working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

اونٹ ریس اور پاکستانی بچے
اونٹ کو صحرائی جہاز کہا جاتا ہے۔صحرا،خشک زمین کے ایک تہائی حصے پر مشتمل ہے۔زمین کے اتنے بڑے حصے میں پانی کی کمیابی کی وجہ سے آبادعات کم ہے مگر جو ہے اس کا مخصوص طرز رہن سہن ہے اس حوالے سے صحرائوںکے باسیوں کے مشاغل بھی جدا گانہ ہیں جن میں اونٹ ریس کو ایک مشغلہ یا مقبول کھیل کی حیثیت حاصل رہی ہے۔یہ کھیل آسڑیلیا سے لے کر افریقہ تک اور ایشیاء سے امریکہ تک پہلے براعظموں کے کئی ممالک میں کھیلا جاتا رہا ہے۔تاہم وقت گزرنے کے سااتھ ساتھ اس کھیل کی جدید تہذیب وتمدن کے ساتھ مطابقت پیدا کرئی گئی جدید ممالک میں اونٹ ریس کے باقاعدہ قواعدوضوابطیں مگر عرب باشوں میں آج بھی اونٹ ریس انہی طور طریقوں کے مطابق ہوتی ہے۔جو زمانہ قدیم سے چلیآرہے ہیں۔جن میں اونٹ کی کرہان کے پیچھے کم عمر بچوں کو بہتایا جاتا ہے۔جن کا وزن ہی کم ہوتا ہے اور جب اونٹ اور بھی تیز بھاگتا ہے یہ کھیل آج ہی متحدہ عرب امارات عمان اور قطر کے شیخوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ایک قحاط انداز کے مطابق پاکستان ،بنگلہ دیش،بھارت ،سری لنکا،ایتھوپیا کے ٤٠ ہزار بچوں کو مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے ممالک میں اونٹ ریس کے اس گنائونے مشغلے میں جونک دیا گیا ہے۔ان بچوں کو ان کے آبائی خرید کر لایا گیا ہے یا پھر اغواء کاروں نے انہیں سمگل کر دیا ۔ان بچوں کے ساتھ اونٹوں کے الطبیل میں نہایت بھانک سلوک روا رکھا جاتا ہے۔جو دور غلامی کی یاد دلاتا ہے مثلاً بہت کم کھانا وزن کم رکھنے کی مخددادو پائے جمانی تشددار اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام جب عالمی سطح پر اس مکردہ دندے کی بازگشت سنائی دی تو متحدہ عرب امارات کے اسر شیخ یحران بن زید الحینان نے ٢٩ جولائی ٢٠٠٢ء کو اونٹ ریس میں (١٥)سال سے کم عمر بچوں کا استعمال ہوے قرار دے دیا۔امریکہ کہ نئے قانون کے تحت ٤٥ کلو سے کم وزن کے بچوں کا اونٹ ریس میں استعمال بھی ممنوع رہے گا۔اور اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو باری جرمانے اور سزائیں دی جائیں گی۔اس قانون کے بننے کے بعد اگرچہ متحدد ممالک کے بچوں کو اونٹوں کے اصطبلوں سے بازیاں قرایا گیا مگر پھر بھی یہ نہیں کیا جا سکتا کہ عرب ریاستوں میں یہ مکردہ مشغلہ بند ہو گیا ہے بلکہ آج بھی ہی ریس اپنے روایتی طریقوں سے جاری ہے۔اور بعض رہ تات اسماکو ٹیلی ویثزن پر بھی دکھایا جاتا ہے۔
پاکستان کے کئی علاقوں بالحضوص جنوبی پنجاب اور وسطی سندھ سے اس مقصد کے لئے بچوں کو عرب ریاستون میں سمگل کیا جاتا ہے۔اس حوالے سے معروف ادیب،شاعر ناول نگار تجزیہ نگار زاید حسین نے حفص کا ینچر کیا ہے جس کو ہم قارین کے مطالعے کے لئے شائع کررہے ہیں(مدیر)
زاہد حسن

