہور مفکر البیرونی ہے اس کا سن وفات 1050ء ہے اسے مختلف علوم اور زبانوں پر دسترس حاصل تھی اس نے تاریخ لکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف فلسفوں پر بحث کی ہے۔ اس نے یونانی، عیسائی، مسلم اور ہندو خیالات کے حوالے سے صوفیاء میں کئی ہم آہنگیاں تلاش کی ہیں ابن سینا اور البیرونی 10 ویں صدی کے آخری حصے کی ثقافتی ورثے کے احیاء کے وقت سامنے آئے۔ 1030ء میں ترکوں کی سلجوق شاخ کے حکمران شمال مشرقی ایران کو عبور کرتے ہوئے 1055ء میں بغداد میں داخل ہو گئے انہوں نے سنی خلافت کو بحال کیا اور عوام الناس میں آزادی اظہار کا احیاء ہوا انہوں نے مکتب کا اجرا کیا تاکہ بیرونی حملہ آوروں سے مقابلے کی ہمت بیدار رہے اور مقامی طور پر بھی سماجی طاقت قائم رہے۔ اسی زمانے میں قشالڑی (تاریخ وفات 1074) سامنے آیا اس نے اپنے کتابچے میں صوفیاء کے مختلف درجے اور طریقت پر بحث کی وہ رہنما کے طور پر شیخ کی اہمیت کا قائل ہے تاکہ تعلیمات درست انداز میں شاگردوں تک پہنچیں اور خدا کو یاد کر نے کے مختلف فارمولے آسانی سے حاصل ہوں۔

قشائری کے ہم عصر علی بن عثمان ہجویری بھی ایک مشہور بزرگ گذرے ہیں وہ غزنی افغانستان میں پیدا ہوئے اور 1075ء میں لاہور(پاکستان) میں دفن ہوئے''وہ کشف المحجوب'' کے مصنف ہیں۔ انہوں نے بھی بقا فنا اور طریقت پر اپنا نظریہ پیش کیا ہے اور صوفیاء کے 12قسموں پر بحث کی ہے۔

مذکورہ بالادو صاحبانِ کتب کے ساتھ ایک تیسرا نام بھی لیا جاتاہے یہ خواجہ عبداللہ انصاری ہیں جوہرات (افغانستان) میں متولد ہوئے اور اسی سرزمین پر 1089ء میں رحلت فرمائی انہیں پیرہرات بھی کہا جاتا ہے۔ وہ سنی مکتبہ فکر کی حمبلی شاخ سے تعلق رکھتے تھے وہ فلسفے اور ملائیت کے مخالف تھے انہوں نے فنا اور بقا پر خاصا کام کیا انہوں نے بہت سی کتب لکھیں جن میں سب سے مشہور ''منازل السائرین'' ہے جو سیر و سلوک پر نہایت اہم سمجھی جاتی ہے ان کی کہاوتیں بھی مشہور ہیں مثلاً در طفلی پستی ، درجوانی مستی،، درپیری سستی، پس کے خدا پرستی'' ان کا ایک ملفوظہ بھی مشہور ہے''بدی رابدی کردن سگساری است، نیکی رانیکی کردن خرخاری است، نیکی رانیکی کردن کار خواجہ عبداللہ انصاری است''۔

مغرب میں شہرت پانے والے ایک اور فلسفی اور صوفی ابو حامد محمد غزالی ہیں وہ طوس(ایران) میں پیدا ہوئے اور وہیں 1111ء میں وفات پائی مشہور کتاب''احیاء العلوم الدین'' انہی کی تصنیف ہے جس میں تصوف کے مختلف تجربات پر قلم اٹھایا گیا ہے۔محمد غزالی کا بھائی بھی اپنے عہد کا منفرد صوفی تھا وہ 1126ء میں فوت ہوا اس نے فارسی میں محبت کے موضوع پر لکھا بعد ازاں ایران میں اس موضوع پر خاصی پیش رفت ہوئی ۔ اس نے محبت اور روح کے تعلق کو بھی اجاگر کیا۔اس کے ایک ہونہار شاگرد کو محض اس لیے موت کی سزا دی گئی کہ ملا نے اسے ایمان سے کھسکا ہوا قرار دیا۔ قرةالعین (تاریخ وفات1131ئ)نے اپنی کتب میںلکھا کہ قرآن میں قیامت کے روز مردوں کا جسمانی طور پر جی اٹھنا، جنت اور دوزخ کا وجود محض تصوراتی ہے چنانچہ ان ملحدانہ خیالات کی سزا اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔

ابتدائی صوفیاء نے اسلام میں عربی شاعری کو رواج دیا پھر اسے فارسی شعراء نے اپنی بلندیوں تک پہنچا دیا اس طرح یہ ترکی اور ہندوستان کی ثقافت میں بھی در آیا۔ فارسی رباعیات دراصل ایرانی تناظر میں لکھی گئیں اس کے علاوہ بارہویں صدی کے شروع میں نظموں اور اشعار کی صورت میں بھی صوفی نظریات کا فروغ ہوا اس سلسلے کی سب سے پہلی مثال افغانستان میں غزنی کے مقام کے درباری شاعر سینائی کی ملتی ہے۔ اس کی نظم''سیر العباد'' کا فی مشہورہے اور اس کا عموماً DANTEکی نظمDIVINE COMEDYسے موازنہ کیا جاتا ہے۔

نیشاپور (ایران )کا مشہور فارسی شاعر شیخ فرید الدین عطار کا شمار صوفی اکابرین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے نظم اور نثر میں کمال پیدا کیا وہ 1221ء میں چنگیز خان کے بعد آنے والے منگولوں کے ہاتھوں ملک عدم سدھارے۔ اس کی کتاب''منطق الطیر'' تصوف کی ہر دلعزیز کتاب ہے اس کے علاوہ''تذکرہ اولیا'' بھی لکھی۔ مولانا رومی انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں

ہفت شہر عشق را عطار گشت
ماہنوز اندر خم یک کوچہ ایم

(عطار نے عشق کے ساتھ سات شہروں کی سیرکی ہے اور ادھر ہم ہیں کہ ابھی گلی کے موڑ پر ہی ہیں) عطارا مجد الدین بغدادی کے شاگردوں میں سے تھے۔''الٰہی نامہ '' اور''مصیبت نامہ'' بھی ان کی مشہور کتب ہیں۔

قاہرہ (مصر) سے تعلق رکھنے والے عرب صوفی شاعر ابن الفرید(تاریخ وفات 1235) بھی عطار (نام کا مطلب ہے حکیم) کی طرح کے نظریات کا حامل تھا وہ وزیر زادہ تھا مگر وہ عام لوگوں کی طرح بسر کرتا تھا۔ اپنی مشہور''نظم السلوق'' میں آفاقی محبت کو فطرت کے حسین مناظر میں دیکھتا ہے۔

