working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


 
اگلا شمارہ

جہالت: برطانوی پاکستانیوں کا سب سے بڑا مسئلہ - ڈاکٹر محمد علی
سجاد اظہر

برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کے مسائل اور ان کے مستقبل کے بارے میں اگر کوئی شخصیت فکر مند ہے تو اس کو ڈاکٹر محمد علی کہتے ہیں۔ پاکستانیوں کے معیار تعلیم کی پستی کی وجوہات ہوں یا ان کی کاروبای ضروریات، ان کے روزگار کے مسائل ہوں یا پھر دیگرکمیونٹی مسائل ،ڈاکٹر محمد علی ان کے حل میں پیش پیش ہیں ۔کیو ای ڈی Quest for economic development کی حیثیت برطانیہ میں وہی ہے جو برصغیر پاک وہند میں سرسید کی تحریک کی تھی ۔اس حوالے سے ڈاکٹرمحمد علی کو برطانوی پاکستانیوں کا سرسید کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ کیو ای ڈی ڈاکٹر محمد علی نے 1990میں قائم کیا آج تک انہوں نے جو کچھ اس پلیٹ فارم سے کیا اس کو اعلیٰ ترین سطح پر سراہا گیا ہے ۔ملکہ برطانیہ کی طرف سے او بی ایOfficer of british empireکا اعزاز ملا اورساتھ ہی بریڈ فورڈ یونیورسٹی نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے بھی نوازا ۔کیو ای ڈی کافوکس جنوبی ایشیائی باشندے ،ان کا کاروبار روزگار ،تعلیم ،صحت اوردیگر مسائل ہیں۔ ڈاکٹر محمد علی کا کہنا ہے کہ بریڈ فورڈ کے اڑھائی ہزار ایشیائی تاجروں کا سالانہ ٹرن اوور تقریبا ایک بلین پائونڈ ہے انہوں نے نو ہزار لوگوں کو روزگار فراہم کررکھا ہے لیکن ان میں سے 86فیصد وہ ہیں جنہوں نے کبھی ان سہولیات سے استفادہ نہیں کیا جو حکومتی ادارے بزنس مینوں کو فراہم کرتے ہیں تعلیم ،صحت اور خواتین کی ترقی کے اعدادوشمار بھی ایسے ہی ہیں۔ڈاکٹر محمد علی کہتے ہیں 1996سے لے کر 2011تک بریڈ فورڈ کی ایشیائی آبادی 70000سے 140000تک پہنچ جائے گی اس کی وجوہات میں ایک توشرح پیدائش میں اضافہ اوردوسرا پاکستان سے شادیوں کی صورت میں مسلسل ہجرت ہے۔ اگر لڑکا یہاں کا ہے تو اس کی شریک حیات پاکستان سے بیاہ کر لائی جائے گی اور اگر لڑکی یہاں کی ہے تو اس کا شوہر پاکستان سے آئے گا یہ ہماری روایت ہے کیونکہ ہم لوگ خاندان سے باہر شادیوں سے گریز کرتے ہیں کیو ای ڈی برطانیہ میں آکر بسنے والوں کویہاں کے طرز زندگی اورنظام کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے اورا س مقصد کے لئے ہم نے ایک 20منٹ کی ڈاکومنٹری بھی بنائی ہے جس میں ایسے افراد کے لئے مکمل رہنمائی موجود ہے ۔برطانوی پاکستانیوں کے مستقبل کی پیش بندی کرنے والا ڈاکٹر محمد علی انتھک اورپرجوش آدمی ہے ،ان کی حیات و خدمات کی کہانی بڑی دلآویز بھی ہے اور پرمسرت بھی، وہ 1956میں حضرو ضلع اٹک کے گائوں موسیٰ خورد میں پیدا ہوئے۔اسی اثنا ء میں ان کے والد برطانیہ آگئے ڈاکٹر محمد علی نے آٹھویں جماعت تک تعلیم اپنے گائوں میں ہی حاصل کی اور والد صاحب کے پاس 1969میں برطانیہ چلے آئے ۔اس وقت ان کی عمر تیرہ سال تھی یہاں آکر پہلے انگریزی سیکھی پھر جی سی ایس سی کیا اولیول اے لیول اور پھر یونیورسٹی میں کیمسٹری کی ڈگری حاصل کی۔ یہ 1979کی بات ہے گریجویشن کے بعدگلیکسو فارماسوٹیکل میں تین سال تک کام کیا اسی کمپنی کی طرف سے دو سال پاکستان میں تعینات رہے اور وہاں پر تربیت دیتے رہے 1982میں دوبارہ برطانیہ آکر ایم بی اے میں داخلہ لے لیا اورساتھ ساتھ کمیونٹی ریلیشن کونسل میں بھی کام کرتے رہے مانچسٹر کے نواح میں تعلیم کے شعبے میں بھی کام کیا۔شفیلڈ میں ڈائریکٹر آف ہائوسنگ کے کیمونٹی ریلشن ایڈوائز ہوگئے 1985کے بعد سماجی سطح پر کام کا آغاز کیا ۔ایک این جی او ''فل ایمپلائے '' میں کام کیا اس ادارے نے مجھے کہا کہ بریڈ فورڈ کے 80ہزار پاکستانیوں کے لئے ایک ایسے ادارے کی ضرورت ہے جو انہیں اپنا کاروبار چلانے میں ممد و معاون ہوسکے۔اس مقصد کے لئے پہلے بریڈ فورڈ پھر یارک شائر ریجن میں کام کیا اس دارے میں بطور ریجنل منیجر 1990تک کام کرتا رہا میرے پاس 45آدمی کام کرتے تھے ۔فنڈز حکومت فراہم کرتی تھی۔جب یہ ادارہ ختم ہوا تو اس کے فورا بعد ایک نئی این جی اوکیوای ڈی Quest for economic developmentقائم کی جو آج تک کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے ۔