کہانی کا آغاز ہوتا ہے
یہ تین اکتوبر 2006ء کی صبح تھی جب میں اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مظفر گڑھ کے قصبے حمزے والی کے ایک گورنمنٹ ہائی سکول میں موجود تھا۔ جہاں اونٹ دوڑ میں حصہ لینے والے بچوں سے گفتگو جاری تھی اس دوران ایک سات سالہ بچے مزمل سے گفتگو ہوئی گفتگو کے دوران ان بچوں میں بعض اہم نوعیت کی نفسیاتی پیچیدگیوں کے انکشافات ہوئے۔ "جب اس کے اپنے قصبے حمزے والی سے عرب ریاستوں میں روانگی وہاں اونٹوں کے اصطبل میں داخلے کم خوراک اور دوڑ کے بارے میں گفتگو مکمل کر لی اور ہم نے اس سے پوچھا کہ یورپین یونین کی طرف سے بعض عملی نوعیت کے اقدامات اٹھائے جانے اور بین الاقوامی سطح پر اسے بچوں کا ذہنی جسمانی اور نفسیاتی استحصال قرار دیے جانے کے بعد وہ وہاں دوبارہ تو نہیں جانا چاہے گا۔؟

مزمل نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور کہا "آپ سے کس نے کہا کہ اب وہاں اونٹ ریس نہیں ہوتی وہاں اب بھی اونٹ ریس ہوتی ہے اور یہ ریس ٹی وی پر بھی دکھائی جاتی ہے۔ میں روز دیکھتا ہوں۔ بچوں کو اونٹ دوڑاتے ہوئے۔"!

میں نے وہاں موجود دیگر بچوں سے اس بارے میں پوچھا ۔ جو اس انٹرویو کے باعث خوف سے اور چھٹی کا وقت نکل جانے اور بھوک کے سبب جسمانی طور پر عجیب طرح سے پھڑ پھڑا رہے تھے۔ سب نے معمولی طور پر نفی میں سر ہلایا۔!

آتی سردیوں کے دن تھے اور ہمارا قیام چونکہ قریب ہی مظفر گڑھ شہر میں تھا۔ سو میں چاہتا تھا کہ مزمل کے اب تک ٹی وی پر ریس دیکھے جانے والے فقرے کے بارے میں مزید لوگوں سے پُوچھ گچھ اور تحقیق کی ضرورت ہے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے جب اس کے بارے میں اظہار کیا تو وہ سب بھی اس سلسلے میں سنجیدہ نظر آئے۔ سو ہم نے اپنی تحقیق کا آغاز کیا اور بالخصوص ان گھروں کے بچوں اور والدین سے بات کی جن کے بچے اونٹ ریس میں حصہ لے چکے تھے اور جن میں سے اکثر کے گھروں میں ٹی وی سیٹ بھی موجود تھے۔ سب کا جواب انکار میں تھا۔ کئی ایک کا کہنا یہ تھا کہ مزمل چونکہ ریس کے دوران ایک دوبار گر گیا تھا اور اس کے سر پر چوٹیں بھی آئی تھیں سو اس کا اس طرح کی باتیں کرنا معمول کا عمل تھا۔ میرے نزدیک یہ ایک غیر معمولی عمل تھا۔ اور اس کے پیچھے چھپی کہانی کا کھوج لگانا ایک اہم مقصد کی حیثیت اختیار کر گیا۔ اگرچہ بچوں سے انٹرویو کے دوران بار ہا ان عوامل کا پتہ لگ چکا تھا کہ ریس میں بچوں کے گرنے اعضا ٹوٹنے بھاگتے وقت اونٹوں کے نیچے آکر کُچل جانے اور بعض اوقات موت کے واقع ہو جانے کا عمل بھی اونٹ ریس کرانے والوں کے نزدیک تفریح کے ایک پُر لذت کھیل ہی کی حیثیت رکھتا تھا۔۔۔۔ تاہم مزمل کا ٹی۔ وی۔ پر اونٹ ریس دیکھنا سحر انگیزی سے آگے کا کوئی مرحلہ تھا۔ اور یہ اسی نوعیت کے تشّدد کے باعث معرض وجود میں آیا تھا اور جسے برین واشنگ کا نام دیا گیا ہے۔ بسا اوقات یہ سارا عمل اتنا پیچیدہ اور گھمبیر ہو جاتا ہے کہ حقیقت اور کہانی میں تفریق کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہو جاتا ہے۔ کچھ ماہرینِ نفسیات کے نزدیک یہ سارا کچھ خیالات کی از سر نو تشکیل اور اس عمل کو بار بار دہرانے کا نام ہے جو آپ کے ٹشوز اور ذہنی رگوں میں سرایت کر جاتا ہے۔ خیالات کا یہ موجزن دریا اپنے نقوش بار بار کے دہرائے جانے کے عمل Repitition سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ متاثرہ انسان اپنے آپ کو اس تشدد کا اس قدر عادی بنا لیتا ہے کہ جملہ حوادث اور عارضے اس کے ذہن پر نقش ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یہ اس کے لاشعور کا حصّہ بن جاتے ہیں۔ اور متاثرہ انسان ہر وقت ناپسندیدہ اور مشغلے کے طور پر برتے جانے والے افراد قرار دیے جانے کے خطرے سے ہمہ وقت دو چار رہتے ہیں۔

