سی پیک کے لئے متبادل روٹ کی ضرورت
یہ روٹ قراقرم پاس کی نسبت بہت کم مسافت کا ہے جس کے باعث اس روٹ پر مسلسل 1905 ء تک لوگ آمدو رفت کرتے رہے لیکن بعد میں
گلیشیر بڑھنے کے باعث لوگوں نے اس راستے آمدورفت کا سلسلہ ترک کیا
چائنا پاکستان اقتصادی راہداری کا منصوبہ دونوں ممالک کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل منصوبہ ہے۔46 ارب ڈالر کی لاگت سے مکمل کئے جانے والے اس منصوبے کو ملک میں معاشی و سماجی ترقی کے لئے گیم چینجر قرار دیا جاسکتا ہے۔خطے کی تعمیر و ترقی کے لئے ماضی بعید میں شاہراہِ ریشم اور پھر شاہراہِ قراقرم کی بھی بڑی افادیت و اہمیت رہی ہے۔قدیم شاہراہِ ریشم جو سلِک روُٹ سے موسوُم تھا یہ شاہراہ چین کو بحرہ روم اور ایشیا ئے کوچک سے ملاتا تھا۔ اس شاہراہ کے لئے پہلی بار شاہراہ ریشم کی اصطلاح 1877 میں استعمال کی گئی۔جب پاکستان کو چین کے ساتھ ملانے کے لئے ایک شاہرہ کی تعمیر کی ضرورت محسوس کی گئی تو ابتد میں 58 19ء میں سوات سے گلگت بلتستان کو ملانے کے لئے ایک سڑک کی تعمیر پر کا م شروع کیا گیا تھا۔ 1966 میں پاکستان کو چین کے ساتھ ملانے کے لئے باقاعدہ بڑی شاہراہ کی ضرورت کے پیش نظر اس پر کام کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔پہلے مرحلے میں تھاکوٹ سے خنجراب تک یک رویہ سڑک کی تعمیر پر کام شروع ہوا 400 کلو میٹر طویل یہ سڑک 1971 ء میں مکمل کی گئی۔دوسرئے مرحلے میں اس سڑک کو حویلیاں تک توسیع دی گئی اور راستے میں موجود پلوں کو بھی پختہ کرکے بنایا گیا ۔شاہراہ کی توسیع کا یہ کام 1978 ء میں مکمل کرلیا گیا۔اس شاہراہ کے بننے کے بعد جہاں پاکستان اور چین کے ساتھ تعلقات میں کافی بہتری آئی وہاں گلگت بلتستان کا خطہ جو کل تک دنیا کی نظروں سے اوجھل تھا دنیا سے ایک بہتر زمینی راستے کے ذریعے منسلک ہوا۔اور گلگت بلتستان میں تعمیر وترقی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ آج گلگت بلتستان تعمیر و ترقی کے لحاظ سے جن منازل کو طے کر رہی ہیں اُن میں بنیادی کردار شاہراہ ریشم کو حاصل ہے۔لہٰذا یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی میں جتنا اہم کردار شاہراہِ قراقرم نے ادا کیا ہے اُس سے کہیں زیادہ سی پیک کا منصوبہ گلگت بلتستان کے لوگوں کی زندگیوں پر اثرات مرتب کرئے گا۔یہ اثرات جہاں مثبت ہونگے وہاں کئی حوالوں سے منفی بھی ہوسکتے ہیں۔ قطعِ نظر اس کے کہ اس اہم منصوبے سے متعلق گلگت بلتستان کو ان کا جائز کتنا حصّہ مل سکتا ہے اور گلگت بلتستان کے منتخب نمائندوں اور عوام کو لاحق تحفظات کس حد تک دور ہونگے ؟ تاہم یہ امر طے ہے کہ گلگت بلتستان سی پیک کا گیٹ وئے ہونے کے ناطے سی پیک کے لئے گلگت بلتستان کی اہمیت ہے اور سی پیک گلگت بلتستان کے لئے اہمیت کا حامل منصوبہ ہے۔اگرچہ سی پیک روٹ جو خنجراب سے شروع ہو کر گوادر پر ختم ہوتا ہے جو کہ مجموعی طور پر 2395 کلو میٹرہے اس کا 5 فیصد سے بھی کم حصّہ بنتاہے جو گلگت بلتستان سے گزرتا ہے۔لیکن جیسا کہ ذکر ہوا کہ یہ منصوبہ ملک کے لئے زندگی اور موت کی حیثیت اختیار کر چُکا ہے اسی طرح گلگت بلتستان کے لئے بھی ا س کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ۔ گلگت بلتستان کے لئے اس منصوبے کو اور زیادہ فائدہ مند بنانے اور اس منصوبے کا گیٹ وئے ہونے کے ناطے یہاں کے لوگوں کے لئے ان جائز حصّہ اس منصوبے میں دلانے کے لئے یہاں کی قیادت اور عوامی حلقے جدوجہد میں مصروفِ عمل ہیں۔ اس منصوبے کی جتنی اہمیت ہے اس اعتبار سے اس منصوبے کے حوالے سے عالمی سطح پر ہونے والی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے حکومت اور سکیورٹی ایجنسیوں کی خصوصی توجہ ہے اور ہونی چاہیے۔ جیسا کہ ملک دشمن عناصر کی جانب سے اس منصوبے کی ناکامی کے لئے ممکنہ سازشوں سے متعلق میڈیا میں تجزیے اور تبصرئے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن ایک خاص پہلو جو ابھی تک نظر انداز ہے اُس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔وہ ہے اس اہم ترین راہ داری کے لئے متبادل لنک روڈ کی ضرورت۔ اتنی اہمیت کے حامل سڑک کو ہر قسم کے رسک سے بالاتر ہونا چاہیے ۔ ایک دفعہ جب اس روٹ پر سے تجارت اور دیگر معاشی سرگرمیاں شروع ہو جائے تو اس میں پھر رکاوٹ نہ پڑئے۔ اس تاریخی شاہراہ ریشم کی اہمیت اپنی جگہ لیکن چونکہ گلگت بلتستان کے جن علاقوں سے یہ سڑک گزرتی ہے وہ ممکنہ طور پر سسمیک زون پر مشتمل ہے اور ہر وقت لینڈ سلایڈنگ کے خطرات لاحق رہتے ہیں۔اس حوالے سے عطا آباد کا واقعہ ہمارئے سامنے ہے کہ جس نے شاہراہ قراقرم کے لگ بھگ 35 کلو میڑ کا حصّہ دریا بُرد کردیا۔جس کے پیشِ نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں بھی اس خطے میں ممکنہ طور پر لینڈ سلایڈینگ کے خطرات موجود ہیں۔لہٰذا اس اہم ترین راہداری کے لئے اس حصّے میں ایک متبادل شاہراہ کا ہو نا ناگزیر ہے۔تاکہ یہاں سے ہر قسم کی آمدو رفت کا سلسلہ بلاتعطل جاری رہے۔یہ خوش قسمتی ہے کہ اسی خطے میں ہی اقتصادی راہداری سے متصل علاقے میں ایک تاریخی اور قدیم گزرگا ہ موجود ہے جو صدیوں تک لوگوں کے استعمال میں رہا۔یہ قدیم گزر گاہ سکردو کے ضلع شگر کے نالہ برالدو سے جا کے گلیشروں کے اوپر درہ مستاغ کو عبور کر کے چین کے علاقہ یارقند میں پہنچتے ہیں جو کاشغر کے قریب واقع ہے۔ اسی راستے بلتستان اور چین کے مابین نہ صرف لوگ آمد و رفت کرتے رہے بلکہ اسی راستے دونوں خطوں کے مابین تجارت بھی ہوتی رہی۔اُس زمانے میں مال کے بدلے مال کی بنیاد پر تجارت ہوتی تھی۔ اس راستے کو اس خطے میں اسلامی تعلیمات کی تبلیغ کے لئے آنے والے مبلیغین نے بھی استعمال کیا اور ابتدائی طور پر ان پہاڑی سلسلوں کو دریافت کرنے اور سیاحت کے لئے آنے والے یورپین سیاحوں نے بھی استعمال کیا ۔ ابتدا میں اس درہ کو یارقند میں موجود بلتی گائیڈز کی راہنمائی میں یورپی سیاح ینگ ہسبنڈنے عبور کیا۔ ینگ ہسبنڈ اس خطے میں بغرض سروئے 1887 میں کام کیا۔ مستاغ پاس بلتورو گلیشیر کے قریب واقع ہے ۔اس سے قبل اس خطے کا چین کے ساتھ زمینی رابطے کے لئے قراقرم پاس والا درہ استعمال کیا جاتا تھا۔ینگ ہسبینڈ اپنی کتاب ’’ The Heart of a Continent ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب وہ 1887 میں جب میں یارقند پہنچا اور ہندوستان آنے کی تیاری میں تھا ان کا ارادہ تھا کہ وہ حسبِ سابق معروف درہ قراقرم پاس کو عبور کرکے کشمیر پہنچے اسی اثنا میں اُنھیں ایک اور یورپی سیاح Colonel Bell جو حال ہی میں ہندوستان پہنچا تھا کا خط موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ ہمالیہ کی پہاڑوں میں قراقرم پاس کے معروف مگر بے رونق درہ سے لیہ کے راستے ہندوستان آنے کی بجائے قراقرم کی پہاڑوں میں ابھی تک غیر دریافت شدہ راستہ درہ مستاغ کے راستے بلتستان سے ہو کر کشمیر پہنچا جائے جو کہ درہ قراقرم کی نسبت براہ راست روٹ اور کم مسافت والہ راستہ ہے۔