پیغام پاکستان ۔۔۔  نیا قومی بیانیہ  

1,436

دہشت گردی اور نجی جہاد کے خلاف حکومتی اداروں کی کوششوں اور  اٹھارہ سو علما کے دستخطوں سے جاری ہونے والے حالیہ اعلامیے اور فتوے کا براہ راست تعلق اس سوال سے ہے کہ اگر یہ ملک  اسلام  کے نام پر بنا تھا تو یہاں ابھی تک اسلامی ریاست کیوں قائم نہ ہوسکی؟ یہ فتویٰ حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلا سوال یہ پوچھا گیا کہ “کیا پاکستان اسلامی ریاست ہے یا غیر اسلامی؟ نیز شریعت کو پوری طرح نافذ نہ کرسکنے کی بنا پر ملک کو غیر اسلامی ملک اور اس کی حکومت یا افواج کو غیر مسلم قرار دیا جا سکتا ہے؟”اور پھر اس سے متعلقہ سوال یہ تھے کہ “کیا اس صورت حال میں حکومت اور فوج کے خلاف مسلح بغاوت اور پاکستان میں جہاد کے نام پرخود کش حملے جائز ہیں کہ نہیں؟” اس استفتا ءکے جواب کو سمجھنے سے پہلے اگر پوچھے گئے سوال سمجھے جائیں تو دو چیزیں سامنے آتی ہیں۔ سب سے پہلے یہ تسلیم کیا جارہا ہے کہ پاکستان کے قیام کا مقصد اسلامی ریاست کا قیام ہی تھا اور دوسرا یہ اعتراف کہ اس مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ یہ سوال اور اعتراف نہ صرف معذرت خواہی کے ساتھ  یہ التجا کرتے ہیں  کہ اس مقصد کے لئے مزید مہلت درکار ہے بلکہ جہادی تنظیموں کے طریقہ کار سے مؤدبانہ اختلاف کرتے ہوئے ان کے موقف اور مقصد کو تقویت پہنچا رہے ہیں۔ اب چاہے آپ پاکستان کی موجودہ ریاست کو اسلامی بنانے یا ثابت کرنے کے لیے جتنا زور لگا لیں، کچھ گروہوں کے نزدیک یہ غیر اسلامی ہی رہے گی اور بنا بریں ان کی پرامن یا عسکری جدوجہد کا جواز بھی باقی رہے گا۔ بھلا ریاست اسلامی کیسے کہلائے گی جب تک سودی نظام کا خاتمہ نہ ہوجائے، اسلامی سزائیں نافذ نہ ہوجائیں، لازمی پردے کا اطلاق نہ ہوجائے،مرد اور عورت کے الگ الگ دائرہ کار کا حتمی تعین کر کے حیا دار معاشرہ قائم نہ ہوجائے، موسیقی، تھیٹر، ڈرامے اور فلم جیسی لغویات سے چھٹکارہ حاصل نہ کر لیا جائے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا موثر انتظام نہ ہو جائے، لوگوں کی شیو کرنے اور ڈیزائن دار داڑھیاں بنانے والوں کی دکانیں بند نہ ہو جائیں، کفار بالخصوص ہندوؤں، یہودیوں، مشرکوں سے کم از کم تجارتی اور ثقافتی تعلقات منقطع نہ کر لیے جائیں، ایک خالص اسلامی ریاست ہونے کے ناطے دنیا بھر میں استعمار، کفر، باطل اور ظلم کا خاتمہ کر کے غلبہ اسلام کے راستے ہموار نہ کر لئے جائیں وغیرہ وغیرہ؟

