سوچی کانفرنس اور علاقائی امن

1,247

لگتا یوں ہے کہ شام میں امن کے حوالے کو لے کر روس کے شہر”سوچی”میں ہونے والی کانفرنس اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔اس کانفرنس کے اختتام پر روس کے صدر نے کہا تھا کہ شامی سربراہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ آئینی اصلاحات کو منظم کریں گے اور اقوام متحدہ کی نگرانی کے تحت نئے انتخابات منعقد کرائیں گے۔روسی صدر ولادی میر پیوٹن، ایرانی صدر حسن روحانی اور ترک صدر رجب طیب اردگان نے ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں اس بات پر زور دیا کہ شام کی تمام جماعتوں کو تنازعات ختم کرنے کے لیے قیدیوں، یرغمالیوں اور لاشوں کو حوالے کرنے کی ضرورت ہے جبکہ ایسے افراد کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو مستقل جنگ بندی اور سیاسی مذاکرات شروع کرنے میں مدد کرسکیں۔طیب اردوگان نے کہا کہ ہم ایک جامع، آزاد، منصفانہ اور شفاف سیاسی عمل کی تبدیلی پر متفق ہوئے ہیں جو شام کی قیادت اورعوام کی ملکیت کے تحت کی جائے گی۔
روس اس کانفرنس کے حوالے سے بڑا پر امید تھا کیونکہ وہ اس کانفرنس کے ذریعے مشرق وسطی ٰکی سیاست میں اہم کردارحاصل کرنا چاہتا تھا۔ حالیہ مہینوں میں شام میں اس کو جو عسکری کامیابی ملی تھی روس اس کانفرنس کے ذریعے شام میں امن قائم کرکے اپنی اس خوشی کو دوبالا کرنا چاہتا تھا۔ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد شام میں ہونے والی خانہ جنگی کو رکوانا تھا لیکن حالیہ دنوں میں امریکہ اور ترکی کے تعلقات میں کشیدگی آئی ہے اور امریکہ نے شام میں اپنی فوج رکھنے کاجو اعلان کیا ہے اس سے تو یہ لگتا ہے ک” سوچی” اور “جینوا” کانفرنسوں کے “امن مقاصد” دھندلا گئے ہیں۔
اس ہفتے ادلب میں روس کے ایک جنگی جہاز کو بھی گرایا گیا اس سے بھی خطے میں ہونے والی امن کوششوں کو کافی نقصان پہنچا۔ اگرچہ شام میں روس کو عسکری لحاظ سے کم سے کم نقصان پہنچا ہے لیکن اس جہاز کے گرانے کے واقعہ نے اس بات کو سچ ثابت کیا ہے کہ” سوچی” اور”جینوا” کانفرنسوں کو سبھی فریقوں کی حمایت حاصل نہیں تھی۔اس وقت روسی افواج کی بڑی تعداد شام کے مختلف شہروں میں موجود ہے، اس کے علاوہ روس کی کئی پرائیویٹ سیکورٹی کمپنیاں اور ان کے سینکڑوں ملازمین شام کے کئی شہروں میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں لیکن پھر بھی وہ ان “امن دشمنوں”پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں۔ جن علاقوں میں “امن” قائم کیا گیا تھا وہ پھر سے “بدامنی” کی زد میں ہیں۔ اس کی وجہ سے شام اور روس کی حکومتوں کی ان علاقوں میں “خانہ جنگی” کی کوششوں کو شدید دھچکا پہنچا۔
ایک اور اہم مسلۂ اس علاقے میں” کردوں” کے حوالے سے ہے۔ امریکہ ان کردوں کی حمایت کر رہا ہے کیونکہ اس کا ماننا ہے کہ داعش کو اس علاقے میں ہرانے کے لئے اس نے امریکہ کی کوششوں کی حمایت کی تھی اور کردوں کی حمایت کے بغیر وہ داعش کو اس جنگ میں  شکست نہیں دے سکتا تھا۔دوسری طرف ترکی ان کردوں کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر ان کردوں کے خلاف  کارروائی نہ کی گئی تو اس سے صرف ترکی کو ہی نہیں بلکہ علاقے کی سالمیت کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔ کیونکہ یہ کرد صرف ترکی میں ہی نہیں بلکہ شام،ایران اورعراق کے سرحدی علاقوں میں موجود ہیں اور اگر یہ ترکی میں کامیاب ہوتے ہیں تو باقی ملکوں میں ان کی کامیابی کے امکانات کافی بڑھ جائیں گے۔ خصوصا شام اور عراق میں جہاں حکومتیں کافی کمزور ہیں۔
شام کردوں کے خلاف ترکی کے اس آپریشن کے خلاف ہے کیونکہ وہ اسے اپنی خودمختاری کے خلاف سمجھتا ہے۔ دوسری طرف روس ترکی کی کردوں کے خلاف جنگ کی حمایت کر رہا ہے۔
ان حالات میں جب کہ امریکہ اس علاقے میں اپنی فوج رکھنے پر بضد ہو اور باقی تین اتحادی ملک(روس،ترکی اور شام) علاقائی سالمیت کو لے کر مختلف نظریات رکھتے ہوں علاقے میں “دیرپا خانہ جنگی اور مستقل امن ” ایک مشکل کام لگتا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...