نفرت کرنےکافن
یہ دنیا نفرت سے بھری ہوئی ہے لیکن محض چند لوگ ہی جانتے ہیں کہ اچھی طرح نفرت کیسے کی جائے! ہم میں سے اکثر کی نفرت تخریبی انداز کی ہے۔ بطور فرد ہم باقاعدگی سے نفرت انگیز جذبات کا اظہار کرتے رہتے ہیں
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جو آپ سے محبت رکھے اس سے جواباً محبت رکھنا تو لازم ہے ہی لیکن جو آپ سے نفرت رکھے اس سے بھی محبت کرنا اصل کمال ہے، بلکہ کمال انسانیت ہے۔ کسی کی نفرت کو محبت میں بدلنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس سے محبت کی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ محبت ہی وہ اسم اعظم ہے جو نفرت کی کایا پلٹ سکتا ہے۔ معذرت کے ساتھ لیکن مجھے اس نقطہ نظر سے اختلاف ہے۔ جس شخص میں کسی وجہ سے نفرت بھری ہو (وجہ کوئی بھی ہو سکتی ہے) اس سے آپ جتنا محبت کا اظہار کریں گے اتنا اس میں آپ کے لیے نفرت میں اضافہ ہو تا چلا جائے گا۔ بھلا کیوں؟ اس لیے کہ نفرت کرنے والا جانتا ہے کہ اس سے محبت نہیں کی جا سکتی اور اگر پھر بھی کوئی اس سے محبت جتلا رہا ہے تو یا تو وہ بہت سادہ ہے یا بھر جھوٹ بول رہا ہے، دھوکا دے رہا ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ جھوٹ بولنے والے اور دھوکا دینے والے سے کوئی محبت نہیں کر سکتا۔ کسی شخص کے اندر سے نفرت ایک ہی صورت میں کم کی جا سکتی ہے، اس کو اس کی نفرت لوٹا کر، معروضی انداز میں۔ یہ معروضی انداز کی شرط میں نے یوں ہی نہیں لگائی، بلکہ یہ سارا دائرہ اسی نقطے کے گرد گھومتا ہے۔
چلیے میں اپنی بات کو ذرا آسان انداز میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اگر یہ گتھی سلجھاتے سلجھاتے پھر الجھ جائے تو خاطر جمع رکھئے گا کیونکہ سلجھاوَ کا سبھاوَ آتے آتے ہی آتا ہے۔ اصل میں محبت اور نفرت کے جذبات ہمیشہ سے فلسفیوں اور نفسیات دانوں کو الجھاتے آئے ہیں۔ اور وہ ابھی تک شائد ٹامک ٹوئیاں ہی مار رہے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک کتاب نظر سے گذری، عنوان تھا ‘نفرت کرنے کا فن’۔ یہ کسی جیرالڈ شون ولف نامی نفسیات دان نے لکھی ہے اور اس نے محبت اور نفرت کے بارے میں ہمارے بڑی محنت سے ترتیب دیے ہوئے رومان زدہ خیالات کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیا ہے۔ ہم جو اپنے تئیں ہمیشہ نفرت سے نفرت کرتے آئے تھے، ہمیں پہلی دفعہ اندازہ ہوا کہ نفرت جیسا قابل نفرت جذبہ بھی اصل میں کتنی نفسی بیماریوں کا تریاق ہے۔ شرط وہی اس کو معروضی انداز میں استعمال کرنے کی ہے۔
یہ عجیب ناقابل عمل سی شرط لگتی ہے۔ لیکن دھیرے دھیرے اپنے دل کو قابو میں رکھتے ہوئے اس گٹھڑی کو کھولا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ محبت ہو یا نفرت، یہ اصل میں ایک ہی جذبہ ہے جو مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ موضوعیت ہو تو محبت نفرت سے زیادہ نفرت انگیز ہے اور معروضیت ہو تو نفرت محبت سے زیادہ بانکی اور من موہنی ہے۔ اصل مسئلہ کسی بھی جذبے یا احساس کو اپنے اندر دبا اور چھپا کر رکھنے کا ہے۔ محبت ہو یا نفرت، جس جذبے اور احساس کو جتنا دبایا جائے گا اتنا ہی اس میں گھٹن اور تلخی پیدا ہوگی اور پھر بہت سے نفسیاتی اور جسمانی عوارض کی صورت میں ظاہر ہوگی۔ ونیکاٹ نامی ایک نفسیات دان لکھتا ہے کہ کس طرح ایک یتیم لڑکے نے، جو کچھ عرصہ اس کے گھر رہا، اس کے اندر نفرت کے شدید جذبات پیدا کر دیے۔ شدید ذہنی دباؤ کے شکار دیگر مریضوں کی طرح اس لڑکے کی ضرورت تھی کہ نفرت کے سخت جذبات ابھارے جو ونیکاٹ کے نزدیک اس کے لیے بلوغت کے عمل کا ایک حصہ تھا۔ ذہنی بلوغت کے اس عمل کو مہمیز کرنے کے لیے ونیکاٹ کے خیال میں ضروری تھا کہ وہ مریض کو اس کی نفرت کے بارے میں بتائے۔ اس کا کہنا تھا کہ ‘اگر مریض معروضی اور قابل جواز نفرت حاصل کرنا چاہتا ہے تو بہتر ہے کہ وہ یہ حاصل کر لے، کیونکہ اس کے بغیر وہ معروضی محبت بھی کبھی نہیں پا سکتا’۔
