مشال خان کا قتل اور سیاسی جماعتوں کا کردار

881

چوبیس اپریل کو مردان ضلع کونسل میں تحریک انصاف کے کونسلرز نے مشال خان کے ایصال ثواب کےلئے فاتحہ خوانی کی قرارداد پیش کی لیکن ضلع کونسل کی حکمران جماعت اے این پی نے جمعیت علما اسلام کے ساتھ مل کر قراداد کی مخالفت کی

تیرہ اپریل کو عبدولوالی خان یونیورسٹی میں ایک درد ناک واقعہ پیش آیا جب شعبہ صحافت کے طالب علم مشال خان کوایک پرتشدد طلباءاور دیگر افراد پر مشتمل ہجوم نے توہین مذہب کاالزام لگانے کے بعد شدید تشد د کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا۔ مشال خان کا قتل خیبرپختونخوا میں اس نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جس کا دنیا بھر سے شدید ردعمل سامنے آیا، واقعہ کے بعد خیبرپختونخوا کی حکمران جماعت کے قائد عمران خان اور عوامی نیشنل پارٹی نے کھل کر مذمت کی ، اسی طرح وطن عزیز سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں سول سوسائٹی کی جانب سے واقعہ کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کئے گئے اور پندرہ روز سے زائد گزرنے کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے۔ تاہم جماعت اسلامی ، جمعیت علماءاسلام سمیت ملک کی بعض سیاسی جماعتوں نے اس معاملے کی تحقیقات مکمل ہونے تک خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دی ۔

اب تک مشال خان کے قتل کے الزام میں نامزد 49 افراد میں سے پولیس کے مطابق 47افراد جن میں مرکزی ملزم عمران علی بھی شامل ہے کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ دو افراد قبائلی علاقوں کی جانب فرار ہو گئے ہیں۔گرفتار ملزمان میں یونیورسٹی کے گیارہ ملازمین بھی شامل ہیں، گرفتار ملزمان میں دو ملزمان عمران اور فرحان کے علاوہ باقی تمام افراد اس بات پر قائم ہیں کہ مشال خان کی جانب سے توہین مذہب کا ان کے پاس نہ ہی کوئی ثبوت موجود ہے اور نہ ہی انہوں نے کبھی مشال کو اس قسم کی بات کرتے سنا ہے، تاہم دوملزمان عمران اور فرحان نے عدالت کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے یہ بیان دیا کہ انہوں نے بعض مواقعوں پر مشال خان کو توہین مذہب کرتے دیکھا ہے، توہین مذہب کا الزام عائد کرنے والے مرکزی ملزم وجاہت جو مشال خان کا کلاس فیلو بھی ہے کا کہنا ہے کہ اس نے یونیورسٹی انتظامیہ کے کہنے پر مشال خان پر توہین مذہب کا الزام عائد کیا جس کے بعد طلبہ مشتعل ہوئے اور یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا،دوسری جانب مشال خان کے استاد ضیاءاللہ ہمدرد کے مطابق مشال پوزیشن ہولڈر طالب علم تھا اور وہ صوفی ازم سے متاثر تھا، مشال خان یونیورسٹی میں ہونے والی بے ضابطگیوں اور کرپشن کے خلاف آواز اٹھاتا تھا یہی وجہ تھی کہ انتظامیہ اس سے خوش نہیں تھی، ضیاءاللہ ہمدرد کے مطابق وہ مشال خان کو ذاتی طور پر جانتے تھے اور اس نے کبھی مذہب کی توہین نہیں کی، آئی جی خیبر پختونخوا صلاح الدین محسود اور ڈی آئی جی مردان ریجن عالم خان شنواری کے مطابق اب تک ہونے والی تفتیش میں مشال خان کی جانب سے توہین مذہب کے کوئی شواہد نہیں ملے اور نہ ہی اس کے زیراستعمال رہنے والی اشیاءسے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس پر لگائے گئے الزامات درست ہوسکتے ہیں۔