صورتِ حال کا جائزہ:
اس پورے علاقے سے جس میں حمزے والی دنگہ مسکین پُور کے دیہات شامل تھے۔ صرف مزمل ہی نہیں پچھتر کے قریب ایسے بچے زیر مطالعہ آئے۔ چھ سالہ راہول چودہ سالہ قیوم خان آٹھ سالہ شہران چھ سالہ غلام رسول آٹھ سالہ عمران پندرہ سالہ قدیر احمد آٹھ سالہ مہران احمد پندرہ سالہ خضر عباس دس سالہ اسد عابد چھ سالہ محمد آصف اور ان کے دیگر لاتعداد ساتھی ایسے تھے جو ملنے پر گفتگو کرنے پر اور اپنے اونٹ ریس کے زمانے سے جڑی تلخ اور ترش یادوں کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے نظریں نیچی رکھتے اور مسلسل اس خوف سے دوچار رہتے کہ کہیں انہیں ان اصطبل میں دوبارہ سے تو نہیں بھیج دیا جائے گا۔ جہاں موت اور خون کا کھیل ہر وقت جاری رہتا ہے۔ یہ خطرہ اس لیے بھی ان کے سروں پر گدھوں کی طرح سے منڈلاتا رہتا تھا کہ ان بچوں میں سے کئی ایک بچے تو وہاں دوسری بار بھی ہو کر آچکے تھے۔ اور وہ اس بارے میں بالکل نہیں جانتے تھے کہ کب انہیں دوبارہ وہاں بھیج دیا جائے گا۔!!!

پندرہ سالہ باقر حسین جس نے اپنی زندگی کے کتنے ہی زرخیز برس اونٹ ریس اونٹوں کے اصطبل میں صفائی کرتے اور نئے آنے والے بچوں کو کیمل جوکی سکھاتے گزار دیے تھے۔ اُس کی آنکھوں میں ان برسوں کی تھکاوٹ کے آثار تو نمایاں تھے ہی لیکن اب وہ چاہتا تھا کہ وہ تعلیم حاصل کرے اور کسی بڑے انتظامی عہدے پر رہ کر وہ اپنے علاقے اور وطن کے بچوں کو اس اونٹ ریس میں جانے سے مکمل طور پر روک سکے۔ یہ بڑی عجیب اور معصوم خواہش تھی لیکن کتنی اچھی خواہش تھی۔

چھ سالہ واجد زوار کا بھی عجیب قصّہ تھا۔ "اخوانیج"دوبئی میں پیدا ہونے والے اس بچے کا مسئلہ بھی وہی تھا جو دیگر بہت سے کم سن بچوں کو مسئلہ تھا۔ خوف اس کی آنکھوں سے مترشح تھا اور وہ اپنے بارے میں کچھ بھی تو نہیں بتانا چاہتا تھا۔ اُن کے ماضی کے کونوں کھدروں میں چھپا یہ خوف ان کے ذہنوں کا حصّہ بن چکا تھا… واجد یہ چاہتا تھا کہ وہ یہاں رہ کر تعلیم حاصل کرے اور اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلے شرارتیں کرے لیکن وہ اس کے بارے میں ہر گز پُر یقین نہیں تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کب اسے دوبارہ وہاں بھیج دیا جائے گا۔

