working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

طالبان اور ہم
سلیم صافی

تذکرہ ہے اس دور کا،جب میں فرسٹ ائر کا طالب علم تھا۔تب میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ اور قاضی حسین احمد کے فلسفہ جہاد کا قائل تھا۔سوویت افواج افغانستان سے جاچکی تھیںاور ڈاکٹر نجیب اللہ افغانستان کے حکمران تھے۔بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیرعظم ،مرزا اسلم بیگ افواج پاکستان کے سربراہ اور جنرل حمید گل ڈی جی آئی ایس آئی تھے۔اس وقت جنرل حمید گل صاحب نے مجاہدین کے ذریعے جلال آباد شہر پر قبضہ کروانے کا منصوبہ بنایا۔عرب مجاہدین کی مدد سے مجاہدین طور خم سے شروع ہو کر جلال آباد تک جا پہنچے لیکن وہاں سے ان کو پیچھے دھکیل کر دوبارہ طور خم کے قریب پہنچا دیا گیا تاہم یہاں پر عرب مجاہدین نے غیر معمولی جرأت اور قربانی کا مظاہرہ کرکے افغان فوج کو روک دیا۔یہاں سے مجاہدین دوبارہ جلال آباد کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے ثمر خیل تک کے علاقے پر قابض ہوگئے۔اس دوران ہم جمعیت کے چند دوست گھر والوں کو روتا چھوڑ کر ان سے اجازت لئے بغیر جہاد کے لئے جلال آباد روانہ ہوگئے۔رات کو ہم نے پشاور میں حزب اسلامی کے مہمان خانے میں قیام کیا اور صبح جلال آباد روانہ ہونے کا پروگرام بنایا تھا۔شام کو ہمیں پشاور کے ساتھیوں کے ذریعے علم ہوا کہ اسلامیہ کالج پشاور میں رات کو پشتو مشاعرہ ہورہا ہے جس میں اجمل خٹک (جو اس وقت ہمارے نزدیک روسی ایجنٹ تھے)بھی شریک ہوں گے چنانچہ پہلی فرصت میں اس مشاعرے کو درہم برہم کرکے یہاں پر جہاد کا فریضہ سرانجام دینے کا فیصلہ ہوا (ہمیں اپنے قائدین کی طرف سے کہا گیا تھا کہ حدیث نبوی ۖکی رو سے دائرہ اختیار کی شرط کے بغیر برائی کو ہاتھ سے روکنا لازم ہے)رات کو مشاعر ے کو درہم برہم کرنے کے بعد ہم صبح جلال آباد کی طرف روانہ ہو ئے۔جب ہم ثمرخیل سے گزر رہے تھے تو وہاں جگہ جگہ کھیتوں میں افغان فوجیوں کی لاشیں پڑی تھیں۔ہم چونکہ حکمت یار صاحب کے مجاہدین کے ساتھ تھے اور اس وقت چونکہ فرنٹ لائن پر ان کے لوگ لڑ رہے تھے اس لئے ہم بھی جلال آباد کے جنوب مشرق میں واقع''ہڈے بابا''کے محاذ پر جا پہنچے۔دن کے وقت افغان حکومت کے طیارے ہمارے ٹھکانوں پر بمباری کیا کرتے تھے اور رات کے وقت ہم سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے فراہم کردہ میزائلوں کا رخ جلال آباد شہر کی طرف کرکے انہیں فائر کرنا شروع کردیتے تھے۔اس وقت کبھی کبھی ذہن میں سوال اٹھتا کہ جب روسی جاچکے ہیں تو پھر ہم پختون اور مسلمان نجیب اللہ سے کیوں لڑرہے ہیں تو ہمیں اپنے بڑوں کی طرف سے جواب ملتا کہ چونکہ ڈاکٹر نجیب سوویت یونین کا ساتھی ہے۔وہ مرتد ہو چکا ہے،اس لئے پہلی فرصت میں ان سے لڑنا اور ان کو مارنا فرض ہے۔پھر ہم سوچتے کہ یہ افغان فوجی اور پولیس والے تو اپنے بچوں کے لئے رزق کما رہے ہیں اور یہ سب تو افغان اور مسلمان ہیں تو پھر ہم ان کو کیوں ماررہے ہیں تو ہمیں جواب ملتا کہ چونکہ یہ ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کے تنخواہ دار ہیں اس لئے ان کو مارنا اور ان سے لڑنا تقاضائے ایمان ہے۔