اس مشورہ کو بہت مفید پاتے ہوئے میں نے درہ مستاغ کے راستے کو اپنانے کا فیصلہ کرلیا مگر سب سے مشکل مرحلہ مجھے اس نئے دریافت کئے جانے والے راستے کے لئے جانے والے اور ماہر راہنماء کے حصول کا تھا لیکن مجھے بتایا گیا کہ یارقند میں بلتیوں کے سینکڑوں گھرانے آباد ہیں جو ان دروں سے واقف ہیں اور وہ بہترین راہنما ثابت ہوسکتے ہیں۔ بلتستان کے ضلع شگر کے مستاغ پاس کی جانب آخری گاؤں اسکولی کی قریبی آبادی سے تعلق رکھنے والے شخص محمد ولی سے مجھے ملوایا گیا جنھوں نے چند سال قبل کئی بار درہ مستاغ کو عبور کیا تھا ۔اُن کی خدمات بطور گایئڈ کے حاصل کی گئیں جبکہ کئی اور بلتی افراد کو بطور پورٹر کے ہائر کیا گیا۔ان کے کاروان میں 13 خچر بھی شامل تھے جن کی دیکھ بھال پر چار لداخی مامور تھے۔انھوں نے اس قدرئے مختصر روٹ کو دریافت کیا۔ تب سے یہ شاہراہ ہندوستان اور چین اور چینی ترکستان کے درمیان آمد ورفت کے لئے استعمال ہوتی رہی۔ تاریخ میں موجود ریکارڈ کے مطابق مستاغ پاس کوپیدل عبور کرنے کے لئے مجموعی طور پر پچیس دن لگتے ہیں جبکہ آٹھ روز مسلسل گلیشیر کے اوپر چلنا ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ روٹ قراقرم پاس کی نسبت بہت کم مسافت کا ہے جس کے باعث اس روٹ پر مسلسل 1905 ء تک لوگ آمدو رفت کرتے رہے لیکن بعد میں
گلیشیر بڑھنے کے باعث لوگوں نے اس راستے آمدورفت کا سلسلہ ترک کیا مگر یہاں یہ گزر گاہ آج بھی قابلَ استعمال حالت میں موجود ہے۔ آج کے دور میں5422میٹر کی اونچائی پر موجود مستاغ پاس سے برف ہٹانے کا انتظام کرنا کوئی مشکل کام نہیں ۔دنیا میں اس سے بھی بلند ترین مقامات ہیں جوسارا سال برف میں ڈھکا رہتا ہے لیکن وہ سڑکیں بھی مشینوں کے زریعے بروقت برف ہٹا کر مسلسل ٹریفک کے لئے کھلا رکھا جاسکتا ہے ۔ اقتصادی راہداری کے لئے متبادل سڑک کے طوراس کو استعمال میں رکھنے کے خاص طور پر یہ فوائد ہیں کہ ایک تو یہ روٹ سارا سال کھلا رہ سکتا ہے ۔یہ ایسے علاقوں پر مشتمل ہے جہاں لینڈ سلایڈینگ کے امکانات کم سے کم ہیں ۔ یہ روٹ شاہراہ قراقرم کی نسبت لگ بھگ تین سو سے زائد کلو میٹر کی کم مسافت پر مشتمل ہے۔اور اس روٹ پر ماضی میں کھبی بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے نہ ہی اللہ کے فضل سے یہاں آنے والے وقتوں میں بھی دہشت گردی کے امکانات موجود ہیں۔جنرل مشرف کے دور میں جب پاکستان اور چین کے درمیان ریلوئے لاین بچھانے کی تجویز سامنے آئی تو اسی روٹ کو مدِنظر رکھا گیا تھا ۔کیونکہ اس روٹ کے حوالے سے چائنز بھی دلچسپی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔گزشتہ سا ل جولائی چین کے اعلیٰ سطحی ایک وفد نے اقتصادی راہداری اوراس پر عمل در آمد کی صورتِحال کا جائزہ لینے کے حوالے سے گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع کا دورہ کیا توسکردو میں اِ ن سے اہم سیاسی راہنماوں کے علاوہ قومی تعمیر کے محکموں نے سربراہوں نے ملاقاتیں کیں اور اپنے اپنے اداروں اور شعبوں میں موجود ترقی کے مواقع سے متعلق چینی وفد کو بر یفنگ دی تاکہ یہ منصوبے ممکنہ طور پر اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں شامل کئے جاسکیں۔ سکردو میں سینیر قلم کاروں نے بھی اس چینی وفد کے ارکان سے ملاقات کی۔ راقم بھی ملاقات کرنے والوں میں شامل تھا چینی وفد کے ارکان نے مستاغ پاس کے زریعے متبادل سڑک کی تعمیر کے منصوبے کو بڑی اہمیت دی اور سینکیانگ اور مرکزی حکومت سے اس منصوبے سے متعلق خصوصی طور پر رپورٹ پیش کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
فیس بک پر تبصرے