ہم خیرات کیوں کرتے ہیں؟ 

744

ملک میں صدقہ اور خیرات کے رجحانات کے بارے میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں لوگوں کی طرف سے ہر سال قریب قریب اڑھائی سو ارب (بلین) روپے غریبوں، مسکینوں، یتیموں، بیواؤں، لاچاروں، بیماروں، مستحق طالبعلموں و دیگر ضرورت مندوں کی بہبود اور امداد کے لیے خیرات کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ڈیڑھ سو ارب سے زیادہ صرف رمضان کے مہینے میں خیرات کیے جاتے ہیں۔ ڈان اخبار کی طرف سے پچھلے سال کیے جانے والے ایک غیر رسمی سروے کے مطابق درمیانے اور امیر طبقے سے تعلق رکھنے والے پچانوے فیصد سے زیادہ خاندان کسی نہ کسی انداز میں صدقے، خیرات اور امداد کا اہتمام کرتے ہیں۔

یقین جانیے جب ہم اپنے ملک کے دیالو، مخیر اور سخی انسانوں کے بارے میں سنتے یا پڑھتے ہیں تو ہمارے سر فخر سے بلند ہوجاتے ہیں۔ کہیں سینکڑوں ہزاروں غریبوں کو افطاریاں کرائی جا رہی ہیں، دستر خوان لگائے جا رہے ہیں، کہیں راشن کی تھیلیاں تقسیم کی جا رہی ہیں، کہیں زکوٰۃ اور صدقے کی رقوم بانٹی جا رہی ہیں۔ کہیں غریب بچیوں کی شادیاں کرائی جا رہی ہیں، کہیں بے آسرا بچوں کے سکول کے اخراجات کی ذمہ داری لی جارہی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی فلاحی اور خیراتی تنظیم ایدھی کی ایمبولینس سروس اور یتیم خانوں سے لے کر دیوار مہربانی جیسے نوجوانوں کے اقدامات تک جن میں پرانے کپڑے، جوتے اور ضرورت کی اشیا غریبوں میں تقسیم کی جاتی ہیں، کتنے ہی ایسے ادارے اور لوگ پاکستان میں مل جائیں گے جو انسانیت کے احساس اور جذبہ خدمت سے لبریز ہیں۔ کچھ جائزوں کے مطابق  پاکستانی دنیا میں سب سے زیادہ صدقہ اور خیرات کرنے والے لوگوں میں شامل ہیں۔

پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے اورعلمائے کرام کی مسلسل راہنمائی کی بدولت ہمیں صدقہ و خیرات کے بیش بہا اجر و ثواب اور فضیلت کا بھی بخوبی اندازہ ہے، جس سے ہمارے خیرات کرنے اور خیر خواہی چاہنے کے جذبے کو جلا ملتی ہے۔   میرا خیال ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان خیرات کی اہمیت کے پوری طرح قائل ہیں جس کا مادہ ہی خیر ہے۔ یقیناً اس حوالے سے دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ خیرات روح کو پاک کردینے والا، انسانیت کو اعتبار بخشنے والا، دنیا سے غربت اور محرومی کے خاتمے میں مدد دینے والا ایک نہایت بہترین عمل ہے۔ پاکستان میں تیس چالیس ہزارسے زیادہ  مدرسے اور لاکھوں مساجد اسی پیسے سے چل رہی ہیں، بہت سے سکول، یتیم خانے، مسکین گھر، فری ہسپتال وغیرہ چلانے میں بھی یہی پیسہ خرچ ہوتا ہے۔

ہم خیرات اجر و ثواب اور دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے دیتے ہیں۔ بہت اچھا کرتے ہیں لیکن کچھ اور پہلو بھی ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر یہ بات کہ آخر اس سے بھلائی پیدا بھی ہو رہی کہ نہیں اور یہ بھی کہ اتنے سالوں سے اتنی فیاضی سے خیرات دینے اور فلاح و بہبود کے کام کرنے کے باوجود ہمارے ملک سے نہ غربت کم ہورہی ہے نہ محرومی کا کوئی ازالہ ہو رہا ہے۔ مانگنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہے اور نہ مانگنے والے ضرورت مندوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

کہیں نہ کہیں ساتھ میں کچھ ایسی چیزیں ہیں جن سے ان اچھے کاموں کے اثرات  ضائع ہو جاتے ہیں یا معکوس طور پر کچھ مزید خرابی کا باعث بن جاتے ہیں۔ گذشتہ کچھ سالوں سے وزارت اطلاعات کی جانب سے  میڈیا پر”حق حقدار تک” کے عنوان سے ایک مہم بھی چلائی جاتی رہی جس سے اس خدشے کا اظہار ہوتا ہے کہ شاید اس خیرات کا ایک حصہ غلط  ہاتھوں میں پہنچ کرغلط مقاصد مثلاً انتہاپسندی کے فروغ اور دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس مہم کے ذریعے محفوظ خیرات کا تصور متعارف کرایا گیا ہے کہ خیرات کرتے ہوئے اس کے مقاصد،  استعمال اور وصول کرنے والے اداروں اور لوگوں کے بارے میں تسلی کر لیجیے تاکہ اس کے ممکنہ غلط استعمال کا سدباب ہوسکے۔

