پیغام پاکستان۔۔۔پس منظر اور پیش منظر

عبد الغنی محمدی

1,047

دہشت گردی کے خلاف علماء کرام نے ” پیغام پاکستان ” کے نام سے   کتابی شکل میں ایک متفقہ فتویٰ جاری کیا ہے جس پردوہزار سے زائد علماء کے دستخط ہیں ۔ اس کتا بچے کوبین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ذیلی ادارہ، ادارہ تحقیقا ت اسلا می نے  مرتب اور شائع کیا ہے۔ قومی بیانیے کے حوالے سے اجراء صدر پاکستان کی سربراہی میں علماء کرام  اور حکومتی  نمائندہ شخصیات کی موجود گی میں اسلام  آباد میں منعقدہ  ایک کانفرنس میں ہوا اور اب اسکی افتتاحی تقریبات صوابائی ہیڈ کوارٹرز میں بھی ہورہی ہیں ۔ اس فتویٰ میں دہشت گردی ، خونریزی ،  خود کش حملوں اور ریاست کے خلا ف مسلح جدو جہد خواہ وہ کسی نام یا مقصد سے ہو ،  کو حرام قرارد یا گیا ہے  اور ان چیزوں سے نمٹنے کا حل شریعت کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے ۔ اس فتویٰ کی اہمیت کے لیے یہ کافی ہے کہ اس کو تمام مسالک کے علماء  ومفتیان کرام کی ایک بڑی تعداد نے  متفقہ طور پر منظور کیا ہےاور پھر ریاست نے اس کو قومی بیانیہ قرار دے دیا ہے۔

پاکستان میں   گزشتہ کئی سالوں سے بد امنی اور انتشار کی کیفیت تھی ۔ مشر ف حکومت کے بعد دہشت گردی اور بد امنی میں مزید اضافہ ہوا ۔دہشت  گردی ، بدامنی اور انتشار  کی اس دگر گوں کیفیت نے ملک عزیز کی سلامتی کوداؤپر لگا رکھا تھا ، پاکستان کی معیشت ہچکولے کھار ہی تھی اور آخری سانسیں  لے رہی تھی  ، بہت سی قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکا تھا ۔ملک میں داخلی سطح پر جو کیفیت تھی سو تھی عالمی طور پر دنیا بھر میں پاکستان کا امیج خراب ہو چکا تھا ، ہمارے ہمسائے ہمیں آڑے ہاتھوں لے رہے تھے ۔ یہ حالات چل رہے تھے کہ ملک میں ایک انتہائی دل دوز اور دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا ۔ یہ واقعہ آرمی پبلک اسکو ل میں ڈیڑ ھ سو کے قریب بچوں ، اساتذہ اور یگر عملے کی شہادت کا تھا ۔ ننھی اور معصوم کلیوں کی شہادت کے درد کو پوری قوم نے محسوس کیا اور ان بچوں کی شہادت کے المناک حادثہ نے  پوری قوم کو دہشت گردی کے خلاف ایک صف میں لاکھڑاکیا ۔دہشتگر دی کا مقابلہ کرنے اور اس کو شکست دینے کے لیے  پوری قوم مضبوط و آہنی عز م کے ساتھ متحد ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔ در حقیقت ملک عزیز کو درپیش چیلجز سے نمٹنے کے لیے ہمیں ایسے ہی اتفاق و اتحاد کی ضرورت ہے ۔  اس واقعہ کے بعددہشت گردوں اور ان کے معاونین سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے لیے  ریاست نے “نیشنل ایکشن پلان” ترتیب دیا۔ دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے لیے مختلف آپریشن کیے گئے ، بینکوں میں اکاؤنٹس کی چھان بین کی گئی ، سموں اور شناختی کارڈز کو رجسٹریشن کے عمل سے گزاراگیا ، میڈیا و سوشل میڈیا  پر سخت اور کڑی نگرانی کی گئی ، انسداد دہشتگردی کے ادارہ “نیکٹا” کو از سر نو مضبوط کیاگیا ۔ ان تمام عملی کاموں کے ساتھ دہشتگردوں کا نظری سطح پربھی مقابلہ کیا گیا ، اس ضمن میں علماء کرام  کی خدمات  نہایت  وقیع ہیں ۔ علماء کرام نے  دہشت گردی کے خلاف فتاویٰ اور بیانیے صادر کیے ۔ دہشتگردوں کا نظری سہارا ختم کرنے کے لیےان آیات ، احادیث اور عبارات کے جواب دیے جن کو وہ استعمال کر رہے تھے ۔ ان نصوص کی درست تعبیرات و محل کو امت کے سامنے واضح کیا  ۔ دہشتگر دی کے خلاف جنگ میں امن پسند علماء کرام کو اپنے فتاوی ٰ کی قیمت بھاری داموں چکا نا پڑی ۔اس جنگ میں بہت سے علماء کرام کی شہادتیں بھی ہوئیں ۔ ان علماء کرام کی انفرادی کوششوں کے بعد اب یہ اجتما عی اور متفقہ فتویٰ بھی آچکا ہے جس کو قومی بیانیہ قرار دینا اور اس حوالے سے مزید کوششیں کرنا نہایت خوش آئند  اقدام ہے ۔