قیصر عباس اپنے بارے میں کچھ بھی بتانے سے انکاری تھا۔ اس کے اونٹ ریس کے واقعات اس کی ماں اور اس کے بھائی اور کچھ اس کی دادی نے بتائے۔ اگرچہ وہ بتانا چاہتا تھا کہ کس طرح انہیں ریس کے دوران بھوکا پیاسا رکھا جاتا کھانے کے لیے کم دیا جاتا اور کھانے کے بعد ایسی دوائیاں استعمال کروائی جاتیں جن کے استعمال سے انہیں فوراً قے ہو جاتی اور یوں ان کا وزن ایک خاص حد سے زیادہ نہ بڑھتا۔ اس حد تک وزن جو اونٹ ریس میں شامل ہونے والے بچوں کے لیے آئیڈیل تھا۔ لیکن بات صرف وزن کے نہ بڑھنے تک ہی محدود ہوتی تو بھی کوئی بات نہ تھی۔ اس کے اثرات تو ان کی ذہنی اور نفسیاتی صحت پر بھی گہرے پڑتے۔ جس کی ایک مثال ہم مزمل کے کیس کی صورت میں ملاحظہ کر چکے تھے۔ یہ بچے ذہنی دبائو اور نفسیاتی تنائو کا شکار تھے۔ اور ایک مکمل اور بھرپور انسان کی صورت میں نشو و نما پانے کے لیے انہیں ماہرینِ نفسیات بہترین معا لجین سرجن اور اچھے اساتذہ کے تعاون کی ضرورت تھی۔ جو اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک انہیں میسر نہ آئے تھے۔ بارہ سالہ ماجد نے اپنی زندگی کے ابتدائی عمر کے نو برس عرب شیوخ کے غیر انسانی شغل کی نذر کر دیے۔ یہ دنیا جس کے انسانی حقوق کے لیے چارٹرڈ ہیں کنونشن ہیں۔ جہاں ماجد کے ان نو برسوں کا نہ صرف اندراج موجود نہیں بلکہ اس کا تدارک کرنے کے لیے کوئی حل بھی نہیں۔ سات سالہ حماد رضا سے بھی ہماری گفتگو خوشی اور نہ خوشی کے بیچ بیچ کی کیفیت میں ہوئی وہ خوش تھا کہ بالآخر قانون بن گیا اور ہم واپس آگئے… تاہم حماد رضا یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ قانون جو عمل میں آیا ہے تو محض اس کی حدود یہاں تک ہی محدود نہیں کہ بچوں کو واپس ان کے گھروں تک پہنچا دیا جائے۔ بلکہ اس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ان بچوں کو پھر سے زندگی کے دھارے میں شامل کرنے کے لیے قائم شدہ فنڈ سے ان کی بحالی کے لیے ممکنہ اقدامات کو عمل میں لایا جائے۔ پاکستان میں اس مقصد کے لیے ایک بہت بڑا ادارہ "چائیلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر بیورو"کا قیام عمل میں لایا گیا۔

تصویر کا دوسرا رُخ:
سال 2006ء اور سال 2007ء تک جب تک میں ان بچوں کے حوالے سے کام کر رہا تھا۔ اور ملتان مظفر گڑھ رحیم یار خان اور صادق آباد کے دُور دراز دیہاتوں اور بستیوں میں ان بچوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان سے گفتگو کر رہا تھا اور ایک ریسرچ سروے ترتیب دے رہا تھا۔ ان بچوں کے لیے کام کرنے والی بعض مقامی این جی اوز کے علاوہ یہ دفتر بھی تھا اور اس کے بعض افسران ہی تھے۔ جو میرے راستے میں روڑے اٹکا رہے تھے اور مجھے یہ کام کرنے سے باز رکھ رہے تھے اور اپنے متعلقہ لوگوں کو فیلڈ میں مجھ سے پہلے بھیج کر ان بچوں اور ان کے والدین کو انٹرویو دینے سے منع کر رہے تھے۔ جس کا ظاہر ہے نقصان ہوا۔ اور کام جس طرح بھرپور طریقے سے ہونا چاہئیے تھا۔ نہ ہو سکا اور پھر یہ دور دراز کے علاقے ایسے تھے کہ کام کرنے والے کے ساتھ کچھ بھی کیا جا سکتا تھا۔ بالخصوص ان لوگوں کی طرف سے کہ جو چائیلڈ تریفکنگ کے اس گھنائونے کاروبار میں شامل رہے تھے۔ مجھے کہا گیا "یہاں سے غائب ہو جائو ورنہ غائب کر دیے جائو گے۔ اور یہ این جی اوز اپنے کاغذی منصوبوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں جب کہ اصل صورتِ حال یہ ہے جس کا اظہار حال ہی میں شہر سلطان تحصیل جتوئی ضلع مظفر گڑھ سے ملنے والے ایک خط میں بشیر احمد ولد دوست محمد نے کچھ ان لفظوں میں کیا ہے۔

