والدین کی ذمہ داریاں

1,365

بچہ پوری شخصیت لے کر پیداہوتا ہے، وہ اس خیال سے ہر کام کرتا ہے کہ یہ درست اور صحیح ہے۔ وہ کبھی خود کو ناقص اور نامکمل خیال نہیں کرتا۔ والدین کو اس کی شخصیت اور نفسیات کا فہم بہت ضروری ہے۔ یقیناً بچہ یا اولاد والدین کی عمر اور تجربہ پہ کھڑا ہوکر سمجھے گا نہ بات کرے گا لیکن والدین اس عمر اور تجربہ سے گزر چکے ہوتے ہیں لہٰذا وہ بچے سے اس کی سطح پہ آکر بات کر سکتے ہیں۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “جس کا بچہ ہے اسے چاہیے اس کے ساتھ بچہ بن جائے” بچہ بننے سے مراد اس کی ذہنی اور نفسیاتی سطح پر آکر اس سے بات کرے، اسے کم عقلی بے وقوفی یا ناتجربہ کاری کا طعنہ نہ دے۔ اگر آپ کبھی دو بچوں کو آپس میں بات کرتے ہوئے سنیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ والدین کیسے اپنے بچوں کے ساتھ بچہ بنیں، دونوں بچے آپس میں پراعتماد بن کراور سنجیدگی سے گفتگو کرتے اور معاملات زیرِ بحث لاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انسانی نفسیات کو مدنظر رکھ کر فرمایا۔ جب آپ مدینہ میں داخل ہوتے تو بچوں کو اپنے ساتھ سواری پر بیٹھا لیتے۔ کھانا کھاتے تو بچوں کو کھانے میں شریک کر لیتے۔ بچوں کے ساتھ کھیلتے۔ حضرت حسنؓ و حسینؓ کی سواری بنتے، انہیں اپنی پیٹھ یا کندھوں پہ سوار کر لیتے۔ بچوں کے ساتھ مزاح بھی فرماتے۔ آپ  کا عمل آپ کے قول کی تشریح ہے کہ “بچوں کے ساتھ بچہ بن جاؤ”۔

والدین کی تمام ذمہ داریوں کی ادائیگی اس شعور کے ساتھ ہو سکتی ہے کہ وہ بچوں کے نفسیاتی تقاضے اور ان کی عمر کے سانچے کو سمجھیں اور ان سے معاملہ کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ والدین کی پہلی ذمہ داری ہے جب والدین اس ذمہ داری کا ادراک کر لیں گے تو ان کے لیے دیگر بنیادی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں آسانی رہے گی۔

اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جو لوگ مسلمان ہوئے ہیں وہ اسلام میں پورے پورے داخل ہوں۔ قبولیت اسلام کے بعد pick and choose کا اختیار نہیں ہے۔ کوئی یہ کہے کہ میں اسلام کے اِس حکم کی پیروی کروں گا اور اُس حکم کی پیروی نہیں کروں گا۔ اب اسے صرف اللہ کے حکم کی پیروی بجا لانی ہے۔ جب والدین پہ تمام احکام کا نفاذ ہوتا ہے تو اس طرح ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو بھی اللہ کے احکامات کا شعور دیں۔ شعور دلانے کا طریقہ وہ ماحول ہے جو والدین گھر میں پیدا کرتے ہیں۔ والدین کو چاہیے توحید، رسالت اور آخرت کے بارے میں اپنے بچوں کو آگاہ کریں۔ ان کا علم فقط رسمی نہ ہو کہ ہم ایمان لائے اور اس کے بعد ہم مسلمان ہو گئے اور بس۔ بلکہ وہ حقیقی تصور دیا جائے جوکردار و قلوب کو بدل دیتا ہے جس سے ایک نیا انسان تیار ہوتا ہے۔ توحید فقط ایک ذات برتر پہ اعتماد پیدا کرتی اور دیگر سہاروں سے بے نیاز کرتی ہے۔ رسالت زندگی کی شاہراہ پہ چلنے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔ آخرت کا تصور جواب دہی کا احساس پیدا کرتا ہے۔ یہ عقائد ہیں جنہیں اولاد کی تربیت میں شامل کیا جائے۔