خیرات کی تشہیر کو چونکہ برا سمجھا جاتا ہے اور ایسا ہے بھی،  لیکن کیا یہ معلوم کرنا ضروری نہیں ہے کہ ہماری دی گئی امداد درست مقاصد کے لیے استعمال ہو؟

اس ضمن میں دو پہلو ہماری توجہ کے خاص طور پر مستحق ہیں۔ ایک یہ  کہ اکثر خیرات اور عطیات صرف محتاجوں کی مدد کے لیے یا فلاح عامہ کے لیے جمع نہیں کی جاتی بلکہ اس کے مقاصد میں اپنے نظریات کا فروغ، اپنے مسلک و ملت کا دفاع، جہادی تنظیموں کی ضروریات کے لیے چندہ، فرقہ وارانہ جماعتوں کی صف بندی کے لیے امداد وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں چونکہ دین کو مسلک کی عینک سے اورباقی دنیا کو اپنے گروہی مفادات کے چشمے سے دیکھنے کی عادت ہے تو اکثر اپنے مسلک، نظریے اور گروہی شناخت کے تحفظ کے لیے اس طرح کے مقاصد کے لیے عطیات اور چندہ جمع کرنے کو بالکل جائز اور ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بہت عرصے تک عطیات کے ان واشگاف مقاصد سے اغماض برتا جاتا رہا اور کوئی ایسا چیک اور بیلنس کا نظام نہ بن سکا جس کے ذریعے ان عطیات اور صدقات کے مقاصد اور استعمال کے حوالے سے ملک اور اس کے عوام کی فلاح و بہبود میں کوئی چھان بین ممکن ہوتی۔ نہ ہی عوامی سطح پرضروری شعور و آگاہی موجود رہی کہ ضرورت، حق اور حقدار کو سمجھا جاسکتا۔ خیرات کی تشہیر کو چونکہ برا سمجھا جاتا ہے اور ایسا ہے بھی،  لیکن کیا یہ معلوم کرنا ضروری نہیں ہے کہ ہماری دی گئی امداد درست مقاصد کے لیے استعمال ہو؟ یقیناً کوئی مخلص شخص یہ نہیں چاہے گا کہ اس کا پیسہ انتہا پسندی یا خدانخواستہ دہشت گردی اور فرقہ واریت کے فروغ کے لیے استعمال ہو۔

دوسرا پہلو غیر معمولی طور پر مخیر اور دریا دلی کا مظاہرہ کرنے والوں کی نفسیات کو سمجھنے کا ہے۔ ان میں سے ایک تعداد ان امیر کبیر لوگوں کی ہے جو پیسہ کمانے کے حلال ذریعوں پر یقین نہیں رکھتے اور خیرات کے ذریعے سے اپنے احساس گناہ اور ضمیر کی خلش سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی کا ایک حصہ غیر معمولی طور پر پھولی ہوئی انا کا بھی ہے جس کی تسکین ناداروں، کمزوروں، مسکینوں اور زمین کا بوجھ سمجھے جانے والوں کی امداد سے کسی حد تک ہو سکتی ہے۔ خیرات کا یہ عمل انسان کو خود کو دوسروں سے اونچا دکھا سکتا ہے اور بعض اوقات لوگ اس جذبے کی تسکین کے لیے بڑے بڑے کام بھی کر جاتے ہیں۔ دوسروں کی عزت نفس کو کچل کر اپنی انا کے غبارے میں ہوا بھرنا یقیناً کوئی نیکی کا کام نہیں ہوسکتا۔ احسان کرنا جتنی بڑی نیکی ہے، احسان کر کے جتلانا اتنا ہی بڑا گناہ ہے اور حتی کہ اسے گناہ کبیرہ میں شمار کیا گیا ہے۔

ایک اور تعداد ان لوگوں کی ہے جو اس خیرات اور عطیات کے ذریعے سے کچھ، مالی، ذاتی، کاروباری یا تشہیری مقاصد کی تکمیل بھی چاہتے ہیں۔ لوگوں کے سامنے ایک نیک اور اچھا چہرہ پیش کرنا ایک کاروباری ضرورت بھی ہے، کیوں کہ ہر کاروبار ساکھ اور اعتبار سے چلتا ہے اور فیاضانہ عطیات اس میں مددگار ہوسکتے ہیں۔ اس کی بہت سی مثالیں خود پاکستان اور دیگر ممالک سے مل سکتی ہیں، تاہم یہاں مقصد صرف ان چیزوں کی طرف اشارہ کرنا ہے جن سے انسانوں کے خیرات اور امداد کے جذبوں اور رجحانات کو معروضی اور غیر جانبدارانہ انداز میں سمجھا جا سکے۔  بہرحال ہمارے فیصلوں کے درست یا غلط ہونے کا بڑا انحصار صحیح معلومات اور درست سمجھ بوجھ پر ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...