ََدرخواست بمراد منظور فرمائے جانے وظیفہ مبلع 600/- سو روپے ماہانہ اور سائیکل جو کہ ملک دبئی سے بچے اونٹ ریس والے بچے کے لیے عطیہ دیا جاتا ہے۔ مگر سائل کے بچوں کو بارہا کوششوں کے باوجود نہ ملا۔

بچوں کے نام یہ ہیں ندیم عباس نعیم عباس ولد بشیر احمد قوم قصائی سکنہ شہر سلطان تحصیل جتوئی ضلع مظفر گڑھ بچوں کی عمریں بالترتیب (10) اور (9) برس ہیں جو کہ دوبئی سے واپس پاکستان 2005ء میں آئے۔ جو کہ اونٹ ریس کرتے رہے۔ جو کہ وظیفہ چائیلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر بیورو پنجاب کی طرف سے جاری ہوا اسی روز سے سائل ملتان اور لاہور تک کے چکّر لگا لگا کر تنگ آچکا ہے مگر آج تک شنوائی نہ ہوئی ہے۔ اس لیے جناب سے استدعا ہے کہ سائل کے بچوں کا وظیفہ اور سائیکل یک مُشت عنایت کیے جاویں۔!!

یہ ایک کیس نہیں ہے اور پھر یہاں جس اعلیٰ پولیس افسر کو مدعو کیا گیا تھا ان کے بارے میں چونکہ مجھے ماضی قریب ہی میں ایک تجربہ حاصل ہوا تھا کہ ایک قریبی عزیز پر رشوت لے کر غلط کیس بنانے والے اے ایس آئی کو مسلسل یہ افسر صاحب تحفظ دے رہے تھے۔ یہاں ان کا خیال تھا کہ ہم ملک کے دیگر اداروں کے ساتھ شانہ بشانہ بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم پر قابو پانے میں مصروفِ عمل ہیں؟

یقیناً صورتِ حال ایسی ہی ہو گی۔ لیکن اپنی بات محض کیمل جوکی تک محدود رکھتے ہوئے ماضی قریب میں شمالی پنجاب کے اُن علاقوں کے بچوں کے ساتھ کیے گئے سروے کو آپ اس چارٹ کی مدد سے بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ یہ تجزیہ مجموعی طور پر خاندان کے حوالے سے ہے۔
3
جہاں تک بچوں کی ذہنی جسمانی اور نفسیاتی صحت کا تعلق ہے۔ تو اس کی بہتری کے لیے بھی کوئی مصدقہ تحقیقی شواہد دستیاب نہیں ہو سکے کہ یہ ادارے کیا ان علاقوں میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے سلسلے میں متعلقہ افراد تک رسائی اور ان کے لیے بہتر سہولیات مہیا کر کے ان بچوں کی بحالی کے لیے انہیں وہاں تک لے جانے کے بارے میں ترغیب دے سکے ہیں۔ انہیں آمادہ کر سکے ہیں کہ ابھی تک ان بچوں کی صورتِ حال کچھ ایسی ہی ہے۔
4

