برطانیہ میں پاکستانیوں کی آمد کا آغاز بیسویں صدی کے وسط میں ہوا۔ دوسری جنگِ عظیم اور صنعتی انقلاب کے بعد جب برطانیہ کو افرادی قوت کی کمی کا خدشہ درپیش تھا تو اس نے نئے آزاد ہونے والے خاص طور پر دولتِ مشترکہ کے رکن ممالک کے افراد کو برطانیہ میں روزگار کے مواقع تلاش کرنے کی ترغیب دی۔ پاکستان نے بھی اپنے شہریوں کی اس ضمن میں حوصلہ افزائی کی۔ انیس سو پچاس کی دہائی میں ہزاروں پاکستانی معاشی مواقع کی تلاش میں برطانیہ پہنچے۔ |
|
|
|
مسعود اقبال جنجوعہ برطانیہ کے شہر ہیلی فیکس میں ''یوکے امیگریشن ہیلپ'' کے نام سے امیگریشن سے متعلقہ امور پر مشاورت فراہم کرتے ہیں۔ انھوں نے اس حوالے سے گذشتہ 20 سالوں کے دوران لاتعداد کیسوں کو ڈیل کیا ہے۔ جس کی بنا پر انھیں تارکین وطن کے مسائل کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ مسعود اقبال جنجوعہ امیگریشن لائر کے علاوہ برطانیہ کے چینل ڈی ایم ڈیجیٹل سے سیاسی و سماجی موضوعات پر ہفتہ وار پروگرام بھی کرتے ہیں۔ |
|
|
|
صحافت جس تیزی کے ساتھ پھیلی اس رفتار سے صحافیوں کی تربیت نہیں ہوئی۔ کچھ یونیورسٹیاں صحافت کا جو نصاب پڑھا رہی ہیں وہ اُردو پریس پر تو کسی حد تک لاگو ہوتا ہے مگر انگریزی پریس پر قطعاً نہیں مگر زیادہ تر اینکر پرسنز اُردو پریس سے ہی آئے۔ پہلے مرحلے میں بڑے بڑے کالم نگاروں کو بھاری تنخواہوں پر چینلوں نے رکھ لیا۔ چونکہ اس طرف پیسہ تھا اس لئے دوسرے اور حتیٰ کہ تیسرے درجے کے کالم نگار بھی اینکر بن گئے۔ جس کا نتیجہ بسیار خرابی ہی تھا۔ |
|
|
|
احمد رشید پاکستان کے معروف مصنف اور صحافی ہیں۔ وہ گزشتہ ٢٥ سالوں سے افغانستان اور وسطی ایشیا کی کوریج کر رہے ہیں۔ اس پس منظر میں ان کی متعددتصنیفات بھی شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی نئی کتاب Descent into chaos دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں ہے۔ جس میں انہوں نے بڑے واضح انداز میں امریکہ کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ امریکہ کو افغانستان کی تعمیر نو سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ |
|
|
|