پر امن پاکستان

ترجمہ: حذیفہ مسعود

1,796

مہمان: لیفٹیننٹ جنرل (ر)ناصر خان جنجوعہ
(مشیر برائے قومی سلامتی)
انٹرویوئرز: محمد عامر رانا ، محمد اسماعیل خان

پاکستانی ریاست نے دہشتگردی کے خطرے سے نمٹنے کے لئے نیشنل ایکشن پلان کے نام سے ایک جامع حکمت عملی ترتیب دی ہے۔ جس کی کارکردگی کا جائزہ اور ذمہ داری قومی سلامتی کے مشیر جنرل ریٹائرڈ ناصر خان جنجوعہ کے سپرد ہے ۔ جنرل صاحب سے اس پلان کے مقاصد اور اس کی کامیابی کے امکانات پر پپس کی ٹیم نے انٹرویو کیا ہے جسے قارئین کی خدمت میں تحریرا پیش کیا جارہا ہے ۔ (ازطرف مدیر)

پپس: نیشنل ایکشن پلان (نیپ) پر گاہے گاہے سوالات اٹھتے رہتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟
جنرل (ر) ناصر: جب بھی دہشت گردی کی کوئی واردات ہوتی ہے، کوئی ملک دشمن تنظیم سامنے آتی ہے یا پھر شدت پسندی کا ہلکا سا ظہور ہوتا ہے تو لوگ نیپ کی کارکردگی پر سوال اٹھانا شروع کر دیتے ہیں ۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔مختصرا یہ کہ آج نیپ کو تمام بیماریوں کی زود اثر دوا سمجھ لیا گیا ہے، حالانکہ اسے ایک طویل المدتی لائحہِ عمل کے طور پر دیکھنا چاہییے۔
نیپ 20 نکات پر مشتمل ہے، بنیادی طور پر یہ ہمارے سماج کے 20 خلا ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے لیے الگ الگ حکمتِ عملی کی ضرورت ہے اور پھر ان تمام 20 نکات پرقومی و صوبائی ، ہر دو سطح پر کام کرنا نہایت اہم ہے۔
ادارہ: ضربِ عضب اور خیبر ایجنسی میں 4 فوجی کارروائیوں کی کامیابی کے دعووں کے باوجود فاٹا میں دہشت گردانہ واقعات میں 2016 کی نسبت 2017 میں زیادہ افراد مارے گئے، آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں؟
جنرل (ر) ناصر: صحیح ، اس بات کاٹھیک طرح سے ادراک نہیں کیا جا سکا کہ عسکریت پسندجو کہ ہمارے دشمن ہیں ، ایک محفوط ملک کی طرف منتقل ہو گئے ہیں۔ ہم نے شمالی وزیرستان ،جو ایک وقت میں عسکریت پسندی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا ، سمیت اپنے علاقوں میں کامیابی سے فوجی کارروائیاں کی ہیں۔لیکن ہم ملکی سرحد سے باہر کارروائی نہیں کر سکتے جہاں دشمن محفوظ بھی ہے اور اسے وہاں سے مدد بھی ملتی ہے ، جس کے سبب وہ کبھی کبھار حملہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ اب دہشت گرد وں کے پہلے کے سے دن نہیں رہے، وہ اب بھاگ رہے ہیں،یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ بہت سے حملے ناکام کیے گئے ہیں اور ہنوز کیے جارہے ہیں۔قانون نافذ کرنے والے ادارے انٹیلی جنس کی بنیاد پر کومبنگ آپریشن اور دیگر چھاپہ مار کارروائیاں کرتے رہے ہیں، اور یہ سب خطرے کے خاتمے کے لئے کیا جاتا رہا ہے۔
پپس: حال ہی میں آپ کو قومی سلامتی پالیسی مرتب یا مکمل کرنیکی ذمہ داری سونپی گئی ہے، آپ اس پر پیش رفت سے آگاہ کرسکتے ہیں؟
جنرل(ر)ناصر: پالیسی وضع کر کے متعلقہ کمیٹی کو بھیج دی گئی ہے۔قوی امید ہے کہ یہ 2018 میں پیش کر دی جائے گی۔ جہاں تک جامع لائحہ عمل کی بات ہے تو میں نے اپنی تجاویزدی ہیں جو غذا اور توانائی کے تحفظ کے نظام العمل سمیت سلامتی کے تمام پہلووں کا احاطہ کرنے کی تلقین کرتی ہیں اور جن میں علاقائی و عالمی حرکیات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
