مجھے کیوں نکالا؟ نواز شریف نے احتساب عدالت کو سب بتا دیا

1,498

جس کا ڈر تھا وہی ہوا۔ نوازشریف اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ کمرہ عدالت پہنچے تو کاغذات کے بنڈل میں الجھے نظر آئے۔ مریم نواز بھی ہاتھ میں قلم تھامے نوٹس لیتے ہوئے نظر آئیں۔عدالت کے بلانے پر نواز شریف اپنے وکیل کے دائیں طرف روسٹرم پر کھڑے ہوگئے۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر روبرو تین بار بھاری مینڈیٹ کے ساتھ  وزیر اعظم منتخب ہونے والےمیاں محمد  نوازشریف نے صفائی دینے کے ساتھ ساتھ اہم انکشافات بھی کیے۔ سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس، ڈان لیکس، سول ملٹری تناؤ اوربالواسطہ خلائی مخلوق کا ذکر بھی چھیڑ دیا۔ نواز شریف بہت سوچ سمجھ کر اپنا بیان لکھ کر لائے ہوئے تھے لیکن پھر بھی سوچ میں تبدیلی کا عمل جاری رہا، جس کی بنیاد پر وہ اپنے بیان کی نوک پلک سنوارتے رہے۔ پہلی بار بچ جانے والے پانامہ جے آئی ٹی کے دو اراکین پر بھی کھل کر تنقید کی۔ ان دو اراکین کا تعلق آئی ایس آئی اور ایم آئی سے ہے۔ نوازشریف نے سول ملٹری تعلقات میں تناؤ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا آئی ایس آئی کے بریگیڈئیر نعمان سعید اور ایم آئی کے کامران خورشید کی غیر مناسب تقرری کا فال آؤٹ رپورٹ پر مرتب ہوا۔ انہوں نےآئی ایس آئی کے بریگیڈئیر نعمان سعید کو انتہائی جارح قرار دیتے ہوئے  عدالت کو بتایا کہ یہ بریگیڈئیر کنٹریکٹ پر سورس ملازم ہیں، جن کی تنخواہ سمیت دیگر مراعات کے بارے کچھ بھی معلوم نہیں ہوسکا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے عدالت کو بتایا کہ بریگیڈئیر نعمان ڈان لیکس انکوائری کا بھی حصہ بھی رہے جس سے سول ملٹری تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا ہوا۔ جے آئی ٹی کے ہی ایک اور رکن اسٹیٹ بنک کے عامر عزیز کا مکمل خاندانی تعارف کراتے ہوئے کہا ان کو پرویز مشرف اپنے آمرانہ دور میں بنک کے شعبےسے عارضی طور پر نیب لے کر آئے تھے۔ عامر عزیز نے مجھ سمیت میری فیملی کے خلاف حدیبیہ ملز ریفرنس میں تحقیقات کیں تھیں۔ حدیبیہ ریفرنس لاہور ہائی کورٹ کے بعد حال ہی میں سپریم کورٹ نے بھی خارج کردیاہے۔

نوازشریف نے پانامہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کا دلچسپ تعارف پیش کیا۔ کہتے ہیں جے آئی ٹی کے سربراہ دیگر اراکین کے زیر اثر تھے۔ واجد ضیاء آزاد ایجنٹ کا کردار ادا نہیں کرسکتے تھے، ان کے تعصبات بھی ریکارڈ پر عیاں ہیں۔ انہوں نے کیسے اپنے کزن اختر راجا کو سولیسٹر بنایا۔ رابرٹ ریڈلے کو بھی اختر راجا نے جے آئی ٹی کے لیے تلاش کیا لیکن انہوں نے عجلت میں مریم نواز کی طرف سے ٹرسٹ ڈیڈز سے متعلق ایسی متضاد رپورٹ تیار کی کہ خود جرح میں وہ سب کچھ عیاں ہوگیا۔ نواز شریف اپنے دفاع میں اس وجہ سے کوئی گواہ پیش نہیں کر رہے  کہ وہ اس ریفرنس کو سرے سے کرپشن کیس کے طور پر دیکھ ہی نہیں رہے۔ سابق وزیر اعظم بالواسطہ یا بلا واسطہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو اپنا حریف گردانتے ہیں اور یہ موقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ ان پر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ ابھی تک نوازشریف نے  128 سوالات میں سے صرف 55 کے جوابات دیے ہیں۔ قوم کو نواز شریف کے مکمل موقف کا انتظار ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...