working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


 
اگلا شمارہ

فرنگی راج سے موجودہ جمہوری دور تک صوبہ سرحد میں حکومتی عملداری کے مختلف ادوار اور جہتیں
جنوبی ایشیا کے حوالے سے عالمی سطح پر پہچانے جانے والے مفکر ہیں۔ وہ جان ہاپکنز یونیورسٹی واشنگٹن کے سینٹر آف فیتھ اینڈ انٹرنیشنل افیئرز کے ریسرچ فیلو اور اسی یونیورسٹی سے پی ایچ۔ڈی بھی کر رہے ہیں۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی سکول آف ایڈوانس انٹرنیشنل سٹڈیز میں انھیں جنوبی ایشیا سے متعلق ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں۔ وہ 2005-6ء کے دوران اپنی تحقیق کے سلسلہ میں پشاور میں قیام پذیر رہے ہیں۔ بعد ازاں 2007ء میں انھیں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں ریسرچ ایسوسی ایٹ کے طور پر بلایا گیا۔ ان کا تحقیقی کام ادارہ جاتی ریسرچ اور پالیسی سازی کے حوالے سے بہت اہم خیال کیا جاتا ہے۔ عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان ڈائیلاگ کے حوالے سے ان کی کاوشیں بھی منظرِعام پر ہیں۔ زیرنظر تحقیقی مضمون بھی مصنف کے عمیق مطالعے کا مظہر ہے جس میں انھوں نے صوبہ سرحد کے اندر حکومتی عملداری کے مختلف ادوار اور جہتوں کا بڑی خوبصورتی کے ساتھ تجزیہ کیا ہے۔ موجودہ حالات میں اس مضمون کی اہمیت اور بھی دوچند ہو جاتی ہے جس کو قارئین کے مطالعے کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ (مدیر)
جوشوانی وائٹ
پاکستان آج کل شمال مغربی صوبہ سرحد کی نازک صورتِ حال کی وجہ سے ایک بحرانی کیفیت سے دوچار ہے اس تمام بگاڑ کے پیچھے فاٹا قبائل میں حکومت کی ناکامی، پشتون بندو بستی علاقوں میں طالبان کا عمل دخل اور سیاسی اسلامی نظریات کا ہاتھ خیال کیا جاتا ہے۔ اور یہی وہ تمام وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ریاستی عملداری شدید متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ان زمینی حقائق سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا جن کی بنا پر حالات نے موجودہ عبرت ناک شکل اختیار کی۔ سب سے پہلے 1980ء میں افغانستان میں روسی دراندازی کے بعد بیرونی مغربی طاقتوں کی مداخلت سرفہرست رہی جس سے اسلامی جہادی نظریے کو فروغ حاصل ہوا اس کے بعد 2001ء میں موجودہ امریکی مداخلت نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ بیرونی مداخلت کی وجہ جو بھی رہی مگر داخلی حالات کو سدھار نے پر کوئی خاص توجہ نہ دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریاستی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوا یقینا اس کے پیچھے مقامی حکومتوں کی ناکام حکمتِ عملی کا بھی ہاتھ ہے جو باغیانہ خیالات کے فروغ اور مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کے باعث بنی۔

سب سے پہلے ان تاریخی حقائق کا تجزیہ کرنا مناسب ہو گا جس سے اس دیرینہ مسئلے کو حقیقی طور پر سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے اور اس مقصد کے لئے اٹھارویں اور انیسویں صدی کے اواخر کے برطانوی دور کا مشاہدہ کرنا پڑے گا جب تاج برطانیہ بھی ان متنازعہ علاقوں پر حکومتی عملداری قائم کرنے کے حوالے سے مختلف تجربات سے گذری اور یوں حقائق سمجھنے کے لئے مختلف دانشوروں کی آراء سے استفادہ کیا گیا۔ اس دور کے ان مفکرین کی فہرست میں خاص طور پر ہنری، جیمز لارنس، تھامس منرو، چارلس کارنوالس، لارڈ ڈلہوزی، جیمز فٹز اور جیمز سٹیفن کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ میرے خیال میں ماضی کے ان تفصیلی مشاہدات کی روشنی میں اور حکومتِ پاکستان کی موجودہ اصلاحات کو مد نظررکھتے ہوئے ایک تفصیلی بحث درکار ہے جس سے فاٹا اور بندوبستی علاقوں میں امن اور ترقی کو ممکن بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ سب سے پہلے 1901ء کے قدیم فرنٹیئر کرائم ریگولیشن رول کا ذکر ضروری ہے۔ یہ F.C.R. کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور فاٹا میں قبائلی حکومت کے حوالے سے ایک بنیادی عنصر ہے اس کے علاوہ مقامی حکومتوں کا 2001ء کا آرڈننس ہے جس کی وجہ سے بندو بستی علاقوں میں متوازی طاقتوں خصوصاً طالبان اور دیگر اسلامی ملیشیاء کو پنپنے کا موقع ملا، تب سے مذکورہ بالا تمام قوانین میں اصلاحات کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔

استحقاقی قوانین:
میری بحث کا نقطۂ آغاز انگریز حکومت کی اس سوچ کا محور ہو گا جسے برطانیہ میں طویل بحث و مباحثہ کے بعد سامنے لایا گیا۔ اس بحث کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ برطانوی نوآبادیوں میں متنازعہ علاقوں میں انتظام و انصرام کے حوالے سے مقامی آبادی اور حکومت کے درمیان مرکزی کردار کے حامل انفرادی منتظم ہونے چاہیں یا حکومتی آمرانہ ڈھانچے کو خود حرکت میں آنا چاہیے۔ دوسری جانب وہ روایتی شخصیات تھین جن کی رائے میں شخصیت پسندی (PERSONALIST ) کا اہم کردار تھا وہ نسبتاً غیر متوازی انداز میں شخصی اعجاز کے قائل تھے اور برطانوی شخصی منتظم کے مرکزی کردار کو ابھارتے تھے۔ رومانوی حکومت کا یہ کلاسیکل نظریہ سیاسی فلسفے سے میل نہیں کھاتا جیسا کہ ''لین زیسٹوپل'' ''حامی حکومت'' یا ''رائے کی حکومت'' میں لکھتا ہے کہ برطانوی حکومت کی بقا کا راز اس کی موروثی طاقت کی حدود کی پہچان اور مقامی آبادیوں کی رائے کے احترام میں مضمر ہے۔''

ہندوستان کے تناظر میں اس کے متعلق پوری طرح کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ شخصیت پسندی یا موروثی حکومت کے طریقۂ کار کا قدیم ثقافت یا طاقت سے کیا جوڑ رہا ہے لیکن حقیقت میں یہ دونوں ہی ساتھ ساتھ عمل پیرا رہے کبھی اداروں کی فعالیت وغیرہ اہم رہی اور محض شخصی اثر و رسوخ کام آیا لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں کہ مختلف ثقافتوں کے امین لوگوں پر اس نظام کو کامیابی کی دلیل سمجھا جائے کیونکہ مضبوط شخصی یا ڈکٹیٹرانہ عملداری میں حکومتی انتظامیہ نہ تو اپنی طاقت کا بھرپور اندازہ لگا سکتی ہے اور نہ ہی حقیقت میں رعایا کی فلاح و بہبود کا ادراک رکھتی ہے۔

برطانوی حکومت کے اس شخصیت پسندی کے نظام کے مقابل مختلف خیالات سامنے آئے جس میں عا لمیت پسندانہ اور دیگر کئی نظریات بھی شامل تھے جنہیں افادیت پسندی کے فلسفے سے بھی تعبیر کیا گیا اس آزادانہ سیاسی فلسفے کی جڑیں جیمز مل،جیری بنتھم اور دوسرے اسکاٹش مفکرین سے جا کر ملتی ہیں۔ انڈیا میں افادیت پسندوں کے منصوبے ضرورتوں کے مطابق تھے لیکن عا لمیت پسندوں کے خیال میں ان منصوبوں کو سماجی تبدیلیوںکو مدنظر رکھتے ہوئے نئے سانچوں میں ڈھلتے رہنا چاہیے۔ اور قانون کی عملداری کے لئے باشعور انتظامیہ کو امپیریل حکومت کے قوانین کے ماتحت جدید اداروں کی سہولت میسر ہو اور قانون ساز ایسے قوانین کے احترام کو ممکن بنائیں جس سے حکومت کی عملداری مضبوط ہو۔ اور یہ اسی قانون کی وجہ سے ہی ممکن ہوا تھا کہ برطانوی حکومت کو اپنی سلطنت کے دور افتادہ علاقوں میں بھی اداروں کو پنپنے اور مضبوط ہونے میں مدد ملی اور قوانین کے عملی نفاذ سے ہی فرسودہ عوامل کے اثر و رسوخ کو ختم کیا جو کہ برہمن شہزادوں اور دیگر چھوٹے چھوٹے مطلق العنان حکمرانوں کی طرح ہندوستان کی سرزمین پرچھائے ہوئے تھے۔

حکومت بنانے کے یہ دونوں نظریے یعنی ''مقامی اور استحقاقی'' اور دوسرا ''شخصی اور باقاعدہ راستہ''، یہ دونوں مختلف قطبین برطانوی سکالروں اور انتظامیہ کے زیر بحث رہے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے مطلق العنانیت انڈیا میں کمپنی بہادر کے ابتدائی دنوں کے راج سے تعلق رکھتی تھی جو کبھی سات سمندر دور انیسویں صدی کی سلطنت کا تقاضا تھا۔ لیکن اس سے قطعاً انکار نہیں کہ اس قسم کے ماحول میں برطانوی حکومت میں انتظامی فقدان سامنے آئے اور مقامی آبادیوں اور لوگوں کو نسبتاً غیر مناسب رویوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انگریز راج کی عملداری میں شخصیت پسندی کے حوالے سے شخصی حکومتی اقدامات محض صوبہ سرحد تک محدود نہیں تھے بلکہ انیسویں صدی کی برطانوی سلطنت کا مرکزی نقطۂ نظر بھی یہی رہا تھا۔ کمپنی بہادر کے نسبتاً غیررسمی حکومتی اقدامات کی وجہ سے ہی شخصی آزادی اور علیحدگی کے خیالات کا ابھرنا منطقی نتیجہ تھا۔

تھامس منرو کا پنجابـ مکتبہ فکر اور شخصیت پسندی کا تخیل
تھامس منرو جو 1820ء کی دہائی میں مدراس کے دار الحکومت میں تعینات تھا کو اپنے شخصیت پسندی کے نظریات کے دفاع میں کئی محاذوں پر لڑنا پڑا وہ خطرہ محسوس کر رہا تھا کہ برطانوی سلطنت ان اقدامات سے گریز کر رہی تھی جو کہ ایک مضبوط اقتدار قائم کرنے کے لئے ضروری خیال کیے جاتے ہیں اس نے 1824ء میں ایک آرٹیکل لکھا جس میں واضح کیا کہ ہم ایک ایسے ملک میں حاکم ہیں جس کے متعلق محض تھوڑا جانتے ہیں یا پھر بالکل ہی نہیں جانتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ سب کچھ ابھی کرنا چاہیے اور پھر اس کے بعد ہمیں کچھ نہیں کرنا تو یہ ایک خیام خیالی ہے۔ وہ مسلسل ان اقتصادی نظریات کی مخالفت کرتا رہا جنہیں یورپی معیاروں پر استوار کیا گیا تھا اس نے اس بات پر زور دیا کہ مقامی لوگوں کے حالات اور واقعات کی روشنی میں ایک محتاط تحقیق کی ضرورت ہے جس کے تناظر میں ایک لچکدار انتظامیہ بنائی جائے جو حکومتی عملداری ممکن بنانے کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کی حالتِ زار میں درست انداز میں تبدیلی لائے تاکہ ٹیکس کلچر فروغ پا سکے۔

