‘‘ون بیلٹ ون روڈ ’’ میں نیپال کی شمولیت ، بھارت تنہائی کا شکار

888

بنگلہ دیش بھی چین کے ‘‘ون بیلٹ ون روڈ ’’ منصوبے کا حصہ بن چکا ہے ۔ سری لنکا ، مالدیب اور میانمر بھی اس کا حصہ ہیں ۔جنوبی ایشیا میں صرف بھارت اور بھوٹان دو ایسے ممالک ہیں جو اس منصوبے کا حصہ نہیں

پاکستان کے بعد نیپال جنوبی ایشیا کا چوتھا ملک ہے جو کہ چین کے عظیم الشان منصوبے‘‘ ون بیلٹ ون روڈ ’’ کا باقاعدہ حصہ بن گیا ہے ۔گزشتہ جمعہ کو ا س سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان  کٹھمنڈو میں  ایک عرضداشت پر دستخط کئے گئے ۔نیپال کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کرشنا بہادر مہاڑا اور وزیر خارجہ پرکاش شاہران مہت بھی اس موقع پر موجود تھے ۔اس موقع پر نیپال میں چین کے سفیر یو نے کہا کہ اس معاہدے کے بعد نہ صرف چین نیپال تعلقات  بلکہ جنوبی ایشیا میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو گا ۔ امکان ہے کہ  نیپال کی معیشت پر اس معاہدے کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے جس کی پیداواری صلاحیت اس سال ساڑھے سات فیصد تک پہنچنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ چین کے  ‘‘ ون بیلٹ ون روڈ ’’ منصوبے میں نیپال کے ساتھ دنیا کے 65 ممالک شریک ہیں اور سو سے زائد ممالک اور عالمی ادارے  اس منصوبے کی حمایت کر چکے ہیں ۔

نیپال اس معاہدے کے بعد ریلوے اور سڑک کے ذریعے چین سے منسلک ہو جائے گا ۔جس کے بعد ایک تو بھارت پر اس کا انحصار کم ہو جائے گا کیونکہ نیپال کی تمام تجارت بھارت کے راستے ہوتی ہے ۔نیپالی مارکیٹ پر بھی بھارتیوں کی اجارہ داری ہے ۔اس لئے بھارت کی چھت پر اس کے ایک قریبی ملک کا اس منصوبے کا حصہ بننا اس کے لئے اس لئے بھی بد شگونی کی علامت قرار دیا جا رہے کیونکہ بھارت ابھی تک اس منصوبے کا حصہ بننے سے انکاری ہے ۔

چین نیپال تعلقات میں قربت کی ایک بڑی وجہ بھارت کی اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ معاندانہ پالیسیاں بھی ہیں ۔ بھارت نے نیپال کے ساتھ اپنی سرحد ستمبر2015 سے فروری 2016 تک بند رکھی تھی جس کی وجہ سے عام نیپالی کو سخت مشکلات کا سامنا رہا ۔بھارت نے جولائی 2016  میں نیپال کے وزیراعظم کے پی شرما کی جگہ پشپا کمال دھال کو وزیراعظم بنوانے کی ساز باز کی کیونکہ اس نے بھارت کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ  نیپال کے سرحدی علاقوں کے لوگ جو بھارت نواز سمجھے جاتے ہیں ان کے لئے آئین میں ترمیم کرے گا ۔پشپا کمال کے وزیر اعظم بننے کے بعد چین نے نیپال کے آئین کو اس کی اصلی حالت میں بحال رکھنے کی کوششوں کی حمایت کی ۔ چین نیپال کو ‘‘آزاد تبت ’’ کی  تحریک کا اہم فریق سمجھتا ہے اس لئے اگر نیپال ‘‘ایک چین ’’ کی پالیسی اپناتا ہے تو اس کے بدلے میں چین نیپال میں بھاری سرمایہ کاری کرے گا ۔ حالیہ پیش رفت بھی اسی سلسلے کی بڑی کڑی ہے ۔

اس سال اپریل کے وسط میں دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان مشترکہ فوجی مشقیں بھی کھٹمنڈو کے قریب ہو چکی ہیں ۔ چین نے نیپال کو زلزلہ زدگان کی بحالی کے لئے 15.7 ارب یو آن کی گرانٹ بھی دی تھی ۔دونوں ممالک کے درمیان عوامی سطح پر بھی کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے ۔

واضح رہے کہ پچھلے سال بنگلہ دیش بھی چین کے ‘‘ون بیلٹ ون روڈ ’’ منصوبے کا حصہ بن چکا ہے ۔ سری لنکا ، مالدیب اور میانمر بھی اس کا حصہ ہیں ۔جنوبی ایشیا میں صرف بھارت اور بھوٹان دو ایسے ممالک ہیں جو ا س منصوبے کا حصہ نہیں ہیں ۔ بھوٹان کے چین کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع ہیں ۔بھوٹان کے علاوہ بھارت کے تمام ہمسایہ ممالک اس منصوبے کا حصہ بن چکے ہیں ۔ اس لئے بھارت کو علاقے میں تنہائی کا سامنا ہے ۔چین اور بھارت بڑے تجارتی حصہ دار ہیں دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا سالانہ حجم 70 ارب ڈالر ہے مگر بھارت کو اعتراض صرف پاکستانی شمولیت پر ہے چین نے تمام بھارتی  اعتراضات مسترد کر  تے ہوئے ‘‘چین پاکستان اقتصادی راہداری’’کو ہر صورت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے ۔

‘‘ون بیلٹ ون روڈ ’’ میں نیپال کی شمولیت نے بھارت کو مشکل میں ضرور ڈال دیا ہے ۔ اگر وہ  اپنے سابق مؤقف پر قائم رہتا ہے تو اسے علاقے میں تنہائی کو شکار ہونا پڑے گا اور اگر وہ اس منصوبے میں شامل ہوتا ہے تو پھر پاکستان کے ساتھ ہاتھ ملانا پڑے گا ۔ اس لئے ‘‘ون بیلٹ ون روڈ ’’ منصوبے کو علاقے میں صرف معاشی ہی نہیں سیاسی تبدیلی کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے جہاں دیرینہ تنازعات حل ہونے کی بھی امید ہے ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...