نہائت ہی واجب الاحترام ان اٹھارہ سو اکیس علمائے کرام ، جن کے نام اور دستخط اس اعلامیے اور فتوے پر درج ہیں، اور اس عظیم کام کی ترتیب و تنظیم کے ذمہ دار اداروں اورشخصیات  کو ان کے حسن نیت، جذبہ خیر خواہی اور امن پسندی پر سلام اور خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ایک سادہ مزاج شہری کے طور پر میرا ایک مختصر سا سوال یہ ہے کہ کیا ان کے خیال میں چند متذکرہ بالا معروف شرائط  کے مطابق اسلامی ریاست کے قیام کا کوئی قابل عمل ٹائم فریم دیا جاسکتا ہے تاکہ اسلامی ریاست کے قیام کے لیے آپ کی مانگی گئی مہلت کے مطابق نفاذ شریعت کے مقصد کے تحت برسر کار گروہ اس فتوے کی روشنی میں کچھ عرصہ کےلیے اپنی عسکری جدوجہد موخر کرسکیں؟

علاوہ ازیں اس متفقہ فتویٰ اور اعلامیہ کو بعض حلقوں اور چند ذمہ دار صحافیوں کی طرف سے1973 کے متفقہ آئین کی تشکیل کے بعد ایک بہت بڑی پیش رفت قرار دیا جارہا ہے جس کی اگر صحیح تشہیر اور اطلاق کردیا جائے توان کے نزدیک پاکستان میں شدت پسندی کے بیانیے کو امن پسندی کے بیانیے میں بدلا جا سکتا ہے۔ اسی لیے اس اعلامیے کو نیا قومی بیانیہ بھی کہا جا رہا ہے۔ اب اس سادگی پر مر جانے کو جی چاہے تو اتنا تعجب نہیں۔ بھلا بتائیے کہ مذہب کی بنیاد پر جس بیانیے کی تشکیل میں کم و بیش چارسے چھ دہائیاں لگ چکی ہیں، جس کے لیے آئین، قانون، نصاب، نظام میں خاطر خواہ تبدیلیاں کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر اور باہر بہت سے محاذ گرم کیے گئے، جس کے لئے سماج کا پورا ڈھانچہ بدلنے کی کوشش کی گئی کیا نیم دلی سے لکھا گیا چند صفحے کا ایک اعلامیہ اسے بدل سکے گا؟ اس دستاویز کو شروع سے آخر تک اگر ایک بار پڑھ لیں تو ہمارے موجودہ اور نئے بیانیے میں کوئی خاص جوہری فرق محسوس نہیں ہوتا، سوائے اس کے کہ حکومت اور افواج پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت کو ناجائز اور”پاکستان میں”  خودکش حملوں کو حرام قرار دیا گیا ہے (یہ بات بہت سے علمائے کرام پہلے بھی کہتے رہے ہیں اور اس کے لیے کئی اپنی جان بھی قربان کر چکے ہیں)۔ باقی مکمل بیانیہ وہی ہے جو پہلے سے ہمارے سکولوں کی اسلامیات کی کتابوں میں موجود ہے۔

سادہ سی بات یہ ہے کہ اصل مسئلہ مذہب کے سیاسی استعمال کا ہے۔ مسئلہ جبر اور انسانی آزادیوں کے درمیان فرق کا ہے۔ مسئلہ بڑی حد تک مثالیت پسندی اور عملیت پسندی میں سے ہماری ترجیح کا ہے۔ جب تک اپنے اور دنیا کے بارے میں ہماری بنیادی فکر اور طرزعمل میں تبدیلی نہیں ہوگی اور اسی تبدیلی کے مطابق ہم دوسروں اور اپنوں کے بارے میں اپنی پالیسیاں اور اپروچ بدلیں گے نہیں ، اصول پسندی، دیانتداری، رواداری، صلح جوئی، عدل اور مساوات جیسی بنیادی اقدار اور اصولوں کو اپنائیں گے نہیں،  ہمارا بیانیہ تبدیل ہوگا  نہ ہمارے حالات تبدیل ہوں گے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ مذہب کا اصل مقصد دنیا پر سیاسی اور معاشی غلبہ قائم کرنا اور دوسروں پر برتری حاصل کرنا ہے یا کردار سازی، تعمیر سیرت اور روحانی ترفع کے ذریعے بندے کا اس کے رب کے ساتھ تعلق جوڑنا ہے؟ دنیا کو اگر کوئی چیز فتح کر سکتی ہے تو وہ صرف محبت ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...