ادارہ: نیشنل ایکشن پلان کی جوابدہی کس کے ذمہ ہے؟ بطور مشیر برائے قومی سلامتی آپ کے ،ایپکس کمیٹیوں یا پھرنیکٹا؟ کیا واضح طور پر متعلقہ اداروں کے کردار کی تعیین کی گئی ہے؟ اس سے باہمی تعاون کو فروغ ملے گا یا پھر اختیارات کی کشمکش شروع ہو جائے گی؟
جنرل(ر)ناصر: 2016 میں مجھے نیشنل ایکشن پلان کا کنوینئر تعینات کیا گیاتھا۔ حالیہ دسمبر میں یہ ذمہ داری وزیرِ داخلہ کے سپرد کر دی گئی۔ بطور مشیر برائے قومی سلامتی میری ذمہ داری نیشنل ایکشن پلان پر وزیرِ داخلہ کی معاونت کرنا ہے۔صوبائی سطح پر وزرائے اعلی متعلقہ صوبوں میں نیپ کے کنوینئر ہیں اور جہاں تک نیپ پر عملدرآمد کی بات ہے تو بہت سے معاملات صوبوں کے سپرد کیے گئے ہیں جن میں تعلیم اور پولیس کے شعبہ جات نمایاں ہیں۔
ادارہ: ایپکس کمیٹیوں کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
جنرل(ر)ناصر: صوبائی سطح پر ایپکس کمیٹی مکمل طور پر الگ فورم ہے۔ یہ کام کرتی رہے گی۔ یہ کمیٹی نیپ کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ یہ مجموعی طور پر ملکی سلامتی کے معاملات کو دیکھتی ہے۔
ادارہ: نیپ کی ٹاسک فورس کے کنوینئر ہونے کے ناطے آپ سے نیپ پر عملدرآمد میں تیزی لانے کو کہا گیا تھا۔ یہ ابتدا سے ہی اس قدر سست روی کا شکار کیوں ہے؟ کون سے معاملات ہیں جنہیں سلجھانا مشکل ہے؟
جنرل(ر)ناصر: جیسے کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ نیشنل ایکشن پلان ایک طویل المدتی لائحہِ عمل ہے اور اسے اسی تناظر میں دیکھا جاناچاہیے۔ دوسرا یہ کہ شدت پسندانہ خیالات سے متعلق جو نکات نیپ میں شامل ہیں وہ انتہائی حساس نوعیت کے ہیں اور کسی نہ کسی طرح یہ خیالات مذہبی افکار و تشریحات سے منسلک ہیں۔اگر ہم ان معاملات پر بغیر کسی تیاری کے تیزی سے آگے برھتے ہیں تو ہم ٹھوکر کھا سکتے ہیں اور سماج میں مزیدافتراق کا خطرہ بھی موجود ہے۔
مثال کے طور پر نفرت انگیز تقریر و تحریر پر گرفت کا نکتہ ان نکات میں شامل ہے۔ ایک مسلک کی دوسرے مسلک کے خلاف لکھی گئی کتابیں خالصتا اعتقادی مسائل پر مشتمل ہیں۔کیا یہ نفرت انگیز ی کے زمرے میں آئیں گی؟ اور پھر یہ کہ آپ ان کا تدارک کیسے کریں گے؟ یہ مسئلہ محض پاکستان کا نہیں ہے، یہ عالمِ اسلام کا مسئلہ ہے۔ ان نظریات کویک لخت ختم کرنا آسان نہیں ہے۔ ایسے نظریات گزشتہ 40 سال سے پنپ رہے ہیں۔
پپس: تو آپ کے خیال میں اس معاملے پر کیا کرنا چاہیے؟
جنرل(ر)ناصر: ایسے خیالات کے تدارک کے لیے ہمیں ایک امن پسندبیانیہ تشکیل دینا چاہیے۔ سوات میں میری تعیناتی کے دوران بالآخر مجھے محسوس ہوا کہ یہ لڑائی دراصل مختلف بیانیوں کے درمیان ہے جبکہ ایک ہی مذہب میں دو بیانیے نہیں ہو سکتے۔ایک امن پسند بیانیہ یہ ہو سکتا ہے کہ دین کا غلط استعمال نہ کیا جائے۔
پپس: مدرسہ اصلاحات کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟ مدارس کو قومی دھارے میں لانے کے حوالے سے آپ اپنے حاصلات بھی پیش کر چکے ہیں۔ آپ اس موضوع پر مزید روشنی ڈالنا چاہیں گے؟