ہمارے ہاں مخصوص حالات اور خاص پس منظر میں کی جانے والی کوششیں صرف  مخصوص حالات سے نمٹنے کے لیے ہی ہوتی ہیں۔ بلاشبہ عام طور پر کوئی بھی کوشش مخصوص حالات اور خاص پس منظر میں ہی شروع کی جاتی ہے لیکن اس کو ایسی مستقل بنیادوں پر استوار کرنا کہ دوبارہ اس قسم کے حالات سے دوچار نہ ہونا پڑے، یہی اصل دانشمندی ہوتی ہے ۔ دہشتگر دی کے خلاف ہماری جو کوششیں ہیں،انہیں بھی مستقل بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم وقتی امن کی بجائے مستقل  اور پائیدا ر امن  قائم کرسکیں اور اپنی نسل نو کو آگے بڑھنے کے اچھے مواقع فراہم کرسکیں ۔

دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے مختلف نوعیت کی محنت درکارہے ایک کوشش فرقہ واریت کو ختم کرنے کی ہے ۔ فرقہ واریت سے مراد کسی بھی سطح پر ایسی گروہ بندی یا فرقہ بندی جو دیگر لوگوں یا گروہوں کے خلاف منفی جذبات کی تعمیر میں مصروف ہو اور شدت پسندی کو ابھار رہی ہو ۔ ایسی گروہ بندی مذہبی ، لسانی ، صوبائی ، یا کسی بھی لحاظ سے ہو، اس کا قلع قمع کرنے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ ہمیں ایک قوم بننا ہے جس کی امنگیں ، خواہشیں  ، ترجیحات اور مفادات یکساں ہوں تبھی ہم ترقی کر سکتے ہیں اور اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں ۔جو فرقے اور جماعتیں بن چکی ہیں ان کو ختم کرنا تو شاید ممکن نہ ہو لیکن رواداری ، احترام  اوربرداشت   کے ذریعے ہم پر امن ماحول پیدا کرسکتے ہیں ۔ فرقہ واریت میں چند چیزیں ایسی ہیں جن کو اگر ختم کرنے کی کوشش کی جائے تو فرقہ واریت کی شد ت کم ہو سکتی ہے ۔

