مذہب، سیاست اور تیونس

1,224

دو برس قبل جب تیونس کی اسلام پسند جماعت جبہۃ النہضہ نے اپنی مذہبی شناخت کو سیاست سے الگ کرنے کا اعلان کیا تھاتو اس فیصلے پر ملا جلا ردِ عمل آیا تھا۔جہاں پر مغرب اور معتدل مسلم فکری حلقوں میں اس کی پذیرائی ہوئی وہاں بعض حلقوں میں اسے شک کی نگاہ سے دیکھا گیااور جماعت کے سربراہ راشد الغنوشی کی لندن میں جلاوطنی کے بائیس سالوں میں ان پر پڑنے والے فکری اثرات کو اس تبدیلی کی وجہ قرار دیاگیا۔بعض خوش فکر مفکرین نے اسےمسلم معاشروں میں ایک بڑی تبدیلی کے محرک کے طور پر دیکھااور اسے اسلام پسندوں کی قلبِ ماہیت بھی گردانا۔

اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھائی جائے ،”اسلامسٹوں” کی اصطلاح پر مختصر بات ہو جائے۔اردو میں اس کا ترجمہ عموماً اسلام پسند کیا جاتا ہےاور اس کا اطلاق عام مذہبی سیاسی جماعتوں پر کیا جاتا ہے۔سیاسیات کی لغت میں یہ اصطلاح سیاسی اسلام کی حامی جماعتوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس کی فکری پرورش پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے دوران ہوئی اور ان کا سیاسی ظہور مسلم معاشروں میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد اور خصوصاً نو آبادیاتی قبضوں کے اختتام کے قریباًفوری بعد شروع ہوا۔مغربی شمالی افریقا اور دیگر عرب ممالک میں اخوان المسلمین کی لہر، پاکستان میں جماعتِ اسلامی اور اس کے بطن سے پھوٹنے والے چھوٹے موٹے گروہ،انڈونیشیا میں جبہہ اسلامیہ، اسلامسٹوں کی درجہ بندی میں شامل کی جاتی ہیں جو اسلام کو مذہب سے بڑھ کرمکمل سیاسی ، معاشی اور معاشرتی نظام کے طور پر پیش کرتی ہیں۔النہضہ بھی ایک “اسلامسٹ” جماعت تھی،بہارِ عرب کا آغازتیونس میں ہوا تھا جس کے نتیجے میں صدر زین العابدین بن علی کے طویل اقتدار کا سورج غروب ہوااور النہضہ، جس نے عرب بہار میں نمایاں کردار ادا کیا، دہائیوں کی پابندیوں سے آزاد ہوئی اور 2011 کےپہلے  آزاد انہ انتخابات میں 37 فیصد ووٹ حاصل کیے اور 217 کے ایوان میں 80 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ النہضہ نے نئے آئین کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیالیکن اسے سیکولرجماعتوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا رہا اور راشد الغنوشی کی تمام کاوشوں کے باوجود اسے ایک شدت پسند جماعت کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔آئین سازی کے دوران خود جماعت کے اندر پائے جانے والےتضادات کھل کر سامنے آئے اور جب النہضہ نے آئینی سفارشات پر مبنی اعلامیہ میں کہ “شریعہ تیونسی قوانین کا ماخذ ہو گی” تو متوقع وزیرِ اعظم حمادی جبالی نے اسے تیونس میں “چھٹی خلافت” کے قیام سے تعبیر کیا تھا۔جب راشد الغنوشی نے اس پر وضاحت دی تو ان کی جماعت کے ایک اور رکن نے توہینِ رسالت کے جرم کو آئینی شق بنانے کا مطالبہ کردیاجس کے بعد النہضہ پر دباؤ میں مزید اضافہ ہوا۔بہرحال آئین سازی کے عمل میں النہضہ سرخرو ہو کر نکلی تو  اس کی وجہ سے کسی بھی  قسم کا آئینی و انتظامی بحران پیدا نہیں ہوا۔ نئے آئین کے مطابق 2014 میں انتخابات ہوئےاور اس میں جماعت نے اٹھائیس فیصد ووٹ لیے اور سب سے بڑی سیکولر جماعت ندائے تیونس کے ساتھ مخلوط حکومت بنالی جبکہ صدارتی انتخابات میں جماعت نے حصہ نہیں لیا۔