جنرل(ر)ناصر: طلبہ مدارس کے لیے ” مدرسہ اصلاحات ” کی اصطلاح موزوں نہیں ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ مذہب پڑھا رہے ہیں۔ “تعلیمی اصلاحات” زیادہ موزوں اصطلاح ہو سکتی ہے۔ جہاں تک طلبہ مدارس کا مسئلہ ہے تو ہمارا مطمعِ نظر یہ ہے کہ انہیں برابری کی بنیاد پر مواقع فراہم کر کے قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔منتظمینِ مدارس اپنے طلبہ کو انگریزی، ریاضی، جنرل سائنس اور مطالعہ پاکستان پڑھانے پر آمادہ ہو چکے ہیں۔ان مضامین کے کامیاب امتحان کے بعد متعلقہ صوبوں کے تعلیمی بورڈز کی جانب سے ان طلبہ کو ضمنی ڈگریاں جاری کی جائیں گی۔
ان اصلاحات کے سبب طلبہ مدارس ٹیکنیکل تعلیم کا انتخاب کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ حتی کہ وہ ایم فل اور ڈاکٹریٹ تک تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ان مدارس کو صوبائی حکومتوں کی جانب سے ریاستی ذمہ داری کے طور پر فنڈ دیے جائیں گے ۔
اس کے علاوہ مدارس کا ایک سروے بھی کیا گیا ہے جس کے مطابق ملک بھر میں موجود تقریبا 38،ہزار مدارس میں 30 لاکھ 50 ہزار طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔ امید ہے کہ مستقبل میں طلبہ مدارس کسی بھی میدان میں کسی بھی شعبے سے منسلک ہو سکیں گے۔وفاق ہائے مدارس کے سامنے تجاویز رکھی جا چکی ہیں۔ اس پر مشاورت جاری ہے۔ امید ہے 2018 میں منظرِ عام پر آ جائے گی۔
پپس: 2017 میں بھارت کی جانب سے سرحدی حدود کی خلاف ورزی کے قابلِ ذکر واقعات رونما ہوئے ۔ آپ انہیں کس طرح دیکھتے ہیں؟
جنرل(ر)ناصر: بھارت کشمیر جیسے اصل اوراہم مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لیے لائن آف کنٹرول پر حالات کشیدہ رکھنے کی مسلسل کوشش کررہا ہے۔ پاکستان میں جو مزاحمت ہو رہی ہے بھارت اسے دہشت گردی قرار دیتا ہے۔وہ پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے دخل اندازی کی بات کرتے ہیں۔مسائل کو محض سرحد کے ساتھ جوڑ نے سے کشمیر کا تمام تر مسئلہ ثانوی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ بھارت لائن آف کنٹرول پر کشیدگی برقرار رکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ پاکستان پر الزام تراشی کر سکے۔
پپس: نیشنل ایکشن پلان کے دیگر نکات ،جیساکہ میڈیا پر عسکریت پسندوں کی تشہیر کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جنرل(ر)ناصر: باوجود اس کے کہ ذرائع ابلاغ عسکریت پسندوں کو پردے سے دور رکھے ہوئے ہیں ، تاہم کبھی کبھار ایسی کچھ رپورٹس شائع ہو جاتی ہیں ، جنہوں نے عسکریت پسندوں کو کسی حد تک زندہ رکھا ہوا ہے۔یہ زیادہ تر اس لیے ہوتا ہے کہ یہ عسکریت پسند گروہ ذرائع ابلاغ پر دباؤ ڈالتے رہتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں حتمی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ عسکریت پسندوں کا نام تک سامنے نہ آئے۔
پپس: جب آپ کمانڈر سادرن کمانڈ کے طور پر خدمات سرنجام دے رہیتھے، اس وقت سے لے کر اب تک آپ بلوچستان کی صورتِ حال سے متعلق کافی پر امید رہے ہیں ۔ جبکہ دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان میں تشدد کے زیادہ واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ایسا کیوں ہے؟
