working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


 
اگلا شمارہ

''ظلم و بربریت دیکھ کر گھر لوٹ آیا''
[ایک افغان طالب کا خط]

سالِ رواں کے اگست کے مہینہ میں، میں بھی اپنے دو ساتھیوں سمیت جہاد کی غرض سے طالبان میں شامل ہوا۔ ہم قندھار میں مقرر شدہ مقام پر اکھٹے ہوئے۔ قندھار شہر میں ایک رات گزارنے کے بعد ہم ژری، پنجوائی، سنخرہ اور میوند کے علاقوں میں گئے۔ ژری اور سنخرہ میں ہم چار ساتھی اکھٹے تھے لیکن جب میں میوند آ رہا تھا تو صرف ایک ساتھی میرے ساتھ تھا۔ تقریباً ایک مہینہ میں میوند میں قیام پذیر تھا اور کبھی کبھی ''گرشک بازار'' بھی جایا کرتا تھا اور پخ چال، میر مندو، نہر سراج اور دیگر علاقوں میں ساتھیوں کے ساتھ رہا کرتا تھا۔

میوند میں ہم نے بیرونی افواج کے بہت سے کیمپوں پر حملے کئے۔ ان کی موٹریں جلائیں۔ لیکن زیادہ تر پولیس اور افغان فوج کے جوان مار ڈالے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے یہ بھی دیکھا کہ میرے ساتھی بے شمار بے گناہ افراد کو لاتے تھے ان میں سے کسی پر اجاسوسی، کسی پر حکومت سے تعاون کا الزام تھا تو کسی پر حکومت یا کسی محکمہ کے کارندے یا معلّم کا الزام ہوتا تھا۔ میں نے تقریباً دو مہینے قندھار میں گزارے اس دوران میں نے صرف خاص حملوں میں حصہ لیا۔ کسی کو جاسوسی کے الزام میں نہیں مارا اورنہ کسی ایسے بے گناہ کو قتل کیا جس نے انسان تو درکنار پرندے کو بھی مارا ہو۔

لیکن جب 25کو میرے ساتھیوں نے میوند کے مقام پر کئی بسوں کو پکڑ کر اس میں سوار 50 مسافروں کو میوند کے دور افتادہ پہاڑیوں پر پہنچایا تو میرے ساتھیوں نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ ہمیں رپورٹ ملی ہے کہ یہ سرکاری فوج کے اہلکار ہیں۔ جب میں اس مقام پر پہنچا جہاں پر بس کے مسافروں کو بٹھایا گیا تھا تو سہ پہر ڈھل چکی تھی مسافروں کو دیکھا تو یہ تمام نوجوان تھے اور خوف کے مارے اُن کے رنگ اُڑ چکے تھے۔ ہمارے کمانڈر نے انہیں بتایا کہ جب آپ کابل سے قندھار آ رہے تھے تو ہمیں رپورٹ مل چکی تھی ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ کس غرض سے آئے ہیں۔'' مسافروں میں موجود ایک مسافر جس نے گلے میں رومال باندھا تھا نے کمانڈر سے کہا کہ ہم کس کام کے لئے آئے ہیں۔ جس پر کمانڈر نے کہا کہ گلاب منگل کے بچو تم لوگ فوج میں برتی ہونے اور ہمارے خلاف لڑنے کے لئے آئے ہو۔'' اس نوجوان نے قسم کھا کر کہا کہ مجھے اپنی ایمان کی قسم! کہ ہم ایران میں مزدوری کی غرض سے ہرات جا رہے ہیں۔ ہمیں خدا کی قسم کہ ہم نے پوری عمر میں نہ گلاب منگل کو دیکھا ہے اور نہ اُن سے بات کی ہے۔ لیکن کمانڈر نے انہیں کہا کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا جانا چاہئے۔ پھر وہ طالبان کی جانب متوجہ ہو کر کہنے لگے ''بس ان کو رخصت کر دیتے ہیں۔'' میں سمجھا کہ اُن کو رہا کیا جا رہا ہے لیکن میرے ایک ساتھی نے مجھے کہا کہ کمانڈر کا مقصد انھیں دوسری دنیا کو رخصت کرنا ہے۔

مجھے بہت افسوس ہوا خاص کر وہ نوجوان ہر وقت میرے آنکھوں کے سامنے آ جاتا شام کو ان (گرفتار شدگان) کو چار چار اور پانچ پانچ کی ٹولیوں میں تقسیم کر کے گھروں میں بند کیا اور ان پر طالبان کا بھاری پہرہ بٹھادیا۔