کیا النہضہ کا مصر کی اخوان المسلمین اور پاکستان کی جماعتِ اسلامی سے تقابل کیا جا سکتا ہے؟خصوصاً اس کے اس اعلامیے کے بعد کہ وہ اب مذہبی جماعت نہیں۔ بلکہ غنوشی اب اسے مسلم جمہوریت پسندوں کی جماعت کہتے ہیں اور مذہب اور سیاست کی علیٰحدگی کی بڑی وجہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ عمل سرکاری اہلکاروں اورسیاسی رہنماؤں کو مذہب کےجذباتی استعمال سے روکے گااور اس سے انتہا پسندی کو روکنے میں مدد ملے گی۔

اگر دیکھا جائے تو مصر اور تیونس میں اسلامسٹوں کے سیاسی تجربات میں فرق اسی رویے کا ہےکہ مصر میں اخوان المسلمین نے اپنی توجہ بنیادی گورننس کے مسائل اور معاشیات پر مرکوز کرنے کےبجائےمذہب کی جذباتی اپیل سے جوازِ حکمرانی تراشنے کی کوشش کی اور بیرونی دنیا سے بھی اسی بناء پر ربط بڑھانے کی کوشش کی۔ لیکن النہضہ نےاپنی توجہ ان امور پر مرکوز رکھی جو ان کی انتخابی کامیابی کی وجہ بنی تھی اور وہ سیاسی وسط کی بڑی جماعت بن کر ابھر رہی ہے۔ گزشتہ برس تیونس کی ریپبلکن پارٹی ، جو معتدل رجحان اور سیاسی سنٹریلسٹ پارٹی تھی حکومت سے الگ ہوگئی تھی، جو النہضہ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا پتہ دیتی ہے۔تیونس میں عام آدمی بھی اس تبدیلی سے خوش ہے اور اسے لگتا ہے کہ النہضہ کی سیاست سے دہشت گردی اور انتہاپسندی سے نمٹنے میں مدد ملے گی جس نےسیاحت پر انحصار کرنے والے ملک کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔

النہضہ کی اس بڑی تبدیلی میں سب سے مؤثر کردارجماعت میں موجود جمہوری کلچر نے ادا  کیا ہے۔ہر مسئلے پر شوریٰ اور ممبران کی باہمی مشاورت اورکھلا مکالمہ اس جماعت کی بڑی قوت ثابت ہوا ہے۔اختلافات باہر آنے کے ڈر سے جماعت میں خود احتسابی اورمکالمے کا عمل کبھی رکا نہیں بلکہ اس سے جماعت کو یہ تجزیہ کرنے میں آسانی رہی ہے کہ ان اندرونی مباحث کو دیگر طبقات کس نظر سے دیکھتے ہیں اور انہیں اپنی حکمتِ عملی کیا رکھنی چاہیے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ تنقیدی شعور ایک مذہبی جماعت تک محدود ہے بلکہ یہ تیونسی معاشرے کا ایک بنیادی جزو ہےجس کی جڑیں اس کی قدیم تہذیب کے اندر بہت گہری ہیں۔چار ہزار سال پرانی بربر قبیلوں کی  یہ تہذیب پورے میڈیٹیرنین ریجن کے لیےپر کشش رہی ہے۔814 قبل مسیح میں آباد ہونے والا کارتھیج تجارت کے علاوہ تہذیبی اور ثقافتی تبادلوں کا ذریعہ رہا ہے۔مقامی لوگ روایت کرتے ہیں کہ یونان نے اپنی سیاسی فکر کے لیے سب سے زیادہ اکتساب اسی علاقے سے کیا ہے۔رومن ہوں یا بعد میں آنے والےعرب حکمران، بربروں کے جمہوری رویوں  اور روایات کاا حترام کرتےرہے  ہیں۔اغلبی ہوں ، فاطمی یا حسینی حاکم اور گورنر کسی نہ کسی درجے میں عوام کو جواب دہ رہے ہیں۔فرانسیسیوں نے جب اسے اپنی نو آبادی بنایاتو اسے سماجی ڈھانے کی اس طرح سے توڑ پھوڑ کرنے کی ضروروت نہیں پڑی جیسے اسے دیگر افریقی مقبوضات میں کرنا پڑی تھی۔فرانسیسی تعلیمی نظام نے جدیدتصورات کی تشکیل میں ضرور اہم کردار ادا کیا ۔ جدید تیونس کے بانی حبیب بو رقیبہ نے فرانسیسیوں کے بعد جب اقتدار سنبھالا تو انہی سیاسی تصورات کی روشنی میں ایک سیکولر ریاست تشکیل دی۔ باوجودیکہ آمرانہ طرزِ حکومت کو پروان چڑھایا گیالیکن تنقیدی شعور کو دبانے کی کوششیں  اس طور پر نہیں کی گئیں جس طرح دیگر مسلم ممالک کی آمریتوں اور  حکومتوں میں رہا ہے۔مضبوط سول سوسائٹی تیونس کے سماج اور سیاسی فکر اور نظام میں اہم کردار ادا کررہی  ہے جو بورقیبہ اور صدر بن علی کے خلاف بار بار مزحمت کرتی آئی ہے۔

