طالبان کا تاریخی و سیاسی شعور

1,342

تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ ایک عالمی جہادی تنظیم ہے، جس کے نظریات داعش اور القاعدہ سے ملتے ہیں۔تاہم گزشتہ دنوں ایک طالبان کمانڈر نے اپنی تنظیم کے جو اغراض و مقاصد  اور نظریات بیان کیے وہ اس تاثر سے یکسر متضاد ہیں۔اس حوالے سے بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ گو پاکستانی طالبان کےمختلف جہادی تحریکوں سے روابط رہے ہیں مگروہ عالمی جہادی تنظیموں کی فکر سے  بہت کم متاثر ہوئے ہیں اور ان کی سوچ مقامی و قبائلی سطح تک محدود ہے۔دوسری جنگِ عظیم کی طرح افغان سوویت جنگ(88-1979)کے بعد بھی جہادی تنظیمیں اپنے نظریات کے پرچار کے لیے تشدد پر آمادہ ہوئیں۔  دوسری جنگِ عظیم کے بعد اسلامی تحریکوں سے متاثر ہو کر اپنے مسلمان بھائیوں کے حق میں مشرقِ وسطیٰ و شمالی افریقا اور برِ صغیر میں جماعتِ اسلامی کو ورلڈ آرڈر تبدیل کرنے کی تحریک ملی۔قومی ریاستوں کے ارتقاء اور سوشل ازم کے ابھرنے کی وجہ سے اسلامی سیاسی فکر اور شدت پسندوں کے محاسبے کی مختلف تحریکیں ابھرتی رہی ہیں۔نو آبادیاتی نظام کے وقت مسلمانوں میں سیاسی و سماجی شعور کی بیداری اور اسلامی بھائی چارے کے لیےتعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا۔پر تشدد تحریکوں، مثال کے طور پر القاعدہ نے عالمی وحدت اور دیگر نظریات انہیں اسلامی بھائے چارے کی تحریکوں سے مستعار لیے تھے۔انہیں تحریکوں کے مسلسل ارتقاء کے نتیجے میں داعش نے جنم لیا جن میں خوارج کے نظریات مزید شدت سےشامل ہوئے۔خارجی  ایک ایسا گروہ تھاجس نے خلفائے راشدین کے دور میں مختلف اوقات میں بغاوت کی۔اس کی نمایاں مثال خلیفہِ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں خوارج کی بغاوت ہے۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد مشرقی و جنوب ایشیائی مسلمانوں میںمزاحمت کی تحریکیں انہیں اسلامی تحریک سے متاثر ہوکر ابھرنے میں کامیاب ہوئیں مگر ان تحریکوں کا مرکز علاقائی تنازعات اور مذہبی شناخت تک ہی محدود رہا۔تاہم 11/9 کے واقعے نے عالمی منظر نامہ ہی بدل کر رکھ دیا ۔ نتیجتاً علاقائی مزاحمتی تحریکیں القاعدہ کی طرف متوجہ ہونےپر مجبور ہوئیں کیونکہ ان کو اپنے نظریات کی  بقاء اور تھٖط القاعدہ میں دکھائی دینے لگا۔دنیا کو افغانستان میں طالبان تحریک کے قومی و اخلاقی پہلوؤں کو سمجھنے میں ایک دہائی سے زائد عرصہ لگاجبکہ پاکستانی قبائل کے مختلف گروہوں تحریکِ طالبان پاکستان کو اب بھی القاعدہ کا ساتھی گروہ سمجھا جاتا ہے۔تحریکِ طالبان پاکستان کے کمانڈر مفتی نور ولی الیاس ابو منصور عاصم کی حال ہی میںشائع ہونے والی   کتاب ” انقلابِ محسودساؤتھ وزیرستان: فرنگی راج سے امریکی سامراج تک” سے اس تنظیم کا دنیا بارے جو نقطہِ نظر ظاہر ہوتا ہے وہ اس عام تاثر سےکلی طور پر مختلف   ہےجس کے مطابق تحریکِ طالبان پاکستان کے نظریات کو القاعدہ اور داعش کے ساتھ نتھی کر دیا جاتا ہے۔محسود کمانڈر نے ایک مکمل سماجی نظام کا ماڈل پیش کیا ہےجو تحریک ِ طالبان قبائلی علاقہ جات میں چاہتی ہے۔اس کتاب میں قبائلیوں کے روایتی نظام پشتون ولی( پختون کا طرزِ معاشرت اور انصاف کا ڈھانچہ جرگہ) اور ناناوتی(معاف کرنے اور پناہ دینے کی روایات)کو قبائلی علاقوں کے لیے بہترین نظام قرار دیا گیا ہے۔ مصنف نےانگریز کے ایف سی آر کےنظام کو مسترد کرتے ہوئےقبائلی علاقوں میں اس کو تبدیل کرکے شرعی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے۔وہ دلیل دیتے ہیں کہ قبائلی نظام اسلامی نظام سے بھر پور مطابقت رکھتا ہے۔انہوں نے اسلامی اقدار پر مبنی اس طرح کے نظام کے پورے ملک میں نفاذ کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