جنرل(ر)ناصر: بلوچستان میں میری تعیناتی کے دوران حالات بدل گئے تھے۔بلوچستان میں بڑا مسئلہ یہ تھا کہ لوگ پاکستان کا جھنڈا نذرِآتش کررہے تھے اور قومی ترانہ پڑھنے پر مائل نہیں تھے۔ اب الحمد للہ ہر جگہ لوگ پاکستان کا پرچم اٹھاچکے ہیں اور قومی ترانہ گا رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ میں بلوچستان کے حوالے سے انتہائی پر امید ہوں۔ پاکستان کا پرچم جلانے سے لے کر دوبارہ لہرانے تک ہم نے اچھا خاصا سفر طے کیا ہے۔
تاہم یہ محض میری کوششوں کا نتیجہ نہیں تھا، ایف سی، قانون نافذ کرنے والے اداروں، فوج، وزیرِ اعلی اور سب سے بڑھ کر بلوچ عوام ، کیا بوڑھے، کیا جوان اور بچے ،سبھی نے انتہائی مثبت کردار ادا کیا۔یہ حوصلہ افزا تبدیلی انہیں کی بدولت ممکن ہوئی ہے۔
میں کہنا چاہوں گا: “بلوچستان! مجھے تم سے محبت ہے۔” بلوچستان اب ‘جیوے جیوے بلوچستان، جیوے جیوے پاکستان’ جیسے مسحور کن گیت گنگنا رہا ہے۔
پپس: بلوچستان میں سیاسی مصالحت ، جیسا کہ نیشنل ایکشن پلان میں موجود ہے سے متعلق آپ کیا کہیں گے؟
جنرل(ر)ناصر: گزشتہ چند برسوں میں 2000 سے زائد علیحدگی پسندوں نے ہتھیار ڈالے ہیں، یہ ایک طرح سے مصالحتی عمل کا نتیجہ ہے۔جہاں تک علیحدگی پسند راہ نماں کی بات ہے تو مختلف ممالک کی جانب سے ان کی سرپرستی ایک مسئلہ ہے۔ اس بارے میں مختلف ممالک سے بات چیت کی گئی ہے، ان سے کہا گیا ہے کہ ریاست پر افراد کوترجیح نہ دیں۔
یہ بھی کہ علیحدگی پسندوں کی اعلی قیادت کی پاکستان واپسی سے دونوں طرح کی صورتِ حال سے پالا پڑ سکتا ہے۔ کیا معلوم وہ فروغِ امن کے لیے ہمارا ساتھ دیں یا تشدد کے پھیلا میں حصہ دار بنیں۔
پپس: فاٹا اصلاحات کمیٹی، آپ بھی جس کے رکن تھے نے فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کی تجویز دی تھی۔ لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔اصل رکاوٹ کیاہے؟
جنرل(ر)ناصر: اصلاحاتی عمل غالبا وقت لے گا۔تاہم پریشانی یہ ہے اگر ایک بار اصلاحات نافذ کر دی جاتی ہیں تو کیا یہ مزاحمت برداشت کر پائیں گی؟ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے نزدیک سیاسی استصوابِ رائے اور عوامی حمایت بہت اہم ہیں۔ اسی وجہ سے حکومت اپنے سیاسی شراکت داروں کو آمادہ کررہی ہے۔
جہاں تک مستقبل میں فاٹا کی حیثیت کی بات ہے تو فاٹا اصلاحات کمیٹی( جس کا میں حصہ تھا) نے اس علاقے کوقومی دھارے میں لانے کی سفارش کی تھی جس میں انضمام کے علاوہ 2 اور صورتیں بھی شامل تھیں۔ہر ایک کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ خیبرپختونخوا فاٹا کی طرح زیادہ ترقی یافتہ نہیں ہے۔اصل منصوبہ یہ تھا کہ فاٹا کو پہلے ترقی دی جائے، اسے خیبر پختونخوا کے برابر لایا جائے اور پھرصوبے میں ضم کردیا جائے۔ تاہم درحقیقت فاٹا کے انضمام کو زیادہ پذیرائی حاصل ہوگئی ۔
پپس: تمام گروہوں کے خلاف کریک ڈان سے متعلق کیا کہنا چاہیں گے؟ کیا ایسا کیا گیا ہے؟
