انٹیلی جینس بیورو (آئی بی)  کے خفیہ راز

خفیہ ایجنسی آئی بی کے بارے پہلی تفصیلی رپورٹ

7,128

نوٹ : یہ مضمون دی نیوز کے لیے اعزاز سید نے تحریر کیا تھا۔ تاہم اسکا اردو ترجمہ پہلی بار کیا گیا ہے ۔ وقت اور حالات کی تبدیلی کے باعث ہم نے اعزازسید  کی مشاورت سے مضمون میں کچھ تبدیلیاں اور نئی معلومات بھی شامل کیں ہیں۔ (ایڈیٹر)

اسلام آبا دمیں پاکستان کے اعلیٰ ترین سویلین حساس ادارے، انٹیلی جنس بیورو   کا صدر دفتر  انٹیلی جنس بیورو ہیڈ کوارٹر کی بجائے  “کے” بلاک کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یہ وفاقی دارالحکومت میں واقع  مارگلہ کی پرشکوہ پہاڑیوں کی جانب سیکرٹریٹ کے آخری کونے میں ایک چوٹی پر واقعہ ہے جہاں صرف ایک ہی سڑک جاتی ہے ۔ ۔جب آپ سیکرٹریٹ کے علاقے میں کسی سے  “کے” بلاک کا پتہ پوچھیں گے تو وہ یقینا آپ کو  کچھ دیر آپ  کا حیران نظروں سے جائزہ لینے کے بعد کے بلاک  کے محلِ وقوع کی  طرف آپ کی  رہنمائی کردے گا۔ دراصل پاکستان میں خفیہ اداروں کے بارے بڑی پراسراریت پائی جاتی ہے ۔ اسکی وجہ ملک کے سیاسی منظر نامے میں ان کا کردار اور سیکیورٹی کی غیر معمولی صورتحال میں ان کے اقدامات ، سب کو ان اداروں کے بارے ایک پراسرارخوف کا شکار کیے بیٹھے ہیں۔

دلچسپ شخصیات سے ملنے  اور ایسی پراسرار جگہوں  پر جانے ، جہاں چند افراد کی ہی رسائی ممکن ہوتی ہے، کے لیے متجسس   صحافی ہونے کے ناطے آپ کو یقیناً یہاں کی سیر کرنے میں لطف آئے گا۔میں ایوانِ بالا کے حالیہ انتخابات   اور بلوچستان اسمبلی میں سیاسی  اکھاڑ پچھاڑ کے پیچھے اس ادارے کے کردار کی سرگوشیوں کا پیچھا کرتے ہوئے یہاں آن پہنچا تھا۔  ادارے کے صدر میں میرے میزبان یہاں کے ایک اعلیٰ عہدیدار ہیں جو اپنا نام مخفی رکھنا چاہتے ہیں۔

مطلوبہ سکیورٹی جانچ پڑتال کے بعدعمارت کے اندر داخل ہوتے ہی آپ کو سامنے ایک بڑاسبزدروازہ نظر آتاہے جہاں آپ کو سکیورٹی اہلکار اندر داخل ہونے کی حتمی اجازت دیتے ہیں ۔

دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی   اس دروازے سے متصل دیوار پر جلی الفاظ میں کے کندہ ہے ۔  ایک پکی کشادہ سڑک سیدھی جاتی دکھائی دیتی ہے جو بائیں جانب بھی مڑتی ہے ۔ داہنی طرف  بیس سے پچیس گاڑیوں کے لیے  پارکنگ کی جگہ بنائی گئی ہے۔ سکیورٹی اہلکار آپ کو  پارکنگ کی جانب راہنمائی کرتے ہیں اور مرکزی عمارت کی جانب اشارہ کرتے ہیں جہاں انٹیلی جنس بیورو کے  چیف کا دفتر واقع ہے۔ یہ داخلی دروازے کی بالکل بائیں جانب ہے۔اگر آپ کے ساتھ ڈرائیور ہے تو وہ آپ کو صدر دروزاے تک چھوڑ سکتا ہے وگرنہ میری طرح پارکنگ کے لیے مختص جگہ پر گاڑی کھڑی کرنے  کے  بعدمرکزی عمارت تک اسی نوے قدم چل کر جانا پڑتا ہے۔