ہمارا ادارہ یورپ کی سطح پر ایک متحرک این جی او کے طورپر جانا جاتا ہے اس میں 15آدمی کام کرتے ہیں ہمارا سالانہ بجٹ ایک ملین پائونڈ کے قریب ہے ۔ہم برطانیہ میں تقریباً 20لاکھ جنوبی ایشیائی باشندوں کی معاشی ،تعلیمی اورسماجی حالت بہتر بنانے کے منصوبے بناتے ہیں ۔برطانیہ میں تقریباً ایک لاکھ رجسٹرڈ چیرٹیز کام رہی ہیں۔ 2002میں یوکے ،کے چیرٹی ایوارڈ کی فائنل لسٹ میں کیو ای ڈی کا نام بھی آیا آخری تین چیرٹیز میں ہمارا نام بھی تھا جو کہ ہمارے لئے نہایت مسرت کی بات ہے۔جبکہ اس کے علاوہ دونوں چیرٹیز لندن میں ہیں اورخاصے بڑے پیمانے پر کام کررہی ہیں ۔مجھے سماجی خدمات کے عوض او بی ای (آفیسر آف برٹش ایمپائر) کا سرکاری ایوارڈ بھی 2001 میں مل چکا ہے بریڈفورڈیونیورسٹی کی جانب سے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگر ی بھی ملی میں پہلا پاکستانی تھا جس کو کسی برطانوی یونیورسٹی نے یہ اعزازدیا۔