جنرل(ر)ناصر: جلد بازی میں کیے گئے فیصلے الٹے پڑ سکتے ہیں۔ریاست پہلے ہی پاکستان مخالف گروہوں کے خلاف سخت کارروائیاں کر رہی ہے۔ان کے خلاف تمام تر کامیابیوں کے باوجود ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔اس تناظر میں پاکستان کے اندر حملے نہ کرنے والے گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرنا خود کو مشکل میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ کسی بھی حکومت کے لیے کسی بھی صورت مسئلہِ کشمیر پر سمجھوتا کرنا مشکل ہوگا۔عوام کی طرح حکومت بھی کشمیرپر کسی لچک کا مظاہرہ نہیں کر سکتی۔ ہر چیز کوبھٹی میں جھونکنا کوئی عقلمندی کی بات نہیں، بالخصوص جب طالبان سے بھی مکمل طور پر چھٹکارا نہ مل پایا ہو۔ تمام گروہوں کیخلاف کریک ڈاوں ایک جامع حکمتِ عملی کا متقاضی ہے۔
پپس: تو آپ کے ذہن میں کوئی حکمتِ عملی ہے؟ کیا اس سلسلے میں نرم روی اختیار کی جا سکتی ہے؟
جنرل(ر)ناصر: ابھی تک ہماری زیادہ تر توجہ سختی سے نمٹنے پر ہے۔نرم روی اختیار کرنے کے بارے میں بھی سوچا جا نا چاہیے۔ جیسے کہ باغی گروہوں کو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرنا ۔
ایسا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مخالف فریق بھی لچک کا مظاہرہ کریں تاکہ اس حکمتِ عملی کو اٹھان مل سکے۔ بلوچستان میں 2000 افراد کو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کیا گیا ، یہ ایک بڑی تعداد ہے۔دوسرے گروہوں (جو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوں)کو بھی اسی طرح کی پیشکش کی جا سکتی ہے۔طاقت کا استعمال ہمیں دیکھ بھال کر ان لوگوں کے خلاف کرنا چاہیے جو ہم سے لڑ رہے ہیں۔ہمیں اپنے لوگوں سے عزت اور احترام سے برتا کرنے کی ضرورت ہے۔
پپس: کچھ اور کہنا چاہیں گے؟
جنرل(ر)ناصر: پاکستان ایک عظیم ملک ہے جسے خدا نے عظیم اور جری لوگوں سے نوازا ہے۔ہمارے پاس سب کچھ ہے، بس ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔
پرامن پاکستان
دسمبر 2017 میں وزیرِ اعظم پاکستان کی جانب سے مشیر برائے قومی سلامتی جنرل(ر)ناصر خان جنجوعہ کو قومی سلامتی پالیسی ترتیب دینے کو کہاگیا۔ اس وقت یہ پالیسی مرتب ہوچکی ہے اور متعلقہ کمیٹیوں کو بھیج دی گئی ہے۔امید ہے کہ 2018 میں یہ پالیسی منظرِ عام پر آجائے گی۔پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹدیز کی ٹیم نے جنرل(ر)ناصر خان جنجوعہ سے قومی سلامتی کے حوالے سے ان کے خیالات و افکار جاننے کے لیے ان سے بات چیت کی جن کی جھلک نئی دستاویز( قومی سلامتی پالیسی) میں نظر آئے گی۔
سلامتی کا معاصر تصور کثیر الجہتی ہے۔
قومی سلامتی کا (روایتی)تصور زیادہ تر علاقائی سالمیت کے گرد گھومتا ہے۔ (ماضی میں)کسی بھی ریاست کا مقصد اپنے علاقے کا تحفظ ہوتا تھا۔ باوجود اس کے کہ اس عنصر کی مرکزیت ہنوز قائم ہے ، تاہم اگر کسی کی حفاظت و سلامتی مقصود ہو تو یہ تصورروایتی تناظر سے کافی وسیع معانی و مفہوم کا حامل ہو جاتا ہے۔ وجوہات جو بھی ہوں ، اگر عوام محفوظ نہیں ہیں تو ملک بھی محفوظ نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے ضروری ہے کہ قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل کی کوئی بھی کوشش میں نچلی سطح پر موجود مختلف قوتوں کو زیرِ غور لانا چاہیے۔ کیوں کہ آخر کار یہ ایک عام پاکستانی کی حفاظت سے تعلق رکھتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس کام کے لیے آگے کیسے بڑھا جائے؟کیا لائحہِ عمل اختیار کیا جان چاہیے؟ اور پھر یہ کہ کون سی وجوہات کو دیگر پر فوقیت دی جانی چاہیے؟