مربع شکل میں بنی عمارت، جو انٹیلی جنس بیورو کا صدر دفتر کہلاتی ہے،    تقریباًایک سو کینال پہاڑی رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ ادارے کی موجودہ  عمارت کی تعمیر 60ء کی دہائی کے اواخر میں ہوئی تھی جبکہ ادارے کے سربراہان نے یہاں 1973ء کے بعد  سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ عمارت کے سامنے کے حصے میں بظاہر ایک ہی داخلی  دروازہ ہے۔ جیسے ہی  آپ مزید قریب جاتے ہیں آپ کو بائیں جانب زمین سے قریباً ڈیڑھ فٹ اونچےچھوٹے سبز ہ زار پر دو جھنڈے لگےنظر آتے ہیں جن میں سے ایک پاکستان اور دوسرا ادارے  کا تنظیمی جھنڈا ہے۔ ان جھنڈوں کے عین نیچےسیمنٹ کے بلاک پر  1947 واضح طور پرکندہ ہے۔ مرکزی عمارت کے داخلی دروازے سے  اندر داخل ہوتے ہی  سب سے نمایاں  چیز  جسے آپ محسوس کرتے ہیں، بہت سے خانوں پر مشتمل لکڑی سے بنی الماری ہے جس میں دیگر  غیر ملکی خفیہ اداروں کی جانب سے آئی بی کو دی گئی یادگارشیلڈز سجی ہوئی ہیں جو  اس ادارے اور دیگر بین الاقوامی خفیہ ایجنسیوں کی باہمی معاونت کا مظہر ہیں۔ اس حصے میں پر اسرار خاموشی نے ماحول کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اور مدہم روشنی مہمان کی حیرت میں مزید اضافہ کر دیتی ہے ۔

 

ترقی یافتہ ملکوں کے خفیہ اداروں کے سربراہان رئٹائرمنٹ کے بعد اکثر اپنی یادداشتیں قلمبند کرتے ہیں، مگر آج تک پاکستان کے کسی خفیہ ادارے کے سربراہ نے ایسی کوئی کتاب نہیں لکھی

سلیٹی رنگ کی قمیض اور نیلی ٹائی میں ملبوس   استقبالیہ پر مامور نوجوان  مسکراتے ہوئے  آپ کو سکیورٹی  بیج تھماتا ہے اور  آپ سے موبائل وہیں چھوڑ جانے کی درخواست کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ  اوپر جاتی ہوئی سیڑھیوں پر آپ کے ساتھ چل پڑتا ہے۔ نیچے سے اوپر جاتے ہوئے  عمارت  کی  راہداری کی دیواریں  لکڑی کے عمدہ فریموں میں سجے خوبصورت مصوری کے نمونوں سے آراستہ ہیں ۔ دفتر میں چلتے ہوئے آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے گرد و پیش  کی دیواروں کئی رازوں سے آشنا ہیں،وہ راز جو شائد کبھی آشکار نہیں ہوئے جبکہ اس دفتر میں کام کرنے والے افراد اور افسران ان رازوں کے پہرے دار ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کے خفیہ اداروں کے سربراہان رئٹائرمنٹ کے بعد اکثر اپنی یادداشتیں قلمبند کرتے ہیں، مگر آج تک پاکستان کے کسی خفیہ ادارے کے سربراہ نے ایسی کوئی کتاب نہیں لکھی۔ پس یہ راز اوران رازوں سے حاصل ہونے والے تجربات شائد انہی دیواروں میں پیدا ہوتے اور مرجاتے ہیں ۔ نئی نسل ان تجربات سے سبق حاصل کرنے سے محروم ہی رہتی ہے۔