تحقیقات کرنے والے تمام افسران و اہلکار اس بات پر متفق دیکھائی دیتے ہیں کہ مشال خان پر لگائے گئے الزامات اس واقعے کے محرکات نہیں بلکہ معاملہ کچھ اور ہے، بجائے اس کے کہ تمام جماعتیں اس واقعے کی نہ صرف پر زور مذمت کرتیں بلکہ مستقبل میں اس قسم کے واقعات کی روک تھام کےلئے قانون سازی اور پھر اس پر عمل درآمد کےلئے لائحہ عمل طے کرتے لیکن جماعتِ اسلامی اور جمعیت علمااسلام اس افسوس ناک واقعے پر اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کررہے ہیں اور جلسے جلوس سے قاتلوں کو بچانے اور مشال کو مجرم ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

چوبیس اپریل کو مردان ضلع کونسل میں تحریک انصاف کے کونسلرز نے مشال خان کے ایصال ثواب کےلئے فاتحہ خوانی کی قرارداد پیش کی لیکن ضلع کونسل کی حکمران جماعت اے این پی نے جمعیت علما اسلام کے ساتھ مل کر قراداد کی مخالفت کی۔ اسی طر ح اٹھائیس اپریل بروز جمعہ کو مردان میں متحدہ علما کونسل نے حب رسول ﷺ ریلی کا انعقاد کیاجس میں پی پی پی، پاکستان مسلم لیگ ن ، جماعت اِسلامی اور جمعیت علمااسلام کے رہنماﺅں نے شرکت کی اور مشال کیس میں گرفتار افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ مولانا فضل الرحمان نے اس واقعہ کو ناموسِ رسالت ﷺ قانون کے خلاف سازش قرار دیا، یہی وجہ ہے کہ ان کی جماعت کے چارسدہ سے موجودہ ایم این اے مولانا محمد گوہر جنھیں گزشتہ آٹھ سال میں کسی نے نہ تو اسمبلی میں اور نہ ہی اسمبلی کے باہر عوام کے لئے ایسے آواز اٹھاتے سنا ہے ، نے اتوار کو حکومت کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر مشال کے قاتلوں کو رہا نہ کیا گیا تو نہ ختم ہونےوالااحتجاجی سلسلہ شروع کر یں گے۔ جمعیت علماءاسلام کے ہی مولانا غلام صادق کہتے ہیں کہ مشال خان نے روس سے تعلیم حاصل کی تھی جس کی وجہ سے اس کے نظریات ٹھیک نہیں تھے لیکن سوال یہ ہے کہ مولانا صاحب کا نواسا جو خود امریکہ میں زیر تعلیم ہے۔اس کے نظریات کے بارے میں مولانا کی کیا رائے ہے؟ کیا امریکہ میں اس کا نواسا فقہ اور احادیث کی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مشتاق احمد خان اپنے بیان میں کہتے ہیں کہ مشال خان کو بے گناہ قرار دینا قابل مذمت ہے لیکن موصوف مشال خان کے قتل اور پھر اس کی لاش کی بے حرمتی اور انسانیت کی تذلیل کو قابل مذمت نہیں سمجھتے کیا؟

سیاسی جماعتوں کو چاہیں کہ اس ایشو پرسیاست ترک کر کے اس واقعے کے خلاف متحد ہوں کیونکہ معاشرے میں کسی ہجوم کو سزا او جزا کا اختیار دینا تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کو حق اور مظلوم کا ساتھ دینے کا اب بھی موقع ہے کہ وہ مشال خان کے قاتل بچاو مہم اور مردان میں ہونے والی ریلی یا مستقبل میں اس قسم کی سرگرمیوں سے واضع اوردوٹوک الفاظ میں لاتعلقی کا اعلان کریں اوراس حساس معاملے پر ایک آواز ہوجائیں تاکہ کوئی بھی مستقبل میں توہین مذہب کے قانون کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کرے ، اگر ملک کی سیاسی جماعتوں بالخصوص مشال خان کی رہائی کے لئے مہم چلانے والوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو ایسی نئی جنگ چھیڑ جائے گی جو ہر گھر کے مشال کو بجھانے کا باعث ثابت ہوسکتی ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...