پی پی پی چیئر مین کی خدمت میں دوگذارشات

1,017

ہیرالڈ میں چھپے ایک مضمون میں جس میں جناب فرحت اللہ بابر کی سیاسی و ذاتی زندگی کا احوال تفصیل سے بیان کیا گیا تھا مصنف نے لکھا کہ زرداری صاحب جانتے ہیں کہ جس دن انہوں نے رضا ربانی ، فرحت اللہ بابر اور تاج حیدر کو کھو دیا، ان کے ہاتھ کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔اسی مضمون میں بابر صاحب اپنی وہ یاداشتیں جو بے نظیر کے ساتھ کام کرتے وقت کی ہیں، کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک بار بی بی شہید نے ان سے کہا کہ وہ انہیں پاکستانی سیاست کے تناظر میں کوئی نصیحت کریں۔ بابر صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے انہیں کہا:

“آپ اپنی بولنے کی صلاحیت کو سننے کی صلاحیت کے ماتحت کر دیں”

مجھے یہ علم نہیں کہ اگر کبھی زرداری صاحب جناب فرحت اللہ بابر سے کوئی نصیحت مانگتے تو وہ انہیں کیا نصیحت کرتے تاہم پیپلز پارٹی کے ایک ہمدرد کی حیثیت سے حالیہ ایک ہفتے کے دوران سینٹ انتخابات کے تناظر میں طے پائی جانے والی سیاسی دھڑے بندیاں اور قائدین کے بیانات اور ان کے نتیجے میں سیاسی مکھن سے بال کی مانند نکلتے ہوئے پیپلز پارٹی کے وہ نیک نام سیاستدان جن کی پارٹی وابستگی اور جمہوریت کے لیے دی گئی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ،نے  ازحد افسردہ کیا ہے۔راقم زرداری صاحب کو ایک “کایاں ” سیاستدان کی حیثیت سے جانتا ہے، جنہوں نے مسلم لیگ نواز کی حالیہ حکومت میں موقع پرست سیاست کو اپنے اوج تک پہنچاتے ہوئے میاں صاحب کو پہلے بلوچستان اسمبلی میں اور بعد ازاں سینٹ انتخابات میں شدید نقصان پہنچایا ہے۔ نہیں معلوم کہ تحریک انصاف کے ساتھ سینٹ میں معاملہ بازی سے خان صاحب کی سیاسی حیثیت کس قدر سوالیہ نشان بنی ہے، لیکن یہ طے ہے کہ اس کے نتیجے میں زرداری صاحب  نے   اپنے تمام پتے  بروقت اور کامیابی سے کھیلے ہیں۔ اس دوران  اگر وہ ایک  صحافی کے تیز لہجے میں  چیئر مین سینیٹ کی بابت  پوچھے گئے سوال کے  جواب  میں جلدی نہ کرتے اورجناب رضا ربانی کا نام یوں مسترد نہ کرتے تو  فرحت اللہ بابر کی بی بی کو دی گئی نصیحت پر عمل بھی ہوجاتا اور بعد میں بلاول  بھٹو کویہ بھی  نہ کہنا پڑتا کہ  رضا ربانی کے لئے میرے پاس دوسرا پلان ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ چئیرمین پیپلز پارٹی کے پاس  رضا ربانی کے لئے کیا پلان ہے تاہم یہ ضرور یاد رکھاجانا چاہیے کہ رضا ربانی1970  سے پارٹی کے ساتھ  وابستہ ہیں ۔ انہوں نے طلبہ سیاست  پیپلز پارٹی سے شروع کی، وہ1988 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن مقرر ہوئے۔  بعد ازاں پاکستان کے ایوان بالا کے سب سے زیادہ طویل عرصے تک رہنے والے ممبر رہے ہیں ۔ انہوں نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں وزارت سے اس لئے معذرت کی تھی ،کیونکہ وہ کسی  آمرسے حلف لینے کو اپنے اصولوں سے غداری تصور کرتے ہیں۔ وہ پارٹی کی جانب سے صدارت کے امیدوار رہ چکے ہیں۔ وہ چیئرمین سینٹ رہے ہیں ۔ وہ پاکستانی فیڈریشن کو وحدت فی الکثرت کے اصول پر چلائے جانے کے موضوع پر کتاب کے مصنف ہیں ۔ انہوں نے مشرف کے بنائے ہوئے ایل ایف او کو ایک فراڈ قانون قرار دیا اور اس کی مذمت میں ایک کتاب تحریر کی  ۔ وہ اب پاکستان میں مسٹر کلین چٹ کی عرفیت سے جانے جاتے ہیں ۔ جمہوریت کی بقا عوام کی فلاح اور پارٹی سے بے لوث اور بلا جھجک وابستگی انہیں اس امر کا مستحق بناتی ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں پارٹی ٹکٹ پہ سندھ سے الیکشن لڑیں ۔ پارٹی ان کی کامیابی کے لیے کوشش کرے اور اس کے نتیجے میں بننے والی قومی اسمبلی میں وہ پیپلز پارٹی کے امیدوار برائے وزیر اعظم ہوں تاکہ ان کی اس نامزدگی پہ قومی اتفاق رائے ہوسکے۔ کیونکہ مسلم لیگ نواز کی قیادت ہو یا تحریک انصاف کے انفرادی ارکان ، پاکستان میں سیاستدانوں کی ایک بڑی کھیپ جناب رضا ربانی کی سیاسی خدمات کی معترف ہے۔

