ایف اے ٹی ایف:پاکستان پر نئی اقتصادی پابندیوں کا جال

833

گذشتہ ماہ کے اختتام پر پیرس میں فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس منعقد ہوا جس میں پاکستان کا نام فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس واچ لسٹ کی “گرے کیٹیگری”  میں شامل کر لیا گیا۔ اس پر عمل درآمد جون سے ہوگا۔ اس اقدام کے باعث پاکستان کو نئی سخت معاشی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گرے لسٹ میں ان ملکوں کا نام شامل کیا جاتا ہے جنھیں دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام میں تعاون نہ کرنے والے ممالک قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں پاکستان کے علاوہ اس وقت ایتھوپیا، عراق، سربیا، شام، ٹرینیڈیڈ اینڈ ٹوبیگو،تیونس، ویناٹو اور یمن شامل ہیں۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایک بین الحکومتی ادارہ ہے جس کا قیام 1989 میں عمل میں آیا تھا۔اس میں امریکا، برطانیہ، چین، بھارت، ترکی، یورپی یونین اور خلیج تعاون کونسل کے ممالک سمیت 37ممالک شامل ہیں۔ خلیج تعاون کونسل میں سر فہرست سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہیں۔مذکورہ  واچ لسٹ میں پاکستان کا نام شامل ہونے سے اسے عالمی امداد، قرضوں اور سرمائے کی سخت نگرانی سے گزرنا ہوگا جس سے بیرونی سرمایہ کاری متاثر ہو گی اور ملکی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس فیصلے سے ملک کی کریڈٹ ریٹنگ اور مالی ساخت کو دھچکا پہنچ سکتا ہے۔ ایشیا پیسیفک گروپ میں بھی پاکستان کی شمولیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
ایف اے ٹی ایف کی بنیادی ذمہ داریوں میں عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے اقدامات کرناشامل ہیں۔ فروری کے آخری عشرے میں ہونے والے اجلاس میں سینکڑوں عالمی مندوبین کے علاوہ آئی ایم ایف، یو این اور عالمی بینک کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ ایف اے ٹی ایف کے پاکستان کے خلاف فیصلے کے حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے نہایت قریبی دوست ممالک جن میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ملائیشیا اورچین شامل ہیں، نے بھی پاکستان کی حمایت نہیں کی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ فروری کے وسط میں پاکستان نے سعودی عرب کی داخلی سیکورٹی میں مدد کے لیے مزید فوجی دستے روانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے چند ہی دن بعد پیرس میں مذکورہ بالا اجلاس منعقد ہوا۔ایف اے ٹی ایف کی طرف سے پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کرنے پر پاکستان کے ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ گذشتہ چند برسوں میں حکومت پاکستان نے ان معاملات پر توجہ دیتے ہوئے کئی اقدامات کیے ہیں جن میں قانون سازی، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کا قیام اورجماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے حوالے سے یو این ایس سی کی شق1267 کے تحت پابندیاں شامل ہیں۔مذکورہ پابندیوں کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ پاکستان پر پہلے بھی ایف اے ٹی ایف کی طرف سے پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں۔ 2012میں بھی پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا اور یہ سلسلہ 2014تک جاری رہا تھا۔ مذکورہ اجلاس میں ترکی وہ واحد ملک تھا جس نے پاکستان کا ساتھ دیا لیکن خود ترکی پر بھی چار سے پانچ سال تک یہی پابندیاں عائد رہ چکی ہیں اور ترکی کا نام بھی گرے لسٹ میں شامل رہا ہے۔ اس موقع پر ترکی پر یہ الزام تھاکہ اس نے اسرائیل کے خلاف سخت رویہ اختیار کر رکھا ہے۔
اس پس منظر میں یہ بات اہم ہے کہ پاکستان نے گذشتہ دسمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منظور کی گئی اس قرار داد کے حق میں ووٹ دیا تھا جس میں بیت المقدس کی حیثیت کو برقرار رکھنے کی حمایت کرتے ہوئے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس میں منتقل کرنے کی مخالفت کی گئی تھی۔ ممکن ہے کہ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان پر پابندیاں لگانے کی قرارداد پیش کرنے والے ممالک جن میں امریکا اور برطانیہ سر فہرست ہیں دراصل پاکستان سے اس حمایت کا بھی بدلہ لینا چاہتے ہوں۔اس طرح کے فیصلوں سے عمومی تاثر یہی پیدا ہوتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف عمومی طور پر امریکی مفادات کا تحفظ کرنے والا ادارہ ہے۔ یہی تاثر گذشتہ ایک عرصے سے یو این او کے بارے میں پیدا ہو چکا ہے۔ تاہم حیران کن امر یہ ہے کہ پاکستان کے نہایت قریبی دوستوں نے بھی اس موقع پر پاکستان کی حمایت نہیں کی۔ چین جو پاکستان میں سی پیک میں بھاری انوسٹمینٹ کر رہا ہے، اسے تو پاکستان کی معاشی ترقی میں زیادہ دلچسپی ہونا چاہیے تھی اور پاکستان پر اقتصادی پابندیوں کی مخالفت کرنا چاہیے تھی۔ اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چین نے ایسا کیوں کیا؟ جب کہ چین کے بارے میں ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ چین اور پاکستان کی دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے زیادہ گہری ہے۔ اگر چین کی موجودگی میں پاکستان پر معاشی پابندیاں عائد ہو جائیں تو نہ بلندی دکھائی دیتی ہے اور نہ گہرائی۔یہ صورت حال دیکھ کر یہ کہنے کو جی کرتا ہے:

کاش کوئی مجھ کو سمجھاتا

میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا

کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکا کے اپنے مقاصد ہیں کہ پاکستان پر دباؤ ڈالا جائے اور خطے میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اس کا گھیراؤ مزید سخت کیا جائے اور چین کے اپنے مقاصد ہیں۔ پاکستان جتنا مجبور ہو گا اتنا ہی اسے چین کی زیادہ ضرورت ہوگی۔ چین نے ماضی میں یو این او میں بہت سے مواقع پر پاکستان کی حمایت میں اپنا ویٹو استعمال کیا ہے۔ اس موقع پر بھی پاکستان چین سے یہی توقع کررہا تھا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی طے کرنے والے اداروں اور چین کے ساتھ روابط کے ذمہ داروں کو یہ چاہیے کہ اس مسئلے میں چین کے ساتھ تفصیل سے بات کریں۔جہاں تک ترکی کے علاوہ ایف اے ٹی ایف میں موجود مسلمان ممالک کا تعلق ہے تو ابھی تک انھوں نے آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ جب وہ آزاد قوموں کی حیثیت سے فیصلہ کرنے کی طرف آئیں گے تو یقینی طور پر پاکستان کو پوری طرح اپنے ساتھ اور پاکستان انھیں پوری طرح اپنے ساتھ پائے گا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...