مختلف فرقوں کی کتابوں اور لٹریچر میں ایک دوسرے کے خلاف سخت فتاویٰ اور غیر مہذب و اخلا ق باختہ الفاظ موجود ہیں ۔ ان فتاویٰ پر شاید ان مسالک کو دل و جان سے حرز جان بنانے والے لوگ بھی عمل  نہ کر پاتے ہوں ۔ کیونکہ معاشرتی طور پر ایک دوسرے سے اتنا کٹ جانا کہ آدمی معاشرتی افعال، خرید و فروخت ، شراکت ، تعلق داری  و دیگر معاملات میں صرف اپنے مسلک تک محدود ہو کر رہے یہ عملی طور پر بہت مشکل کام ہے ۔ اس قسم کے شدت پسندی پر مبنی فتاویٰ اگر چہ عملی اور معاشرتی زندگی میں ناقابل عمل ہیں، لیکن نظری طور پر یہ  فتاویٰ و سخت الفاظ کسی بھی مسلک میں شدت پسندی کی خو ، دوسروں سے بغض و عداوت اور موقع پرست علماء کے لیے نہ صرف  بہتر ین خام مال ثابت ہوتے ہیں،بلکہ جادہ اعتدال پر گامزن اور  باہمی امن  کی کوششیں کرنے والے علماء  کے لیےمہلک ہتھیارثابت ہوتے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ اب اس قسم کے عمر رسید ہ فتاویٰ جات کو مستردکر کے ان پر نظری تکیہ رکھنے والوں کا  سہارا  بھی ختم کیا جائے ۔ایسے غیر معتدل فتاویٰ کی فہرست مرتب کرنے کے لیے تمام مسالک کے جید اور مسلمہ کابرین سے مشاورت کا اہتمام ضروری ہے۔ اگر تمام مسالک کے معتدل علماء اس قسم کے فتاویٰ کو ختم کرنے میں  متفق و متحد ہوجائیں تو راکھ میں دبی اس چنگاڑی ،جو کسی بھی وقت ہلاکت خیز آگ کا روپ دھار سکتی ہے، سے ہم ہمیشہ کے لیے جان چھڑا سکتے ہیں ۔

