زمین:ایک امانت (22اپریل عالمی یوم الارض کے حوالے سے خصوصی تحریر)

817

کارخانوں کے قریب رہنے والے انسانوں کو پھیپھڑے کے کینسرمیں مبتلا ہونے کے امکانات 20%تک زیادہ ہوتے ہیں

اﷲ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ﴿ترجمہ:”وہی (اﷲ تعالی) ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیداکیا“،یعنی زمین وآسمان کی تخلیق محض کھیل تماشے کے طورپرنہیں ہوئی بلکہ یہ ایک نہایت سنجیدہ کام ہے جو حکمت کی بنیادپر کیاگیاہے اور اس کے اندر ایک بہت بڑا مقصد پنہاں ہے۔

انسانی اندازے کے مطابق آج سے 4.54ارب سال پہلے اﷲ تعالی نے زمین کووجود بخشا،زمین انڈے کی ہیئت کی مانندایک نیم بیضوی گول شکل کاایک گولا سا ہے۔ زمین سورج کے گرد چکر لگاتی ہے اوراس دوران اپنے مدار کے گرد بھی گھومتی رہتی ہے،اپنے مدار کے گرد ایک چکر کو ایک دن کہاجاتا ہے اورسورج کے گردایک چکر365دن 5گھنٹے اور48منٹ میں پورا کرتی ہے،اس مدت کو ایک شمسی سال کہاجاتاہے۔زمین اپنے مدار کے گردکم و بیش 30کلومیٹر فی سیکنڈ کے حساب سے گھومتی ہے،یہ اتنی تیز رفتار ہے کہ اس رفتار سے چلنے والے کسی جسم پر قرار ممکن نہیں لیکن اﷲ تعالی نے زمین کے اندر کشش ثقل نامی ایک ایسی قوت رکھ دی ہے کہ زمین اپنی موجودات کو اپنے ساتھ چمٹائے رکھتی ہے۔چاند زمین کے گرد گھومنے والا اکلوتا سیارہ ہے جو زمین کے گرد اپنا ایک چکر انتیس سے تیس دنوں میں مکمل کر لیتاہے۔چاند کی گردش زمین پر بھی اثرانداز ہوتی ہے خاص طور پر سمندر مدوجزریا جوار بھاٹا سورج اور چاند کی مشترکہ گردش کا نتیجہ ہوتاہے۔

زمین کے کم و بیش اکہترفیصد(71%)پر پانیوں کے سمندر واقع ہیں جبکہ باقی ماندہ پرخشک سرزمین ہے جبکہ خشکیوں کے درمیان جہاں دریابہتے ہیں وہاں سمندروں کے درمیان بھی جا بجا خشکی کے جزائر واقع ہیں۔اﷲ تعالٰی نے ایک خاص اندازے کے مطابق زمین کو بائیس ڈگری تک سورج کی طرف ٹیڑھاکر کے رکھاہے جس کے باعث زمین کے پانیوں اور خشکی کے درمیان توازن برقراررہتاہے۔اگر زمین ایک ڈگری کم ٹیڑھی ہوتی تو زمین کے سارے پانی کے ذخائرجم کر برف بن جاتے اور زندگی کے امکانات معدوم ہو جاتے اور اسی طرح اگر زمین ایک ڈگری زیادہ سورج کی طرف جھکی ہوئی ہوتی، جبکہ ایک ڈگری بہت چھوٹی سی مقدار ہوتی ہے،تو زمین کے سارے برفانی تودے حدت شمسی سے پگھل کر پانی بن جاتے اور زمین پر ایک انچ بھی خشکی کاباقی نہ پچتااور زندگی کے امکانات ایک بار پھر معدوم ہو جاتے ،پس یہ اﷲ تعالی کی قدرت کاملہ ہے کہ جہاں زمین کو خارجی اثرات بدسے بچایا وہاں داخلی طور پر بھی اس کی تخلیق اس طرح فرمائی کہ کل مخلوقات حیاتیہ اپنا عرصہ حیات بخوبی مکمل کر سکیں۔زمین کا اندرون بے حد گرم ہے،سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زمین ایک زمانے میں سورج کا حصہ تھی،علیحدگی کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ زمین کا بیرون تو ٹھنڈا پڑ گیالیکن اندرون اب بھی بے انتہا حدت کا حامل ہے۔بعض اوقات زمین کے اندرون سے گرمی کے باعث ابلتاہوااور کھولتاہوا مادہ جسے ”لاوہ“کہتے ہیں باہر نکل پڑتاہے،یہ بہتاہوابے حد گرمائش کا حامل اپنے راستے میں آنے والی چیزکو جلا دیتاہے اور بعض اوقات اسی لاوے کے باعث زلزلے بھی آتے ہیں کیونکہ لاوے کی گرمائش زمین کی اندرونی سطح میں بہت زیادہ ردوبدل کر ڈالتی ہے۔اسی حدت ارضی کے باعث زمین کی تہوں میں اﷲ تعالی نے انسانوں کے لیے بے شمار قیمتی ذخائر دفن کررکھے ہیں،تیل،گیس اور معدنیات کا انبوہ کثیراسی گرمائش کا مرہون منت ہے جس کی وجہ سے زمین کے پیٹ میں بہت تیزی سے کیمیائی عملیات وقوع پزیرہوتے ہیں اور انسان کے لیے انعامات خداوندی تیارہوتے رہتے ہیں۔اﷲ تعالی کی شان ہے کہ زمین کی بالائی سطح پر جہاں برفانی تودے اپنی برودت کی شدت پر قائم ہیں انہیں کی تہوں میں آگ کی تپش سے دھاتیں پگھلتی چلی جارہی ہیں۔