صوفی ازم میں مکمل نظام روشناس کرانے والی عظیم ہستی محی الدین ابنِ عربی کے نام سے جانی جاتی ہے وہ 1165ء میں ایک عرب خاندان میں پیدا ہوئے اور ان کی پرورش سپین میں ہوئی انہوں نے کچھ عرصہ تنہائی میں بھی بسر کیا اور مختلف صوفیاء سے بھی کسب فیض کیا اور ان کے بقول انہیں شمالی افریقہ کے دوروں کے دوران ایک محیرالعقول واقعات پیش آئے اس کے علاوہ مکہ کے سفر میں بھی کئی واقعات ان سے منسوب ہیں جن کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب''الفتوحات المکیہ'' میں کیا ہے انہوں نے مصر اور ترکی تک سفر کیا اور بالاآخر دمشق(شام) میں قیام پزیر ہو گئے جہاں 1240ء میں انتقال فرما گئے ابن عربی کا صوفی نظام قدیم صوفی نظریات کے علاوہ نئے افلاطونی اور اسلامی فکر کا مجموعہ ہے وہ وحدت الوجود کے قائل تھے اور ایک حقیقی خدا کا وجود''حق'' کی صورت میں دیکھتے تھے جو کہ تمام مخلوقات کا'' خالق '' ہے وہ اس نظریے کے خلا ف تھے کہ''سب کچھ خدا ہے اور خدا ہی سب کچھ ہے''وہ کہتا ہے کہ خدا کے مختلف ناموں سے آفاقی سکون حاصل ہوتا ہے اور صوفی کسی صورت میں بھی اس ''احدیہ'' تک نہیں پہنچ سکتا البتہ ''واحدیہ'' تک اس کی رسائی ممکن ہے جو کہ اس کے خوبصورت ناموں کے مرہونِ منت ہے ۔ ابن عربی نے تصوف کے علمی اور فلسفی مکتب کی بنیاد رکھی ان کی تصانیف دو سو سے زائد ہیں اپنے رتبے کی وجہ سے وہ ''شیخ اکبر'' کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ صوفی شعراء میں سب سے زیادہ شہرت شخصیت جلال الدین رومی کی ہے جو بلخ( افغانستان) میں پیدا ہوئے اور قونیہ (ترکی) میں 1 273ء میں وفات پائی ان کی مثنوی کو کافی شہرت نصیب ہوئی اس نے نفس او ر شیطان پر بھی بحث کی ہے اس کے علاوہ علم اور وجوہات پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ اس کے ہم عصر صوفی شمس الدین تبریزی(تاریخ وفات1247 ئ) سے بھی علمی رشتہ قائم رہا انہوں نے ایک صوفی سلسلے کی بنیاد رکھی جو رقصِ درویش کا اہتمام بھی کرتے ہیں جس میں جنت کا نظارہ محسوس کیا جاتا ہے۔

جب ہم 14ویں صدی کے آخر کو دیکھیں تو ایک اور قدآور شخصیت پر نظر پڑتی ہے۔ یہ حافظ شیرازی ہیں جو فارسی کے سب سے خوبصورت شاعر تھے ان کا 1390ء کے لگ بھگ انتقال ہوا وہ ایک صوفی استاد سے علم بھی حاصل کرتے رہے ہیں اور ایک ہندوستانی صوفی اویسی بھی اس سے طارق الدین صوفیا کے متعلق ہدایات لیتے ر ہے تھے سہروردی سلسلے کے لوگ بھی اس کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے اس کی شاعری میں وفادارانہ دوستی،گہری محبت اور سکون کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ وہ مذہبی عوامل کی مدد سے آفاقی سچائی کو تلاش کرتا ہے۔ وہ بندے اور خدا کے درمیان ساقی کے کردار کو بھی متعارف کراتا ہے۔

ایک اور مشہور صوفی شاعر جامی بھی اپنی مثال آپ ہے۔وہ 1414ء میں شمال مشرقی ایران کے شہر جام میں پیدا ہوا اور 1492ء میں ہرات افغانستان میں وفات پائی۔ جامی نقشبندی سلسلے سے تعلق رکھتا تھا جس کی بنیاد بہائو الدین نقشبندی( تاریخ وفات1389ئ) جو کہ بخاراکے رہنے والے تھے نے رکھی تھی یہ لوگ خدا کو دل میں یاد کرتے تھے اس سے پہلے اونچے سروں میں وظائف پڑھے جاتے تھے۔ جامی کی لمبی لمبی نظمیں صوفیاء کی تعلیمات کا عطر ہیں۔

عباسی خلفاء کے دور میں مسلمانوں کے طریقت کے کئی سلسلے عمل میں آنا شروع ہوئے خصوصاً خلیفہ ناصر جو کہ 1180ء سے 1225ء تک بغداد میں حکمران تھا اس کا زمانہ تبدیلیوں کی نوید لایا اس کے دور میں سلجوکی ترکوں کی عظیم حکومت کا خاتمہ ہوا اور بعد ازاں منگولوں نے چڑھائی کی اس نے صلاح الدین(1168-93) کی یروشلم میں صلیبی جنگ بھی دیکھی تھی انہوں نے پہلے مصر میں شیعوں سے حکومت چھینی تھی۔ ناصر کے دور میں ہی مسلمانوں کی انڈین برصغیر میں حکومتیں عمل میں آنا شروع ہوئی تھیں او ر اسے اسلامی ممالک میں روحانی خلیفہ کا درجہ حاصل رہا۔ بعض صوفیاء کے سلسلے خلفاء سے جا کر ملتے ہیں یا تابئین تک چلے جاتے جو کہ احادیث کے متعلق مستند روایت کے امین سمجھے جاتے تھے اسی طرح بعض سلسلے خلفاء راشدین اور خصوصاً حضرت علی سے جاکر ملتے ہیں اور صوفیاء اپنے آپ کوان کی نسل میں سے سمجھتے ہیں۔