ڈاکٹر محمد علی نے بتایا کہ اس وقت برطانیہ میں تقریبا 20لاکھ جنوبی ایشیائی آباد ہیں۔ جن میں 10لاکھ ہندوستانی اوربنگالی ہیں آٹھ لاکھ پاکستانیوں کی تعداد بھی اس میں شامل ہے یہ وہ لوگ ہیں جو 50اور 60کی دہائی میں یہاں آکر آباد ہوئے پاکستان سے آنے والے 70فیصد لوگوں کا تعلق میرپورآزادکشمیر سے ہے جبکہ 20فیصد کا تعلق اٹک اور 10فیصد کا تعلق پنجاب کے دیگر شہروں اورکراچی سے ہے ۔یہ لوگ مختلف طرح کے مسائل کا شکار ہیں جن میں غربت سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔یہاں ہر سال سرکاری سطح پر غربت کا اندازہ لگایا جاتا ہے برطانیہ کی فی کس آمدنی میں سے جس شخص کی آمدنی آدھی ہو اسے غریب کہا جاتا ہے اس لحاظ سے برطانیہ کی 30فیصد آبادی غربت کا شکار ہے ۔اگر اس آبادی کا جائزہ خطوں کے حوالے سے لیا جائے تو 40فیصد انڈینزغربت کا شکار ہیں جبکہ پاکستانیوں میں یہ شرح 60فیصد ہے جس کی وجوہات میں بیروزگاری سب سے زیادہ ہے ہماری کمیونٹی میں برطانیہ کی مجموعی شرح سے بھی تین گنا زیادہ بیروزگاری ہے ۔یہاں دوسرا مسئلہ ہمارے بچوں کے پست تعلیمی نتائج ہیں یہاں 16سال کی عمر میں جی سی ایس ای میں 50فیصد بچے پانچ مضمون پاس کرپاتے ہیں ان میں انڈینز کی تعداد60فیصد اورپاکستانیوں کی تعداد 30فیصد ہے ہمارے بچے دیگر کمیونٹیز کی نسبت خاصی کم پرفارمنس دے رہے ہیں اس کی وجوہات میں ایک تو یہ ہے کہ جو لوگ یہاں آکر آبادہوئے وہ خود پڑھے لکھے نہ تھے جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کی تعلیمی ضروریات کو اہمیت نہ دے سکے ۔میرے والد چونکہ سیلر تھے اس لئے انہوں نے مجھے زبردستی پڑھایا ہمارے زیادہ تر لوگ دیہات سے تعلق رکھتے ہیں اس کا بھی خاصا اثر تھا کہ وہ برطانیہ کے پڑھے لکھے ماحول سے نا مانوس ہی رہے۔ ہمارا تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری کمیونٹی کے زیادہ تر لوگ ملوں میں کام کرتے تھے جب ٹیکسٹائل اور سٹیل ملیں بند ہوگئیں یا پھر فارایسٹ میں شفٹ ہوگئیں تو اس کے بعد ہمارے لوگ بھی بے روزگار ہوگئے جو نئی ملازرمتیں پیدا ہوئی ان کے لئے تعلیم کی ضرورت تھی جبکہ ہماری مین پاور غیر تربیت یافتہ تھی۔ کچھ لوگ اپنے بزنس کی طرف راغب ہوئے اب ہمارے لوگوں نے ریسٹورنٹس اورگروسری شاپس بنائی ہوئی ہیں اس کے باوجود 95% کاروباری لوگوں کی گزراوقات مشکل سے ہورہی ہے ۔ہمارا چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ برطانیہ کی لوکل اتھارٹیز اور ہمارے لوگوں کے درمیان رابطہ موجود نہیں وہ ایک دوسرے کو سمجھ نہیں پارہے ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے پوری زندگی یہاں گزاری ہے مگر اس کے باوجود یا تو وہ انگریزوں سے بات نہیں کرسکتے یا پھر ان کا واسطہ ہی کم پڑتا ہے۔ پاکستانی کمیونٹی ہر لحاظ سے پست جارہی ہے اب ہماری تیسری نسل کو اچھی اچھی ملازمتیں مل رہی ہیں مگر یہ کم تر معیار کی ہیں اعلیٰ سطح کے عہدوں پر پاکستانیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ۔میرا واسطہ حکومتی سطح پڑتا ہے جہاں بہت کم پاکستانی ہیں ۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے رول ماڈلز کو اجاگر کریں تاکہ ہمارے بچے تعلیم کی طرف راغب ہوسکیں اس طرح صحت کے حوالے سے بھی ہماری کمیونٹی سب سے پیچھے ہے ہمارے لوگوں میں شوگر انگریزوں سے چھ گنا زیادہ ہے اسی طرح شادیوں کا مسئلہ بھی سنگین ہے اور طلاق کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے ۔