زمین پر سات براعظم ہیں جن میں ایشیا سب سے بڑاہے،افریقہ،شمالی و جنوبی امریکہ،یورپ،آسٹریلیااور انٹارکٹاشامل ہیں۔زمین کے دو سرے جنہیں قطب شمالی اورقطب جنوبی کہتے ہیں،یہ دونوں خطے انتہائی بلندی اور انتہائی پستی پر واقع ہیں۔زمین جب سورج کے گرد اپنا چکر مکمل کرتی ہے تو نصف سال تک یہ زمینی قطب 22ڈگری کے جھکاؤ کے باعث سورج کے سامنے رہتے ہیں جبکہ بقیہ نصف سال سورج سے دور ہٹ جاتے ہیں چنانچہ کہاجاتا ہے کہ یہاں چھ ماہ دن اور چھ ماہ رات رہتی ہے،تب نماز اور روزہ وغیرہ کے احکامات یہاں کس طرح مرتب ہو سکتے ہیں یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے۔بہرحال یہاں درجہ حرارت بعض اوقات-50ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی گرجاتاہے اور لوگ برف کے گھروں میں اقامت پزیر رہتے ہیں کیونکہ برف کا درجہ حرارت صفرگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔زمین کی سطح،زمین کی فضا اور زمین کااندروں خدائی رازوں سے بھرپور ہیں،کہیں کہیں تو انسان کی رسائی ہو چکی ہے اور بے شمار مقامات و وقوعات ایسے ہیں کہ انسان ابھی تک ان کے مشاہدے کے بعد انگشت بدنداں ہے ۔

یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد سے صاف شفاف زمین کو بھی بے پناہ نقصان پہنچاہے اور یورپی کارخانوں نے زمین کی آلودگی میں بے پناہ اضافہ کر کے اسے گندگی کااڈھیر بنانے کی بھونڈی کوشش کی ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آلودگی اس زمین کے سینے پر سب سے بڑی ایسی قاتل بن گئی ہے جوہمہ وقت انسانی جانوں کے درپے ہے،دنیابھرکے 100ملین سے زائد افرادآلودگی کے باعث ملیریااورایچ آئی وی کا شکارہیں،ایک بلین سے زائد افراد پینے کے صاف پانی جیسی نعمت سے محروم ہیں،14بلین پونڈ سے زیادہ وزن کا حامل پلاسٹک کافضلہ ہر سال سمندروں میں پھینک دیاجاتاہے اورصرف میکسیکو کی خلیج میں چلنے والے جہازسالانہ 1.5میٹرک ٹن نائٹروجنی آلودگی کاباعث بن رہے ہیں جس کے باعث ایک ملین سے زائد سمندری حیات کوموت کا آسیب نگل جاتاہے،کارخانوں کے قریب رہنے والے انسانوں کو پھیپھڑے کے کینسرمیں مبتلا ہونے کے امکانات 20%تک زیادہ ہوتے ہیں اور یہ بہت زیادہ خطرناک حد تک کی شرح ہے،امریکہ جیسے ملک کی 46%جھیلیں آلودگی کے سبب آبی حیات اور انسانی تیراکی وسیاحت کے قابل نہیں رہیں،ہرسال امریکہ کے قدرتی صاف شفاف اور صحت بخش پانیوں میں 1.2ٹریلین گیلن زہریلا مواد ڈال دیاجاتاہے جس کے باعث وہاں کے بچے پانچ سال سے بھی کم عمروں میں آلودگی کے باعث بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...