کیا سرحدیں، رشتے کمزور کر سکتی ہیں؟

900

دونوں ملکوں کا موقف اپنی اپنی جگہ، لیکن اس کا اثر قبائلی خاندانوں پر کبھی نظر نہیں آیا اور وہ اُسی طرح رشتوں میں بندھے رہے، جیسے سرحدی حدود کے تعین سے پہلے اُن کا تعلق تھا۔

ایک سوال مجھے مسلسل الجھلائے ہوئے ہے، کہ کیا محض گھروں اور سرحدوں کی تقسیم تحفظ، دوستی یا اعتماد کی ضمانت بن سکتی ہے۔۔۔۔ اس کا جواب مشکل نہیں لیکن اس کا انحصار سوچ اور مختلف نکتہ نظر رکھنے والوں پر منحصر ہے۔

یہ سوال بہت سے ذہنوں اٹھا ضرور ہو گا، خاص طور پاکستان اور افغانستان کے درمیان گزشتہ جمعہ کو چمن کی سرحد کی قریب پیش آنے والے واقعے کے بعد جس میں پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں دونوں جانب جانی نقصان ہوا۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان لگ بھگ 2600 کلو میٹر طویل  سرحد پر کئی علاقوں میں ایسے دیہات ہیں جن کا نصف یا کچھ حصہ پاکستان اور کچھ علاقہ افغانستان میں ہے۔

چمن میں کلی لقمان اور کلی جہانگیر بھی ایسے ہی دو دیہات ہیں، جن کے درمیان سے پاکستان اور افغانستان کو تقسیم کرنے والی سرحد یعنی ’ڈیورنڈ لائن‘ گزرتی ہے۔

کیا عجیب بات ہے کہ کلی جہانگیر اور کلی لقمان کے لوگوں کے درمیان اس پر کوئی جھگڑا نہیں ہوا کہ کون کس ملک کا شہری ہے اور کس کی حدود میں رہ رہا ہے۔۔۔ سرحدی حدود سے بے نیاز۔ کسی قدغن کے بغیر روانہ ان منقسم دیہات کے نا جانے کتنے لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں آتے جاتے ہیں، اس کا حساب رکھنا ممکن نہیں۔

لیکن جدید سہولتوں سے دوری نے شاید ان دو دیہات کے قبائلی خاندانوں کو اتنا متاثر نہیں کیا ہو گا، جتنا سرحدی حدود کا حالیہ تنازع اُن پر اثر انداز ہوا۔

افغان حکام کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ جمعہ کو مردم شماری کی مہم کے دوران پاکستانی عملے اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار اس علاقے میں داخل ہو گئے جو کہ افغانستان کا حصہ تھا، اسی لیے افغان سرحدی پولیس نے پاکستانی اہلکاروں کو روکنے اور واپس بھیجنے کے لیے اُن پر فائرنگ کی۔

جب کہ پاکستان کا موقف ہے کہ اُس نے افغان فورسز کی طرف سے فائرنگ میں پہل کرنے پر بھرپور جوابی کارروائی کی۔

اس سے قطع نظر پہل کس نے کی، غلطی تو ہوئی اور اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ اس غیر معمولی جھڑپ کو اب دونوں ہی جانب سے ‘بد قسمت’ واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔

سرحد کی حدود کے تعین کے لیے اب ارضیاتی ماہرین اور علاقائی سکیورٹی کمانڈر کوششیں کر رہے ہیں، دونوں فریق جلد یا بدیر اس بات کا تعین تو کر لیں گے کون سا گھر افغانستان کی حدود میں ہے اور کون سا پاکستانی سرزمین پر۔

لیکن کیا یہ تعین منقسم دیہات کے لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کرے گا ؟اُن خاندانوں کو جو کابل اور اسلام آباد کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ سے قطع نظر اپنی ڈگر پر رواں دواں ہیں اور دوطرفہ کشیدگی کبھی اُن کے تعلقات کو متاثر نہ کر سکی۔

اس بات کو تاریخی پس منظر میں بھی دیکھا جائے تو ڈیورنڈ لائن کا تعین افغانستان کے امیر عبد الرحمٰن خان اور ہندوستان پر برطانوی دور حکومت کے وزیر خارجہ مورٹِمر ڈیورنڈ کے درمیان 1893ء کے ایک معاہدے کے بعد کیا گیا تھا۔

افغانستان کا کہنا ہے کہ اُس نے پاکستان کے ساتھ سرحد ڈیورنڈ لائن کو کبھی تسلیم نہیں کیا، جب کہ پاکستان کا کہنا ہے کہ ‘ڈیورنڈ لائن’ ایک حل شدہ معاملہ ہے۔

دونوں ملکوں کا موقف اپنی اپنی جگہ، لیکن اس کا اثر قبائلی خاندانوں پر کبھی نظر نہیں آیا اور وہ اُسی طرح رشتوں میں بندھے رہے، جیسے سرحدی حدود کے تعین سے پہلے اُن کا تعلق تھا۔

موجودہ حالات میں ہر ذی شعور سرحدوں کو محفوظ بنانے کا حامی تو ہو سکتا ہے لیکن صدیوں پرانے رشتے اس سے متاثر نہیں ہونے چاہیں کیوں کہ سرحدی علاقوں میں بسنے والوں کی یہ ہی تاریخی قربت اور اُن کا آپس میں اچھا تعلق دونوں ملکوں کی حکومتوں کے لیے سرحد کو محفوظ بنا سکتا ہے۔

دیرپا امن کے لیے دونوں ملکوں کو اپنی سرحد کو دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کی آمد و رفت سے محفوظ بنانا ہو گا، لیکن ساتھ ساتھ ایسے لوگوں کی ضرورتوں کا احساس بھی ضروری ہے جو سرحد پر منقسم دیہاتوں میں رہتے ہیں، لیکن اُن کے دل کبھی تقسیم نہیں ہوئے۔

مکان سرحد کے ادھر ہو یا اُدھر، اُن کے وابستگی اور دل جدا نہیں ہیں۔

سرحدوں کو حقیقی طور پر محفوظ تب ہی بنایا جا سکتا ہے جب سرحدی علاقوں میں بسنے والے خود کو محفوظ سمجھیں، کیوں کہ اُن کے باہمی رشتے ایک دوسرے کے لیے تحفظ کی ضمانت بن سکتے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...