ہر مسلمان کو نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی اہمیت معلوم ہے۔ والدین اپنی اولاد کو اس بارے بھی آگاہ کریں۔ روزہ سال کی عبادت ہے۔ زکوٰۃ صاحبِ استطاعت پہ فرض ہے۔ نماز فقط ایسی عبادت ہے جو دن میں پانچ مرتبہ فرض ہے۔ باقی عبادات کی اہمیت اورتقاضے مسلّم۔ لیکن نماز کا پانچ مرتبہ ادا کرنا، ایک مسلمان کے کردار کی تعمیر و تشکیل میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ نماز انسان کو رب سے جوڑتی اور اس کے تعلق کو اپنے رب سے مضبوط کرتی ہے۔ انبیاء علیم السلام نے خود نماز ادا کی اور اپنی اولاد کو بھی اس کا حکم دیا۔
والدین کونماز کے سلسلے میں اپنی اولاد پہ سختی کرنے کی اجازت ہے۔ اس سختی کی وجہ والدین کو باور کرانا ہے کہ اگرآپ دنیاوی کیریئر کے لئے سختی کرتے یا اپنی بات منوانے کے لئے مختلف حیلے اختیار کرتے ہیں یا ان کی تعلیم یا اعلی تعلیم کے لئےCommitted ہوتے ہیں یا اسے ترجیح دیتے ہیں تو اللہ کے احکامات کی پیروی کی اہمیت بھی اولاد کے شعور اور ذہن کا حصہ بناؤ ۔ دنیاوی کامیابی اورترقی کے لئے آپ نے ترجیحات طے کر رکھی ہیں۔ کسی نے سوال کیا کہ بچوں کو کتنا دین کا علم ہو کیا انہیں عالمِ دین ہونا چاہیے۔ نہیں، ہر شخص کوعالمِ دین نہیں بلکہ ہر شخص کو دین کاعلم ضرور ہوناچاہیے۔ ہمارے لیے لازمی ہے کہ جب ہم قرآن پڑھتے ہیں، ہمیں معلوم ہوتاجائے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی ہم سے کیا کہتا ہے؟ اب یہاں بھی مسئلہ ترجیح کا ہے۔ اگر ہم دنیاوی کاروبار ، اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ جاب کے لئے انگلش یا کوئی اور زبان سیکھتے ہیں تو کیا دین سمجھنے کے لئے ہم عربی زبان کی مبادیات نہیں سمجھ سکتے ۔ اگر ہم دین سمجھیں گے تو ہم معاشرے میں مروّجہ بدعات اور خرافات سے محفوظ رہ سکیں گے۔ اس لئے عالمِ دین بنناسب کے لئے ضروری نہیں لیکن دین کا بنیادی علم سب کے لیے ضروری ہے۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو نماز کی ادائیگی کی تلقین کریں۔ اگر باپ مسجد جاتا ہے تو بچوں کو ساتھ لے کر جائے۔ ماں گھر میں بیٹی کو اپنے ساتھ کھڑا کرے تاکہ ان کی زندگی کا چلن دینی سانچے میں ڈھلتا جائے۔ جب رمضان المبارک میں روزے رکھے جائیں خواہ بچے بالغ نہ ہوں۔ اگر باشعور اورصحت مند ہیں انہیں روزے رکھوائے جائیں خواہ وہ اسے مکمل کریں یا نہ کریں لیکن اس سے ان کی شخصیت پہ مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
والدین کی سوچ اولاد کے حوالے سے عملی پہلوؤں پہ مشتمل ہونی چاہیے ۔ زندگی میں کامیابی اسی انسان کے قدم چومتی ہے جومستقبل کے خطرات و چیلنج کا ادراک اوراس سے نمٹنے کی تیاری کسی حد تک زمانہ حال میں کرتا ہے۔ والدین اپنی اولاد کو زندگی کے دونوں عملی پہلوؤں (مشکلات اور آسانیاں) کے بار ے میں آگاہ بھی کریں اور انہیں عمل کے سمندر میں کبھی کبھار غوطے بھی دلواتے رہیں۔ زندگی ایک ہی سطح اورایک ہی رخ پہ ہر دم رواں دواں نہیں رہتی۔ اس سفر میں ہر طرح کے حالات کاسامنا رہتا ہے۔عرض کرنے کامقصد یہ ہے کہ ہم اپنے دور کے مطابق بچوں کی ہڈیوں میں محنت ڈال چاہتے ہیں،اس کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں اپنے ہر کام میں شامل کریں اس طرح ان کا جسم کام کا عادی اور ذہن حقائقِ زندگی کو سمجھنے کے قابل ہوگا۔ دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ اولاد کی والدین کے ساتھ Associationپیدا ہوتی ہے ۔ ان کے ساتھ دوستی کا رشتہ بنتا اور والدین کی companyمیں ان کا وقت گزرتا ہے۔ تیسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں والدین کی محنت اور جفا کشی کا اندازہ ہوتا ہے کہ اگر یہ معمولی کام اتنا وقت لیتا اور محنت طلب ہے تووالدین جس طرح خاندان کے نظام کو چلاتے ہیں اس میں کتنی محنت اور ذہنی مشق درکار ہوتی ہو گی ۔ غیر محسوسانہ طریقے سے یہ سلوک اور رویہ اولاد کے ساتھ رہے تو اولاد اسے کوئی انتقامی کارروائی نہیں بلکہ زندگی کی حقیقت کے طور پر قبول کرتی ہے۔ چند باتیں ایسی ہیں جن میں والدین کو ہمیشہ احتیاط کرنی چاہیے۔