میرے خیال میں قومی سلامتی کو مختلف عالمی و علاقائی سطوحات کو مدِ نظر رکھ کر ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔حتی کہ اس دور میں خلائی سلامتی بھی از بس ضروری ہے۔اگر ملک کے ایک اہم حصے میں واقع قصبے کی کسی گلی میں چلتا ہوا کوئی شخص کسی خلائی ٹیکنالوجی کی زد میں ہے تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں ہم محفوظ ہیں۔
عالمی سلامتی ایک اہم عامل
عالمی سلامتی قومی سلامتی کی حرکیات کو سمجھنے کا بنیادی ذریعہ ہے۔یہ دراصل بین الاقوامی سطح پر سلامتی کی حرکیات سے متعلق ہے جہاں آکر تمام تر توجہ ” طاقت کی بین الاقوامی سیاسیات ” پر مرتکزہو جاتی ہے جو حقیقتا طاقتور ملکوں کی باہمی کشمکش ہے۔ بڑے ممالک مرکزی کردار ادا کرتے ہیں جبکہ دیگر ممالک کی حیثیت محض تالیاں پیٹنے والوں کی سی ہوتی ہے۔ اس کی واضح ترین مثال سرد جنگ ہے جس کے دوران ہم جیسے ترقی پذیر ممالک صریحا دو باہم نبرد آزما اتحادوں کا حصہ بن گئے تھے۔ یا تو سوویت یونین کی طرف، یا پھر امریکہ کے ساتھ۔
عالمی سطح پر سلامتی کی حالیہ حرکیات کے تحت طاقت کی عالمی سیاست کے رخ کا مطالعہ کرنا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
تغیر پذیر دنیا
آج کل دنیا تبدیلی کے عمل سے گزررہی ہے ۔ امریکہ قابلِ ذکرخسارے کے ساتھ تنزلی کی جانب مائل ہے جبکہ چین ایک نئی طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔ مشرقِ وسطی یا مسلم دنیا اس وقت بدنظمی و افراتفری کا شکار ہے اور روس ایک نئی امنگ کے ساتھ سامنے آرہا ہے۔
ان تبدیلیوں میں سب سے اہم چین اور امریکہ کے باہمی تعلقات ہیں۔اس بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہیکہ ان کے تعلقات آیا باہمی تعاون کی طرف جائیں گے یا مسابقانہ روش پر آگے بڑھیں گے۔اگر دنیا بھر میں امریکی فوجوں کی تعیناتی کو دیکھا جائے تو بہ آسانی کوئی بھی یہ محسوس کر سکتا ہے کہ امریکی فوج کی زیادہ تعداد چین کے مشرق یا پھر روس کے مغرب میں تعینات ہے۔چین کے “حد میں رہنے” اور “ایشیائی محور” جیسے الفاظ فطری طور پر عالمی سیاست کی نئی پشت بندی اور ایشیائی خطے میں اس کے اثرات کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ نمایاں چیلنجر یعنی چین کے آگے بند باندھنے کی امریکی حکمتِ عملی حیران کن طور پر مسابقت پر مبنی ہے۔ آخرزعمِ برتری باہمی تعاون پر کہاں آمادہ کر پاتا ہے۔ عالمی افق پر اس طرح کی تبدیلی واضح طور پر پاکستان جیسے ممالک پر اثر انداز ہوتی ہے اور یہیں سے علاقائی سلامتی کی ابتدا ہوتی ہے۔
بدلتا ہواعلاقائی منظرنامہ