تقریباً30 قدموں  کے بعد آپ پہلی منزل پر پہنچ جاتے ہیں جو غالباً سب سے اہم منزل ہے جہاں ادارے کے سربراہ کا دفتر موجود ہے۔ ویسے تو آئی بی ہندوستان میں برطانیہ کی طرف سے قائم کردہ انڈین انٹیلی جینس بیورو کے بطن سے تقسیم کے موقع پر نکلی ہے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ ایجنسی کے پہلے سربراہ غلام  محمد کا تقرر تقسیم ِ ہند سے 13 دن قبل یعنی  یکم اگست 1947ء کو ہوا تھا۔ یوں اس ادارے کی عمر پاکستان  سے 13 دن زیادہ بنتی ہے۔ اب تک 39 سربراہان اس  ادارے کی سربراہی کر چکے ہیں ، جبکہ کچھ اوقات میں یہ ادارہ بغیر سربراہ کے بھی کام کرتا رہا ہے۔ ادارے کے پہلے 13 سربراہ ظاہری طور پر سول نوکر شاہی سے تعلق رکھتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے  سب سے پہلے  16 اپریل 1985 کو ایک فوجی افسر  میجر جنرل آغا نیک محمد کو  ادارے کا سربراہ مقرر کیا جنہوں نے 30 جولائی 1986ء تک اپنے فرائضِ منصبی ادا کیے اور بعد ازاں ایک پولیس افسر  اسلم حیات ان کے جانشین مقرر ہوئے۔ 1947 ء سے اب تک 38 سربراہان میں سے 9 سربراہان کا تعلق فوج سے تھا۔

روایتی طور پر آئی بی  اور اس کے سربراہ  کو وزیرِ اعظم کے کان اور آنکھ سمجھا جاتا ہے، ادارے کے سربراہ کا تقرر وزیرِ اعظم کرتا ہے اوراکثر و بیشتر  کسی بھی دوسرے حساس ادارے سے زیادہ اس  ادارے پر اعتماد کرتا ہے۔ 7 جون 2013 ء سے اکتیس جون دوہزار اٹھارہ تک اس ادارے کی سربراہی ایک ریٹائرڈ پولیس افسر  آفتاب سلطان کر رہے تھے جن کا تقرر سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے  کیا تھا۔

 

 آفتاب سلطان وہ واحد اعلیٰ پولیس افسر ہیں جنہوں نے مشرف دور میں، جب وہ سرگودھا میں تعینات تھے، آمر کے حق میں ہونے والے ریفرنڈم کی ہدایت کاری سے انکار کردیا تھا جس کی پاداش میں انہیں سزا کے طور پر او ایس ڈی بنا دیا گیا تھا

ایسا نہیں ہے کہ آفتاب سلطان پہلی بار اس عہدے پر تعینات ہوئے ہوں بلکہ وہ پیپلز پارٹی کے وزیرِ اعظم  یوسف رضا گیلانی کی جانب سے اکتوبر 2011 ء سے جولائی 2012 ء  تک  اس عہدے پر پہلے بھی براجمان رہ چکے ہیں۔ آفتاب سلطان پہلے سربراہ ہیں جنہوں نے دونوں سیاسی جماعتوں ، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں  4 وزرائے اعظم ، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف،  نوازشریف اور اب شاہد خاقان عباسی کے زیرِ نگرانی   بطور آئی بی سربراہ اپنی ذمہ داریاں نبھا ئی ہیں۔ آفتاب سلطان 2 اپریل کو عہدے سے رخصت ہوئے ہیں  تاہم جاتے جاتے انہی کے نامزد کردہ پولیس افسر ڈاکٹر سلیمان کو گریڈ بائیس میں ترقی دے کر آئی بی کے سربراہ کے طور پر تعینات کردیا گیا۔

 

آئی بی کی موجودہ پہچان میدان سیاست نہیں بلکہ انسداد دہشتگردی کی کاروائیاں ہیں جن میں اس ادارے نے  اپنا لوہا منوایا ہے

ڈاکٹر سلیمان ، آفتاب سلطان کے بعد ادارے کے چالیسویں سربراہ کے طورپر سات مئی سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔  ڈاکٹر سلیمان کو اپنے طاقتور پیشرو آفتاب سلطان کی جگہ شدید چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سب سے اہم  آئین و سویلین بالادستی ہے۔ آفتاب سلطان سویلین بالادستی کے حوالے سے اقتدار کی غلام گردشوں میں ایک جانی پہچانی شخصیت رہے ہیں۔  آفتاب سلطان کی سربراہی میں آئی بی 2014ء کے اسلام آباد دھرنے سے لے کر پانامہ اور ڈان لیکس تک منتخب وزیرِ اعظم کے  لیے مرکزی خفیہ ادارے  کا کردار ادا کرتی رہی ہے کیونکہ سیاسی اعتبار سے اسکی ساتھی ایجنسی  منتخب وزیراعظم  کے خلاف دھرنوں میں ملوث ہونے اور ان کے خلاف مبینہ سازشیں کرنے کا شک کرتے رہے جسکے شواہد بھی موجود ہیں۔ آئی بی کی موجودہ پہچان میدان سیاست نہیں بلکہ انسداد دہشتگردی کی کاروائیاں ہیں جن میں اس ادارے نے گذشتہ پانچ سال میں اپنا لوہا منوایا ہے ۔