جہاں تک منرو اصلاحات کا تعلق ہے وہ اس وقت تک عوام کو سماجی انصاف نہیں مہیا کر سکتی تھیں جب تک عام آدمی کا کردار اور اخلاقی استعداد بڑھانا عملی طور پر ممکن نہ ہو لیکن بدقسمتی سے یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ برطانوی مشینری نے اس ذمہ داری سے پہلو تہی برتی۔

دراصل منرو تجاویز کا بنیادی مقصد یہ بھی تھا کہ وہ اٹھارویں صدی کے آخری عشرے میں برطانوی حکومت کے گورنر جنرل کارنوالس کے ماتحت بنگال میں ایک مکمل پارلیمنٹ کا وجود عمل میں لانا چاہتا تھا منرو کے دلائل کے مطابق برطانوی نرم رویے اور بنگال میں زمیندار کو مضبوط کرنا ہندوستانی ثقافت کے خلاف ہیں اور یہ بیرونی ممالک میں برطانوی راج کے ضابطوں کے بھی منافی ہے۔ اسی پس منظر میں منرو نے مدراس میں ایک متبادل نظام متعارف کرایا جس میں مقامی پنچائیتوں کو متحرک کر کے کسانوں سے براہِ راست آمدنی وصول کی گئی۔ منرو نے رتواری نظام کی حمایت میں کافی دلائل دئیے جس پنچائیت کے حوالے سے لوگوں کی پرانی روایات اور رائے کے احترام کو خاص اہمیت حاصل رہی۔ تاریخی حقائق کے حوالے سے وہ کہتا ہے کہ زمینی حالات کو مدنظر رکھ کر مقامی اداروں کو مضبوط کر کے ہی برطانوی حکومت مثبت طریقے سے اور احتیاط کر کے ہی صحیح سمت میں آگے بڑھ سکتی ہے۔ وہ کارنوالس کی قانونی اصلاحات کے نظریے کو گہرائی سے جانچتے ہوئے یہ بھی کہتا ہے کہ معیار کے حوالے سے یہ تجاویز اپنی جگہ درست سہی مگر وہ معروضی حالات اور عوامی روایات کے سراسر منافی ہیں۔

گو کہ منرو شخصیت پسندی کے حکومتی کردار سے ہمدردی رکھتا تھا مگر سرحد پنجاب کے لارنس برادران نے اس سلسلے کا اپنا علیحدہ ہی خاکہ پیش کیا۔ 1840ء اور 1850ء کی دہائیوں میں ہنری اور جان لارنس نے پنجاب کے منتظم ہونے کی حیثیت سے جو اصلاحات کیں وہ ''پنجاب کا حکومتی پروگرام'' کے نام سے مشہور ہوئیں۔ بڑے بھائی ہنری لارنس کے آزادانہ خیالات نے اسے مزید جلا بخشی۔ لارنس برادران اور ان کی جماعت کے لوگ جو تمام تر نوجوانوں پر مشتمل تھی نے اس سلسلے میں شمالی مغربی سرحدی صوبے میںپرانے اور مشرقی خیالات کے حامل عناصر کو قابو میں رکھنے کے لئے اپنی ذاتی حکمتِ عملی اور کرشماتی صلاحیتوں کو عمل میں لائے اور انہیں دہلی اور لکھنؤ کی کمپنی کی حکومت کی مکمل آشیرباد بھی حاصل رہی۔ ان ماتحتوں کو واضح ہدایات تھیں کہ ''ملک کو مضبوط بناؤ اور لوگوں کو خوش و خرم رکھو'' خاص طور پر قانون پر عمل در آمد کے تقاضوں کے حوالے سے کھلے ذہن سے آگے بڑھ رہا تھا جس سے اس کے حواری بھی دوردراز علاقوں میں پھیل جاتے مقامی لوگ ان سے گھل مل جاتے اور بعض جگہ ان کی حیثیت شہزادوں کی طرح سامنے آتی اور لوگ بھی انہیں پورے پروٹوکول سے نوازتے۔

اسٹیفن اور قانونی شخصی آزادی
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سرحد پر حکومت کرنابچوں کا کھیل ہے تو یقینا وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں اور انہوں نے برطانوی حکومتی دور سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ 1870ء کی دھائی میں جیمز فٹز جیمز اس مسئلے پر مضبوط حکومتی تنظیمی ڈھانچے کی ساخت کے حوالے سے رقم طراز ہے کہ مضبوط اور قانونی بنیادوں پر استوار اور شعوری طور پر پختہ حکومت ماضی کے افسوں اور جذبات سے دور رہ کر ہی بن سکتی ہے۔ یہ فلسفہ پنجاب مکتبۂ فکر سے میل نہیں کھاتا جبکہ اسٹیفن کی رائے کا جہاں تک تعلق ہے اس نے بھی لارنس برادران کی مخالفت میں کچھ نہیں کہا۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد اسٹیفن نے کھل کر اس بات کا اظہار کیا کہ کمپنی کی حکومت کی غیرتعمیری حکومتی پالیسی کی وجہ سے ان تمام ناخوشگوار حالات کا سامنا کرنا پڑا اور برطانوی حکومت کی اصلاحاتی پالیسی کے خدوخال مکمل طور پر تبدیل کرنے کی نوبت آئی۔ علاوہ ازیں اسٹیفن افادیت پسند نقطۂ نظر کی پیروی کرتے ہوئے اپنے نقادوں سے برملا یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ برطانیہ میں بیٹھ کر فلسفہ جھاڑنا صوبہ سرحد پر حکومت کرنے سے قطعاً مختلف ہے مزید برآں اس کے وضع کردہ آزادی، بھائی چارے اور برابری کے اصول مخالفت کے باوجود اثر پذیری کے حامل نظریات پر مبنی تھے۔

دشواریوں کے باوجود اسٹیفن کے اصول پرستانہ فراخدلانہ رویے ہی حکومت کرنے کے حوالے سے ایک مضبوط جواز فراہم کرتے تھے اوریہ سماجی اور سیاسی امن و امان کے حوالے سے ہندوستان پر برطانوی عملداری کے لئے وقت کی اہم ضرورت بھی تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ اپنی معروضِ چند وجوہات کی بنا پر میں کہتا ہوں کہ مسٹر مِل کو اپنا عقیدہ درست کر لینا چاہیے کہ افادیت پسندی سے حقیقی خوشی حاصل نہیں ہوتی بلکہ جو شخص معاشرے کے معیاروں کو وضع کرتا ہے زیادہ اہم ہے اسٹیفن کی رائے میں ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنے والی حکومت ہی زمین میں اپنی جڑیں مضبوط کر سکتی ہے اور یہی حکومت مضبوط قانونی ڈھانچے سے ہم آہنگ ہو کر قائم رہ سکتی ہے جبکہ ''تقسیم کرو اور حکومت کرو'' کا فلسفہ شخصیت پسندی کی طرف رہنمائی کرتا ہے جیسا کہ سرحدی علاقوں کے مسئلے میں ابھی تک آزمایا گیا ہے برطانیہ نے اپنی نوآبادیوں میں نہایت جانچ تول کر حکومت کا دفتر چلایاا ور موقع شناس منتظموں کو روایات کے مطابق اختیارات تفویض کئے کیونکہ وہ تقریباً ایک صدی تک اس بحث میں الجھے رہے کہ شخصی حکومت جائز تھی یا قانون کی عمل داری ہر صورت میں ہو یا غیرجانبدارانہ قوانین کا نفاذ ہو یا مکمل طور پر برطانوی شہنشاہیت کے ضابطے ہونے چاہیں۔ اپنی بحثوں کو مدنظر رکھ کر اصلاحاتی پروگرام ترتیب دئیے گئے اور معاشرتی قدروں پر مقامی اداروں کو سنوار کر حکومتی رٹ بحال رکھی گئی۔

مصالحتی قوانین
برطانوی دور حکومت کے دوران مذکورہ دو مکاتبِ فکر کے علاوہ ایک درمیانی نظریے پر بھی خوب بحث ہوئی جو ریاست اور معاشرے کے درمیان استوار تعلقات کے گرد احاطہ کرتا ہے اور خاص طور پر یہ بھی اخذ کیا گیا کہ حکومت کس حد تک اپنی حدود متعین کرے۔ اس بحث سے اس سوال نے بھی تقویت پکڑی کہ حکومت اور معاشرے کے درمیان وہ مثالی فاصلہ کیا ہے اور برطانوی حکومت کو اپنی محکوم رعایا کے ساتھ کس درجے تک براہِ راست تعلقات کا متحمل ہونا چاہیے۔
یہاں آ کر یہ بحث بالواسطہ اور بلاواسطہ اختیارات کی تقسیم پر ایک نیا رخ اختیار کر گئی کچھ ناقدین نے براہِ راست حکومتی اتھارٹی کو درست کہا اور دیگر نے حکومتی مشینری کو براہِ راست عوامی رابطوں سے منع کیا بالواسطہ حوالے سے حکومتی امور میں لوگوں کی شمولیت کے حامی عموماً آزاد خیالی کی روایات کا فروغ چاہتے تھے جس سے نہ صرف روایتی سماجی ڈھانچا مضبوط ہونا تھا بلکہ اس طاقت کے بے لاگ استعمال کی حوصلہ شکنی بھی ممکن تھی۔ اٹھارویں صدی کے اواخر میں بنگال میں لارڈ کارنوالس کے زمینداری نظام متعارف کرانے کی کوشش اس سلسلے کی ایک اچھی مثال تھی جس میں زعما کے طبقے کی وساطت سے برطانوی حکومت کی عملداری کا احترام ممکن بنایا گیا۔

تھامس منرو تمام عمر بالواسطہ حکومتی پالیسی کے مخالف رہا اس تنازعے میں اس نے اپنے آپ کو گھسیٹ لیا تھا جو بالآخر اس وقت انجام کو پہنچا جب حکومتی طرزِ فکر، زرعی ٹیکس کے نفاذ اور وصولی کے طریقہ کار پر اتفاق کر لیا گیا۔ منرو ایک مضبوط اعتقاد کا حامل تھا اور حکومتی طریقہ کار سے اختلافی نظریات رکھتا تھا اس کی عمومی رائے یہی تھی کہ زمیندار طبقے کو ایک طرف رکھتے ہوئے براہِ راست کسانوں اور مقامی آبادی سے ٹیکس وصول کرنا برطانوی راج کے بہترین مفاد میں تھا وہ اس بات پر قوی یقین رکھتا تھا کہ ہاریوں سے تعلقات کی بنا پر حکومت کے تعلقات زیادہ مضبوط ہوں گے اس کی استعدادِ کار بھی بہتر ہو گی اور وسائل بھی ضائع ہونے سے محفوظ رہیں گے کیونکہ یہی طریقہ کار قدیم اور تاریخی حقائق سے مماثل بھی ہے۔