اپنے بچوں کا آپس میں یا کسی اوربچوں کے ساتھ تقابل نہیں کرناچاہیے۔اکثر والدین اپنے بچوں کا تقابل دوسروں سے کرتے رہتے ہیں ۔ اس سے بچوں کے حوصلے تو پست ہوتے ہی ہیں، اس کے ساتھ ان میں دوسروں کے لئے حسد اور انتقام کے جذبات بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں جو ان کی شخصیت کو”چوں چوں کا مربہ” بنا دیتے ہیں ۔ایک شخصیت میں اعتماد کی کمی، دوسرا آگے بڑھنے میں خوف، تیسرا ارادے کی کمی ، چوتھا دوسروں سے گھلنے ملنے سے پرہیز۔ اس لیے بچوں کا تقابل کرنے کی  بجائے ہر بچے کو اس کی شخصیت کے مطابق ڈیل کیا جائے اس کے جذبات و احساسات کوسمجھا جائے اوراس کی قدرکی جائے۔

والدین میں اولاد کے نام بگاڑنے کا بھی رواج ہوتا ہے ۔جس سے والدین اپنے ہاتھوں اپنی اولاد کی شخصیت مسخ کرتے ہیں۔ جب بچے کی انا ،خودی اور عزتِ نفس کا خیال نہیں کیا جائے گا وہ کبھی بھی اپنا اعتماد بحال نہ کر سکے گا۔ جب وہ اپنی نظروں میں آپ ہی گر جائے گا تو وہ کیسے معاشرے میں سربلند ہو کر زندگی بسر کرے گا۔

والدین بچوں میں تفریقی سلوک کے بھی مرتکب ہوتے ہیں ۔ کبھی بڑے کو چھوٹے پر ، کبھی چھوٹے کو بڑے پر ،کبھی بیٹے کو بیٹی پر اور کبھی بیٹی کو بیٹے پرترجیح دے کر تفریق کی بنیاد رکھتے ہیں۔ ایسے رویے سے بچے والدین سے ہی نہیں بلکہ باہمی طور پر بھی ایک دوسرے سے دوری اختیار کرتے ہیں ۔بہن بھائیوں میں آپس کا تعلق کمزور ہی نہیں بلکہ حسدوعنادکا احساس جنم لیتا ہے۔

والدین اولاد کے سامنے جھوٹ بولنے کے مرتکب ہوتے ہیں جس سے بچوں کی شخصیت میں سچ کی قدرکم ہو جاتی ہے۔ وہ اسے کوئی اتنا بڑا گناہ خیال نہیں کرتے کیونکہ وہ والدین کو اس کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ دروازے پر کسی نے والدین کا پوچھا تو کہا کہ اسے کہہ دو کہ وہ گھر پر نہیں ہیں جبکہ وہ گھر پر ہوتے ہیں ، اس سے بچے کی نظر میں جھوٹ جھوٹ نہیں رہتا اور سچ سچ نہیں رہتا۔

والدین کی یہ عادت بھی قابل تحسین نہیں ہے کہ وہ اولاد کے سامنے گالی گلوچ اور لغوگفتگو بے دریغ کرتے ہیں، اگر وہ کسی بات پہ طیش میں آتے ہیں تو اس حالت میں وہ کسی قسم کی تفریق و تمیز بھول جاتے ہیں۔ انہیں یاد نہیں رہتا کہ ان کے بچے گالیاں اور لغو گفتگو سن رہے ہیں ۔ کل اگر وہ ہی الفاظ بچے استعمال کرتے ہیں تو والدین بچوں کو منع کرتے ہیں کہ یہ اندازِ گفتگو درست نہیں ہے حالانکہ اولادنے یہ اندازِ گفتگو والدین سے ہی سیکھا ہوتا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...