موجودہ صورتِ حال
پس منظر
پاکستان میں بچوں کے اغواء ان سے جسمانی مشقت اور جنسی بد فعلی جیسے جرائم کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ سرحدی علاقوں سے پاکستان میں آنے والے افغان یہاں سے ایک عرصے تک بچوں کو اغوا کر کے لے جاتے رہے ہیں۔ اور وہاں قائم خرکار کیمپوں میں ان کے رکھنے ان سے پتھر توڑنے جیسی سخت مشقت کے عوض انہیں بہت کم کھانا دینے کے قصے عام ہیں۔ اور یہ لوگ بہت عرصہ تک اس غیر انسانی سلوک کا شکار رہنے کے بعد جب فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کی زندگی اور اجیرن ہو جاتی ہے۔ بیشتر حالات میں انہیں اپنے والدین کا پتہ نہیں ہوتا۔ انہیں تعلیم نہیں دی جاتی اور وہ کئی ایک جسمانی اور نفسیاتی عوارض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وطنِ عزیز میں ایسے لوگوں کے لیے مناسب سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث یہ لوگ اپنے آپ کو معاشرے کا ناسور سمجھتے ہیں۔تاہم اونٹ ریس میں استعمال کیے جانے والے بچوں کی تاریخ اتنی پرانی نہیں۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ اتنی نئی بھی نہیں تو بھی کچھ غلط نہیں ہو گا۔

صورتِ حال کا عمومی تجزیہ:۔
عرب ممالک اور عرب ریاستوں میں تیل کے ذخائر دریافت ہونے اور ایک دم پیسے کی یلغار نے جہاں دنیا بھر کے غریب ملکوں اور تیسری دنیا کے مزدور طبقوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کر والی وہاں پر ہی یہاں کے شیوخ کے دلوں اور دماغوں میں عیش و عشرت اور شکار و شغل کے عجیب و غریب شوق سر اُبھارنے لگے۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ جنگلی حیاتیات کے حوالے سے بین الالقوامی قوانین موجود ہیں۔ یہاں سے اُٹھ اُٹھ کر یہ لوگ تیسری دنیا کے ممالک کے جنگلوں اور صحرائوں میں شکار کھیلنے کے لیے جانے لگے۔ پاکستان میں سندھ اور جنوبی پنجاب کے علاقے ان کے لُطف اور دلچسپی کا مرکز بنے۔ اور یہیں سے وہ غیر انسانی صورتِ حال جنم لیتی ہے۔ جو پہلے عورتوں اور پھر بحوں کی اسمگلنگ کا باعث بنی۔

تصویر کا حقیقی رُخ:
اسی دوران یہاں اونٹ ریس کے لیے بچوں کے استعمال کا آغاز ہوا اور اس میں اونٹوں پر باندھے جانے والے اور اونٹ ریس میں حصہ لینے والے بچوں کی ضرورت بڑھی تو عرب امارات میں مزدوری اور روزگار کی غرض سے گئے لوگوں اور اسمگل کیے جانے والے ممالک میں موجود گروہوں نے اس منافع بخش کاروبار میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کیا۔

بچوں کی سمگلنگ میں شامل ممالک:
اس غیر انسانی اسگلنگ میں جن ممالک کے بچے زیادہ تر وہاں پہنچے۔ ان میں سوڈان موریطانیہ کینیا انڈیا پاکستان اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔ بچوں کی تعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یونیسف اور متحدہ عرب امارات کے درمیان اونٹ ریس پر مستقل پابندی کے معاہدے کے بعد حکومت پاکستان کے علم میں یہ بات آئی کہ وہاں سمگل کیے جانے والے صرف پاکستانی بچوں کی تعداد تین ہزار ہے۔ جو بعد میں دو ہزار اور پھر ایک ہزار تک پہنچ گئی۔

موجودہ صورتِ حال:
لاہور میں قائم ادارہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو پنجاب کے ڈیٹا کے مطابق ان کے پاس مختلف اوقات میں 330بچے آئے۔ جن میں تین سو اٹھارہ بچوں کو رحیم یار خان میں موجود ان کے ذیلی دفتر کی مدد سے والدین کے حوالے کیا جا چکا ہے۔

البتہ یہ بات تشویشناک کہی جا سکتی ہے کہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈو ویلفئیئر بیورو نے اپنے ایک ڈیٹا میں ان بچوں کی تعداد اگر تین سو اٹھارہ بتائی ہے جو کہ رحیم یار خان کے ضلع میں موجود ہیں۔ تو دوسرے ڈیٹا میں 227بتائی ہے اسی طرح رحیم یار خان میں ہمارے سروے کے دوران جب رحیم یار خان میں قائم چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر بیورو کے دفتر سے ان بچوں کی تعداد موصول ہوئی تو وہ 184تھی۔ یوں بچوں کی تعداد میں آئے دن کی یہ تبدیلی اور کمی جہاں اس تشویش میں اضافے کا باعث بنتی ہے کہ حکومتِ پنجاب نے ان بچوں کی بحالی کے سلسلے میں جو ذمہ داری اپنے سر لی ہے۔ وہ اسے کماحقہ نباہنے سے معذور ہے۔ بالخصوص اس وقت کہ جب یہ مسئلہ عالمی سطح پر حکومتوں انسانی حقوق کے اداروں اور ذرائع ابلاغ کی دلچسپی کا مرکز بنا ہوا اس وقت ان بچوں کی بحالی کے سلسلے میں اس قدر غیر ذمہ داری کا یہ رویہ اپنے اندر بہت سے معانی رکھتا ہے۔

