سپریم کورٹ کے فیصلے اور اداروں کا استقرار

1,167

سپریم کورٹ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر مثبت اور منفی تبصروں کی بھرمار ہے۔ میرے جیسے کئی لوگ سپریم کورٹ کے حالیہ پے در پے صادر ہونے والے فیصلوں کو مستحسن نظروں سے نہیں دیکھ رہے کہ اس سے سیاست کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ اس سے مجھے جسٹس )ر) افتخارمحمد  چودھری کی عدالتی فعالیت کا دور بھی یاد آتا ہے کہ ہم میں سے کئی لوگ اس وقت چیف کے جانثار بن کر عدالتی فعالیت کی حمایت میں کیسے کیسے دلائل دیا کرتے تھے۔ پیپلزپارٹی کے وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کا مسئلہ ہو یا پھر جسٹس چودھری کے اندھا دھند سوموٹو نوٹسز، سب ہی کی مخالفت میں بنیادی طور پر پیپلزپارٹی کے علاوہ چند لوگ ہی کھڑے ہوسکے تھے۔ اس وقت  عدالتی فعالیت پر جو تنقید پیپلزپارٹی کیا کرتی تھی آج وہی تنقید  (اسلوب کا فرق بہرحال ہے) مسلم لیگ نون کے حامی کر رہے  ہیں مگر دوسرے سننے کو تیار نہیں۔ دلیل یہ دی جارہی ہے کہ سویلین بالادستی کی یاد صرف اسی وقت کیوں ستاتی ہے جب اقتدار خطرے میں ہوتا ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہوسکتی ہیں مگر محض پوائنٹ اسکورنگ سے یہ مسائل حل نہیں ہونے والے۔

قانونی دستوریت (Legal Constitutionalism) اور سیاسی دستوریت (Political Constitutionalism) کے مابین یہ معرکہ صرف ہمارا خاصہ نہیں۔ یہ دنیا بھر میں جاری رہا اور ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں امریکہ تک میں موجود ہے۔ ہمیں بھی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اپنے فیصلے سیاسی فورمز کے ذریعے کروانے ہیں یا غیر منتخب عدالتی بیوروکریسی کے ذریعے؟ جو کچھ اس وقت پاکستان کی سپریم کورٹ میں ہورہا ہے،  اس صورتحال کو پوری طرح سمجھنے کے لئے دستوریت (Constitutionalism) کی ان مباحث پر ایک نظر ضرور ڈال لیں جن کا چرچا دنیا بھر میں رہا ہے اور کسی نہ کسی شکل میں آج بھی موجود ہے۔ قانونی و سیاسی دستوریت (Legal & Political Constitutionalism) کی باہمی کشمکش میں ہمارے لئے سمجھنے کی بہت سی باتیں ہیں۔ بدقسمتی سے آئینی معاملات کے ہمارے نامی گرامی وکلاء بھی اس وقت ان مباحث کی فریم ورک میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے فیصلوں کا تجزیہ کرنے سے قاصر ہیں۔ عدالتی فعالیت، جوڈیشل ریویو کے دائرہ کار اور دستوریت کے ساتھ ان کے باہم ربط پر اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ اس کے تناظر میں پاکستان کے حالات کا جائزہ لینا بذات خود انتہائی دلچسپ تحقیق کا موضوع بن سکتے ہیں۔

ادارتی ٹکراؤ کے اس دور میں یوں لگتا ہے کہ الیگزینڈر بکل (Alexander Bickel) کی مشہور کتاب کو آج پاکستان میں لکھا جاتا تو اس کا عنوان The Least Dangerous Branch: The Supreme Court at the Bar of Politics کے بجائے The Most Dangerous Branch: The Supreme Court at the Bar of Politics تجویز کیا جاتا۔

مگر اس سارے قضیے میں مثبت پہلو بھی تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ ہم بعد از نوآبادیات کے دور میں پیدا ہونے والے مسائل کا شکار ہیں۔ مسلم معاشرے ویسے بھی ابھی تک پوری طرح نیشن اسٹیٹس کے ساتھ مصالحت نہیں کرسکے۔ ماڈرن دستوری اور قانونی ڈھانچے ہمارے لئے زیادہ پرانی چیزیں نہیں ہیں۔ ہمارا قانونی نظام ایک مستعار لیا ہوا ڈھانچہ ہے جس کی پیوند کاری (Legal Transplantation) یہاں کی گئی ہے۔ قومی جسد میں اتنی بڑی پیوند کاری کے نتیجے میں ٹکراؤ، مسابقت، فساد اور انتشار کا عبوری دور میں پیدا ہونا ایک طبعی امر ہے۔ یاد رہے کہ قوموں کی عمر میں عبوری مدت دہائیوں پر ہی مشتمل ہوتی ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک کی دستوری تاریخ کا مطالعہ کریں تو اداروں کے ٹکراؤ کی بھیانک صورتیں جابجا بکھری ہوئی ملتی ہیں۔ ہمارے ہاں یہ ٹکراؤ ابھی تک کنٹرول میں ہی ہے۔ اس سارے ٹکراؤ کے بعد استقرار کے ایک طویل دور کی امید کی جاسکتی ہے جس میں تمام ادارے اپنے اپنے زخموں کو مدنظر رکھ کر اسی کردار پر اکتفا کریں کہ جو دستور و قانون میں ان کے لئے مختص کیا گیا ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ زیادہ پریشانی کی ضرورت نہیں۔ اداروں کا موجودہ ٹکراؤ ممکنہ طور پر اس استقرار کے حصول کا پیش خیمہ ہے جو مستقبل میں مطلوب ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...