آدھی صدی گزرنے کے بعد ''رائے عامہ کی حکومت'' کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والا ایک ممبر کچھ مختلف اور نئے نظریے کے ساتھ سامنے آیا پنجاب میں ہنری لارنس اور اس کے حواریوں نے ایک مضبوط ترجیحاتی منصوبہ بندی کے ساتھ سکھوں اور قبائلی عمائدین کی وفاداریوں پر اعتماد کرتے ہوئے ان کی حکومتی اداروں میں شمولیت ممکن بنائی۔ کارنوالس کے زمینداری نظام کی پرانی اور سیاسی اقتصادی صورتِ حال کے تنازعات کے مقابلے میں ہنری لارنس کے عمرانی اصولوں پر مبنی اور نظریاتی بنیادوںکے حامل بالواسطہ حکومتی تعلقات نہایت سادہ اور عام فہم تھے اور وہ عملی طور پر جانتا تھا کہ حکومت کے گراںقدر وسائل کسی کی صوابدید پر نہیں چھوڑے جا سکتے۔

لارنس برادران جو کہ شخصیت پرست حکومتی اصول کے حامی تھے انہیں بھی بالواسطہ حکومت کے سوال پر علیحدگی کا کڑوا گھونٹ پینا پڑا جبکہ ہنری نے متبادل مقامی سکھ حکومت کی ریاستی انتظامیہ سے حکومت جاری رکھی ادھر جان کاشت کاروں کے حقوق کی خاطر اٹھ کھڑا ہوا جس سے سکھ کمزور پڑ گئے اور علاقائی قوتیں مضبوط ہو گئیں اور بالآخر جان نے اپنے بھائی کو مات دے دی یوں اس کے نظریے نے پنجاب میں کامیابی کی سند حاصل کر لی کیونکہ گورنر جنرل ڈلہوزی تو پہلے سے ہی سرحدی قبائل کے مسئلے پر اس کی جانب جھکاؤ رکھتا تھا۔ اور یوں اس کی وجہ سے معاشی ڈھانچے کی ترقی اور مقامی زبانوں میں تعلیم کا حق بھی تسلیم کر لیا گیا۔

ڈلہوزی ایک افادیت پسند شخص تھا وہ تاجِ برطانیہ کے لئے اپنے منفرد خیالات کے بل بوتے پر اصلاحات کا نفاذ چاہتا تھا 1849ء میں پنجاب کے الحاق کے بعد ہنری لارنس نے اپنے وضع کردہ اصولی عقائد پر عمل جاری رکھا وہ راجواڑوں کو براہِ راست کمپنی بہادر کے ماتحت رکھنے کا حامی تھا جبکہ ڈلہوزی اپنے آپ کو بنیادی تبدیلیوں کا سرچشمہ قرار دیتا تھا۔ افادیت پسندی کے نظریات کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ چاہتا تھا کہ بنیادی اصلاحات نافذ کرنے سے پہلے حکومت کو ہر لحاظ سے مضبوط اور مستحکم کرے۔

یہ کہنے میں بھی کچھ ہیچ نہیں کہ معاشی تبدیلیوں کے حوالے سے افادیت پسندی کے نظریات نے بھی کئی اثرات چھوڑے۔ چنانچہ جیمز مل کی طرح افادیت پسندانہ خیالات کے حامی جیمز فٹز جیمز سٹیفن نے بھی برطانوی نوآبادیوں میں سماجی تبدیلیوں کی خاطر بالواسطہ طرزِ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔
سکالرز... اور منتظم کا طبقہ فکر افادیت پسندانہ حکومتی نظریے کے مطابق آمرانہ نظام کو ہی بہتر اور سبک خرام حل تصور کرتا تھا۔ جیمز مل اور اسٹیفن جیسے مفکروں کے علاوہ ڈلہوزی جیسے منتظم نے بھی براہِ راست حکومتی طریقۂ کار کی بنیاد پر اور معروضی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور روشن خیال افادیت پسندانہ نظریے پر مبنی حکومتی امور چلانے کی حمایت کی انہوں نے قدیم اداروں کو خاطر میں لانے کا اصول یکسر نظرانداز کر دیا منرو کی طرف سے بالواسطہ حکومت کی مخالفت میں بیانات کے مختلف وجوہات تھیں وہ دراصل اس خوف کا شکار تھا کہ اس سے برطانوی حکومتی مشینری کو بڑے پیمانے پر تقسیم کا سامنا کرنا پڑے گا اس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ مقامی حکومت کا نظام اور قدیم اداروں کا وجود دونوں ہی حکومتِ برطانیہ کے لئے مفید ثابت ہوں گے اور اس طرح قبائلی علاقوں میں بسنے والے لوگ بھی سرحدوں کی حفاظت کے لحاظ سے بہتر مددگار ثابت ہوسکتے تھے۔ اس بحث کا مقصد یہ تھا کہ ان دونوں مکتبہ فکر یعنی شخصیت پسندی اور قانون کے دائروں میں گھومتی ہوئی حکومت کو سماجی رویوں کے چوکٹھے میں رکھ کر دیکھا جائے کہ حکومت کے لئے کون سا راستہ زیادہ موزوںہے نقشہ نمبر1 کو دیکھتے ہوئے سلطنت کے ارباب اختیار اور نظریاتی عناصر کا مختلف اصولوں پر باہمی اتصال اور ارتکاز کا صحیح تجزیہ ممکن ہو گا۔ اس سے اس بات کا اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ انگریز دورِ حکومت میں مقامی سیاسی اور جغرافیائی حالات کو سمجھنے کے لئے کس طرح سیر حاصل بحث کی گئی۔
شکل نمبر 1:برطانوی عہد میں حکومتی بحث کا چارٹ

1

موجودہ صوبہ سرحد میں حکومتی ڈھانچہ
صوبہ سرحد میں ریاستی حکومتی حوالے سے 1857ء کی جنگ آزادی کے انگریزی دور سے لے کر برصغیر کی آزادی کے بعد تک معیاری حکومت کی بحث کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ پاکستان میں اب بھی یہاں کا سیاسی ڈھانچہ کسی نہ کسی انداز میں زیربحث رہتا ہے۔ انگریزوں کے رخصت ہو جانے کے بعد ایک ہی قومیت کے حامل لوگوں کی اکثریت ہونے کے باوجود پاکستان مقامی حکومتی مسائل سے دوچار ہے۔ چونکہ یہ علاقے ایک طویل حکومتی انتظامی تسلسل سے نبردآزما رہے ہیں آزادی کے بعد حکومت نے شمال مغربی علاقہ جات کو برطانوی انتظامی تقسیم کو نظرانداز کرتے ہوئے شمالی مغربی سرحدی صوبے اور فاٹا کے تحت انتظامی علاقوں میں منقسم کر دیا۔ اور اس میں حکومتی ... حوالے سے چار مختلف اصول وضع کیے۔

١۔ ملوکی نظام کے تحت راجواڑے جہاں حکومتی عملداری کو بالواسطہ طور پر مقامی فرمانروا یا والی کے ذریعے ممکن بنایا گیا۔
ب۔ قبائلی انتظامیہ یعنی قبائلی عمائدین کے ذریعے جو کہ FCR یعنی فرنٹیر کرائمز ریگولیشن کے تحت کام کرتے تھے اور پولیٹکل ایجنٹ ان کا منتظم ہوتا تھا جو کہ ہر قانوی اقدام اٹھانے کا پورا مجاز تھا۔
ج۔ بندوبستی علاقوں میں مختلف حکومتی ضابطے جو کہ پرانے انگریزی حکومتی نظام کے ڈی سی (D. C.) وغیرہ کے ماتحت کام کرتے تھے۔
د۔ بعد ازاں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کا 2001ء کا مقامی حکومتوں کے آرڈننس کا نفاذ

انگریز دور کے حکومتی انداز سے لے کر موجودہ حکومتی ڈھانچے تک مختلف اتار چڑھاؤ کے بعد ایک ارتقائی عمل سے گزرنے کے بعد قوانین نے موجودہ شکل اختیار کی۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ مختلف ادوار میں پاکستان کے ان علاقوں میں مذکورہ دو یا تین نظام موجود رہے۔ اور ایک نظام سے دوسرے نظام کی طر ف رجعت یا سفر سیاسی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جاری رہا جس کے بعض مواقع پر ہوشربا اثرات مرتّب ہوئے اوریوں لگتا تھا کہ ماضی کے تجربات سے کچھ سبق حاصل نہ کیا گیا۔

راجواڑے یا ملوکی حکومتیں اور FCR
FCR اور راجواڑے یا ملوکی ریاستیں دو ایک نامناسب ڈھانچے کی نشاندہی کرتے ہیں کیونکہ یہ حکومت کے غیرمتوازن شخصیت پسندانہ نظریے کے تحت قائم ہیں۔ دونوں نظاموں میں شخصی اثر و رسوخ کی زیادتی ہوتی ہے جو کہ حکومت کے اعلیٰ اصولوں کے پیمانے پر پورا نہیں اترتا اور اس نظریے کو محض اس لئے درخورِ اعتناء سمجھا گیا کہ ان کی تاریخی حیثیت مُسلّم تھی۔ یہی وجہ تھی کہ برطانوی دور میں بھی راجواڑوں کی قانونی حیثیت برقرار رہی اور تاج برطانیہ نے چترال، سوات اور دیر کو باجگذار ریاستوں کے طور پر قبول کیا جبکہ آخری ریاست تو محض 1969ء میں پاکستان کا مکمل حصہ بنی۔

دوسری جانب جو قبائلی نظامِ حکومت صوبہ سرحد میں قائم تھا اس کے متعلق یہ رائے پختہ ہو چکی تھی کہ یہ صدیوں پرانا نظام ہے یہی وجہ ہے کہ برطانوی حکومت نے بھی ان قدیم رواج کو چھیڑ چھاڑ کیے بغیر پشتون روایات کی معاشرتی ضرورتوں سے فائدہ اٹھایا۔
شکل نمبر 2:موجودہ صوبہ سرحد میں حکومتی ڈھانچہ
2

جہاں تک پڑوسی بلوچ قوم کا تعلق ہے وہ زیادہ تر اپنے سرداروں کے احترام میں حد سے گذری ہوئی ہے اس لئے وہاں بالواسطہ حکومت کے لئے زیادہ موزوں ماحول تصور کیا جاتا ہے جبکہ پشتون قبائل ان لوگوں کو اپنا سردار منتخب کرتے ہیں جو ان کے درمیان برابر کے حیثیت دار ہوتے ہیں نتیجتاً برطانوی عہد میں پشتون قبائل سے معزز افراد کو مَلک کی حیثیت میں منتخب کیا گیا تاکہ وہ حکومت اور عوام کے درمیان بااختیار انتظامیہ کا کام انجام دیں اور ان کی صوابدید پر فنڈ بھی مہیا کیے جاتے تاکہ وہ مقامی طور پر بااثر سمجھے جائیں اور اپنی حیثیت بھی مضبوط کریں۔ ان دونوں نظامِ حکومت کا تاریخی تجزیہ تو مختلف بنیادوں پر اعداد و شمار کا حامل ہے مگر برطانوی حکومت نے اسے اپنے مروجہ معیاروں کے مطابق استوار کر لیا نتیجتاً یہ دونوں انداز سرحدی علاقوں میں آج تک رائج چلے آتے ہیں یہی وجہ تھی کہ برطانوی حکومت نے اپنی فوجی چھاؤنیوں سے دوردراز واقع ان علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط رکھی اور ان کی محض یہی خواہش تھی کہ یہ علاقے بیرونی قوتوں کے خلاف ایک مضبوط رکاوٹ اور بفرزون کا کام دیں۔