پھر ہم سوچتے کہ جلال آباد کے شہریوں کا تو کوئی قصور نہیں جورات کو ہمارے میزائل حملوں کی زد میں آتے ہیں تو ہمیں جواب ملتا کہ چونکہ یہ لوگ ہجرت نہیں کرتے اور افغان حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں اس لئے وہ بھی اگر لڑائی میں مارے جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔کبھی کبھی ہمارے ذہن میں یہ سوال جنم لے لیتا کہ ہم ایک طاغوت کے مقابلے کے لیے اسرائیل کے سرپرست دوسرے طاغوت (امریکہ)کا سپورٹ کیوں لے رہے ہیں تو ہمیں جواب ملتا کہ روسی مکمل کا فرجبکہ امریکی اہل کتاب ہیں۔یوں حکمت کے تحت ان سے مدد لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔جاوید احمد غامدی جیسے بعض لوگ ہمارے اس جہاد پر یوں اعتراض کرتے کہ مسلح جہاد ریاست کے بغیر جائز نہیں تو ہمیں جواب ملتا کہ جہاد کے لئے ریاست کا اعلان ضروری نہیں۔کبھی کبھار والدین کے حقوق کا معاملہ ہمارے ذہنوں پر غالب آجاتا اور ہم سوچتے کہ والدین کی مرضی کے بغیر کیا ہمارا جہاد پر جانا درست ہے تو ہمیں جواب ملتا کہ فرض عین جہاد کے لئے والدین کی اجازت ضروری نہیں۔اس سبق کو پڑھانے میں جماعت اسلامی کے قائدین سر فہرست ضرور تھے لیکن تنہا ہر گزنہیں تھے۔اس سبق کو پڑھانے کا آغاز صدر ریگن اور جنرل ضیاء الحق نے کیا تھا لیکن پھر دامے درمے سخنے سوائے ولی خان جیسے چند لوگوں کے سب اس میں شریک ہوئے۔یہ سبق ہمیں عرب حکمران بھی پڑھارہے تھے۔جنرل حمید گل بھی اس کا درس دے رہے تھے۔مولانا فضل الرحمان،مولانا سمیع الحق،پروفیسر ساجد میر اور دیگر مذہبی رہنما بھی اس راستے کو راہ نجات قرار دے رہے تھے۔منبر و محراب سے بھی اس کے حق میں تقاریر ہورہی تھیں اور ہمارے میڈیا نے بھی اس سبق کو عام کرنے کے لئے زورلگا رکھا تھا۔ہم جیسوں کو جہاد کا یہ سبق پڑھانے کا ریاستی اداروں اور دینی سیاسی جماعتوں کا یہ مشن نائن الیون ٢٠٠١ء تک پورے زوروشور کے ساتھ جاری رہا لیکن نائن الیون کے بعد ہمارے جرنیلوں اور مذہبی رہنمائوں کو اپنی روش تبدیل کرنی پڑی (اس حوالے سے بھی دوغلی پالیسی جاری رہی لیکن بہر حال بظاہر تبدیل ہوئی)ہر کوئی اپنے اپنے دھندے میں لگ گیا لیکن وہ سادہ لوح قبائلی اور سادہ لوح پختون مسلمان جنہیں یہ سبق مسلسل تیس سال پڑھایا گیا تھا،کس طرح جرنیلوں اور مذہبی سیاسی رہنماوں کی طرح یو ٹرن لے سکتے تھے چنانچہ وہ پورے خلوص کے ساتھ اسی راستے سے چمٹے رہے جو دینی رہنماؤں اور ریاستی اداروں نے انہیں رکھا تھا ۔

