پاکستان میں حکمرانی ریاست کی نہیں مذہب کی ہے

1,187

سماجی دانشور ،قائداعظم یونیورسٹی میں سوشیالوجی شعبہ کے سربراہ ،ڈاکٹر محمد زمان سے مکالمہ

ڈاکٹر محمد زمان نے 2003میں پنجاب یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ماسٹر کیا۔جرمنی کی ایک یونیورسٹی سے سماجیات پر دسمبر 2009پی ایچ ڈی کی ڈگر ی لی۔جرمنی میں کچھ عرصہ تدریسی فرائض سرانجام دینے کے بعد ،قائداعظم یونیورسٹی آگئے۔قائداعظم یونیورسٹی میں سوشیالوجی کاکورس شروع ہوا ، ڈاکٹر زمان نے اُس کورس کو 2014ءڈیپارٹمنٹ کی شکل دی۔2014ءسے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ہیں۔

تجزیات :پاکستانی لوگ تعصب کو عزیز کیوں جانتے ہیں ؟یا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی سماج میں تعصب کے لیے بہت گنجائش موجود ہے؟

بنیادی انسانی اقدار ہمارے ہاں پڑھائی نہیں جاتیں۔نیز تنوع کو زندگی کے مختلف رنگ سے تعبیر کرکے ان کی خوبی بیان نہیں کی جاتی ۔یہاں ہمیشہ یک طرفہ دکھایا جاتا ہے ۔اس طرف جانا ہے ۔اُس طرف نہیں جانا

ڈاکٹر محمدزمان:یہ ہماری تہذیب کاحصہ ہے کہ ہمیں شروع دن سے تعصبات سیکھائے جاتے ہیں ۔ یہ اچھی چیز ہے ،یہ بری چیز ہے ،یہ اچھے انسان ہیں ،یہ برے انسان ہیں ،ہم بچے کو تجربات سے سیکھنے نہیں دیتے ،ہم پہلے ہی سی چیزوں کی درجہ بندی کردیتے ہیں ۔بنیادی انسانی اقدار ہمارے ہاں پڑھائی نہیں جاتیں۔نیز تنوع کو زندگی کے مختلف رنگ سے تعبیر کرکے ان کی خوبی بیان نہیں کی جاتی ۔یہاں ہمیشہ یک طرفہ دکھایا جاتا ہے ۔اس طرف جانا ہے ۔اُس طرف نہیں جانا۔بتایا جاتا ہے کہ سفید رنگت والے اچھے ہوتے ہیں ،اور بیچارے کالے رنگ والے، کریمیں لگا لگا کر خود کو گورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔چونکہ غیر فطری اور یک طرفہ صوررتِ حال دکھائی جاتی ہے تو ہمارے ہاںتعصب کا عنصر بڑھ چکا ہے ۔مغربی معاشروں میں بھی تعصب موجود ہے ،لیکن مَیں نے دیکھا ہے کہ وہاں تعصب کو چھپایا جاتا ہے ۔وہ تعصبات کو ظاہرکرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ہمارے ہاں تعصبات کا اظہار کرکے اس کو بہادری سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔تعصبات کا برملا اظہار کرنے والے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں سیدھی بات منہ پر کرتا ہے ،یوں تعصبات کا کھلے عام اظہار کیا جاتا ہے ۔جو اعتدال پر مبنی بات کرے ،اُس کے حوالے سے تحفظات رکھ لیے جاتے ہیں ۔جو منہ پر بات نہ کرسکے ،اُس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سچ نہیں بول سکتا۔تعصبات کا عالم یہ ہے کہ ہاتھ سے کام کرنے والے کو کمی کہا جاتا ہے ،جو ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھا ہے ،وہ صاحبِ عزت ہے ۔