تیونس کے اپنے  سرکردہ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ بہارِ عرب کے ثمرات اگر صرف تیونس نے سمیٹے ہیں تو اس کی وجہ فعال سول سوسائٹی ہے جس نے سماج کے تنقیدی شعور کی نہ صرف حفاظت کی ہے بلکہ اسے آگے بھی بڑھایا ہے۔آئین سازی کے دوران سول سوسائٹی نے نہایت موثر کردار ادا کیا اور ہر مسئلے اور موضوع پر نہ صرف مکالمہ کیا بلکہ سفارشات  کے ڈھیر لگا دیے۔ذرا تصور کریں اگر 1973 کے پاکستان میں سول سوسائٹی کے ادارے اتنےمضبوط اور آزاد ہوتے تو پاکستان کے آئین کی کیا صورت ہوتی؟ اور اس سے بھی پہلے اگرسول سوسائٹی فعال ہوتی تو مشرقی پاکستان کا سانحہ پیش آتا؟سول سوسائٹی میں مذہبی، سیاسی جماعتیں، طلبہ و وکلاء ،اساتذہ و دیگرپیشوں کی تنظیمیں اور این جی اوز شامل ہیں۔

کیا تیونس اور پاکستان کے سماج کا تقابل ممکن ہے؟جو تہذیبی شعور تیونس میں ہے، وہ پاکستان میں مفقود ہے۔بلکہ ریاست اور ریاست کے نمائندہ سماجی طبقات نے شہری کو تہذیب سے کاٹنے کا مصنوعی عمل دہائیوں میں کیا ہے۔پاکستان کے ساڑھے پانچ ہزار سالہ تہذیبی ورثے میں کوئی خصوصیت تو ہوگی جسے ایک فکری ، سماجی اور سیاسی قدر کے طور پر آگے بڑھایا جا سکتا ہوگا۔اعتزاز احسن  نے سندھ ساگر میں چند ایک کی نشاندہی تو کی ہے لیکن وہ نئی ریاست کی کمزوریوں کی توجیہہ تلاش کرنے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

پاکستان میں مسلسل آمریتوں اور آمریتوں کے زیرِ اثر پرورش پانے والی سیاسی قیادتوں نے آزادیِ فکر اور تنقیدی شعور کو پنپنے ہی نہیں دیا۔یہ شعور نہ تو ریاستی اداروں میں ہے نہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں۔اپنی تہذیب اور روایات سے کٹے معاشروں میں تجدید کا جو عمل ہوتا ہےوہ ان رویوں کو تشکیل نہیں دے سکتا جو سماج اور اس کے اداروں کی مضبوطی کے لیے درکارہیں۔کھلے لفظوں میں بے سمت اور کج رو انتہا پسندی سماج کو بھی بے معنویت کا شکار کر دیتی ہے۔بے معنویت اداروں اور جماعتوں کو کھا جاتی ہے، جیسے تہذیبی تنقیدی شعور سے بے بہرہ جماعتِ اسلامی جو کوئی بڑا سیاسی کردار ادا کیے بغیرزوال پذیر ہے۔لیکن یہ زوال پذیری پاکستانی سماج کو بھی زوال پذیر کر گئی ہے۔شاید پاکستان کے تعلیمی نظام پراس کے اثرات اس وقت بھی زائل نہ ہوسکیں جب یہ جماعت محض ایک محدود مذہبی حلقے کی صورت اختیار کر لے گی۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...