بچوں کی متنازعہ تعداد کا مسئلہ اپنی جگہ اہم ہے لیکن بچوں کی واپسی کا مسئلہ خاص طور پر اس صورتِ حال میں کہ قانون (مئی 2005ئ) کے عمل میں آنے کے بعد ان بچوں کے ساتھ واپس آنے والے ان کے والدین کی گرفتاریاں عمل میں آنے لگیں تو بچوں کے والدین نے نہ صرف اپنی شناخت کو چھپانا شروع کیا بلکہ وہاں سے بچوں کی واپسی کا عمل اس طرح شروع ہوا کہ وہ اکیلے یہاں آتے تھے۔ اور انہیں اپنی جگہوں کے بارے میں زیادہ علم نہ ہوتا تھا۔ اس سے بچوں کے غلط ہاتھوں میں پہنچنے کا احتمال تھا ۔

بیورو کے ایک افسر کے کہنے کے مطابق:
چائلڈ پروٹیکشن اور ویلفئیر بیورو میں "مشن کیمل جوکی"کے نام سے ایک مخصوص علاقہ (zone) قائم ہے انہوں نے بچوں کی حصولی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مزید بتایا کہ زیادہ تر بچے متحدہ عرب امارات حکومت کی جانب سے لاہور ائیر پورٹ پر بھجوائے جاتے ہیں۔جنہیں چائلڈ پروٹیکشن اور ویلفئیر بیورو ایف آئی اے او پی ایف اور یونیسف کے نمائندے اپنی موجودگی میں حاصل کرتے ہیں اور بچوں کا قانون 2004ء کے آرٹیکل 25کے تحت اسے فوری طور پر عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں یہ ہے کہ ادارہ میں ہی جج صاحب موجود ہوتے ہیں اور مکمل قانونی کارروائی کے بعد بچے کو ادارہ کی تحویل میں لے لیا جاتاہے۔ یہاں بچوں کو مکمل گھر کا ماحول مہیا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دو ماہر ڈاکٹر اور دو ماہر نفسیات ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ بچوں کی رہائش خوراک اور تعلیم کا مناسب بندوبست ہوتا ہے اور خواتین اساتذہ کی زیر نگرانی بچوں کو اس وقت تک تعلیم دی جاتی ہے۔ جب تک کہ قانون ہمیں اجازت دیتا ہے یا پھر بچے کے والدین انہیں نہیں مل جاتے ہیں۔

چائلڈ پروٹیکشن اور ویلفئیر بیورو جیسے اداروں کے اقدامات اپنی جگہ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر اس صورتِ حال کو مکمل طور پر ختم کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ یہ صورت حال جس میں نہ صرف بعض گروہ شامل ہیں بلکہ کچھ بچوں کے تو لواحقین اور ان کے والدین بھی شامل ہیں۔