2015 میں ڈیلی ڈان میں  شائع ہونے والے  ایک مضمون میں اظفر الاشفاق نے لکھا تھا کہ جناب زرداری جس قدر اعتماد بابر اعوان ، رحمان ملک اور محترمہ فریال تالپور پر کرتے ہیں انہیں اس قدر اعتماد میاں رضا ربانی پہ نہیں ہے ۔ زرداری صاحب کی سیاسی بصیرت کا معترف ہوا جا سکتا ہے مگر ان کی شخص شناسی اب سوالیہ نشان بنتی  دکھائی دیتی ہے ۔اگرچہ حالیہ سیاسی منظرنامے میں زرداری صاحب کے سیاسی فیصلوں نے مسلم لیگ نواز کے اکابرین کو یہ کہنے کا موقع فراہم کیا ہے کہ وہ بھٹو خاندان کی نظریاتی سیاست کی قیمت پہ اپنے کمرشل مفادات کا تحفظ کررہے ہیں کیونکہ انہوں نے  رضا ربانی کا نام چئیرمین سینیٹ کے لئے مسترد کیا ہے اور فرحت اللہ بابر کو ترجمان کی حیثیت سے ہٹا دیا ہے۔

فرحت اللہ بابر اپنے بچپن کی یادوں کا ذکرکرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انہیں بچپن میں کرکٹ کھیلنے کا بہت شوق تھا ۔ ایک بار گلی میں کھیلتے ہوئے ان کی گیند ہمسائیوں کی چھت پہ جا گری ۔ اس پر  انہوں نے ہمسائیوں کے نام ایک چٹ لکھی جس پہ درج تھا ۔

“صدر ِ پاکستان کی گیند آپ کی چھت پہ جا گری ہے، اسے واپس کردیجئے”

بظاہر یہ ایک معصوم اور بچگانہ حرکت ہی سہی مگر چالیس سال پہ محیط فرحت اللہ بابر کا سیاسی کیریئر اور پیپلز پارٹی سے ان کی وابستگی، ان کا انفرادی کردار  کہ وہ سیاست میں عدلیہ اور  فوج کے کردار کے نہ صرف سخت ناقد رہے ہیں بلکہ انہوں نے ایک سرگرم ایکٹویسٹ کی حیثیت سے مذہبی اقلیتوں پر جبر کے خلاف ، جبری گمشدگیوں کے خلاف قانون سازی کے حق میں ، اعلیٰ فوجی اور عدالتی عہدیداروں کے احتساب کی خاطر اقدامات اٹھانے کے لیے سڑکوں اور ایوانوں ہردو جگہوں پر آواز اٹھائی ہے۔

رواں سال ستمبر میں خاموش طبع جناب ممنون حسین اپنے عہد صدارت سے سبکدوش ہوں گے، کیا ہی خوب ہو کہ صدارتی امیدوار کے لیے پیپلز پارٹی فرحت اللہ بابر کا نام تجویز کرے ۔صدارت و وزارت عظمیٰ کے عہدوں پر یہ دو  نامزدگیاں زرداری صاحب کے مسکراتے لہجے سے سنائی دیں تو یہ ممکن نہیں کہ ان کے سیاسی مخالفین ان کی سیاسی بصیرت پہ ایک بار پھر سر پکڑ کے بیٹھ جائیں ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...