درحقیقت معروضی اور موضوعی محبت میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔ معروضی (یا اصل) محبت بنیادی طور پر اپنی خود پسندی اور انانیت (دوسرے لفظوں میں نرگسیت) پر قابو پانے کا تقاضا کرتی ہے۔ ایک نفسیات دان فرام کے نزدیک ’نرگسیت کا متضاد معروضیت ہے’۔ معروضیت اس صلاحیت کا نام ہے کہ لوگوں اور چیزوں کو ایسے دیکھا جائے جیسے وہ ہیں، یعنی معروضی طور پر۔ اور یہ کہ اس معروضی تصویر کو اس تصویر سے الگ کیا جا سکے جسے ہماری خواہشات یا ہمارے خوف تشکیل دیتے ہیں۔ فرام کے خیال میں نرگسیت کا تعلق بچپن کی اس خواب و خیال کی دنیا سے ہے جب بچہ خود کو ہر جگہ، اس پوری کائنات کے مرکز میں، وجہ تخلیق کائنات کے طور پر محسوس کرتا ہے۔ اپنے وجود کی مرکزیت کا یہ فطری احساس طفولیت کے ایام میں اسے زندہ رہنے، پھلنے پھولنے اور آگے بڑھنے کی نفسیاتی توانائی بہم پہنچاتا ہے۔ لیکن اپنی مرکزیت اور ہر جگہ موجود ہونے کا تصور اگر بلوغت میں بھی ساتھ رہے تو یہ نرگسیت کہلائے گی۔ اردو شاعری میں محبوب کے خود کو خدا سمجھنے کا تصور جگہ جگہ موجود ہے۔ یہ اسی نرگسیت کا اظہار ہے جو محبت کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
دوسری طرف معروضی محبت میں معقولیت ہوتی ہے اور معروضی محبت کے اہل افراد منکسر المزاج ہوتے ہیں۔ معروضی ہونے کا مطلب ہے کہ عقل و خرد سے کام لیا جائے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کوئی انکساری کی منزل حاصل کر لے، یعنی اگر انسان خود کو مرکز کائنات سمجھنے کے اپنے بچپن کے خوابوں سے باہر نکل آئے۔
نرگسی یا موضوعی پیار کی مثالیں سوچیں تو وہ والدین یاد آتے ہیں جو بچوں کو ہمیشہ اس پہلو سے دیکھتے ہیں کہ وہ ان کے کتنے فرماں بردار ہیں، ان کے لیے کس طرح اور کس قدر آرام اور معاشرے میں ان کی عزت کا باعث ہیں۔ یا پھر ایسے حضرات جن کو خطرہ رہتا ہے کہ ان کی بیگمات ان پر حاوی ہونے کی کوشش کر رہی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ خود اپنی ماؤں کے اثر سے نہیں نکلے۔ یا وہ بیویاں جو اپنے شوہروں کو کمزور اور احمق سمجھتی ہیں کیونکہ وہ ان کے بچپن کے تصوراتی خوابوں کے شہزادے کے تصور پر پورا نہیں اترتے۔
یہ دنیا نفرت سے بھری ہوئی ہے لیکن محض چند لوگ ہی جانتے ہیں کہ اچھی طرح نفرت کیسے کی جائے! ہم میں سے اکثر کی نفرت تخریبی انداز کی ہے۔ بطور فرد ہم باقاعدگی سے نفرت انگیز جذبات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ بغض اور حسد سے تحقیر اور استہزا تک اور پھر زہر آلود تلخی سے لے کر کراہت، غصے اور انتقام تک ہم پیچھے مڑ کر کم ہی دیکھتے ہیں۔ ہماری سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ ہمیں فوری اپنا دفاع کرنا ہے، صحیح اور حق پر دکھنا ہے (صحیح اور حق پر ہونا ضروری نہیں)، کسی کو سبق سکھانا ہے، کہیں فائدہ اٹھانا ہے، کسی مخالف کو شکست دینی ہے یا کسی نہ کسی دشمن کو نیست و نابود کرنا ہے۔ اسی طرح بطور گروپ ہماری نفرت ہمیں مذہبی جنگوں، نسلی تعصبات، قومی تنازعات، ماحولیاتی آلودگی اور نیوکلیر جنگوں کے خدشے کے تحت اس کرہ ارض کی تباہی کی طرف لے جاسکتی ہے۔ پھر بھی عام لوگوں میں (اب عام اور خاص کی تقسیم کیا کی جائے) اس حوالے سے کوئی تشویش نہیں پائی جاتی۔ کیا کہیں لیکن کیا تخریبی نفرت کی ایک بڑی شکل لاتعلقی نہیں ہے۔
فیس بک پر تبصرے