پاکستانی حکومت نے ان دونوں موروثی طریقوں کو اختیار کرنے کی بجائے مختلف انداز اختیار کیے سب سے پہلے ملوکی ریاستی اختیارات کو بتدریج کم کیا اور مطلوبہ تبدیلیوں کے ساتھ ریاستی ڈھانچہ برقرار رکھا اور قبائلی علاقوں میںبھی F.C.R. کے قانون میں مناسب تبدیلیاں شامل کر دیں پاکستان میں شامل ریاستوں میں بھی مقامی والیوں کے ساتھ یہی رویے متوقع تھے کیونکہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یہ خیال تیزی سے گردش کر رہا تھا کہ ان کرشماتی شخصیتوں کی مقامی ریاستوں میں موجودگی سے حکومتی نظام متاثر ہوتا ہے۔

نوازائیدہ پاکستان حکومت کی سرحد کے کچھ علاقوں کو FCR رول سے متثنیٰ قرار دینے کی چند وجوہات تھیں بنیادی طور پر قائداعظم محمد علی جناح نے آزادی کے موقع پر وعدہ کیا تھا کہ قبائلی علاقوں میں بسنے والے پشتونوں کی خودمختاری اور روایات کا احترام بھی کیا جائے گا کیونکہ ان علاقوں کو ویسے کا ویسا چھوڑنے کے پیچھے مضبوط سیاسی اور جغرافیائی حالات کا تقاضا سمجھا گیا نئی پاکستانی حکومتوں نے بھی کوئی قابلِ عمل منصوبہ شروع نہ کیا اس طرح یہ قبائل بنیادی سہولیات کی فراہمی سے بھی محروم ہو گئے۔ برسرِ اقتدار حکومتوں کو انڈیا کے ساتھ سرحدی علاقوں پر توجہ مرکوز رکھنا پڑتی تھی اور وہ بے فکر تھے کیونکہ افغانستان کے ساتھ متنازعہ ڈیورنڈ لائن پر قبائل موجود تھے اور وہ بھرپور دفاعی دیوار کا کام سرانجام دے رہے تھے۔دوسری وجوہات میں پنجابی قومیت کے لوگ اور اردو زبان بولنے والے اربابِ اقتدار کچھ اس طرح غالب آئے کہ پشتون قبائل یکسر نظرانداز ہوتے گئے اس طرح بندوبستی علاقوں میں جب مقامی حکومتوں کا نظام متعارف ہوا تو لاکھوں پشتون ایک بار پھر منظم ہونا شروع ہو گئے کیونکہ ان کی بقا کا راز بھی قبائلی نظام کے بچاؤ میں ہی مضمر تھا۔

کمشنر اور معاونین
بندوبستی علاقوں میں جو دوسرے دو نظام متعارف رہے وہ ان برطانوی قوانین کا چربہ تھے جنہیں انیسویں صدی میں مقامی اور موروثی حالات کے پیشِ نظر قانونی شکل دی گئی تھی۔ یہی ڈپٹی کمشنری کا نظام جوں کا توں قائم رہاا ور شخصی صلاحیتوں کے بل بوتے پر بندوبستی علاقوں میں نمو پاتا رہا۔ یہ نظام پنجاب اور سندھ میں بھی برقرار تھا 2001ء کی حکومتی اصلاحات نے اس نظام میں دراڑیں ڈال دیں کیونکہ نئے اصلاحاتی پروگرام میں لوگوں کا حکومت میں زیادہ سے زیادہ عمل دخل ممکن بنانا تھا یوں مقامی لوگوں کے براہِ راست انتخاب نے انہیں ڈپٹی کمشنری نظام کے مقابل لا کھڑا کیا۔

سابق صدر جنرل پرویز کی طرف سے L.G.O. کی صورت میں مقامی حکومتی نظام میں دو بڑے مسائل ابھر کر سامنے آئے۔ ایک تو بنیادی خدمت کے حوالے سے حکومت کو عوامی سطح تک لانے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا جس سے ملکی حوالے سے عدم تحفظ کا احساس اجاگر ہوا دوسرا صوبائی عوام بیروکریسی اور خصوصاً ناظمین کے صوابدیدی اختیارات میں اضافہ ہوا۔ L.G.O. کی وجہ سے حکومتی طاقت صوبائی سطح سے ضلعی ناظمین، تحصیل ناظمین اور یونین کونسل کی سطح تک آ گئی جس کی وجہ سے ڈپٹی کمشنر ضلع ناظم کے مقابلے میں کمزور ہو گیا اور مقامی سطح پر علاقائی قومیتیں زیادہ تیزی سے متحرک ہو گئیں۔

حالانکہ انگریز راج کا نمائندوں کی موجودگی میں طریقہ کار یا مثلاً تھامس منرو کا حکومتی اصلاحاتی نظام مکمل طور پر محصولات کا اوپر کی جانب بہاؤ اور خدمات کا نیچے کی جانب جھکاؤ کے اصولوں پر قائم تھا L.G.O. کو بھی حکومتی افادیت پسندوں کی اصلاحاتی روایات کے مطابق برطانوی حکومتی قوانین کی متوازی کڑی سمجھ کر نافذ کر دیا گیا اور اس بنیادی اصلاحاتی پروگرام کو سائنسی اصولوں کی بنیاد پر استوار قرار دیا گیا اور اس طرح ورلڈ بینک کے ماہرین کی مدد بھی حاصل ہو گئی۔ اس قانون سازی میں متبادل حکومتی مشینری کو نظرانداز کیا گیا اورنچلے طبقے کو بھی یکسر ایک طرف کر دیا گیا صحت اور تعلیم کے شعبے میں اصلاحات کو ایجنڈے کا حصہ بنایا گیا اور عام آدی تک خدمات کے بہاؤ کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔

اگر L.G.O. کی اصلاحات کو شخصیت پسند اصولوں پر پرکھا جائے تو قطعاً مختلف صورتِ حال سامنے آتی ہے اگر کارنوالس کی وضع کردہ بنیادوں پر دیکھا جائے تو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ L.G.O. کی اصلاحات نے اداروں کو اختیارات کا ملغوبہ بنا دیا۔ ہر شخص مختلف اتھارٹیز کو جواب دہ تھا یوں احساسِ ذمہ داری کا جذبہ کمزور پڑتا گیا طاقت کی تقسیم کے حوالے سے L.G.O. کا نظام ڈپٹی کمشنری سلسلے سے بہت پیچھے تھا کیونکہ اس میں محض ایک شخص کے سامنے جواب دہی تھی یوں ایک جامع اور مکمل حاکمیت کی بجائے اس حکومتی اصلاحاتی نظام نے طاقت کو تقسیم در تقسیم کر کے رکھ دیا۔

L.G.O. کی تشکیل کے حوالے سے اگر اس کے ساختی ڈھانچے کو دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ اس میں حکومتی سرحدوں کے اندر اپنی مرضی کے قوانین پنپنے کے سلسلے کو ہوا دی۔ ایوب خان کی تقلید کرتے ہوئے جمہوریتوں کے نظام کی طرح جنرل مشرف نے بھی مقامی حکومتوں کی اصلاحات کے نفاذ کا اعلان کیا اور اس بات کو یکسر نظرانداز کر دیا کہ معاشرتی سیاسی نظام کے مروجہ اصولوں اور سیاسی مخالفین کی رائے سے استفادہ بھی نہایت ضروری ہوتا ہے۔ شعوری حلقوں میں اختیارات کا مرکز سے گریز اور دیگر حکومتی کوششوں کو اس تناظر میں دیکھا گیا کہ شاید بیرونی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی ہے تاکہ اندرونی اور بیرونی عناصر کو آمریت کے حق میں ہمدردی کے حوالے سے راہ ہموار کی جائے۔ جنرل مشرف اپنے تئیں روشن خیالی کا پرچارک تھا جبکہ مقامی انتظامیہ اور منتخب نمائندے اس بات پر متفق تھے کہ یہ ایک طرح کی بے بس جمہوریت ہے اور اس کا کنٹرول کہیں اور ہے اور اس وجہ سے کئی ابہام سامنے آئے کیونکہ اگر کوئی ریاست فوجی حکومت کے ماتحت چل رہی ہو تو ایسی صورت میں عمومی جمہوری اصلاحات دراصل مرکز کی مضبوطی کے آلۂ کار کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔

آج کل جبکہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں صوبہ سرحد میں حکومت کے حوالے سے دو مختلف مسائل سے دورچار ہیں پہلے تو یہ معاملہ زیربحث ہے کہ قبائلی علاقوں میں کس طرز کی مضبوط حکومت بنے جو کہ نئے منتخب شدہ حکمرانوں کو اسلام آباد میںبھی منظور ہو۔ اور دوسرے نمبر پر بندو بستی علاقوں میں بنیادی کمشنری اور L.G.O. کے متوازی نظاموں کو کس طرح کھپایا جائے اس سلسلے میں اصلاحاتی ڈھانچے میں تبدیلیوں کے حوالے سے سوچا جا رہا ہے۔

قبائلی علاقوں میں اصلاحات
فرنٹیر کرائمز ریگولیشن (FCR) جو کہ فاٹا میں تمام فوجداری اور دیوانی قوانین سے بڑھ کر حیثیت کا حامل ہے 1901ء کی بڑی تبدیلیوںکے بعد مزید معمولی طور پر تبدیل کیا گیا ہے یہ وہی قانون ہے جس میں ایک ایسی حکومت کی عملداری ہوتی ہے جس میں تمام تر اختیارات کا منبیٰ پولیٹیکل ایجنٹ ہوتا ہے جو کہ قبائلی ایجنسیوں میں مقامی تنازعات کو قبائلی کونسل کے عمائیدین کے ساتھ مل کر سزائیں دلوانے کا مجاز ہے۔ وہ علاقے میں تعمیراتی کاموں کی نگرانی کرتا ہے وہ کسی قبائلی کی جائیداد ضبط کر سکتا ہے کسی کو گھربدر اور علاقہ بدر کر سکتا ہے یا مکان تباہ کروا سکتا ہے۔ یہ اختیارات دراصل شروع شروع میں پیش آنے والے جرائم کے خاتمے کے لئے تیار کیے گئے تھے چنانچہ اپنے حکومتی آئینی دائرے میں رہ کر FCR تقریباً ایک صدی تک کام کرتا رہا ہے۔

