سعودی عرب کا حالیہ دورہ: چند تاثرات

946

اللہ تعالی کے فضل و کرم سے حالیہ دنوں میں ریاض، مدینہ اور مکہ کے ایک عجلت میں کیے گئے سفر کا موقع ملا۔ اس سفر کے دوران پہلے سے کیے گئے متعدد اسفار کے تجربات کی یاد تازہ ہوئی اور خیال آیا کہ کچھ اہم نکات آپ کے ساتھ بھی شئیر کیے جائیں۔

سعودی عرب میں جن دوستوں سے مجھے بات چیت کا موقع ملا ان کی اکثریت ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں سے متفق نظر آئی۔ گو کہ محمد بن سلمان کی معاشی پالیسیاں خاصی سخت اور سماجی تبدیلی کی پالیسی مملکت کی دیرینہ روایتوں سے ہٹ کر ہے مگر اس کے باوجود نوجوان ان پالیسیوں کو سمجھتے ہوئے اپنے ولی عہد کو ایک منصفانہ موقع دینا چاہتے ہیں تاکہ جن لانگ ٹرم تبدیلیوں کا وعدہ کیا گیا ہے ان کو عملی جامہ پہنایا جاسکے۔ یہ بھی محسوس کیا کہ ادھیڑ عمر کے لوگ ولی عہد کی پالیسیوں کے بارے میں خدشات کا شکار ہو کر گومگو کی کیفیت میں ہیں اور قدرے عمر رسیدہ اور بڑی عمر کے لوگ محمد بن سلمان کے ناقد ہیں۔ بظاہر یہ ایک جنریشن گیپ ہے کہ معیشت کے تنوع کے نتیجے میں جو سخت فیصلے کیے جارہے ہیں اور عوامی ذمہ داری کی غرض سے ٹیکسوں کے جس نظام کو بتدریج لاگو کیا جارہا ہے، اسے سب کے لیے یکساں طور پر قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔ سبسڈی کی بنیاد پر قائم معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر کے عوام کو معاشی ذمہ داری میں شامل کرنے کا رواج سعودی عرب میں بالکل بھی نہیں رہا ۔جس وجہ سے  محمد بن سلمان کے اقدامات کو اس حوالے سے خاصا متنازعہ سمجھا جارہاہے۔

کرپشن کے بارے میں حالیہ اقدامات کو میں اس دورے سے قبل صرف ایک سیاسی ہتھیار ہی سمجھ رہا تھا کہ اس سے ولی عہد محض اپنی گرفت مضبوط کر رہے ہیں مگر دوستوں سے گفتگو کے بعد اندازہ ہوا کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ سعودی معیشت اور ادارتی کلچر میں کرپشن نے بہت گہری جڑیں بنا لیں تھیں اور کرپشن کو کسی حد تک قابل قبول رویے کے طور پر مان لیا گیا تھا۔ محمد بن سلمان نے جو حالیہ اقدامات کیے ہیں ان کی گرفت میں ہر شخص اور ادارہ آیا ہے اور اس بے رحمانہ پکڑ سے لوگ سہم سے گئے ہیں۔ یہ اپنی جگہ ایک خوش آئند بات ہے اور دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ معاملہ آگے کیسے بڑھے گا۔