مولانا مودودی کی کتابوں میں  مقد س شخصیات کے حوالے سے بعض ایسی باتیں تھیں جو بظاہر  دیکھنے سے خلاف ادب معلوم  ہوتی  تھیں اور دینی حمیت رکھنے والے کسی بھی شخص کے لیے ناقابل برداشت تھیں ۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے مقدس شخصیات کے بار ے میں ہمارے جذبات ایسے ہی ہونے چاہییں لیکن ان جذبات کو اگرہم دائرہ قانون میں لے آئیں تو شاید اس قسم کے مسائل زیادہ احسن طریقے سے حل ہو سکیں گے ۔ مولانا مودودی ؒ کی کتابوں سے قاضی حسین احمد ؒ   نے اس قسم کا مواد ہٹا دیا ۔ قاضی صاحب عبقری شخصیت  کےمالک تھے ، ان کے دیگر  سیاسی و مذہبی کارناموں کے ساتھ یہ بہت بڑا کا رنامہ تھا  ۔ جماعت کے اندر سے بہت سے لوگوں نے اس کی سخت مخالفت کی  لیکن قاضی صاحب اپنی جراءت رندانہ کے باعث یہ کام کر گزرے ۔ اپنے مسلک کی کسی بڑی اور عقیدتوں کا مرکز  شخصیت کی تصانیف  سے اس قسم کا مواد ہٹانا یقیناً بہت مشکل ہیے ۔ یہ ناممکن بھی ہوسکتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس سے بہت سارے  مسائل پیدا ہورہے ہیں ، مسلکی طور پر لوگوں کا یقین و اعتبار اٹھنے کا خطرہ ہوتا ہے ۔ لیکن جتنا یہ پر امن بقائے باہمی اور شدت پسند ی کے خاتمے  کے لیے ضروری ہے اتنا ہی  شاید علمی ترقی اور مکالماتی ماحول میں مفید ابحاث پر گفت و شنید کے لیے بھی ضروری ہے ۔ ہمارے ہاں مکالماتی ماحول ختم  چکا ہے،   اس کی جگہ جدل و مناظرہ نے لے لی ہے جس کا اختتام کسی فائدے کی بجائے باہمی رقابتوں میں اضافے ، ماحول میں کشیدگی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر ہوتا ہے ۔ مفید علمی ابحاث کا  مکالمہ ایک عرصہ ہوا شاید ختم ہی ہو چکا ہے اوران حالات میں علمی ترقی ایک خواب اور سراب  بن چکی  ہے ۔ قاضی حسین احمد کے ایسا کرنے کافائدہ یہ ہوا کہ مولانا مودودی کی شخصیت کا  اصل روپ  نکھر کر  سامنے آگیا ۔ ان کی چند باتوں کو لیکر مخالفین نے ان کی شخصیت کے بہت سے مفید اور عبقری پہلوؤں کو چھپادیا تھا ۔ قاضی حسین احمد نے ایسے لوگوں کے لیے وہ راہ مسدود کر دی اور مولانا مودودی کو بحیثیت  مفکر اور دانشور کے  لوگوں کے سامنے پیش کردیا ۔ اب جس بندے نے مولانا مودودی  کے حوالے سے بات کرنی ہے وہ کوئی علمی و فکری بات ہی کرےگا ۔ طعن و تشنیع یا لایعنی و غیر مفید ابحاث کا سلسلہ ختم ہو چکاہے ۔اگر چہ بعض لوگ اب بھی گڑے مردے اکھاڑنے کے پیچھے لگے رہتے ہیں  ۔ ایسے ہی اگر ہر  مسلک کی  نمائندہ شخصیات اپنے اکابر کی ایسی باتیں جن کو لیکر پانی میں مدھانی پھیر ی جاتی ہے، ختم کرنے کی طرف توجہ دیں تو ہم بجا طور پر ایک اچھی روایت کو پروان چڑھا سکتے ہیں ۔ ایسی عبارات کی نشاندہی کوئی مشکل کام نہیں ، ایسی عبارات پر باقاعدہ مختلف مسالک کے علماء کی کتابیں اور مناظرے  موجود ہیں ۔

ہمارے ہاں طویل عرصہ سے چلنے والے مسلکی اختلافات دشمنی اور رقابت  کا روپ دھار چکے ہیں  جن میں ایک دوسرے سے شدید نفرت و عداوت پائی جاتی ہے ۔ ان حالات میں ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیوں کا پیدا ہوجانا بھی لازمی اور یقینی امر ہے۔ ہم کسی  کا نقطہ نظر اس سے معلوم کر نے کی بجائے خود ہی طے کر کے اس پر فرضی قضیوں کی پوری عمارت تیار کر لیتے ہیں۔ ایسے میں غلط فہمیوں کا پیدا ہونا اور بھی لازمی اور یقنی  ہوجا تا ہے ۔ہو سکتا ہے کہ ان غلط فہمیوں میں خیانت کا بھی  دخل ہو ، لیکن ابتدائی طور پر کی گئی خیانت بعد میں ذہن میں رچ بس کر فکر کا ایسا حصہ بن جاتی ہے جس پر بندہ ازسر نو غور نہیں کرتاہے اور ایسے خیالا ت ایک دوسرے کے بارے میں نسل در نسل چلتے رہتے ہیں ۔   یہ غلط فہمیاں سیاسی ، معاشرتی اور مذہبی ہر طرح کے مسائل میں  ہو سکتی ہیں۔ سب سے زیادہ غلط فہمیاں دوسروں کی عبارات و نظریات  کی تفہیم میں ہوتی ہیں ۔ ہر مسلک والے لازما ًخود پر تنقید میں بہت سے مسائل میں یہی کہتے نظر آتےہیں کہ ان کے موقف پر دیانتدارانہ غور و فکر نہیں کیا گیا بلکہ اس سے مطلوب معانی اخذ کر کے خیانت کا ارتکا ب کیا گیا ہے ۔  یہ صرف آج کے دور کے مسالک میں ہی ایسا نہیں بلکہ ابتدائی زمانوں  سے ہی ہم مختلف مسالک کی آویز ش میں ایسی بہت سی مثالیں آج بھی تلاش کر سکتے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ مکالماتی  ماحول پیداکیا جائے جس میں مختلف مسالک کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آسکیں  اور باہم غلط فہمیاں دور کرسکیں ۔  اس مکالماتی ماحول میں بازاری علماء اور پیشہ ورانہ مناظرین جن کی روزی روٹی باہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور کسی بھی طرح غلط  ثابت کرنے میں لگی بندھی ہو ان کو دور رکھ کر سنجیدہ اور امن کی چاہت رکھنے والے علماء کو موقع دیا جائے ۔