FCR کے لئے ممکنہ خطرات
فروری 2008ء میں عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد صوبہ سرحد کی مخلوط حکومت پر قبائلی علاقوں کی اصلاحات کے حوالے سے کچھ دباؤ رہا جس کی واضح وجوہات بھی تھیں۔ خصوصاً 11ستمبر 2001ء کے واقعہ کے بعد مغربی حکومتوں کی توجہ ان متنازعہ قبائلی علاقوں کی جانب مبذول ہوئی کیونکہ اس خطے میں حکومتی عملداری عملی طور پر مکمل کامیاب نہیں سمجھی جاتی۔ خصوصاً امریکیوں کا باغیوں سے نمٹنے کا طریقہ کار جس سے ان کی پناہ گاہوں یا محفوظ جنتوں تک رسائی حاصل کرنا ضروری تھا بری طرح متاثر ہو رہی تھی۔ فاٹا کی طرز کے علاقے جہاں پاکستانی حکومت تو قائم ہوتی ہے مگر قانونی کاروائی کرنے کا مکمل اختیار نہیں رکھتی یہ تمام عوامل اس بات کے متقاضی تھے کہ سماج دشمن عناصر سے نمٹنے کے لئے کیا حکمتِ عملی ترتیب دی جائے یہی وجہ ہے کہ حکومت کی مکمل گرفت کے فقدان نے اور مقامی روایات کی رُو سے مسافروں اور مہمانوں کو پناہ دینے اور ان سے ہمدردی کے جذبات نے بیرونی اور سماج مخالف عناصر کو پنپنے میں مدد دی۔

دوسری جانب جنوبی وزیرستان میں فوج کی 2004ء میں مداخلت اور ناکامی اور پھر طالبان کی جانب سے پولیٹیکل ایجنٹ اور قبائلی مَلکوں کو نشانہ بنانے سے ایجنسی کے نظام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے پولیٹیکل ایجنٹ کے اختیار کو روندتے ہوئے جب فاٹا میں آپریشن شروع کیا گیا تو فوج بھی دھیرے دھیرے قبائلیوں کی حمایت سے محروم ہو گئی اب فوج اور کچھ دیگر سیاسی رہنماؤں میں بھی ایجنٹ نظام کے علاوہ FCR میں اصلاحات کے حوالے سے ہمدردی کے جذبات نے سر ابھارنا شروع کر دیا ہے۔

تیسرے نمبر پر فاٹا کے اندر اور بیرونی عوامل حلقوں کی جانب سے فاٹا میں اصلاحات اور سماجی حقوق کے حوالے سے آواز بلندی کی جا رہی ہے۔ کیونکہ FCR بنیادی سماجی اور انسانی حقوق کے حوالے سے متعدد خامیوں کا مجموعہ ہے مثلاً ذاتی یا شخصی جرائم کی سزا پورے خاندان کو بھگتنا پڑتی ہے پولیٹیکل ایجنٹ سیاہ اور سفید کا مالک ہوتا ہے کیونکہ صوابدیدتی اختیارات کا تمام تر ارتکاز اس کی ذات کی جانب ہوتا ہے جس سے وہ عموماً ذاتی فوائد حاصل کرنے کے لئے قبائلی عمائیدین سے مل کر مختلف حق تلفیوں کے ارتکاب کا موجب بھی بن سکتا ہے اور ایسے کئی واقعات پیش بھی آ چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ موجودہ بدلتے ہوئے حالات میں حکومتی مشینری کا قبائلی علاقوں پر آئینی اثر و رسوخ اور اختیار کا معاملہ پاکستان کے اندرونی حلقوں میں شدت سے زور پکڑ رہا ہے ایک حالیہ سروے کے مطابق 72 فی صد پاکستانیوں کی رائے ہے کہ FCR کو بہتر بنایا جائے یا مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ فاٹا کے اندر بھی حالات کچھ مختلف نہیں وہاں بھی 70فیصد لوگوں کی رائے یہی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی تک یہ فیصلہ زیرِ التوا ہے کہ اصلاحات کی شکل کیا ہونی چاہیے جبکہ FCR کی قانونی حیثیت پر بھی قبائلی حلقوں میں تحفظات زبانِ زدِ عام ہیں۔

آخر میں اس سیاسی دباؤ کا ذکر بھی ضروری ہے جو کہ فاٹا میں حکومتی ڈھانچے کی ساخت سے متعلق ہے۔ فروری 2008ء میں عوامی نیشنل پارٹی (A.N.P.) صوبہ سرحد میں کامیاب ہوئی جس نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی اس نے فاٹا کی حیثیت کو شمالی مغربی صوبہ سرحد کا حصہ قرار دیا ہے چونکہ یہ نظریہ ایک قدیم پس منظر رکھتا ہے اور پشتونوں کے حوالے سے ANP ایک قومی جماعت سمجھی جاتی ہے، وہ ایک ایسی سوچ رکھتی ہے جس میں تمام پشتو بولنے والے علاقوں پر ایک حکومت کے ماتحت حکمرانی کا تصور ہے چنانچہ اس طرح وہ فاٹا کو صوبہ سرحد کا ہی حصہ سمجھتے ہیں اور اسی سے الحاق کے داعی ہیںلیکن قبائلی عمائدین میں ایک ایسا مکتبۂ فکر بھی ہے جو یہ چاہتا ہے کہ فاٹا کی الگ حیثیت برقرار رہنی چاہیے جیسا کہ شمالی علاقہ جات صوبہ سرحد سے ایک علیحدہ حیثیت میں موجود ہیں۔

فاٹا کے لئے متبادل راستہ

اس مجموعی صورت کی وجہ سے پاکستان کے وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی نے مارچ 2008ء میں FCR ختم کرنے کا عندیہ دیا اس فیصلے سے پھر ایک نئے سفر کا آغاز ہو گیا ہے اور حکومت پر زور دیا جا رہا ہے کہ قبائلی لوگوں سے براہِ راست تعلقات قائم کیے جائیں اور ایسے مضبوط لوگ سامنے لائے جائیں جو کہ قانون کی عملداری ممکن بنا سکیں۔ یوں عوام سے میل جول بڑھنے کے مواقع پیدا ہوں گے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان یہ تبدیلی کیسے لائے گا اور ان کا ثمر انسانی ترقی اور قومی سلامتی کے حوالے سے کیونکر ملے گا یہاں پر ایک برطانوی دور سے موازنہ ضروری خیال کیا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں ایک رائے یہ سامنے آ چکی ہے کہ ان علاقوں میں مروجہ مقامی نظاموں کے تحت براہِ راست اقدامات کرنے چاہئیں کیونکہ بعض جلدبازیوں کی وجہ سے برطانوی حکومت کی عملداری بھی متاثر ہوئی تھی۔ 1840ء کی آخری دہائی میں گورنر جنرل ڈلہوزی کی اصلاحات نے بتدریج متبادل حکومتی نظام کو تبدیل کیا اس نے علاقائی رسم و رواج کی پذیرائی کی جس سے حکومت میں جدید عنصر غالب آیا اور اس سے 1857ء کی جنگ آزادی کی وجہ سے پیش آنے والے زخم بھی مندمل ہونے میں مدد ملی اور یوں تاج برطانیہ کی براہِ راست عملداری بھی قائم ہو گئی حالانکہ جنگ آزادی سے ایک آدھ عشرہ پہلے ان علاقوں کی ڈرامائی انداز میں شمولیت اور اصلاحات نے ان تمام عوامل کو شہ دی تھی جو جنگ کا باعث بنے اور یہ ایک ایسا سبق تھا جسے انگریز جلد نہ بھول سکے اور شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ پاکستانی حکومت بھی نہایت محتاط انداز میں قدم اٹھا رہی ہے اور ایسے اقدامات سے گریز کر رہی ہے جو قبائلیوں کی مخالفت کا باعث بنیں۔

صد شکر ہے FCR کے نظام میں جدت لانے کے حوالے سے متعدد سفارشات زیرِ غور ہیں دراصل ہمیں قبائلی علاقوں میں اصلاحات کی تحریکوں کی روشنی میں ایک ایسی ریاست کی تشکیلِ نو کرنا پڑے گی جو رفتہ رفتہ ایک معمول کی حکومت میں تبدیل ہو جائے اور اس کے لئے وقت درکار ہو گا اور اس غرض سے ریاستی شعور اور اثر و رسوخ دونوں کو ایک مکمل نظام کے تحت لانا ہو گا اس راستے کی بازگشت کارنوالس کے نظریات کے ساتھ بھی ہم آہنگ دکھائی دیتی ہے اس نے قانون کی حکمرانی کی بنیاد پر ممتاز زعماء کی متبادل مدد سے حکومت کی کوششوں کی حمایت کی۔ دراصل قبائلی علاقوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے یہ درمیانی راستہ ہی جو کہ FCR میں تبدیلیوں کے لحاظ سے ضروری ہے اور مکمل قانونی عملداری کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اور اس سے حکومت کے بے لاگ اختیارات کی طاقت کو کم کرنے میں مدد ملے گی اور قبائلی زعما کو یا مَلکوں کو بھی یہ استحقاق حاصل ہو گا کہ جن کی مدد سے حکومت پولیس کے اختیارات اور دوسرے اقتصادی امور سے بااحسن نمٹ سکے گی مذکورہ بالا طریقہ کار سے دھیرے دھیرے ریاستی اختیارات کو مضبوط بنانا ہو گا اور یوں مذہبی عناصر کے حکومت میں عمل دخل کو کم کیا جا سکے گا۔

ان تمام اقدامات کے لئے ضروری ہے کہ حکومت بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرے، تمام ریاستی قانونی مشینری کو ضابطوں کے تحت استعمال کرے اس سے یقینا تعمیری اقتصادی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ مگر ادارے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی جرأت کریں۔ اور اس کے علاوہ متنازعہ عائلی قوانین کو عارضی طور پر قاضی عدالتوں یا غیر مذہبی مقامی اداروں کے سپرد کر دیں۔ قبائلی مَلک ایک مرتبہ ان اعلیٰ معیاروں پر پورا اتریں گے تو یقینا قانون کے دائرے کے اندر مضبوط ہوتے جائیں گے۔

اس نظام کو نافذ العمل کرنے کے متعدد راستے ہیں FCR کاقانون اپنے موجود ڈھانچے میںرہ کر ہی قبائلی زعماء کے انتخاب کی راہ ہموار کرتا ہے جسے مکمل قانونی تحفظ حاصل ہے اور اختیارات بھی تفویض کیے جا سکتے ہیں یا دوسرے متبادل طریقے میں ریاست ایجنسی کونسل کے ادارے کو بھی استعمال کر سکتی ہے جو کہ مقامی حکومتوں کے 2004ء کے قانون کے تحت اپنا وجود رکھتی ہے لیکن یہ اس وقت قانون کی پاسداری کی بجائے کچھ متنازعہ سرگرمیوں میں الجھی ہوئی ہے۔ لیکن نئے منتخب شدہ قبائلی زعماء کو قانونی اختیارات تفویض کیے جائیں تاکہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں امن و امان کے حوالے سے ممکنہ قدم اٹھائیں اس نظام کی خصوصیات کو ایک طرف رکھتے ہوئے دیکھنا یہ ضروری ہے کہ یہ لوگ اپنے موجودہ قبائلی نظام میں کس اثر و رسوخ کے حامل ہیں تاکہ ان کی قابلیت کو بروئے کار لا کر قانون کی عملداری کو ممکن بنایا جا سکے۔