آئی بی انسداد دہشت گردی  کے حوالے سےدیگر خفیہ اداروں  سے بہت آگے کھڑی ہے

ایجنسی کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا کہ ” ہم کہہ سکتے ہیں کہ آئی بی  انسداد دہشت گردی میں  سرِ فہرست ہے۔  صوبائی پولیس اور انسداد دہشت گردی اداروں کو ساتھ ملا کر ہم نے انسداد دہشت گردی کے لیے اپنی استعدادِ کار بڑھائی ہے۔” انہوں نے اپنی بات کی تائید میں اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے  بتایا کہ آئی بی نے 2013ء سے 2017ء تک  ملک بھر میں حساس نوعیت کی 3635 کارروائیاں کی ہیں جن میں  7062  سنگین اور دہشت گردانہ معاملات کا پتہ لگایا ہے۔ افسر نے مزید بتایا کہ آئی بی نے  قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ہونے والے  257 حملوں  کے مقدمات کے علاوہ خودکش حملوں کے 70،  بم دھماکوں کے 165 اور  اور ہدفی قتل کی 867 وارداتوں  کے مقدمات کو نمٹایا ہے۔ پیش کیے گئے اعدادو شمار کے مطابق  آئی بی نے 2779 دہشت گرد اور  1205اشتہاری مجرموں کو گرفتار کیا ہے اور اس دوران ادارے کے 29 افسران نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ افسر نے کہا کہ ” دیگر برادر حساس اداروں کی نسبت کم وسائل  کے باوجود میں بڑے فخر سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ہم انسداد دہشت گردی  کے حوالے سےدیگر خفیہ اداروں  سے بہت آگے کھڑے ہیں۔ ہم پارلیمان کے سامنے  اپنی کارکردگی رکھنے کے لیے تیار ہیں، وہ چاہے تو تقابل کر سکتی ہے۔”

بلوچستان اور ایوانِ بالا میں سیاسی جوڑ توڑ کے بارے میں  کیا خیال ہے؟ میں نے افسر سے سوال کیا۔ان کا جواب تھا کہ ” ہم پہلے ہی منتخب حکومت کو بلوچستان میں پیش آمدہ صورتِ حال کے بارے میں آگاہ کر چکے تھے اور یہ بھی بتا چکے تھے کہ کچھ اعلیٰ  افسران بلوچستان  میں حکومتی اکھاڑ پچھاڑ میں براہِ راست ملوث ہیں، اور بعینہِ ایوانِ بالا کے انتخابات سے متعلق  جو کچھ ہم جانتے تھے ، ہم نے حکومت کو اس سے آگاہ کیا، اور ‘ہم جانتے تھے’  (انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا)۔”  میں نے اگلا سوال  فیض آباد میں خادم حسین رضوی کی قیادت میں ہونے والے دھرنے سے متعلق کیا ۔ انہوں نے کہا ” یہاں بھی ہم اپنا کام مکمل کر چکے تھے۔ ہم نے حکومت کو خبردار کیا تھا کہ کچھ ہونے جارہا ہے اور بعدا زاں دھرنے کے دوران بھی ہم حکومت کو مسلسل معلومات فراہم کرتے رہے۔”

جنرل ظہیر الاسلام نے آفتاب سلطان کو منتخب وزیراعظم کے خلاف اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کی تھی

ایک حکومتی عہدیدار نے 2014ء کے اسلام آباد دھرنے کے دنوں میں ایک بار راقم کو بتایا تھا کہ اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹینینٹ جنرل ظہیر الاسلام نے آئی بی ہیڈ کوارٹر کا دورہ کرکے آفتاب سلطان کو پیشکش کی تھی کہ وہ اس وقت کے  وزیراعظم نوازشریف کی وفاداری کی  بجائے ان کی  یعنی ظہیرالاسلام  کی طرف آجائیں۔

