سیکولرازم ، ایک تہذیبی قدر

1,082

اپنے ایک گزشتہ کالم میں تیونس میں اسلامسٹ جماعت النہضہ کے ایک سیاسی جماعت میں ڈھلنے کا ذکر کیا تھا۔ اس تقلب میں تیونس کے تہذیبی اور ثقافتی مزاج ، جس نے ایک تنقیدی شعور کی پرداخت کی اور النہضہ بھی اپنی مذہبی شناخت اور ایجنڈے کے باوجود اسی رویے کی حامل رہی اور جماعت میں بحث اور کھلے مکالمے کی فضا برقرار رہی۔ یہ مکالمہ اس جماعت کے ارتقاء میں اہم عامل ثابت ہوا۔ جبکہ پاکستان میں النہضہ کی ہم خیال جماعتیں سماج کو اس کی تہذیبی جڑوں سے کاٹنے کی مہم جوئی میں شریک رہی ہیں۔ریاست بھی اس مہم جوئی میں ان کی ہم رکاب رہی ، تعلیم و نصاب وہ میدان رہا جہاں انہوں نے یہ معرکہ لڑا۔ یہ معرکہ ہنوز برپا ہے اور پاکستان کی اسلامسٹ قوتیں اور ریاست اپنے نظری ہتھیار استعمال کر چکی ہیں اور اور اب انہیں تہذیب کے جوابی وار کا سامنا ہے۔
تہذیب کا جوابی وار کیا ہے؟جب سیاسی، نظری اور سماجی جراحت ساز عملِ جراحی میں اس مقام تک پہنچ جائیں کہ اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے نئے اوزاروں کی ضرورت پڑے اور یہ نئے اوزار وہی تصورات ہوں جن کے خلاف یہ برس ہا برس نبردآزما رہے، سادہ الفاظ میں جب جراحت سازوں کو اپنے کیے پر نظرِ ثانی کی ضرورت محسوس ہو تو اسے تہذیب کا جوابی وار کہا جا سکتا ہے۔تہذیب کو روکا نہیں جا سکتا ، خواہ کتنے ہی بند باندھیں یہ آگے بڑھنے کا رستہ بنا لیتی ہے۔تہذیبی ارتقاء ایک سیکولر عمل ہےجس میں نظریات ، تصورات و خیالات ریاست اور معاشروں کو تبدیلی پر مجبور کر دیتے ہیں۔سعودی عرب میں یہ عمل بظاہر مجبوراً کیا جا رہا ہے لیکن اس کے پیچھے وہ فطری تہذیبی ارتقائی قوت بھی ہے جسے دہائیوں دبایا گیا ۔
پاکستان میں بھی یہ عمل جاری ہے۔تہذیب و ثقافت کی بحث میں وہ شدت نہیں رہی جو گزشتہ دہائی تک تھی۔ موہنجو داڑو، مہر گڑھ اور گندھارا کے حوالے محض خطے کی تاریخ سے متعلق سمجھے جاتے تھے۔ عسکری جہاد کے حامی مفکرین اور کئی سرکردہ علمائے کرام اپنے موقف سے رجوع کر چکے ہیں جس کا اظہار علماء کے “پیغام ِپاکستان”نامی اعلامیے او ر فتویٰ سے ہوتا ہے ۔ سماج کو جو جراحی کی گئی تھی جس کے نتائج ملک نے دہشت گردی کی لمبی لہر اور بڑھتی ہوئی شدت پسندی کی صورت میں بھگتے ہیں۔ اس کا نقصان خود ان طبقات کو بھی ہوا جو اس عمل ِ جراحی میں شریک تھے۔ اپنے رویے پر نظرِ ثانی ایک سیکولر قدر ہے۔
معروف دانش ور اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود نے اپنے ایک فکری مقالے ” سیکولرازم کی نئی اسلامی تعبیریں” میں مختلف مسلم معاشروں میں سیکولرازم کے حوالے سے تجربات پر بحث کی ہے اور سیکولرازم اور سیکولرائزیشن میں فرق واضح کیا ہے کہ سیکولرائزیشن کے سماجی عمل پر افراد کا اختیار نہیں ہوتا۔ اس عمل کی جتنی بھی مخالفت کی جائے یہ جاری رہتا ہے اور سیکولر رویوں کی نشوونما کرتا ہے۔ڈاکٹر خالد مسعود نے النہضہ کے سربراہ راشد الغنوشی کے حوالے سے لکھا ہے کہ دنیا میں سیکولرازم کے کئی تصورات رائج ہیں اور سیکولرازم الحاد ہے نہ دہریت ، یہ محض انتظامی بندو بست کی ایک شکل ہے تاکہ عقیدہ اور فکر کی آزادی کو یقینی بنایا جاسکے۔ جب ریاست قوم اور سماج پر کوئی نظریہ لادنے کی کو شش کرتی ہے تو اس کا نتیجہ بگاڑ اور انتہا پسندی کی صورت میں نکلتا ہے۔ پاکستان میں سیکولرازم کو مذہب کے مترادف معانی میں پیش کیا گیا اور اصل خرابی یہیں سے شروع ہوئی۔