اس عبوری ریاستی تبدیلی کا یہ فائدہ ہو گا کہ آہستہ آہستہ حکومتی قانونی عملداری قائم ہو جائے گی اور ثالثی اقدامات کو تحفظ بھی حاصل ہو گا کیونکہ اس نظام کی جڑیں روایتی رسم و رواج کی رُو سے قبائلی علاقوں میں خاصی گہری ہیں۔ اس طرح فاٹا میں قانونی عملداری ایک ایسی بنیاد بھی فراہم کرے گی جس سے ریاست کو وہ اختیارات حاصل ہو جائیں گے کہ وہ قبائلی علاقوں کے معاملات میں براہِ راست مداخلت کر سکے گی اور اس طرح گورنمنٹ اپنی اصلاحاتی رویوں اور امن و امان کے حوالے سے مسائل سے دوچار نہ ہو گی۔ اس عبوری نظام کے کچھ نقصانات بھی ہیں اگر انتظامی ڈھانچے میں خامیاں ہوں یعنی قبائلی عمائیدین میں شخصی خامیاں پائی جائیں یا وہ قابلیت اور اہلیت نہ رکھتے ہوں یا سیاسی حلقوں اور سماجی طبقوں میں ان کی حیثیت محض واجبی سی ہو تو اس سے خدمات اور ترقیاتی کاموں پر بُرے اثرات پڑنے کا احتمال ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی یہ راستہ پرانے FCR کے قانونی نظام کے درمیان ایک پل کا کام دے سکتا ہے۔ اس طرح جدت اور جواب دہی کا پہلو شامل کر کے اس نظام میں مزید سدھار لانے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔

مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرا زاویہ نگاہ بھی ہے اس میں قبائلی ایجنسیوں میں متبادل یا ثالث کی عدم موجودگی میں حکومت کرنے کا جواز فراہم کیا جا سکتا ہے یہ نظام منرو کے مدراسی طرزِ حکومت سے کچھ میل کھاتا نظر آتا ہے جس کی رو سے مقامی اداروں کی کوششوں پر زیادہ انحصار کیا جاتا ہے اگر اسے پشتون قبائلی علاقوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ حکومت رفتہ رفتہ قبائلی مَلکوں پر اپنا بھروسہ ختم کر دے اور پولیٹیکل ایجنٹ جو نیچے سے اوپر تک سماجی انصاف کے لئے درمیانہ وسیلہ ہوتا ہے کے کردار کو اُبھارا جائے اور اس تمام صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے روایتی جرگے کو حرکت میں لانا ہو گا یا ایجنسی کی کونسلوں کو پھیلانا ہو گا اور انہیں مقامی حکومتوں کے نظام کی طرح یک شخصی منتظم کی بجائے تین ناظمین کے ماتحت لانا ہو گایوں بندوبستی علاقوں میں بھی بہتر تبدیلی کی نوید سنی جا سکتی ہے۔ یہ نظام اگر بندوبستی علاقے میں زور پکڑ جائے تو نسبتاً مضبوط بنیادوں پر استوار ہو گا اس طرح ممکن ہے کہ پولیٹیکل ایجنٹ کے خودمختیارانہ، عدالتی اور اقتصادی طاقت کے زعم کو قانون کے طابع کیا جا سکے گا اس کا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں کہ ریاست مقامی طور پر موجود زعماء کو یکسر نظرانداز کر دے گی یا FCR کے پرانے قوانین بحال رکھے گی دراصل اس طریقہ کار سے ریاست کویہ استحقاق حاصل ہو گا جس سے وہ مقامی طور پر فیصلہ کن جماعت سامنے لائے گی جو کہ قبائلی علاقوں میں بسنے والے لوگوں سے براہِ راست تعلقات قائم کرے گی اور صوابدیدی اختیارات کی موجودگی کی وجہ سے ایک مضبوط انتظامیہ کی صورت میں موجود رہے گی۔

اس طرح ایک فائدہ تو واضح نظر آ رہا ہے کہ اختیارات میں خلاء پیدا کیے بغیر مقامی مَلک علیحدہ ہو جائیں گے اور پولیٹیکل ایجنٹ کے اختیارات ایک حکومتی چھتری کے نیچے پنپنے والی سیاسی جماعتوں میں عود کر آئیں گے یہ جماعت خواہ جرگے کی شکل میں موجود ہو یا منتخب نمائندوں کی صورت میں سامنے آئیں۔ اس نظام کا بنیادی فائدہ یہی ہے کہ مقامی اداروں کی حکومت تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے اور مقامی آبادیوں میں تہذیب و تمدن نشونما پانے لگی گی۔ یہ ادارے سماجی کاموں کے علاوہ بیرونی امداد کے پروگراموں میں کافی ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن اس نظام کی راہ میں بھی چند بنیادی مشکلات حائل ہیں۔ ان مسائل میں پولیٹیکل ایجنٹ کی ذاتی پسند اور ناپسند کا عنصر شامل ہوتا ہے جو بے جا مداخلت کا باعث بنتا ہے اور خصوصاً بنیادی حقوق کے حوالے سے قانون کا ارتکاز مسائل پیدا کرتا ہے اس نظام میں ابتدائی تخمینہ زیادہ آتا ہے اور پولیٹیکل ایجنٹ بحیثیت منتظمِ اعلیٰ اس مقام پر فائز ہوتا ہے کہ عوامی نوکر شاہی کا وجود عمل میں لائے اور رائج الوقت قوانین کی موجودگی کے باوجود اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال بے دردی سے کرے۔

مالا کنڈ کی طرح متبادل ریاستیں
حالانکہ ان تمام نظاموں میں کچھ نہ کچھ تکنیکی خامیاں موجود ہیں مگر پھر بھی اصلاحات کا کوئی نہ کوئی پہلو نکلتا رہتا ہے صوبہ سرحد میں مالاکنڈ کا ضلع اس سلسلے کی بہترین مثال ہے۔ مالاکنڈ کی ایک طویل اور پرپیچ تاریخ رہی ہے پہلے پہل یہ FCRکے تحت کام کرتی تھی مگر 1970ء میں اسے صوبہ سرحد کی حکومت کے ماتحت کر دیا گیا جس کے تحت نئی عدالتوں کا نظام وجود میں آیا اور ڈسٹرکٹ کونسل کا انتخاب بھی ہوا بعد ازاں 1994ء میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس نظام میں مزید تبدیلیاں متعارف ہوئیں جس نے (PATA) پاٹا یعنی صوبائی قبائلی انتظامی ریگولیشن کی حیثیت مکمل تبدیل کر کے رکھ دی جس سے تحریک نفاذِ شریعتِ محمدی (TNSM) کی تحریک ابھری اور اس نے سختی سے اسلامی قوانین کو نافذ کرنے پر زور دیا اور حکومت کو اس بات پر راضی کر لیا کہ PATA میں مالاکنڈ کو شریعت کے قوانین کے تحت عملداری کو ممکن بنانا ہو گا۔

مالاکنڈ مسلسل 30سال تک ایک عمل سے دوسرے عمل تک اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتا رہا لیکن اس کا زیادہ وقت دوسرے نظام کے ماتحت رہا جس کا تفصیلی ذکر اوپر کیا جا چکا ہے۔ اور اس دور میں مضبوط پولیٹیکل ایجنٹ اپنے صوابدیدی اختیارات کے ساتھ کارفرما نظر آتا ہے اس وقت عدالتیں اور منتخب ادارے بھی موجود تھے مگر پھر بھی یہ نظام کئی مسائل سے دوچار ہونے کے باوجود 2001ء کی صدارتی اصلاحات تک ٹھیک کام کرتا رہا۔ 2001ء کی اصلاحات نے مقامی منتخب نمائندوں کو طاقت ور بنا دیا اور پولیٹیکل ایجنٹ کا کردار پس منظر میں چلا گیا جو اب محض ڈسٹرکٹ کورآرڈینیٹر کہلاتا تھا۔

مالا کنڈ دوغلی حکمرانی کے تحت کام کرتا رہا مثلاً پیشہ ور پولیس کی بجائے ''لیوی'' کے جوانوں کی تعیناتی اس کی واضح مثال تھی لیکن 2001ء کی اصلاحات نے خاصا بگاڑ پیدا کیا اس نے سرکاری حکام سے تمام اختیارات سلب کر لیے اور جمہوری راستے سے آنے والے سیاسی جماعتوں کے ارباب اختیار زیادہ مضبوط ہوتے گئے ان اصلاحات نے حکومتی عملداری کو کمزور کر دیا اور بنیاد پرست اسلامی گروپ یا اسلام پسند سیاسی لوگ غالب آ گئے اس طرح پولیٹیکل ایجنٹ کے اختیارات محدود ہونے سے ایسا خلاء پیدا ہو گیا جیسے سیاسی عناصر نہ بھر سکے بندوبستی علاقوں میں بھی LGO کے قوانین کے نفاذ کے بعد کچھ ایسا ہی ماحول دیکھنے میں آیا حالانکہ مالاکنڈ کے واقعات نے مقامی حکومتوں کے حوالے سے یہ واضح پیغام دیا تھا کہ انتہائی اختیارات اور مرکزی کنٹرول ریاست کے پاس رہنا ضروری ہے۔

حکومت کے ترقیاتی کاموں کے حوالے سے روابط
فاٹا میں حکومتی حوالے کی بحث میں ایک اور پہلو کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے یعنی جب بھی قبائلی علاقوں میں تعمیراتی اصلاحات کا ذکر ہوتا ہے تو وہاں ایک بنیادی سوال کو ہمیشہ نظرانداز کر دیا جاتا ہے یعنی حکومتی اصلاحاتی پروگرام اور ترقیاتی پالیسی کے باہم اتصال سے اب تک کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں بندوبستی علاقوں میں کسی حد تک اس سوال کا جواب یا حل جاننے کی کوشش بھی کی گئی مگر فاٹا میں اسے یکسر نظرانداز کر دیا گیا نہ جانے کن خاص مقاصد کے تحت گذشتہ سالوں میں فاٹا میں ترقیاتی منصوبہ بندی کھٹائی کا شکار رہی۔ فاٹا کو سہارا دینے کے لئے ترقیاتی منصوبہ بندی تیار کی گئی اور ریاستی حقوق کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ترقیاتی حدود کا تعین ہوا جس پر مختلف اعتراضات بھی اٹھائے گئے مگر اس کا کچھ نتیجہ نہ برآمد ہوا۔

اس کے باوجود امریکی پالیسی سازوں نے پانچ سال کے لئے بڑی دیدہ دلیری سے فاٹا میں 750 ملین ڈالر کا منصوبہ تیار کیا انہوں نے حکومتی اصلاحات کو بھی نظرانداز کرتے ہوئے فروری 2008ء کے FCR پر حکومت پاکستان کی سردمہری بھی برداشت کی۔