ایک مغربی سوشیالوجسٹ کے مطابق ،معاشرے میں جب تبدیلی آتی ہے تو معاشرتی روّیوں میں آتی ہے ،اُس کے بعد وہ تبدیلی معاشی نظام کا حصہ بنتی ہے

تجزیات :تعصبات کی کون سی صورتیں ہیں یا یہ کن زاویوں سے پھوٹتا ہے ،اور تعصب کی سب سے خطرناک صورت کون سی ہے؟نیز پاکستانی معاشرہ میں اس کی کتنی صورتیں کارفرما ہیں ؟

ڈاکٹر محمد زمان:ایک تو سماجی تعصبات ہوتے ہیں ،جن کا اُوپر ذکر ہو چکا ۔ مَیں یہاں معاشی تعصبات کی بات کروں گا۔ دیکھیں!جو شخص دوسروں کی نسبت زیادہ آسودہ حال ہو ،اچھی آمدنی کا حامل ہو،اُس کی کمائی کا ذریعہ کچھ بھی ہو ،یہ نہیں دیکھا جاتا ۔اس کے برعکس جو کم آمدنی کا حامل ہو،اُس کی کمائی کا ذریعہ جائز ہو ،لیکن اُس کوکوئی اپنی بیٹی کارشتہ دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ رشتے کے لیے اُسی کا انتخاب کیا جاتا ہے ،جو زیادہ دولت مند ہو۔ بڑی گاڑی ،بڑا گھر دیکھا جاتا ہے ،آدمی کو نہیں دیکھا جاتا ۔یہاں معاشی پہلو کو اہمیت دی جاتی ہے لیکن بنیادی انسانی خوبیوں کو ٹھکرادیاجاتا ہے ۔ایک مغربی سوشیالوجسٹ کے مطابق ،معاشرے میں جب تبدیلی آتی ہے تو معاشرتی روّیوں میں آتی ہے ،اُس کے بعد وہ تبدیلی معاشی نظام کا حصہ بنتی ہے ۔معاشی نظام کا حصہ بن کر وہ ہمارے Subconsciousکا حصہ بن جاتی ہے ۔یعنی اُس کے نزدیک تبدیلی پہلے سماجی آتی ہے ،پھر معاشی بنتی ہے ،پھر ہمار ے کلچر کا حصہ بن جاتی ہے ،جب کلچر کا حصہ بنتی ہے تو آخرِ کار ہمارے Subconsciousکا حصہ بن جاتی ہے اور پھر ہم عمل کو دہراتے رہتے ہیں ۔ہمارے ہاں لوگ پیسے کے پیچھے بھاگتے ہیں ،پیسہ اکٹھا کرکے ،اُس کی نمائش کرتے ہیں ،اگر دولت کی نمائش نہ کی جائے تو باقی لوگ عزت نہیں کرتے ۔ یوں یہ روّیہ ہمارے کلچر کاحصہ بننا شروع ہو گیا اور جب کلچر کاحصہ بن گیا تو آخر کارمزاج کا حصہ بن گیا۔یہاں سے تضادات پیدا ہوئے اور تعصبات بھی جنم لیتے ہیں۔یہاں لسانی و مذہبی تعصبات بھی ہیں ۔فرقہ وارانہ تعصبات بھی ہیں ۔ سب سے زیادہ خطرناک تعصب معاشی ہوتا ہے ۔مغربی فلاسفی معاشیات کو تعصبات کی جڑ قرار دیتی ہے۔ معاشیات کے بعد مذہبی تعصبات آتے ہیں پھر اُس کے بعد لسانی تعصبات ہیں ۔

عدم رواداری کے فروغ کے جو پہلو ہیں ،اُن میں ہم بہت زیادہ چارج ہو چکے ہیں ۔یہاں چرچ اور ریاست والی بحث آتی ہے۔ ہمارا معاشرہ ابھی اس بحث تک ہی نہیں آیا۔ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست حکمرانی کررہی ہے مگر حقیقت میں ریاست نے حکمرانی مذہبی پلیٹ فارم کو سونپ رکھی ہے ۔ 