چونکہ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے اور نظریہ سازوں نے اسے ایک نظریاتی مملکت بنانے کے لیے ہر اُس فکر، رویے، اور ثقافتی اظہار کی نفی کی جس پر “سیکولر” ہونے کا شائبہ بھی گزرتا تھا۔ایک سطح تک یہ عمل آج بھی جاری ہے تاہم اس عمل میں پہلے کی سی شدت نہیں رہی ہے۔بڑے شہروں کے چورواہوں پر گھوڑے اور دیگر ثقافتی مظاہر انہی تہذیبی رویوں کا اظہار ہیں جنہیں ایک عرصہ تک دبایا گیاہے۔
ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں تہذیب نے کروٹ لے لی ہے اور سماجی جراحت کاری رک گئی ہے ۔ بلکہ اس جراحت کاری کو اندرونی و بیرونی چیلنجز درپیش ہیں جس کے سبب یہ مکمل پسپائی پر تو نہیں لیکن ایک “مفاہمت” کے عمل سے ضرور گزررہی ہے۔ اس مفاہمتی عمل کا اظہار چیف آف آرمی اسٹاف جنرل باجوہ کے میونخ میں خطاب سے بھی ہوتا ہے جس میں انہوں نے چالیس سال پہلے افغان سوویت جنگ میں شمولیت کی غلطی کا اعتراف کیا۔ اس جنگ نے ان گروہوں کو مزید مضبو ط کیا جو تہذیبی شناخت کے درپے تھے اور ایک مصنوعی شناخت کی بُنت کاری کر رہے تھے۔ یہی وہ عرصہ ہے جب نرگسیت اس سطح کو پہنچی کہ ناک کے آگے دیکھنا بند ہو گیا۔یہ تہذیبی نرگسیت نہیں تھی بلکہ تہذیب سے انحراف کے نتیجے میں پیدا ہونے والا مجہول رویہ تھا اور یہ مجہولیت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اس کی شدت کو کم کرنے کے لیے کئی نسلیں درکار ہوں گی۔
تہذیبی دباؤ ازخود خرابیوں کی درستی نہیں کرتا بلکہ یہ وہ قوت ہے جو انفرادی و اجتماعی رویوں میں کجی کی نشاندہی کرتی ہے۔اب یہ فرد اور گروہ پر منحصر ہے کہ وہ قلق کو کتنا محسوس کرتے ہیں اور اسے کتنی تیزی سے آگے بڑھاتے ہیں۔ تیونس میں تبدیلی اپنی تہذیب پر فخر سے منسلک ہے اور اس نے النہضہ جیسی انحراف پسند جماعت کو بھی تبدیلی پر مائل کیا۔سعودی عرب میں بیرون دباؤ اور بدلتی معیشت نے نظرِ ثانی کے عمل میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔دونوں ممالک میں بہت کم مماثلت ہے لیکن دونوں دنیا کے ساتھ چلنے پر آمادہ ہیں، ایک کے لیے تہذیب فخر ہے جبکہ دوسرا تطہیری عمل سے گزررہا ہے۔ پاکستان کے لیے دونوں سے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ تیونس سے اپنی تہذیب سے جڑے رہنے کا ہنر اور سعودی عرب سے سمت کو بدلنے کا طریقہ۔ دونوں طریقے اپنی اصل میں سیکولرائزیشن کا عمل ہیں۔ ہمیں یہ لفظ کتنا ہی نا پسند کیوں نہ ہو، اسے بے شک اپنی لغت سے نکال دیں ، ذہنوں سے کھرچ دیں لیکن اس کا عمل جاری رہے گا۔ یہ ایک تہذیبی قدر ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...