مسائل جو ابھی موجود ہیں:
اس کے باوجود بحالی کے سلسلے میں کیا جانے والا کام اونٹ کے منّہ میں زیرے کے برابر ہے۔
بچوں میں موجود نفسیاتی خوف اور ان کے دماغی طور پر غیر متوازن ہونے جسمانی طور پر معذوریوں اور پاکستان واپس پہنچ کر ایڈجسٹ نہہو سکنے کے سبب ہمارے سامنے دنیا بھر اور پاکستان بھر کے انتظامی اور قانونی اداروں کے سامنے بے شمار سوالات کھڑے کرتا ہے۔ اس سروے کے دوران جو باتیں نمایاں ہو کر سامنے آئیں۔ وہ وہی تھیں جو عام طور پر ہماری زندگی کا اور ہمارے لائحہ عمل طرزِ حیات عوامل اور نتائج کے حصول کے سلسلے میں جزو لاینفک کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔ اگر ان عوامل کا جائزہ لیاجائے تو درج ذیل صورتِ حال سامنے آتی ہے۔
1۔ مسائل سے جڑے اداروں افراد اور امدادی سرگرمیوں میں روایتی سستی اور بے احتیاطی
2۔ والدین کا بچّوں سے زیادہ دولت کو عزیز رکھنا
3۔ بچوں کے تحفظ ان کے بنیادی حقوق سے انحراف کرتے ہوئے انہیں غیر انسانی اور غیر آئینی صورتِ حال کا شکار بنانا۔
4۔ ان گروہوں کی سرگرمیوں کا مناسب تدارک نہ کر سکنا جو اس گھنائونے کاروبار میں ملّوث ہیں۔

فوائد:
ہم اس سے نہ صرف یہ کہ دنیا کے معاشروں میں سے ایک "کیمل جوکی"جیسی بُری رسم سے جان چھڑوا سکیں گے۔ بلکہ انسانی حقوق کی جنگ میں ایک فاتح کردار کے طور پر سامنے آسکیں گے جس سے معاشرے میں موجود منفی ذہنیتیوں کی حامل قوتوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
ضروری یہ ہے کہ:
تاہم اس سب کے لیے ضروری یہ ہے کہ مستقبل میں اس کام کی مستقل نگرانی کی جائے۔ اور اس سلسلے میں کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کو اس جانب راغب کیا جائے کہ وہ۔ (i) کم از کم ایسے سو بچّوں کے لیے علیحدہ سکولوں کا قیام لازمی اور یقینی بنائیں۔ جس میں ماہرینِ نفسیات فزیکل انسٹرکٹر رکھنے کے ساتھ ساتھ بچّوں کو سائنسی اور ٹیکنیکل بنیادوں پر تعلیم دی جائے تاکہ وہ جب تعلیم مکمل کر کے نکلیں تو فوری طور پر معاشرے کے ایک فعال شہری کا کردار ادا کر سکیں جو خود اس کے اس کی فیملی اور معاشرے کے لیے سود مند ثابت ہو حکومتِ پنجاب کو فی بچہ 600روپے اور بائیسکل دینے کی بجائے۔ ان خطوط پر سوچنے عمل کرنے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
اس صورتِ حال میں:
اس صورتِ حال میں ہم یعنی ڈی سی ایچ ڈی اور اینٹی سلیوری انٹرنیشنل اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ فی الحال جن خطوط پر کام جاری ہے اس کو آہستہ روی اور مستقل مزاجی کے ساتھ آگے بڑھائے جانے کی ضرورت ہے ۔ اس سے ہی مثبت اور ثمر آور نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ورنہ نہ صرف یہ کہ اندیشہ ہے کہ بچوں کی بحالی کے لیے جاری یہ کام رُک جائے گا بلکہ بچوں کی کسی نہ کسی سطح پر سمگلنگ پھر سے شروع ہو جائے گی۔

حوالے:
اس رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں ان افراد اداروں اور اخبارات سے مدد لی گئی۔
1۔ گفتگو عبدالغفور ساکن حمزے والی
2۔ بشیر احمد ساکن شہر سلطان
3۔ مشتاق احمد شاہ ساکن کوٹ ادو
4۔ نوشین بخاری ساکن شہر سلطان
5۔ رحیم یار خان ملتان تحصیل جتوئی میں قائم چائیلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر بیورو کے متعلقہ افراد سے معلومات حاصل ہوئیں۔
6۔ گفتگو منظور حسین ولد اللہ وسایا ساکن حمزے والی
7۔ رحیم یار خان مظفر گڑھ ملتان لاہور صادق آباد اضلاع کے اداروں دیہاتوں اور بستیوں میںموجود "کیمل جوکی"بچوں سے انٹرویوز
8۔ Independent Appeal - A Race of Young Slaves
9۔ A Report by Justin Huggler (Daily The Independent 14, December 2006)
10۔ بشیر احمد (شہر سلطان) اور عبدالغفور ساکن حمزے والی کی جانب سے موصول ہونے والے خطوط۔