عشاء کی نماز کے بعد تقریباً ٥٠ طالبان اُسی گاؤں میں جمع ہوئے تاکہ گرفتار لوگوں کے بارے میں کچھ فیصلہ کر سکیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ خدایا یہ مسافر تو قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ ہم مزدوری کے لئے ایران جا رہے ہیں تو کمانڈر کیونکر یہ کہہ رہا ہے کہ ہم انہیں مار ڈالیں گے پھر دل کو تسلی دیتا کہ شاید وہ انہیں چھوڑ دے گا۔ بعد میں کمانڈر نے وہاں موجود طالبان کو حکم دیا کہ وہ بھی جا کر دیگر طالبان کے ساتھ ان گھروں پر پہرہ دیں جہاں یہ لوگ محبوس ہیں۔ میں جس گھر پر پہرہ دے رہا تھا وہاں چار مسافر قید تھے اگرچہ گھر کے دروازے مقفل تھے پھر بھی ہم ارد گرد کا چکر لگاتے رہتے تھے۔ تقریباً دو بجے کے قریب میں نے گھر کے کمرے کے دروازے کے قریب آواز سنی جب میں قریب آیا تو کچھ بھی نہ تھا جب میں دروازے کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ دو جوان دروازے کے سوراخوں میں سے باہر دیکھ رہے ہیں جبکہ دو بیٹھے رو رہے تھے۔ میں نے آواز دے کر پوچھا کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے روتے ہوئے جواب دیا ''بھائی! خدا کی قسم ہم مزدوری کے لئے جا رہے ہیں اور اس مقصد کے لئے ہم نے ایجنٹ کو پیسے دے رکھے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ خاموش ہو جاؤ اگر دوسرے طالبان آ گئے تو تمہیں مار دیں گے۔ وہ خاموش ہوئے تو میں نے دروازے کے سوراخوں میں ان سے باتیں شروع کیں۔ ایک جوان جو سسکیاں لے کر رو رہا تھا نے مجھ سے کہا کہ میرا چھوٹا بھائی اور تین بہنیں ہیں میرے ماں باپ بوڑھے ہیں اگر خدانخواستہ مجھے کچھ ہوا تو وہ کیا کریں گے؟ میں نے جواب میں کہا بھائی میں کیا کر سکتا ہوں تم نے تو کمانڈر کو خود دیکھا ہے وہ کسی کی بات نہیں سنتا۔

وہ نوجوان بولا، خدا کے لئے ہم پر رحم کریں۔ میں نے کہا کہ اب آرام کرو کل میں آپ لوگوں کے لئے کچھ کرنے کی کوشش کروں گا۔

جب صبح ہوئی تو ہم چاروں جوانوں کو نماز کے لئے باہر لے آئے۔ ان کی شکلوں سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ رات بھر نہیں سو سکے ہیں۔ ان کی آنکھیں سُرخ ہو رہی تھیں۔ ان چاروں نے اُسی گھر میں نماز ادا کی اور ناشتہ کیا۔ تقریباً سات بجے کمانڈر نے ہمیں گاؤں میں اجلاس کے لئے مخصوص جگہ پر بلایا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو گزشتہ رات کے مقابلے پر دو گنی تعداد میں طالبان موجود تھے۔ کمانڈر نے کہا کہ ان افراد کے بارے میں فیصلہ ہو چکا ہے اُن سب کو مارا جائے گا۔ یہ ہمارے علماء کا متفقہ فیصلہ ہے۔ میں نے کمانڈر سے کہا کہ وہ تمام لوگ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ نہ ہمارا فوج سے تعلق ہے اور نہ گلاب منگل کو جانتے ہیں۔ کمانڈر نے مجھے کہا، ابھی آپ کا تجربہ نہیں ہے آہستہ آہستہ ان چیزوں کے عادی ہو جاؤ گے۔

ہم نے ان تمام افرادکو موٹر سائیکلوں پر سوار کر کے گاؤں سے باہر نکالا جب ہم گاؤں کے مغربی جانب پہنچے تو مسافروں کا ہر ٹولہ جو چار چار یا پانچ پانچ افراد پر مشتمل تھا کے سامنے طالبان بندوق تھامے کھڑے تھے۔ میں چاہتا تھا کہ رات والا نوجوان جس نے مجھے بڑی منت سماجت کی تھی ،کی مدد کروں۔

جب ہم نے انہیں موٹر سائیکلوں سے اتارا تو اُسی نوجوان نے مجھ سے پوچھا کہ آپ لوگ ہمیں یہاں کیوں لائے ہیں اور اسی کے ساتھ روتے ہوئے کہنے لگا کہ ہمارا آخری وقت آ پہنچا ہے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں کے نام لیتا اور اپنے امی ابو کو یاد کر کے بلک بلک کر رویا۔

اسی کے ساتھ میدان کے آخری سرے سے فائرنگ کی آواز آئی اور ساتھ ہی مسافروں کی چیخ و پکار شروع ہوئی۔ یہ لوگ ہم سے تقریباً 300میٹر کے فاصلے پر تھے۔

اسی دوران میں کمانڈر بھی موٹر سائیکل پر سوار میدان میں پہنچا اور طالبان سے کہنے لگا ''مارو ان لوگوں کو۔''

میں دیگر طالبان کے ہمراہ میدان کے آخر میں ان چاروں مسافروں کے ساتھ کھڑا تھا کہ کمانڈر وہاں آیا اور مجھ سے کہا کہ دیکھتے کیا ہو، بسم اللہ کرو۔ یہ سنتے ہی میرے ہاتھوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ میرے ساتھ دو طالبان نے ان میں سے دو مسافروں کو کھوپڑیوں میں گولی مار دی لیکن وہ جوان جو رات کو رو رہا تھا اور ایک اور مسافر ابھی زندہ تھے ان پر فائرنگ نہیں کی گئی تھی۔

کمانڈر نے مجھے کہا کہ جلدی کرو ان کا کام بھی تمام کرو۔ میں نے نوجوان کو چھوڑ کر اُن کی ایک جانب اور دوسرے جانب فائر کیا جس پر نوجوان نے خود کو زمین پر گرا دیا۔ کمانڈر نے مجھ سے کہا اس کو اسطرح مارو۔ اور پھر انہوں نے میرے سامنے نوجوان کے پیر پر فائر کیا اور نوجوان کی چیخ بلند ہوئی۔ کمانڈر نے مزید قریب آ کر جوان کے سر پر دو فائر کئے۔

ظلم اور بربریت کی انتہا دیکھ کر اس وقت میرا ضمیر جاگا اور میں نے طالبان نہ بننے کا فیصلہ کیا اور سیدھا واپس گھر جانے کا فیصلہ کیا۔

فقط
ایک طالبعلم جو ماضی میں طالبان کا حامی تھا
(مراسلہ: عبدالباقی، کوئٹہ)