پہلے پشتون پھر پشتین اور اب پاشتین!

1,213

یہ مسئلہ “منظور” کا نہیں ہے بلکہ نامنظور ہونے کا ہے کہ یہ قوم جو پہلے ہی ہر طرح کی عصبیت کی بنیاد پر منقسم ہے اسے ایک نئی شناخت اور عصبیت کے دائرے میں سمیٹ کر ملک کی نظریاتی بنیادوں اور اداروں کو ہدف تنقید بنایا جائے۔

غلطیاں سب ہی سے ہوتی ہیں اور اداروں سے بھی ہوئی ہیں۔ اس وقت بھی سرزد ہورہی ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کا علاج زہر کو تریاق سمجھ کر کیا جائے۔ منظور پشتین/پاشتین کے جلسوں میں جو سیاسی کلچر پروان چڑھایا جارہا ہے اس کے ڈانڈے اسی سوچ اور فکر کے ساتھ جا ملتے ہیں جن کی بنیاد پر ایک زمانے میں پاک افغان سرحد کو ماننے سے انکار کیا جاتا تھا۔ یہ وہی سوچ ہے جس کے پرچار “سرحد” و بلوچستان میں بیٹھ کر کابل کے اشاروں پر ناچتے تھے ۔۔۔ وہ کابل جو خود سرخ انقلاب کے چیمپین USSR کا کٹھ پتلی تھا۔ آج کی نوجوان نسل کو تو میڈیا کی یلغار میں یہ سبق پڑھایا گیا ہے کہ پاکستان نے بلاوجہ افغانستان کی لڑائی میں فریق بن کر خود کو برباد کیا ہے۔ انہیں کیا معلوم کہ نور محمد ترکئی امین ببرک کارمل اور ان سے پہلے اور بعد والے ادوار میں افغانستان کی سرزمین کن مقاصد کے لئے پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی۔ ہم واضح طور پر بیانیے  کی جنگ ہار رہے ہیں اور ہماری یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی آج کی نوجوان نسل یہ سمجھتی ہے کہ تحفظ پاکستان کے لیے لڑی جانے والی طویل جنگ دراصل ہمارے بڑوں کی ناکامی اور غلط فیصلوں کا شاخسانہ تھی۔ ہم انہیں یہ بتانے اور سمجھانے میں سرے سے ناکام ہوگئے ہیں کہ بحیثیت ریاست ہمارے کیا مفادات تھے اور مختلف وقتوں میں کیے جانے والے فیصلوں کے پیچھے کیا حکمت و دانش کارفرما تھی۔

ہمارا میڈیا، ٹیکسٹ بکس، جامعات کا نصاب و اساتذہ کی فکراور پاپولر ڈسکورس، سب ہی میں خود پر عدم اعتماد کا اظہار نمایاں ہے۔ اسی کی حالیہ بازگشت منظور پشتین/پاشتین کی تحریک ہے۔ اس تحریک کی برانڈنگ کی جارہی ہے۔ منظور کو شائد خود بھی احساس نہ ہو مگر اسے ایک ایسے نوجوان باغی کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جو فی الحال ریاست کا باقاعدہ باغی نہیں کہ وہ براہ راست تشدد کی بات نہیں کرتا۔ وہ انسانی حقوق اور آئین میں موجود تحفظ کی بات کرتا ہے۔ جو شناخت کی بات تو کرتا ہے مگر نظام کو لپیٹنے کی بات ابھی تک نہیں کر رہا۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک کو ابھارنے اور اس کی پروفائلنگ کا جو بیڑا بی بی سی جیسے نشریاتی اداروں نے اٹھایا ہے اور اس کو فروغ دینے میں انگریزی اخبارات کے صفحات پیش پیش ہیں، اس سے ساری کہانی کھل کر سامنے آرہی ہے۔ اس تحریک کا ایک سامنے کا کلچر ہے جو محتاط و ملفوف ہے۔ دوسرا وہ سب کلچر جو اس سے وابستہ نوجوانوں میں کینسر کی طرح خاموشی سے پھیل رہا ہے۔ آپ کسی بھی یونیورسٹی کے کیمپس پر چلے جائیں اور پشتین/پاشتین وائرس سے متاثرہ نوجوانوں کی اس فکر کو کھوجنے کی کوشش کریں جن کا اظہار چائے کے ڈھابوں پر بیٹھ کر نجی محفلوں میں کیا جاتا ہے۔ جہاں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ریاستی ادارے شائد سن نہیں پائیں گے۔ وہاں پاکستان کی نظریاتی بنیادوں اور ساخت کو یکسر غلط قرار دے کر “انقلابی” فکر کی باتیں کی جارہی ہیں۔ ایسی محفلوں میں “دہشت گردی” اور “وردی” کے باہم وحدت الوجود ہونے کے دلائل دیے جاتے ہیں۔ یہ دلائل نئے نہیں کہ یہ اسی وقت تراشے گئے تھے جب ساٹھ، ستر اور اسی کی دہائی میں قوم پرست سرحد پار کے رومانس میں گرفتار تھے۔ فرق اتنا ہے کہ اس وقت انہیں سرخ انقلاب کے سرخیل استعمال کرتے تھے اور آج ان کے حامی وہ ہیں جو کابل کی حکومت کے سرپرست ہیں۔ نظریہ پاکستان اور ریاستی اداروں سے نفرت دونوں میں مشترکہ ہے۔

ابھی وقت ہے کہ اس فتنے کو روک لیجیئے کہ اس سے پہلے کہ یہ زہر جسد قومی میں فساد کی صورت میں پھیل جائے۔ ریاستی تحفظ کے ذمہ دار ادارے فوری طور پر پشتین/پاشتین فیکٹر کو کنٹرول کریں۔ جو نجی و سرکاری افراد اور ادارے اس تحریک کو بالواسطہ اور بلاواسطہ طریقوں سے مدد کر رہے ہیں انہیں ابھی سے روکنے اور شٹ اپ کال دینے کی ضرورت ہے۔ کم ترقی یافتہ علاقوں کے طلباء کو ملک کی اہم جامعات میں مواقع دینے کے نام پر جو لوگ قوم پرستوں کی سرپرستی کر رہے ہیں ان کے ہاتھ ابھی سے روک دیں کہ اس پہلے کہ بہت دیر ہی نہ ہوجائے!

ہمارا کام ابلاغ ہے سو وہ کیے دیتے ہیں۔ آگے کی ذمہ داری آپ کی ہے!

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...