نہ صرف ہمسایہ ممالک بلکہ خطے کے دیگر ممالک اور مسائل وسیع تناظر میں علاقائی سطح کے حوالے سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ چین ۔امریکہ کشمکش کی طرف لوٹتے ہیں ، آبنائے ملاکا میں جنوبی چین کے ساحل کو چین اقتصادی راہداری کے طور پر استعمال کرسکتا تھا ، اس کے ذریعے چینی تجارت کا رستہ بہت حد تک محدود کیا جا رہا ہے۔ پاکستان بھی بلاواسطہ کردار کے طور پر اس کھیل کا حصہ بن جاتا ہے۔یہ چینیوں کو اس صورتِ حال سے بچا سکتا ہے۔پاک-چین اقتصادی راہداری چین کو بحرِ ہند اور دیگر دنیا سے رابطے کا راستہ فراہم کرتی ہے۔
یہ بے پرکی نہیں ہے۔ ماضی میں پاکستان کا موقف رہا ہے کہ روس بحرِ ہند تک رسائی چاہتا ہے۔ان دنوں “گرم پانی” کی اصطلاح کو زیادہ ترتنقید کا سامنا رہا ۔مگربعد ازاں 1979 میں روسی افواج کی افغانستان پر چڑھائی سے ظاہر ہواکہ یہ تصور مکمل طور پر غلط نہیں تھا۔
ابھی کھیل باقی ہے۔چین کے کردار کو محدود کرنے کے لیے بھارت کو اقتصادی و عسکری لحاظ سے مضبوط کیا جا رہا ہے۔درحقیقت امریکہ پہلے ہی بھارت سے ہاتھ ملا چکا ہے۔ہر دو ممالک کے مابین تجارت، دفاع، فوجی تعاون، کمیونیکیشن انٹیروپرابلٹی ، بحری ، فضائی اور سائبر سکیورٹی جیسے مختلف معامالات پر معاہدات در معاہدات ہورہے ہیں۔مختصرا یہ کہ خطے میں دفاعی توازن برقرار رکھنے کے لیے بھارت کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔
پاکستان پر اثرات
مندرجہ بالا تما م تر تبدیلیاں پاکستان پر بھی اثر انداز ہوئی ہیں۔پاکستان سے متعلق امریکی حکمتِ عملی بھی سبک روی سے اسی رخ پر نمو پا رہی ہے۔ایک خطہ-ایک راہداری منصوبے، سی پیک جس کا حصہ ہے، پر امریکہ کے تحفظات ، بھارت کو افغانستان میں کردار ادا کرنے کی دعوت اور اس طرح کے دیگر عوامل اس صورتِ حال کی صحیح عکاسی کرتے ہیں۔ اور مزید یہ کہ بھارت کو مواقع کی سرزمین اور پاکستان کو خطرے کی علامت کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
بھارت اس بات کا بخوبی ادراک رکھتا ہے کہ وہ کئی وجوہات کی بنا پر پاکستان سے روایتی جنگ نہیں کر سکتا۔یہی وجہ ہے کہ وہ غیر روایتی طریقوں سے پاکستان کے خلاف نبردآزما ہے۔وہ افغانستان میں اثرو رسوخ پیدا کر چکا ہے۔حتی کہ پاکستان میں دہشت گردی افغانستان میں بیٹھے گروہ پھیلارہے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کو بھارتی آشیرباد حاصل ہے۔
اگر علاقائی حرکیا ت کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ایسا نظر آتا ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں کے لیے ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں جہاں انہیں بیک وقت دو محاذوں پر توجہ دینا پڑے گی۔ پاکستان سوچتا ہے کہ وہ بھارت اور افغانستان کے بیچ جکڑا ہوا ہے جبکہ یہی سوچ بھارت کی پاکستان اور چین سے متعلق ہے۔ یہ بھی کہ انتہا پسندی کے حوالے سے دونوں ممالک کوایک جیسے اندرونی مسائل کا سامنا ہے۔
اسی طرح بھارت امریکہ کے ساتھ دفاعی تعاون کا خواہشمند ہے اور اگر ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس کے نتائج کبھی اچھے برآمد نہیں ہو ئے۔ اس کے بجائے اگر امریکہ خطے میں اپنے قیام میں تخفیف کرتا ہے تو علاقائی امن کے امکانات بہتر ہو سکتے ہیں ۔ خطے میں امریکی قیام افغانستان پر زیادہ اثر انداز ہوگا۔افغانستان میں عدمِ استحکام نے سارے خطے، بالخصوص پاکستان کو متاثر کیا ہے۔ یہاں قیامِ امن کے اثرات بھی دور دور تک مرتب ہوں گے۔