تجزیات :پاکستانی سیاسی جماعتوں نے تعصبات کو اُبھاردیا ہے؟

ڈاکٹر محمد زمان:پاکستان میں حقیقی معنوں میں کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے ۔ اگر نام نہاد سیاسی جماعتیں تعصبات اپنے کارکنان کے اندر پیدا نہیں کریں گی تو وہ ووٹ سے محروم رہیں گی۔ سیاسی جماعتوں کے تعصبات کی ایک شکل اُن کے بنائے گئے سلوگن سے بھی عیاں ہوتی ہے ۔ جب تک ہر جماعت اپنے کارکنان کے اندر دوسری جماعت کے خلاف تعصب پیدا نہیں کرے گی تو ،اُس کی بقا خطر ے میں رہے گی۔

تجزیات :پاکستانی معاشرے میں عدم رواداری کو فروغ دینا بہت آسان بن چکا ہے،آخر ایسا کیوں؟

ڈاکٹر محمد زمان:ایک مغربی ماہرِ سماجیات اس کے لیے ایک لفظ استعمال کرتا ہے وہ لفظ ہےEmotional Energy۔وہ کہتا ہے کہ بالفرض ہم فٹ بال اسٹیڈیم میں بیٹھے ہیں اور رونالڈو گول کردیتا ہے تو سارا مجمع کھڑا ہو جاتا ہے اور واہ واہ شروع کردیتا ہے ۔اسی طرح یہ دیکھیں کہ کرکٹ اسٹیڈیم میں بیٹھے ہیں اور شاہد آفریدی میدان میں اُترتا ہے تو لوگ چارج ہوجاتے ہیں۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم Emotional Energyکی گرفت میں آجاتے ہیں ۔منبر پر بیٹھا مولوی جب لوگوں کو کسی بھی سمت کے لیے چارج کرتا ہے تو وہاں پر بیٹھے لوگ اپنے آپ سے باہر نکل جاتے ہیں ۔ حتیٰ کہ لوگ اپنے آپ کو جلانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں ۔ تو یہ جذباتی توانائی ہوتی ہے جس کے ہم تابع ہوجاتے ہیں ۔عدم رواداری کے فروغ کے جو پہلو ہیں ،اُن میں ہم بہت زیادہ چارج ہو چکے ہیں ۔یہاں چرچ اور ریاست والی بحث آتی ہے۔ ہمارا معاشرہ ابھی اس بحث تک ہی نہیں آیا۔ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست حکمرانی کررہی ہے مگر حقیقت میں ریاست نے حکمرانی مذہبی پلیٹ فارم کو سونپ رکھی ہے ۔ فلاں کے ساتھ لڑنا ہے ،فلاں کے ساتھ نہیں لڑنا،فلاں کافر ہے ،فلاں مسلم۔اس کو ماردو ،اُس کو زندہ رہنے دو۔ وغیرہ۔

تجزیات :رواداری کو پاکستانی ثقافت کا حصہ بنانے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

ڈاکٹر محمد زمان :یہ ایک مشکل سوال ہے ۔مَیں نے اس سوال پر اکثر سوچا ہے ۔ہمیں کہیں نہ کہیں سے اس کے لیے شروعات لینی ہوں گی۔ ہمیں تحقیق کی طرف جانے کی ضرورت ہے ۔جذباتیت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ اُس وقت ہوگی جب بات یا معاملے کی تہہ تک پہنچا جائے گا۔ مغرب میں اگر کوئی مسئلہ کھڑا ہوجائے تو اُس کے لیے لوگ کام شروع کردیتے ہیں ۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ہم تشدد ّکو طاقت سے روکنا چاہتے ہیں ،اس لیے کہ ہمیں یہ طریقہ والدین کی طرف سے سیکھایا گیا ہوتا ہے ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...