اختلاف کو بر داشت کیجئے!

937

ہمارے ہاں غیر علمی اور غیر حقیقی طرزِ عمل یہ ہے کہ ہم ایک نکتہ اور مسئلہ پہ اختلاف کی بنا پرشخصیت کے مکمل افکار و خیالات کو رد کر تے ہیں اور صرف خیالات و افکار کو ردہی نہیں کر تے بلکہ اس شخصیت کے در پے آزار ہوجا تے ہیں ۔آزارو اذیت دینا بذاتِ خود نا پختہ ذہنیت اور خام تربیت کا نتیجہ ہو تا ہے ۔اگر ہم جزئی اختلاف کو جزئیت تک قائم رکھیں اور اتفاق کا بر ملا اظہار کریں تو شاید فر قوں اور تقسیم کی لکیر گہری ہونے کے بجائے مدہم ہو نا شروع ہو جائے ۔بد قسمتی سے یہ غیر علمی اور غیر حقیقی رویہ اس طبقے کی طرف سے بھی اختیار کیا جا تا ہے جن کا تعلق علم و فقہ سے ہے ۔یہی طرزِ عمل اسلام کی پہلی یا دوسری صدی میں ہو تا تو ہم ائمہ کرام فقہائے کرام کا نام اتنے ادب سے نہ لے رہے ہو تے ۔ہم میں سے کوئی حنفی ہے یا شافعی ،حنبلی ہے یا مالکی۔لیکن اس کی زبان پہ جب بھی کسی امام کا نام آ تا ہے تو وہ نام کے شروع میں حضرت اور آخر میں رحمہ اللہ  ضرور کہتا ہے ۔اس کی وجہ یہی ہےکہ  جن ائمہ کرام کا باہمی اختلاف تھا انہوں نے اس جزئی اور فرعی اختلاف کو کلی اور اصولی اختلاف قرار دے کر اپنے مقابل کو منکر اور کافر قرار نہیں دیا تھا۔ ان صاحبان علم کا یہی علمی رویہ تھا کہ وہ جانتے تھے کہ یہ اختلاف تفہیم کا اختلاف ہے ۔

آج صورتِ حال یہ ہے کہ ایک فر قے کا عا لم ہی نہیں بلکہ غیر عالم بھی دوسرے فرقے کے مرحوم عالم کے نام کے ساتھ حضرت اور رحمہ اللہ  بولنے سے خوف کھا تا ہے۔وہ ان کے حق میں دعا کا قائل نہیں ہے یا اسے اس بات کا ڈر ہے کہ اس کے ہم مسلک اس سے ناراض نہ ہو جائیں۔ لاہور کی مختلف جامعات کے علمائے کرام پر مشتمل ایک سیشن میں گفتگو کے دوران”مسئلہ طلاق “کو  اسلام و کفر کی شکل دیے جانے سے مجھے اندازہ ہوا کہ ہم اپنے مسلک اور اپنی فقہ کے بعد کسی اور مسلک و فقہ کے وجود کو ہی غیر اسلامی خیال کرتے ہیں  ۔ اسلام کی تکمیل کا تصور ہمارے مسلک و فقہ کے بعد مکمل ہو جا تا ہے ۔اگرچہ ہم ایسے جملے بولنے سے پر ہیز کر تے ہیں لیکن ہمارا طرزعمل اور مقابل کے لیےکوئی گنجائش پیدا نہ کر نا در حقیقت اسی کی نشاندھی کر تا ہے ۔پیر سید نصیر ا لدین نصیر اپنی ایک تقریر میں مو لا نا احمد رضا خان صاحب بریلوی اور دیو بندی علما کرام کے اختلاف کو علمی اور جزئی اختلاف قراد دیتے ہوئے ایک دو سرے کے علما کرام کے احترام کی تلقین کر تے ہیں ۔وہ اپنے بزرگوں (پیر صاحب رحمہ اللہ ) کا واقعہ سناتے ہیں کہ ان کے پاس مولانا انور شاہ کشمیری (رحمہ اللہ ) ملا قات کے لیے آ تے تھے ۔ملا قات کے بعد جب وہ جانے لگتے تو ہمارے بزرگ انہیں سواری تک چھوڑ نے آتے اور اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک ان کی سواری روانہ نہ ہو جاتی۔یہ ایک علمی رویہ ہے کہ کسی مسئلے پہ اختلاف ہے تو اس اختلاف کا ذکر ضرور کریں لیکن باقی 99فی صد اتفاق کو اپنے لہجے ،زبان اور رویے پہ غالب رکھیں ۔مو لانا مودودی بھی اسی سوچ سے متفق تھے کہ ہم نے ایک فیصد اختلاف کو امت میں تفرقے کا باعث بنا دیا ہے اور99 فی صد کو  امت میں اتحاد کی طاقت نہ بنا سکے ۔اختلاف ایک فیصد ہے یا اس سے زیادہ اس بحث سے قطع نظر فقط اس کی تربیت کا اہتمام کیا جا ئے کہ اختلاف رب ذو الجلال کی حکمت ہے اس نے کا ئنات اور انسان میں varietyکوقائم کیا ہے ۔وہ خود فر ما تا ہے ”اگر اللہ چا ہتا تو تمہیں ایک گروہ بناتا ”انسان کو با ارادہ پیدا فر مایا اور اسی پہ انعام و سزا کا قانون ہے ۔حیرت ہے کہ ہم اختلاف کو ختم کر نے کی عبث کو شش میں مصروف رہتے ہیں لیکن اس اختلاف کو بر داشت کر نےاور اسے حکمت الہی سمجھ کر قبول نہیں کر تے ۔

اس حوالے سے دو باتوں کو رواج دینے کی ضرورت ہے ۔ایک اختلاف کو دلیل و علم سے counterکیا جا ئے دو سرا یہ کہ اپنے آپ کو اختلاف تک ہی محدود کیا جائے۔ اختلاف کر نے والے کی ذات و نیت پہ حملے نہ کیے جائیں۔اگر ان دو باتوں پہ عمل کیا جائے تو صحت مند مکالمے کا آغاز اور فرقہ واریت کے عفریت کو قابو کیا جا سکتا ہے ۔نتیجتاًاختلاف کاانجام سر پھٹول اور گالم گلوچ کے بجائے اپنی اپنی رائے کے احترام کی صورت میں سامنے آئے گا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...