ایسی تحریروں ، تقریروں ، جلسے جلوسوں اور مناظروں پر پابندی عائد کی جائے جن سے  باہمی نفرت میں اضافہ اور ماحول میں کشید گی پیدا ہوتی ہے ۔ ایسے علماء و مناظرین کی ذہنی  اور اخلاقی سطح کو بہتر بنانے کے لیے مختلف تربیتی  کورسز اور ورکشاپس کااہتمام کیا جائے۔  ان علماء کی توجہ جدید مسائل اور اسلام  کی آفاقیت کو در پیش چیلنجز کی طرف کروائی جائے تاکہ ان کی صلاحیتیں کسی  اچھے مصرف میں استعمال ہو سکیں ۔

علماء کرام کے موجودہ قومی بیانیہ کی حیثیت اختیار کرجانے والے فتویٰ  میں  یہ بات  بھی کہی گئی ہے کہ جہاد صرف ریاست کا حق ہے، ریاست کے اندر ریاست بنانے کی کسی کو اجازت نہیں اور ریاست کی اجازت کے بغیر کوئی جہاد نہیں کر سکتاہے ۔ اس بات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے اور اس فتویٰ کے بعد اس قسم کے تمام فتاویٰ جن سے دہشت گردوں کی پشت پناہی یا نظریات کو تقویت ملتی ہو ختم کرنا بھی ضروری ہے ۔ ایسے افراد یا جماعتیں جو اس کام میں ملوث رہی ہیں ان کو قومی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے ۔ ایسے افراد اگر سیاست میں حصہ لیتے ہیں یا فلاحی کام کر تے ہیں تو ہمیں اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاہم لوگوں کو پرائیوٹ جہاد کے لیے تیار کرنے والوں ، یا ایسے لوگوں کی کسی بھی قسم کی اعانت کرنے والوں  کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہیے ۔ جن جماعتوں کو کا لعدم قرار دیا جا چکاہے ان کو کسی دوسرے نام سے وہی کام کرنے کی اجازت بالکل نہیں ہونی چاہیے ۔ علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کا نظری سہارا ختم کریں تا کہ جن نصوص کی بنیادپر وہ خود غلط فہمی کا شکار ہیں یا لوگوں کو تیار کر تے ہیں  ان سے وہ استدلال نہ کرسکیں  اور درست راستے کی طرف آسکیں ۔