سوات اور قبائلی علاقوں کے طالبان نہایت سیدھے سادے مسلمان ہیں۔وہ سفارتی اور اقتصادی نزاکتوں کو سمجھتے ہیں اور نہ عالمی برادری کا حصہ ہونے کی مجبوریوں سے واقف ہیں ۔ان کی اپروچ نہایت سادہ ہے میری ان سے بات چیت ہوتی رہتی ہے اور وہ نہایت سادہ زبان میں اپنی بات بیان کرتے او ر سمجھاتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ اگر سوویت یونین کے خلاف جہاد فرض تھا تو افغانستان پر قابض ہونے والے امریکہ کے خلاف فرض کیوں نہیں؟آپ جب ان سے سوال کرتے ہیںکہ زرداری صاحب اور حیدر ہوتی صاحب وغیرہ تو مسلمان ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ڈاکٹر نجیب مسلمان نہیں تھا۔جب روس کا ساتھی ہونے کے ناطے ان کے خلاف جہاد فرض تھا تو امریکہ کے ساتھی ہونے کے ناطے پاکستانی حکمرانوں کے خلاف جہاد فرض کیوں نہیں؟آ پ سوال اٹھائیں کہ پاکستانی فوج اور پولیس کے لوگ بچوں کے لئے رزق کما رہے ہیں تو وہ جواب دیتے ہیں کہ کیا افغانستان اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمان فوجی اور پولیس والے اپنے بچوں کے لئے رزق نہیں کماتے؟آپ کہیں کہ آپ کے جہاد میں تو عام شہری مر رہے ہیں تو وہ جواب دیتے ہیں کہ کیا افغانستان اور کشمیر میں عام شہری نہیں مرتے؟آپ کہیں کہ اسلام کے لئے جمہوری اور آئینی طریقوں کو استعمال کرنا چاہیے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ پھر بڑی دینی جماعتیں نیوائرنائٹ کی محفلوں کو ڈنڈہ برداروں کے ذریعے کیوں منع کرتی ہیں۔آپ کہیں کہ خود کش حملے ناجائز ہیں تو وہ جواب دیتے ہیں کہ جو کام فلسطین اور کشمیر میں جائز ہے وہ یہاں ناجائز کیسے ہو گیا۔آپ کہیں کہ لڑکیوں کے سکولوں کو جبراً بند کرنا،لوگوں کے سر کاٹنا اور جبرا لوگوں سے داڑھیاں رکھوانا کیادرست ہے تو وہ اسی حدیث نبویۖ(ترجمہ:جب آپ کوئی منکر کام دیکھو تو اسے ہاتھ سے رو کو۔ہاتھ کا بس نہ چلے تو زبان سے روکو اور اگر زبان کا بس بھی نہ چلے تو دل میں اسے برا جانو لیکن یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے) کا حوالہ دیتے ہیں جس کی رو سے ہم مشاعرے میں اجمل خٹک کی شرکت اور موسیقی کے محافل کو خلاف شریعت سمجھتے تھے اور اب وہ لڑکیوں کی تعلیم کو خلاف شریعت سمجھتے ہیں۔علیٰ ہذہ القیاس ۔اب المیہ یہ ہے کہ ہمارے جرنیل ،دینی جماعتوں کے قائدین صحافی اور دانشور اپنی غلطیوں کا اعتراف کر رہے ہیں اور نہ کھلم کھلا طالبان کو سپورٹ کررہے ہیں۔وہ طالبان کے''جہاد''کے نتیجے کو تو اگر مگر کے ساتھ غلط قرار دے دیتے ہیں لیکن اس بات کا برملا اعتراف کررہے ہیں کہ ہمارافلسفہ جہاد اسلامی تعلیمات کے منافی تھا اور کھل کر طالبان کا ساتھ دے رہے ہیں۔طالبان وہی کچھ کر رہے ہیں جو ہماری دینی سیاسی اور جہادی تنظیموں نے گذشتہ چالیس سال کیا۔اب اگر طالبان اس جہاد کا علم بلند کر چکے ہیں تو دینی رہنماوں کو چاہیے کہ وہ ہمیں بھی ان کا ساتھ دینے کی تلقین کریں اور اگر ان کا فلسفہ جہاد غلط (جو ماضی میں ہمارے جرنیلوں اور دینی رہنماؤں کا بھی فلسفہ رہا) ہے تو پھر انہیں کھل کر اس کی غلطی واضح کردینی چاہیے۔اس حوالے سے ہمارے ان رہنمائوں کی یہ مجرمانہ خاموشی یا غیر جانبداری کیا منافقت نہیں؟۔یہ حضرات تو ہمیں کہا کرتے تھے کہ حق وباطل کے معرکے میں غیر جانبداری ظلم ہے تو پھر وہ اب غیر جانبدار کیوں ہیں؟وہ قوم کو بتاتے کیوں نہیں کہ کون حق پر ہے اور کون باطل کا ساتھی ہے۔

(بشکریہ روزنامہ مشرق پشاور)