ایک مکمل نظر رکھنے والی مضبوط حکومت کی غیرموجودگی میں فاٹا کے لئے ترقیاتی پلان چاہے وہ امریکہ کی طرف سے ہو یا دوسرے مالیاتی اداروں کی سالانہ امداد کا نتیجہ ہو یہ محض قبائلی علاقوں میں حقیقی حکومت اور امن سے مشروط ہے جیسا کہ موجودہ سالوں میں فاٹا میں امداد کے مختلف اثرات مرتب ہوئے چاہے وہ پرسکون دور تھا یا بے چینی کا پرآشوب موجودہ زمانہ، یہ دیکھا گیا کہ بیک وقت حکومتی ریاست کا وجود اور امداد کے پروگرام ساتھ ساتھ چلنے مشکل ثابت ہوئے کیونکہ حکومتی ترقیاتی پروگرام ''مَلک حضرات'' کے بل بوتے پر چلتے تھے اور ان کے کندھوں پر مکمل سیاسی ذمہ داری کا بوجھ ہوتا تھا اور ان ''مَلک'' کا شفاف اور صاف کردار کا حامل ہونا ضروری خیال کیا جاتا تھا اور امداد کے پروگراموں میں دیگر ''مَلک'' کی طرح قبائلی عمائیدین کو بھی منتخب کیا گیا تاکہ امداد کی ترسیل ٹھیک طریقے سے ہو اس طرح کوئی سوچ سکتا ہے کہ ریاست کے مقامی حکومتوں کے نظام کی موجودگی میں امداد کی ترسیل ممکن ہو گی اور ترقیاتی پروگرام نئے متحرک نظاموں کی مدد سے بہتر طور پر کام کر سکے گا مگر پھر بھی اس طرح کی باہمی کوششیں رفتہ رفتہ آزمائی جا سکتی ہیں اور سیاسی طور پر مضبوط قبائلی ایجنسیوں کو بیچ میں لا کر قبائلیوں کی زندگی میں بہتر تبدیلی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔

بندوبستی علاقوں میں اصلاحات
اب تک قبائلی علاقوں پر انتظامی امور، حکومتی تبدیلیاں اور امن و امان کے حوالے سے سیر حاصل بحث ہو چکی ہے۔ دوسری جانب وہ اصلاحی تبدیلیوں کا نیا پروگرام ہے جس نے 2001ء کی مقامی حکومتوں کی صورت میں کئی بنیادی اور سیاسی وجوہات کو جنم دیا ہے جس کی وجہ سے کئی ابہام پائے جاتے ہیں۔ اور معاشرتی توازن نے لڑکھڑانہ شروع کر دیا ہے۔ ایک تو اس سے پولیس اور سیاست دانوں میں دوریاں پیدا ہوئیں حالانکہ برطانوی حکومت کا ورثے میں ملا ہوا ڈپٹی کمشنری نظام کا استحاقی مواد موجود تھا جس میں متبادل اتھارٹیز کا وجود بھی تسلیم کیا گیا تھا اور LGO کے تحت بھی ثالثی کے مواقع مہیا تھے مگر اس کے باوجود مقامی حکومتوں کے نئے نظام کے متعارف ہونے سے منتخب شدہ افراد کو جو طاقت ودیعت کی گئی اس نے انہیں ریاست کے مقابل لاکھڑا کیا۔

اس طرح دو متوازی حکومتوں کے وجود میں آنے سے مضبوط سماجی اور سیاسی استحقام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہونے لگیں اور خصوصاً صوبہ سرحد کئی مسائل میں گھر گیا اور یہ وہاں ایک ایسی انتظامیہ کی بنیاد کا باعث ہوا جو قدامت پرست اور مختلف الخیال نظریات کا مجموعہ تھا۔ اس تبدیل شدہ صورتِ حال میں دونوں اتھارٹیز یعنی ضلعی افسران اور ان کی طاقت جبکہ حکومتی آلہ کار یعنی منتخب کونسلیں اور ان کی فلاحی ترجیحات ایک ایسی صورت میں سامنے آئیں جس سے حکومت انتشار کا شکار ہوئی ا ور کئی قابلِ ذکر مثالیں ایسی ہیں جس میں امن و امان کے حوالے سے بھی کئی سنجیدہ مسائل نے سر اٹھایا۔ ان مسائل کے پھیلاؤ سے گہرے اثرات مرتب ہوئے حکومت کے منتخب نمائندے یعنی منتظمین سیاسی ناپختگی کا شکار تھے وہ اپنے آپ کو طاقت کے استعمال میں جوا بدہی سے مبرا سمجھتے تھے کیونکہ سیاسی طور پر بے اثر DCOs کی طاقت کمزور ہو چکی تھی اور پولیس کو بھی محدود کر دیا گیا تھا جس سے پولیس کی براہِ راست قانونی طاقت کے استعمال کی استعداد کار متاثر ہوئی اور وہ آزادانہ اور مضبوط فیصلوں سے یکسر محروم ہو گئی۔LGO کی ایک مضحکہ خیز صورت یہ بھی سامنے آئی کہ صوبائی حکومت کی نسبت طاقت اور اختیارات کا ارتکاز نیچے کی سمت اس سے پیشتر کبھی نہیں ہوا تھا۔

تفویض شدہ اختیارات اور غیرمستحکم حالات
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مقامی حکومتوں کے وجود میں آنے سے ہی طالبان جیسے عناصر کا سرعت سے پھیلاؤ ہوا اور انہوں نے 2006ء اور 2007ء تک صوبہ سرحد کے بندوبستی علاقوں میں زور پکڑا صوبہ سرحد کے دور دراز علاقوں سمیت خصوصاً جنوب میں بنوں سے لے کر پشتونوں کے مرکز چارسدہ، مردان اور شمال میں سوات کی وادی میں اس نظام نے حکومتی عملداری کے لئے خطرناک مسائل پیدا کئے۔ مزید براں اقلیتوں اور خواتین کے حوالے سے متضاد پہلو سامنے آئے۔ سیکورٹی کے حوالے سے بھی اختیارات کے بے جا ارتکاز کی وجہ سے کئی منفی مضمرات سامنے آئے۔

سب سے پہلے اس نظام کی خامی یہ تھی کہ اس نے حکومت کے سنجیدہ معاملات کو بروقت نمٹانے کی صلاحیت کو متاثر کیا۔ اور طاقت کے نچلی سطح تک کے ارتکاز نے حکومتی سطح کی قوت کو کمزور کر دیا حالانکہ کبھی خراب حالات کے پیدا ہوتے ہی ڈپٹی کمشنر فوراً ہی اپنے اختیارات استعمال کر کے صورت حال کنٹرول کر لیتے تھے اور مزید قانون شکنی کی جرأت نہیں ہوتی تھی اور برائی اپنی جڑیں نہیں پھیلا سکتی تھی لیکن نئے نظام کے تحت DCOs محض سفارشات ہی مرتب کر سکتے تھے جسے ہوم سیکرٹری کی سطح تک نظرانداز کر کے مقامی حکومتی نمائندوں کو اہمیت دے دی جاتی اس سے حکومتی استعداد کار روزبروز کمزور ہوتی گئی DCO کو ضلعی ناظم کے مقابلے میں اس سطح تک گرا دیا گیا کہ ایک دفعہ ایک اہلکار نے شکایت کی کہ وہ اب محض ڈاکخانہ بن کر رہ گیا ہے۔ ایک عمومی سطح تک شاید یہ نظریہ بھی قائم ہو کہ شروع شروع میں جب نیا نظام متعارف ہوتا ہے تو اختیارات کی تقسیم کا ابتدائی نتیجہ یہی نکلتا ہے جس کی وجہ سے منفی اثرات کسی حد تک قبول کرنے پڑتے ہیں اور پھر وقت گذرنے کے ساتھ حکومت اور سماجی حالات معمول پر آ جاتے ہیں لیکن حقیقت میں اگر زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر بات کی جائے تو یقینا اس نظام کی وجہ سے ہی بجائے بنیادی تبدیلیاں متعارف ہونے کے حکومتی سا لمیت کے حوالے سے ریاست کی اتھارٹی کے لئے مختلف چیلنجز سامنے آئے۔ اس پہلو کو نظرانداز کرنا بہت بڑی غلطی تھی کیونکہ مقامی ادارے حکومت کی رٹ کو مضبوط کرنے کے لئے ہراول دستے کا کام دیتے ہیں اور غیرقانونی سرگرمیوں کے خلاف پہلا محاذ بنتے ہیں حکومتی اداروں کے بروقت حرکت و عمل اور نقل و حمل کے فقدان کی وجہ سے ہی وادی سوات میں خاص طور پر باغیانہ سرگرمیوں کو ہوا ملی جنہوں نے موقع ملتے ہی ایک بتدریج عمل کے ذریعے نومبر 2007ء میں تھانے اور اہم سڑکیں اپنے قبضے میں لے لیے۔ اور حکومت کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ حکومتی اتھارٹی کو ثابت اور قائم کرنے کے لئے فوجی اور نیم فوجی دستوں کو میدان میں اتار لے۔

دوسرے نمبر پر ان اختیارات میں اصلاحات کے نظام نے پولیس کی اہم ذمہ داریوں کو سیاست کی نظر کر دیا۔ منتخب شدہ ناظمین کو امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی لیکن وہ اپنی اتھارٹی کو استعمال کرنے سے کترانے کی وجہ سے غیرمقبول ہو گئے خصوصاً مقامی منتخب نمائندوں کی مذہبی جماعتوں سے سیاسی وابستگی نے بھی اپنا کام دکھایا مثلاً جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے اسلام سے تعلقات کی وجہ سے باغی عناصر سے نبرد آزما ہونے کے معاملے میں ہمیشہ غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا کیونکہ پولیس کی تعیناتی جیسے اختیارات بھی انھی نمائندوں کے ہاتھ میں تھے اور اکثر یوں ہوا کہ انہوں نے اپنے مذہبی ہمدردانہ رویوں کی وجہ سے کوئی قدم نہ اٹھایا حالانکہ کئی مرتبہ قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ایسے اقدامات کی اشد ضرورت تھی ناظمین کے حوالے سے اس قسم کی شکایت روزانہ موصول ہو رہی تھیں بجائے اس کے کہ وہ انتظامی نقطۂ نظر سے احتجاجی جلوسوں کی نگرانی کرتے اکثر ایسے مواقع پر قیادت کرتے ہوئے پائے گئے طاقت کے اس نچلی سطح تک کے ارتکاز نے اس قسم کی متنازعہ سرگرمیوں کو ابھارا اور ایک ایسا نظام یا ضابطہ سامنے آیا جس سے ضلعی افسران پولیس کی طاقت سے عوام کی حفاظت کرنے میں یکسر ناکام ہو گئے۔ اکثر ڈپٹی کمشنر ایسے مواقع پر متبادل منتظم کے طور پر بیچ میں آ جاتے تھے لیکن LGO کے نفاذ کے بعد اس نظام کا شیرازہ بکھر گیا۔ اب پولیس کی دوبارہ صف بندی سے ہی حکومتی مفادات کی نگہداشت ممکن ہو گی۔