ہمارے ملک میں دہشتگردی کی بڑی وجہ دوسرے ملکوں کی مداخلت بھی ہے ۔ دوسرے ملکوں کے وہ لوگ جو کسی خاص مسلک کے ذاتی مفاد کے لیے پشت پناہی  کر رہے  ہیں اس کو جس حد تک ہو سکے روکا جائے ۔ پاکستان کے مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے لوگ آج بھی ایران یا سعودیہ  کے مختلف محاذوں پر باقاعدہ سپاہی کا کام کررہے اور اس میں محرک صرف مذہبی عقیدت ہے اور یہ سب ریاست سے ماوراء ہو رہا ہے ۔ ایسے عناصر اور ان کے سر کردہ لوگوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے ۔ اسی طرح عالمی طور پر دہشتگردی نے ایک کاروبار کی شکل اختیار کی ہوئی ہے ، امریکہ یا مختلف ملک باقاعدہ تنظیموں پر سرمایہ کاری کرتے ہیں اور اس کو کاروبار سمجھتے ہیں ، جانے انجانے میں ان کا آلہ کار  بننے والی  شدت  پسند تنظیموں اور جماعتوں پربھی کڑی نظررکھی جائے۔ یورپی اور مغربی ممالک  پاکستان کی نظریا تی سرحدوں کو متاثر کرنے کے لیے جس قدر سرمایہ کاری کرتے ہیں ،اس کا درک و احساس بھی ضروری ہے ۔ علماء کرام کے اس متفقہ فتوے میں بھی یہ بات موجود ہے جسے قوم کو اچھی طرح ذہن نشین کروانے کی ضرورت ہے ،کہ اسلام کے نام پر آئین کو پرے پھینک کر اور جغرافیائی سرحدوں کو نظر انداز کرکے کسی دوسرے ملک میں لشکر کشی کا حصہ بننا بھی خلافِ اسلام ہے اور عہد شکنی کے زمرے میں آتا ہے، پاکستانی شہری پر لازم ہے کہ وہ دستور میں کیے گئے عمرانی معاہدے کو ترجیح دیں اور کسی بیرون ملک گروہ کی مدد کے نام پر اس میثاق کی خلاف ورزی نہ کریں کیونکہ ایسا کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوگا۔

دہشتگر دی کے خاتمے اور پر امن معاشرے کے قیام کے لیے مذہبی ، معاشی ، معاشرتی ، قانونی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی  کے تمام پہلوؤں میں اصلاحات اور مساوات بہت ضروری ہے ۔ معاشرے میں کچھ طبقات کے حقوق کو مسلسل نظر انداز کرنے سے جو مسائل  پیدا ہوتے ہیں ان کا  نہایت اچھی طرح ادراک بہت ضروری ہے ۔ وہ افراد اور گروپس جو مایوسی اور محرومی کی زندگی گزار رہے ہیں وہ اپنے ادنیٰ مفادات کے لیے کسی بھی حدتک جا سکتے ہیں، اس لیے ہمیں انہیں حقوق دےکر ان کا احساس محرومی ختم کر نا چاہیے ۔ ہمارےملک میں مذہبی ، معاشی ، معاشرتی ، قانونی ، لسانی اور صوبائی سطحوں پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے جن کے اندر نہ صرف احساس مایوسی اور محرومی پنپ رہا ہے بلکہ ایک آتش فشاں کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے، جس کے بھڑک اٹھنے سے جونقصان ہو گا اس کی قیمت ہمیں نسل در نسل چکانی پڑے گی ۔ اس لیے ہمیں نہ صرف ان لوگوں کی شکایات کوٹھنڈے دل و دماغ سے سننا ہوگا بلکہ ان کو مساوی حقو ق بھی مہیاکرنا ہوں گے ۔ حقوق کی نظرا ندازی میں مذہبی اقلیتوں اور چھوٹے و پسماندہ صوبوں اور علاقوں کے لوگوں کا  لحاظ خاص طور پر ضروری ہے ۔اسی طرح دہشتگردی ، بدامنی اور جرائم کے بنیا دی اسباب یعنی غربت جہا لت اور کر پشن کے خاتمے کے لیے مو ثر اور سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ روایتی کھیلوں، ثقافتی میلوں، موسیقی، ڈرامے اور دیگر تفریحی سرگرمیوں کے انعقاد کے لیے باضابطہ پالیسی مرتب کی جائے  تاکہ  فرسٹریشن سے پاک ایک اچھا اور صحت مند معاشرہ قائم ہو سکے ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...