مصنف نے اپنے نقطہِ نظر کی تائید میں پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کی کتاب “غیرت مند مسلمان” کا حوالہ دیا ہےجو نوے کی دہائی کے وسط میں ایک معروف اشاعتی ادارے نے شائع کی تھی جس میں عمران خان نے پاکستان کے قبائلی نظام کی کہانی بیان کرتے ہوئے نہ صرف اس کی تعریف کی تھی بلکہ پاکستان میں مروج جمہوری نظام سے اس کا موازنہ بھی کیا تھا۔انہوں نے پارلیمان اور سیاستدانوں پر تنقید کرتے ہوئے قبائلی طرز کا نظام تجویز کیا تھا۔ مفتی نور ولی نے عمران خان کے وژن کی تعریف کرتے ہوئےاپنی کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستانی قوم کے لیے یہ عقل کی بات نہ ہوگی کہ وہ روایتی مؤثر قبائلی نظام کے ہوتے ہوئے نام نہاد جمہوری نظام کو فوقیت دے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ مصنف نے امریکی  اور پاکستانی فوج کو ایک ہی خانے میں رکھتے ہوئے قبائلی نظام کا دشمن قرار دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ دونوں ہی قبائلی نظام کو نیست ونابود کرنا چاہتے ہیں اور اپنے اہداف کے حصول کے لیے مختلف سیاسی و عسکری حربے آزما رہے ہیں۔عسکری حربے ظاہر ہے قبائلی علاقوں پر قبضے کے لیےآزمائے جا رہے ہیں جبکہ سیاسی حکمتِ عملی ان علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے استعمال کی جارہی ہے۔انہوں نے قبائلیوں کو متنبہ کیا ہے کہ قبائلیوں کو غیر مسلح کرنے، اہم مقامات پر قبضےکے معاشی و معاشرتی اصلاحات متعارف کروائی جائیں گی جن سے قبائلی عورت آزاد ہو جائے گیاور پردہ کرنا ترک کر دے گی۔ان کے خیال میں اس طرح کی معاشرتی تبدیلیاں عالمی سیاحوں کو  اس علاقے کی جانب متوجہ کریں گیاور یہ خطہ “منی لندن ” بن جائے گا۔

طالبان کی مسلح جدو جہد اور دہشت گردی کی تائید کرتے ہوئےمصنف نے یہ دلیل دی ہے کہ ان کی یہ جد و جہد قبائلیوں کی آزادانہ حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے ہے۔قبائلی نظام کے تحفظ کے لیےمحسود قبائل  نے افغانستان میں امریکی فوج کو شکست دینے پر توجہ دی اور وہاں طالبان کی قیادت میں خلافت قائم کی۔مصنف کے مطابق یہ پاکستان کی حکومت ہی تھی جس نے ان کی توجہ ایک عظیم مقصد سے ہٹانے کی کوشش کی۔

کتاب میں طالبان کے سماجی اور سیاسی شعور کے بارے میں طویل اورمدلل بحث کی گئی ہےجو کسی بھی لحاظ سے اسلامی شدت پسندوں اور داعش کے عالمی تشدد پسند نظریات سے مطابقت نہیں رکھتا۔نہ ہی یہ سوچ پاکستان کی مذہبی جماعتوں کے عالمی نظریات سےہم آہنگ ہے جوملک کے قومی جمہوری نظام میں شریکِ کار بھی ہیں۔  ان کے نظریات پنجاب کے قدامت پسند ایک مذہبی حلقے کے بہت قریب ہیں جن کے صوبے میں لا تعداد مدارس بھی موجود ہیں۔البتہ یہاں دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ محسود طالبان کا تاریخی پسِ منظر جماعتِ اسلامی کے برِ صغیر سے متعلق تاریخی نقطہِ نظر سے میل رکھتا ہے۔مفتی ولی طالبان کی جدو جہد کو برطانوی راج کے دوران علماء کرام کی مزاحمتی تحریک سے جوڑتے ہیںاور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں دارالاسلام بنانا چاہتے ہیں۔طالبان کے مطابق برِ صغیر میں مسلمان علماء کی جد و جہدِ آزادی کو سیکولر طاقتوں سے متاثر ہو کر سر سید احمد خان نے ہائی جیک کرلیا تھاجو جدید تعلیم کے حامی تھے۔قیامِ پاکستان کے بعد بھی تصادم جاری رہاکیونکہ سر سید کے غیر مذہبی خیالات مسلسل ملکی اشرافیہ کو متاثر کرتے رہےرہیں جبکہ علماء کا راستہ ہمیشہ سے مختلف رہا  اور ان کی منزل دارالاسلام تھی۔مفتی ولی کے مطابق پاکستان میں جہادی تحریکیں اسی مزاحمت کا تسلسل ہیں۔پاکستان میں اعتدال پسند طبقات ملکی نصابِ تعلیم سے مطمئن نہیں اورطلبہ کو جو تاریخ پڑھائی جا رہی ہے، انہیں اس پر تحفظات ہیں۔ادھر طالبان بھی پڑھائی جانے والی تاریخ سے خوش نہیں ہیں۔ مفتی ولی کو روایتی نصاب اورتعلیمی اداروں سے شکایت ہے کہ آزادی کہ اصل ہیروز علماء ہیں، جن کو مطالعہ پاکستان کے نصاب میںمناسب جگہ نہیں دی گئی ۔ان کے خیال میں پاکستانی نظامِ تعلیم کا مقصد اس کے سوا کوئی اور نہیں کہ پاکستانی طلبہ کے ذہنوں میں سیکولرازم ٹھونسا جائے۔

عمرانیات کے تناظر میں دیکھا جائے توپاکستانی طالبان کوپاکستان میں  مسلسل موجود رہنے والے سماجی، معاشرتی اور سیاسی تضادات کی پیداوار قرار دیا جا سکتا ہے۔یہ کتاب پاکستانی طالبان کی پر تشدد مزاحمتی تحریک کاایک منفرد اور اور مختلف پہلو اجاگر کرتی ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...