میں نے ان سے اس بابت تصدیق چاہی تو مذکورہ افسر نے انتہائی اختصار کے ساتھ جواب دیا” جی! یہ بات بالکل ٹھیک ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ ” ہم یہاں منتخب حکومت کی معاونت کے لیے ہیں، حکومت کے خلاف کسی بھی سازش کا حصہ بننا ہمارا کام نہیں ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم غلط اور صحیح کے بارے میں آگاہی فراہم کریں اور ہم اپنا کام بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ ” ایک ایسا ملک جہاں اکثر و بیشتر سیاسی حکومت اور فوج کے درمیان تناؤ رہتا ہے، بہت کم لوگ   آئین کی اہمیت اور وزارتِ عظمیٰ کے منصب کے تقدس کو سمجھتے ہیں۔ ”  میرے کہنے پر انہوں نے مجھے بتایا کہ ” ہمارا ادارہ ہمیشہ پارلیمان اور آئین کی بالادستی کے حق میں رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ادارے کے سربراہ تمام پارلیمانی اجلاسوں اور پارلیمانی کمیٹیوں کی جانب سے رکھی گئی مجلسوں ، جہاں انہیں بلایا گیا ہو ، میں  ضرور حاضر ہوتے ہیں۔  آئی بی کے سربراہ ہمیشہ عدالتوں کے لیےدستیاب  رہتے ہیں کیوں کہ یہ ایجنسی عدالتوں کا احترام کرتی ہے۔”

نوے کی دہائی میں آئی بی پر سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے اوران کے فون ٹیپ کرنے کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں مگر رواں دور میں ایسا کوئی قابل ذکر واقعہ رونما نہیں ہوا۔ دراصل آئی بی کو سیاست کی جوڑ توڑ سے نکال کر صرف خفیہ معلومات فراہم کرنے اور انسداد دہشتگردی کے آپریشنز تک محدود کرنے کا سہرا آفتاب سلطان ہی نہیں بلکہ ان کے بھی پیش رو جاوید نور اور مختصر عرصے کے لیے ادارے کے سربراہ کے طور پر کام کرنے والے ڈاکٹر شعیب سڈل کو بھی جاتا ہے ۔ اتفاق کی بات ہے کہ یہ تمام کے تمام پولیس آفیسر ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں ادارے کو زیادہ موثر بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ تاہم آفتاب سلطان سب سے نمایاں اس لیے رہے کہ وہ زیادہ مدت تک اس ادارے کے سربراہ رہے اور اس ادارے کو کھڑا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا، ادارے کے ملازمین کی تنخواہوں سے لے کر خفیہ نگرانی کے اعلیٰ معیار کے آلات وغیرہ کی خریداری انہی کے دور میں ہوئی ۔

ڈاکٹر سلیمان ، آفتاب سلطان کی جگہ نئے آئی بی چیف کے عہدے پر کام کررہے ہیں۔ وہ ایک ایسے بیوروکریٹ کے بیٹے ہیں جس نے رئٹائرمنٹ کے بعد وکالت اختیار کرلی تھی ۔ ڈاکٹرسلیمان کا نام خیبر پختونخواہ پولیس کے اسلحہ خریداری سکینڈل سے بھی جڑا تھا مگر عدالت نے انہیں کلیئر کردیا ۔ ڈاکٹر سلیمان کو آفتاب سلطان آئی بی میں لائے اور انہیں آئی بی خیبر پختونخواہ کا  سربراہ تعینات کیا ۔ ڈاکٹر سلیمان نے خیبر پختونخواہ میں مقامی سی ٹی ڈی کے تعاون سے بہت سے انسداد دہشتگردی آپریشنز کی نگرانی بھی کی  ۔ مگر اب وہ ایک بڑے منظر نامے کا حصہ ہیں ، جہاں انہیں خونریزی سے پاک پرامن انتخابات میں اپنے ادارے کو غیر جانبدار انداز میں استعمال کرنا ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ انتخابی عمل میں غیر جمہوری حکومتیں کوئی کردار ادا نہ کرسکیں۔ ان کے پاس افرادی قوت تو نہیں ہوگی تاہم ان کے پاس خفیہ معلومات کا خزانہ ضرور ہوگا جسے وہ نگران وزیراعظم سے شیئر کریں گے۔ شائد ان حالات میں ان کا یہ سب کرنا بھی کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔

(ترجمہ: حذیفہ مسعود، بشکریہ :دی نیوز)

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...