سماجی تبدیلیوں کے بارے میں دو متضاد آراء سامنے آرہی ہیں۔ محمد بن سلمان کے چاہنے والے یہ کہہ رہے ہیں کہ مملکت کے اساسی ستون،عقیدہ توحید اور کتاب و سنت پر مبنی قانونی نظام کو کوئی خطرہ نہیں۔ بین الاقوامی پریشر بہت ہے اور حکمت کا تقاضہ یہی ہے کہ مغربی طاقتوں کو خود پر حملے کی دعوت نہ دی جائے اور کچھ کاسمیٹک تبدیلیاں ہونے دی جائیں۔ اس سلسلے میں وہ مشرف کی افغان پالیسی کی مثال دیتے ہیں کہ کیسے امریکہ کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی پاکستان کے تزویراتی مفادات کو کوئی اندیشہ لاحق نہیں ہوا۔ مگر جو محمد بن سلمان کے ناقدین ہیں ان کا کہنا ہے کہ چاہے کاسمیٹک تبدیلیاں کی جارہی ہیں مگر معاشرتی و سماجی روایات کی تبدیلی کا جن ایک مرتبہ بوتل سے نکل آئے تو پھر وہ کسی ریموٹ سے کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔ آپ بھلے اپنے تذویراتی اہداف حاصل کریں مگر دینی و نظریاتی تشخص کو پہنچنے والا نقصان ناقابل تلافی ہوگا۔ یہ اندیشے بے جا بھی نہیں کہ مشرف دور میں میڈیا کی آزادی اور سماجی اقدار کی لبرل تعبیر کے نام پر جو کچھ پاکستان میں ہوا، اس سے مجموعی طور پر ملک کے دینی تشخص کو نقصان ہی ہوا تھا۔ محمد بن سلمان اس بارے میں بہت بڑا رسک لے رہے ہیں جس کے نتائج خطرناک بھی نکل سکتے ہیں۔ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مملکت کو آج تک جو ترقی اور عروج حاصل ہوا ہے اس کی مادی وجوہات اپنی جگہ مگر اس میں توحید کی مرکزیت، دین اسلام کی خدمت اور شریعت کا نفاذ و اہتمام اہم ترین چیزیں ہیں۔ کسی بھی وجہ سے ان اقدار پر سمجھوتہ مملکت کو اس کے اصل مقاصد سے ہٹا کر خرابی کی طرف لے جائے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر سے آنے والے لاکھوں عازمین حج وعمرہ کی خدمت ورہنمائی کے لیے سعودی حکومت نے غیر معمولی سہولیات فراہم کررکھی ہیں۔مدینہ سے مکہ سفر کو آسان بنانے  کے لیے ٹرین کا پراجیکٹ قریباً مکمل کرلیا گیا ہے اور مکہ میں مسجد الحرام کی توسیع کا عظیم الشان اور غیر معمولی پراجیکٹ بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ سعودی حکومت عام طور پر اپنے ان پراجیکٹس کو دنیا بھر کی آگاہی کے لیے اجاگرتوکرتی ہے مگر اس پر اٹھنے والے مصارف کا ذکر کہیں بھی نہیں کیا جاتا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حج اور عمرے کے ذریعے ایک بھرپور معاشی سرگرمی وجود میں آتی ہے جس سے سعودی مملکت ضرور مستفید ہوتی ہے مگر  دنیا بھر سے آنے والے حجاج ،عمرہ زائرین  اور سعودیہ میں مقیم  غیر ملکی بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔سعودی حکومت کی سیاسی پالیسیوں پر کی جانے والی تنقید کی زد میں آکر انکی یہ مثبت خدمات بھی نظر انداز کردی جاتی ہیں۔

سعودی عرب کے شہروں اور شاہراؤں کو دیکھ کر یہ خیال ضرور آتا ہے کہ وسائل کی بھرمار کے باوجود انفراسٹرکچر اور شہری سہولیات کے شعبوں میں وہ ترقی نہیں ہے جو اتنے وسائل کے حامل مغربی ممالک یا پھر کچھ اور خلیجی ممالک میں ہے۔ یہ درست ہے کہ سعودی عرب ایک بڑا ملک ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کی دولت اور وسائل بھی بہت زیادہ ہیں۔ صفائی کا شعبہ خاص طور پر بہت کمزور یے۔ سڑکوں کے کنارے اور درمیان میں جابجا کوڑے اور گندگی کے ڈھیر پڑے ملتے ہیں۔ فٹ پاتھ اور ان سے ملحقہ خالی رقبے بھی بغیر کسی پلاننگ کے پڑے ہوئے ہیں اور کوڑا وہاں جمع ہوتا رہتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ عرصہ دراز سے کسی نے صفائی کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ مدینہ سے مکہ جانے والی شاہراہ پر پٹرول پمپس اور عوامی سہولیات کی فراہمی کے لئے بنائی جانے والے جگہوں پر واش رومز کی صفائی اور مجموعی نظافت کسی طور پر بھی قابل رشک نہیں ہے۔ یہ بنیادی طور پر پلاننگ کے نقائص اور جدید شہروں کے نظام سے نابلد ہونے کے آثار ہیں۔ سعودی حکومت کو اس طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس کے بین الاقوامی ناقدین مملکت کے اداروں کی استعداد کے بارے میں سوالات و اشکالات اٹھاتے رہتے ہیں۔ ترکی کے ابھرتے ہوئے کردار اور ترکی میں انفراسٹرکچر کی حیرت انگیز ترقی آج نہیں تو کل یہ سوال پیدا کرے گی کہ سعودی عرب اگر خود نہیں کرسکتا تو اس نظام میں ترکوں کو شامل کرے۔ ظاہر ہے کہ یہ قابل قبول حل نہیں ہے کہ اس سے دوسرے کئی طرح کے مفاسد در آئیں گے مگر اس سے پچنے کی ذمہ داری سعودی عرب پر ہی عائد ہوتی ہے۔

ہمارے ہاں سے جانے والے لوگ سعودی مارکیٹوں میں ملنے والے دودھ، پھل اور دیگر اشیاء کی بہتات سے مرعوب ہوکر آتے ہیں اور تعریفوں میں رطب اللسان ہوتے ہیں۔ دنیا ساری ہماری جیسی نہیں کہ لوگوں نے ترقی یافتہ معاشرے اور ان کے انتظام و انصرام دیکھ رکھے ہیں۔ آخر وہ کب تک دوستی و مصلحت کے تحت خاموش رہیں گے۔ سعودی عرب کو یہ تمام معاملات انتہائی پروفیشنل اپروچ کے ساتھ جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت ہے کہ اسی میں مملکت کی نیک نامی ہے۔

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...