20ویں صدی میں مسلم دنیا کی تاریخ دو وجوہات سے انحطاط پزیر ہوئی جس میں پہلی وجہ تو یورپی ممالک کا سامراجی نظام حکومت تھا جو ان پر مسلط رہا اور دوسرے نمبرپر وہ سیاسی نظام حکومت ہے جو ان ممالک میں آزادی کے نام پر ٹھونسا گیا۔ پھر صدی کے شروع میں یعنی 1904-5میں روس کی جاپان کے ہاتھوں شکست نے یہ ثابت کیا کہ مشرق، مغرب کی نسبت کم اہمیت کا حامل نہیں ہے اور اسلامی ممالک میں بتدریج دو نظریات کی تخم ریزی بھی کر دی گئی یعنی سوشلزم اور قومیت پرستی کے جذبات کو ابھارا گیا۔یورپ نے رفتہ رفتہ اپنی طاقت کے نشے میں مختلف علاقوں پر اقتدار قائم کیا۔ فرانس نے 1912ء میں مراکش میں حکومت بنائی اور1911میں لیبیا بھی اٹلی کے زیر اثر آگیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران خلافت عثمانیہ کے خاتمے نے عرب قومیت کا اتحاد پارہ پارہ کر دیا بلکہ برطانیہ اور فرانس کی حکومتیں مشرقِ وسطیٰ پر اپنی علمداری قائم کرنے میں کامیاب ہوئیں ترکی اور ایران کی حکومتیں بھی مغربی سامراج کے ماتحت آگئیں جبکہ وسطی ایشیاء روس کے قبضے میں چلا گیا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد بڑے پیمانے پر مغربی ممالک نے پسپائی اختیار کی اور کچھ ممالک امریکہ کے قریب آگئے خصوصاً عسکری حوالوں سے اس اتحاد نے مسلم حکومتوں کی سا لمیت کے متعلق مختلف شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ تیل کے بڑے بڑے ذخائر بھی اس کی ترقی کا موجب نہ بن سکے۔ اسلام محض سیاسی نظام اور حسین تخیلات کا نعرہ بن کر رہ گیا ہے اور مغرب ان پر اپنے مفادات کی خاطر بنیاد پرستی کی الزام تراشی کرتا ہے۔ صوفیانہ نظریات کے خلاف بے حد پروپیگنڈہ کیا گیا ہے جیسے سعودی عرب کے ایک خاص مکتبہ فکر کی مدد بھی حاصل رہی ہے اور بعض یورپی ممالک کی حمایت بھی۔جبکہ صوفی ازم کے اسلام پر ایک مضبوط کردارسے انکار ممکن نہیں۔ کیونکہ اسلام محض مذہب یا دین ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب کا نام ہے جس نے معاشرے کو اسلامی اداروں کی مدد سے عدل و انصاف فراہم کیا یقینا صوفی ازم نے مسلم دنیا کو سیاسی اور سماجی تقسیم کے باوجود صدیوں سے آپس میں جوڑے رکھا۔ اس نے صوفیانہ موسیقی، سماء اور دوسرے فنونِ لطیفہ کو فروغ دے کر معاشرے میں امن قائم کیا یقینا اولیاء اور صوفیاء ایک ایسا آئینہ ہیں جس میں ہمیں اپنی خامیوں کا عکس دکھائی دیتا ہے۔

(انگریزی سے ترجمہ و تلخیص: انجینئر مالک اشتر)