تجاویز و سفارشات:
ا۔ افغان جنگ بندی
افغانستان میں جنگ کا خاتمہ اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ابھی تک کی ترجیح تو جنگ جیتنا ہے۔اور اس روش سے جنگ کو طول ہی ملے گا۔بہرحال جنگ میں کامیابی محض دیوانے کا خواب ہو سکتی ہے کیوں کہ افغانستان کے 44 فیصد علاقے پرتو طالبان کی عملداری قائم ہے۔
افغانستان کا مسئلہ عسکری نہیں، سیاسی ہے۔امریکہ یہاں کوئی سیاسی اتھارٹی بھی قائم کرسکتا ہے جو فوجی اتھارٹی کی طرح بااختیار ہو۔
اس کے ساتھ ساتھ افغان حکومت اور افغان طالبان کو افغانوں کے نمائندہ ہونے کے ناطے مل بیٹھنا چاہیے تاکہ امریکیوں کی افغانستان موجودگی سے متعلق افغان عوام کا موقف سامنے آ سکے۔
ب۔ علاقائی ربط
تصادم کی اس کشمکش سے نکلنے کا بہتر راستہ علاقائی اقتصادیات میں سرمایہ کاری ہے۔یہ احساس کرنا چاہیے کہ علاقائی ربط سازی قومی سلامتی کا اہم جزو ہے۔ہمارا مستقبل ایک بڑی تجارتی گزرگاہ بننے میں پنہاں ہے۔
اس کے لیے کئی راستے ہیں۔ ملک کے اندر پاکستان بلوچستان کو انڈسٹریل صوبے کا درجہ دے سکتا ہے اور صوبے کے ساحلی علاقوں میں بین الاقوامی شہر تعمیر کر سکتا ہے۔اس کے علاوہ بھی کئی داخلی راستے ہو سکتے ہیں۔ خارجی محاذ پر ایک مضبوط اقتصادیات کے ذریعے ، جس کی پشت پر کئی ربط ساز منصوبے ہوں ، پاکستان کو خطے بھر پر پھیلی اقتصادی راہداری کا مرکز بنایا جاسکتا ہے جو پاکستان کو چین، روس اور وسطی ایشیائی خطے تک رسائی فراہم کرتی ہو ۔
ج۔ قومی سلامتی کی تشکیلِ نو
عالمی و علاقائی تغیرات قومی سلامتی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ساتھ ہی پاکستان کی پوزیشن اوران حالات سے موافقت بڑی حد تک اس بات سے مشروط ہے کہ اس نے عدمِ استحکام کی بعض درپردہ وجوہات پر کس قدر توجہ دی ہے۔ سب سے بنیادی بات کہ قومی سطح پر کیا کیا جا رہا ہے۔
موسمیاتی تغیر، سیاسی استحکام، حکومتی عملداری، انسانی تحفظ، غذائی تحفظ، افرادی قوت میں بہتری، تعلیمی اصلاحات ( جن میں طلبہ مدارس کے لیے روزگار کے متنوع مواقع موجود ہوں)، توانائی کا تحفظ، آبی تحفظ، اقتصادی مقاصد جیسے کہ ٹیکس محصولات اور نسلی یا قومی ، مسلکی اور مذہبی تعصبات کا خاتمہ اور سول ملٹری تعلقات میں بہتری ایسے مسائل ہیں جن کو کسی بھی قومی سلامتی پالیسی کا حصہ بنانا انتہائی اہم ہے۔ سائبر سکیورٹی، اقتصادی پالیسیاں اور رجحانات، داخلی پالیسیاں اور جوہری حکمتِ عملی جیسے مسائل، جو عالمی سیاست پر اثر انداز ہو رہے ہیں کو بھی زیرِ غور لانا چاہیے کیونکہ کسی بھی ملک کی تصویر عالمی سطح پر اس کی حیثیت طے کرتی ہے۔یہ ایک عام پاکستانی کے لیے کیا جانا چاہیے۔
سلامتی کا ایک جامع تصورہی ہمیں پاکستان کی حقیقی قوت کا احساس دلا سکتا ہے۔ افراتفری ا ور قتل و غارت کا شکار مسلم دنیا کے مسائل کے حل کے لیے بہت سے لوگ پاکستان کو امید بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔پاکستان پہلے ہی ایک مضبوط دفاعی قوت ہے، مضبوط معیشت سونے پہ سہاگے کا کام کرے گی۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...