تیسرے نمبر پر 2001ء کی اصلاحات سے بندوبستی اور قبائلی علاقوں کے درمیان اور سرحدی پٹی کے ساتھ ساتھ رہنے والے مختلف طبقات پر بھی حکومتی طاقت کے حوالے سے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ حالانکہ ان اصلاحات سے پہلے پشاور میں محض ہوم سیکرٹری ہی حکومت اور بندوبستی علاقوں، فاٹا اور پاٹا کے درمیان رابطے کا کام انجام دینے کے لئے کافی سمجھا جاتا تھا۔ 2002ء میں LGO کے نافذ ہونے کے بعد یہ رابطہ ٹوٹ گیا اور حکومت نے اپنے افسران کو فاٹا سے ہٹا کر پشاور میں نئے سکریٹریٹ میں تعینات کر دیا حالانکہ فاٹا سیکریٹریٹ اس لئے بنایا گیا تھا کہ وہاں سے قبائلی علاقوں میں سیکورٹی، امن و امان اور ترقیاتی کاموں پر بہتر انداز میں نظر رکھی جا سکے اس طرح اس نظام کی تبدیلی سے گورنمنٹ باغیانہ سرگرمیوں پر ہاتھ ڈالنے سے معذور ہو گئی حالانکہ ایسے سماج دشمن عناصر بندوبستی اور قبائلی علاقوں میں آزادانہ گھوم پھر رہے تھے۔ مثلاً صوبہ سرحد کے جنوبی علاقے جیسے بنوں شہر میں طالبان کی نئی نئی تنظیمیں وجود میں آ رہی تھیں اور انہیں LGO کے نافذ ہونے کے بعد اور مرکزی اسلامی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل رہی اس طرح سرحدی علاقوں کے ساتھ ساتھ بنوں کا دفاعی علاقہ جو کہ PATA کے تحت کام کرتا تھا DCOs کے ماتحت تھا۔ شمالی وزیرستان ایجنسی جو کہ فاٹا کے تحت تھی یہ تینوں ہی بری طرح متاثر ہوئے۔ اس طرح اتھارٹی اور حکومتی عملداری کے فقدان سے مقامی سماج دشمن عناصر کو پناہ گاہیں میسر آ گئیں اور یہ لوگ پشاور کے شمال سے لے کر جنوب میں ڈیرہ اسمعیل خان تک پھیل گئے۔

حکومتی عملداری کی ضرورت
مقامی نمائندوں تک اس طاقت کی تقسیم نے کئی اجتماعی مسائل کو جنم دیا اور یقینا حکومت نے پرانے متبادل نظام کی روح کو سمجھے بغیر جلد بازی میں یہ قدم اٹھایا تھا اس نئے اصلاحاتی نظام کو مذکورہ بالا بتائے گئے ضابطوں کی روشنی میں ترتیب دینا چاہیے تھا ضلعی سطح پر حکومتی طاقت کی تقسیم کے نظریے سے لے کر ڈپٹی کمشنری کے سلسلے تک کے ارتقاء کو مدنظر رکھنا ضروری تھا مقامی نمائندگی کے نظام کے تحت آنے والے نمائندوں کو ڈپٹی کمشنر کی استعداد قوت سے کام لینا چاہیے تھا کیونکہ وہ سماجی اور سیاسی حالات کو زمینی حقائق کے مطابق جانچنے کا وسیع تجربہ رکھتا تھا۔

بعض حلقے حکومتی اتھارٹی کے اس نظام کی نچلی سطح تک منتقلی کی تعریف میں بات کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اس سے خدمات کی ترسیل میں بہتری آئی ہے لیکن دوسری جانب ایسی رائے رکھنے والوں کا حلقہ پھیلتا جا رہا ہے جو یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ابتدائی انفرادی دورِ حکومت میں زیادہ فوائد تھے جس کی رو سے کمشنر یقینا ان فیصلہ کن اختیارات کا مجاز تھا کہ عمومی ضابطوں کو خاطر میں لائے بغیر بھی کوئی قدم اٹھا سکتا تھا۔ صوبہ سرحد میں مقامی حکومتی نظام کو انتہائی قریب سے دیکھنے والوں کی یہ تجویز سامنے آئی ہے کہ اسے تبدیل کر کے دوبارہ پرانے سلسلے کو بحال کیا جائے کیونکہ درمیانی متبادل سلسلے سے ہی تمدنی ثقافتی خلا کو پر کیا جا سکتا ہے اور ایسی صورت میں سماج دشمنوں سے نمٹنے کی فوری حکمت عملی بھی کامیاب ہو گی۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام آباد اور پشاور کی حکومتوں نے LGO نظام کی 2002ء سے لے کر اب تک کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے بتدریج تبدیلیوں کا عندیہ دیا ہے اور ایسی تجاویز پر غور و فکر ہو رہا ہے جس سے اس نظام کی خامیوں کو دور کر کے اصل اور حقیقی ساخت سامنے لائی جائے جنوری 2008ء میں صوبہ سرحد کے گورنر اویس احمد غنی نے ریجنل کورآرڈینیشن آفیسرز (RCOs) بنانے کا اعلان کیا جن کو یہ ذمہ داری تفویض کی گئی کہ وہ قبائلی اور بندو بستی علاقوں میں ریاستی عملداری اور امن و امان کو ہر قیمت پر ممکن بنائیں دو مہینوں کے بعد گورنر نے ایک اوراہم قدم اٹھایا جس میں (CCP) یعنی کوڈ آف کریمینل پروسیجر میں تبدیلیاں متعارف کرائیں جس کے تحت ناظمین سے بہت سے عہدے واپس لے کر DCOs کے ماتحت کر دئیے مزیدبراں مرکز اور صوبہ سرحد کی مخلوط حکومتوں نے بھی LGO کے نظام میں مزید تبدیلیاں لانے کا فیصلہ کیا ہے جس کی سیاسی اور انتظامی دونوں وجوہات ہیں۔

صوبہ سرحد میں مقامی حکومتوں نے نظام کے ڈھانچے میں کمزوریوں کی وجہ سے 2001ء سے ہی سیاسی عدم استحقام جیسے بنیادی مسئلے کو جنم دیا ہے لہٰذا اس میں اصلاحات کی اشد ضرورت تھی لیکن اس دلیل کو بھی ہرگز غلط انداز سے نہیں لینا چاہیے کہ مرکز کی جانب طاقت کا ارتکاز کوئی فوری بہتری لائے گا یا یہ غیرجمہوری اقدام ہو گا یا پھر خدانخواستہ کوئی آمرانہ حکومتی عملداری قائم ہو جائے گی۔ اگر بنیادی سطح پر متوازی اور وسیع الخیال نمائندوں کو میدان میں لایا جائے اور قانون و انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آزادیاں دی جائیں تو اس طرح ایک مضبوط، دیرپا اور قانونی حکومت کی راہ ہموار ہو گی۔ اس طرح حالات بھی مناسب ڈگر پر آ جائیں گے اور یہ اصلاحات حقیقی معنوں میں حکومتی عملداری کو قائم رکھنے کا باعث بن سکتی ہیں۔

حتمی اقدامات
موجودہ جنوبی ایشیا میں مقامی حکومتوں کے حوالے سے جدید نظریات کا تانا بانا انیسویں صدی کے اواخر کے افادیت پسندوں کے نظریات سے جا ملتا ہے۔ اور یہ کئی لھاظ سے برطانوی عہد کے حکومتی منصوبوں سے بھی مماثلت رکھتا ہے جس کی بنیاد مقامی حکومتوں کی زیادہ معیاری، منتخب اور سماجی تقاضوں پر پورا اترنے والے اصولوں پر رکھی گئی۔ جبکہ کلاسیکل افادیت پسندی کو جدید فلاسفر شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک ضرررساں منصوبہ ہے اور محض ایک ثقافتی مظاہرہ ہے۔ لیکن حقیقت میں قانون کی حکمرانی اور طاقت کی تقسیم ہی پر جدید حکومتیں قائم ہیں اور پاکستان کے بندوبستی علاقوں میں اسی نظریے کے تحت اصلاحات عمل میں لائی گئی تھیں اور اس پر سب کو یقین ہے کہ حکومتی عملداری کے لئے جدید ترقی یافتہ نظام میں ہی ملکوں کی بقا مضمر ہے اور شاید ہی کوئی دقیانوسی نقاد ایسا ہو جو کہ منرو کی روایات کا امین ہو جس نے کبھی یہ کہا تھا کہ ہماری حکومت کی آواز بدلتے نظریات پر قائم ہے۔

ایک نئی اور جدید حکومت کی ترجیحات اور حدود کیا ہونی چاہیے اس پر سیرحاصل بحث ہو چکی ہے پاکستان جیسے ملک میںبھی اصلاحات ترتیب دیتے وقت برطانوی دور کا ڈیزائن کردہ وہ نظام جو جغرافیائی اور تاریخی حقائق کی بنیاد پر مختلف عناصر کی نمائندگی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے برصغیر میں رائج کیا گیا تھا کو مدنظر رکھنا ہو گا۔ سب سے پہلے حکومتی معمار ایک ایسا ڈھانچہ تیار کریں جو کہ جدید اصلاحاتی پروگراموں کا تجزیہ کرے اور آئینی حدود کو پیشِ نظر رکھ کر نافذ العمل ہو اور اس میں قانونی پہلوؤں کو سمجھ کر اقتدار میں بتدریج نچلی سطح تک کی نمائندگی شامل کی جائے۔ دوسرے نمبر پر حکومتی طرز کے حوالے سے اختلافات کو اس بات کا متقاضی بنایا جائے کہ تغیر پذیر حالات کے تحت مفید قانونی تبدیلیاں ضروری ہیں اور انفرادی یا متبادل حکومت میں یہ عوامل ڈھانچے کو مضبوط بناتے ہیں اور اس سے عوام سے براہِ راست تعلقات میں اضافہ ہو گا یہ درمیانی یا متبادل حکومتیں صوبہ سرحد میں زیادہ توجہ لیں گی کیونکہ اس غیریقینی صورت حال میں موجودہ اصلاحات نے حکومت کے لئے سیاسی مشکلات کا انبار لگا رکھا ہے۔

بندوبستی علاقوں میں نئے طالبان اور دیگر مذہبی سیاسی تحریکوں سے نبردآزما ہونے کے لئے مقامی حکومتی ڈھانچے کو صحیح سمت میں کامیاب بنانے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کی حکومت غیرمستحکم ہونے سے بچ سکے اور قبائلی علاقوں میں پرانے FCR کے نظام میں بھی نئے انداز اور جدید اصلاحات روشناس کرانا ہوں گی تاکہ جمہوری رویے بھی مضبوط ہوں اور باغیوں سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت بھی اجاگر ہو۔

فاٹا میں بھی ایسا ہی اصلاحی ڈھانچہ تجویز کیا جا رہا ہے جو کہ زیربحث تمام مسائل کی جانب مثبت پیش رفت ثابت ہو گا۔

پاکستان کی طرح دیگر جدید ریاستیں بھی مقامی حکومتوں کی قانونی عملداری اور شہری نمائندوں کو طاقت کی منتقلی جیسے قوانین کے حوالے سے مسلسل دباؤ کا شکار رہی ہیں دراصل یہ اصلاحات عملی حوالے سے انتہائی اہم ہیں اور ان کی مدد سے ہی شخصی آزادیوں کے دائرہ کار کو پھیلانا ممکن ہے اور شہریوں کی ضروریات کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے اگر مضبوط، متحرک اور مستحکم حکومت قائم کرنی ہے تو اس کے لئے ریاست کو محتاط اور بتدریج اصلاحاتی پروگرام ترتیب دینا ہو گا جدید اصلاحات پسندوں کو تھامس منرو کے حکومتی استحکام کے مختلف ضابطوں پر تحفظات اور حفاظتی تدابیر کا نوٹس بھی لینا ہو گا وہ خبردار کرتا ہے کہ وہ حکومت جلد بے اثر ہو جاتی ہے جو عوام کے حالات و واقعات کو مدنظر رکھ کر قانون سازی نہیں کرتی۔

(انگریزی سے ترجمہ: مالک اشتر)