کیوای ڈی کے پلیٹ فارم سے ہم لوگوں کی معاشی حالت سدھارنے کے لئے کام کرتے ہیں اگر معیشت اچھی ہوجائے گی تو باقی چیزیں از خود بہتر ہوجائیں گی۔ تعلیم اورصحت کا تعلق اچھے روزگار سے ہے اگرلوگوں کی آمدن ٹھیک ہوگی تو وہ اپنی صحت کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کی طرف متوجہ ہوسکیں گے ہم چاہتے ہیں کہ لوگ سیاسی سطح پر بھی متحرک ہوں یارک شائر ریجن میں 100کے قریب ایشیائی ہیں جن کو ہم تربیت دے رہے ہیں تاکہ وہ ہیلتھ اتھارٹیز ،پولیس، سکولوں کی گورننگ باڈیز اورلوکل اتھارٹیز میں ان جگہوں تک رسائی حاصل کرسکیں جہاں پالیسیاں بنتی ہیں ان اداروں میں نمائندگی کرسکیں جہاں ہماری نمائندگی بہت کم ہے۔ اس کے علاوہ ہمارا دوسرا پراجیکٹ New Arrivel Support Centerہے ہم نے 20منٹ کی ایک ڈاکومنٹری بھی بنائی ہے اس میں برطانیہ آنے والے نئے آدمی کی مشکلات کے پس منظر اس کی رہنمائی فراہم کی گئی ہے اسی پراجیکٹ میں ہماری فنڈنگ ہوچکی ہے اور ہم ان شاء اللہ اس وڈیو کو اکتوبر میں اسلام آباد میں لانچ کریں گے تاکہ جو لوگ برطانیہ مستقل طورپر آرہے ہیں ان کو وہاں ہی معلومات دے دی جائیں تاکہ ان کو مناسب رہنمائی مل سکے۔

کیو ای ڈی نے حال ہی میں نیا پراجیکٹ مدرسہ چلڈرن لٹریسی کے حوالے سے شروع کیا ہے جس میں نسلی اقلیتوں کے تقریباً 2,250 بچے استفادہ کر رہے ہیں۔ اس پراجیکٹ کے تحت 145 پرائمری سکولوں اور 45 مدرسوں کے درمیان بہتر رابطے استوار کیے جا رہے ہیں تاکہ والدین، اساتذہ اور مدرسے کی انتظامیہ تینوں مل کر بچوں کی بہتر نگہداشت اور تعلیم و تربیت کر سکیں۔ درایں اثنا مدرسوں میں پڑھنے والے بچوں کو دیگر عقائد کو سمجھنے میں بھی آسانی ہو۔
ڈاکٹر محمد علی نے کیو ای ڈی کے دیگر پروگراموں کے حوالے سے بتایا کہ کیو ای ڈی نے بریڈفورڈ ضلع کے تقریباً 500 چھوٹے کمیونٹی گروپوں کو پچھلے چار سال میں 1.8 ملین پائونڈ دیے تاکہ وہ نچلی سطح پر تبدیلی پیدا کرنے کے لیے کام کر سکیں۔ اس طرح ایمپلائر ڈائیورسٹی پراجیکٹ کے تحت 250 بڑے کاروباری حضرات کو آگاہ کیا گیا کہ کس طرح وہ اپنے ملازمین میں دیگر اقلیتوں کو بہتر نمائندگی دے سکتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد علی نے بتایا کہ 7/7 کے بعد برطانیہ میں نسلی اقلیتوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی جانب توجہ بہت بڑھ گئی ہے۔ اور اب مرکزی حکومت اور مقامی حکام ہر دو کی کوشش ہے کہ نسلی اقلیتوں کو ترقی دی جائے اور انھیں زیادہ مواقع اور وسائل فراہم کیے جائیں جس کے تحت وہ یہاں کی زندگی ، سیاست اور معیشت میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں۔

کیو ای ڈی کا سالانہ بجٹ 10لاکھ پائونڈ ہے جس میں 70فیصد حصہ مرکزی حکومت کا ہے باقی تیس فیصد حصہ بڑی بڑی کمپنیاں دیتی ہیں جن میں برٹش ٹیلی کام،بریڈ فورڈ کونسل، یارک شائر واٹر اور مختلف فائونڈیشنوں کی طرف سے عطیہ بھی ملتا ہے ۔

ڈاکٹر محمد علی کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ۔بڑی بیٹی نازیہ جس کی عمر 18سال ہے وہ بریڈ فورڈ یونیورسٹی میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ڈگری حاصل کررہی ہے جبکہ چھوٹی فارمیسی کا کورس جبکہ بیٹا ناصر اور آصف سکول میں پڑھتے ہیں ۔