سویلین بالادستی پر کوئی کمپرومائز ممکن نہیں۔مرتضیٰ سولنگی

علی عباس

2,155

ریڈیو پاکستان کی ترقی کے لیے ماہرین پر مشتمل خودمختار بورڈ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

ممتاز صحافی اور ریڈیو براڈکاسٹر مرتضیٰ سولنگی سے بات چیت

 

 

 

مرتضیٰ سولنگی صحافت اورریڈیوبراڈکاسٹنگ کا ایک معتبر حوالہ ہیں۔ وہ اپنے عہدِ جوانی میں ٹریڈ یونین سرگرمیوں سے بھی منسلک رہے جس کے بعد سینئر صحافی عباس ناصر کے مشورے پر صحافت کا رُخ کیا۔ وہ ان معدودے چند صحافیوں میں سے ایک ہیں جو قومی میڈیا پر متبادل بیانیہ پیش کرنے کی اپنی سی سعی کر رہے ہیں۔

مرتضیٰ سولنگی نے ربع صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط اپنے صحافتی سفر کے دوران ملک کی سیاست کا قریب سے مشاہدہ کیا، وہ جمہوری اقدار پر گہرا یقین رکھتے ہیں اور ان کا یہ نقطہ نظر رہا ہے کہ اگر کسی حکومت نے ایک صحافی کو سرکاری عہدہ دے کر اس پر نوازش کرنی ہی ہے تو اس کے لیے باقاعدہ ادارہ جاتی میکانزم تشکیل دیا جائے تاکہ میرٹ کی خلاف ورزی نہ ہو۔ مرتضیٰ سولنگی ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر بھی خدمات انجام دیتے رہے ہیں جس دوران انہوں نے ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز میں سے قائداعظم کی 11 اگست 1947کی تقریر تلاش کرنے کی لاحاصل کوشش بھی کی۔ وہ قومی سیاست پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اوراس واضح مؤقف کے حامل ہیں کہ جمہوریت ہی ملک کے لیے بہتری سیاسی نظام ہے۔

مرتضیٰ سولنگی ان دنوں ملک کے ایک نجی ٹی وی چینل سے منسلک ہیں اور اسلام آباد میں اس کے بیوروچیف ہیں جب کہ ایک ٹی وی پروگرام کی میزبانی کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں “تجزیات آن لائن” نے اسلام آباد میں ان کے دفتر میں ایک تفصیلی نشست کا اہتمام کیا جس کی تفصیل ذیل میں پیش خدمت ہے:

تجزیات آن لائن:    صحافت میں حادثاتی طور پر آئے یا یہ آپ کا شوق بھی تھا؟

مرتضیٰ سولنگی:      آپ کہہ سکتے ہیں کہ صحافت میں حادثاتی طور پر آیا۔ مجھے سیاست اور ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں میں دلچسپی تھی۔ میں چونکہ سٹیل ملز کی ڈیموکریٹک ورکرز یونین کا پریس سیکرٹری تھا جس کے باعث صحافی دوستوں سے رابطہ رہتاتھا۔ عباس ناصر  سے بھی دوستی تھی، وہ کسی زمانے میں “ہیرالڈ” سے  منسلک رہے تھے۔ انہوں نے جب جنگ گروپ جوائن کیا تو مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ ان دنوں کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ بس وہ ٹریڈ یونین کا کام ہی کر رہا ہوں۔ انہوں نے کہا “یار! آپ ان چیزوں کو چھوڑیں، ہم انگریزی زبان کا اخبار “دی نیوز” نکال رہے ہیں ،آپ بھی ہماری ٹیم کا حصہ بن جائیں۔” میں نے جواباً کہا کہ میرا تو سرے سے صحافت کا کوئی تجربہ  ہی نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ آپ سیاست کو تو سمجھتے ہیں۔ میں نے کہا، “جی! کسی حد تک۔ ” انہوں نے کہا کہ بس، آپ پولیٹیکل رپورٹنگ میں آ جائیں اور یہی کام کریں۔ یوں حادثاتی طور پر عباس ناصر  کی مدد اور رہنمائی سے صحافت میں آ گیا اور جنگ گروپ جوائن کر لیا۔ 11 فروری 1991 کو”دی نیوز” کا جو پہلا اخبار نکلا تو اس کی بانی ٹیم کا رُکن تھا۔

تجزیات آن لائن:   آپ جب اپنے عہدِ نوجوانی میں ٹریڈ یونین کی سیاست میں سرگرم تھے، ان دنوں اندرونِ سندھ میں ایک جانب ایم آر ڈی کی آمریت مخالف اوردوسری جانب قوم پرست تحریک چل رہی تھی، اس بارے میں تفصیل سے کچھ بتائیے؟

مرتضیٰ سولنگی:  ان دنوں سندھ میں جو پروگریسو یا ترقی پسند تحریک چل رہی تھی، وہ دراصل جمہوری تحریک کا ہی تسلسل تھی۔ وہ ضیاء الحق کی بدترین آمریت کا دور تھا۔ میرا تعلق ان دونوں ترقی پسند اور جمہوری تحریکوں سے رہا ہے۔ ہم لوگوں نے ایم آر ڈی کی تحریک میں حصہ لیا۔ میں ان دنوں چونکہ کراچی میں قیام پذیر تھا، جس کے باعث شہر میں جو بھی جلسے جلوس اور مظاہرے ہوتے تھے، ہم لوگ ان تمام سرگرمیوں کا حصہ ہوتے تھے۔

تجزیات آن لائن:   میں اپنے سوال کو ایک بار پھر دہراتا ہوں کہ سندھ میں ایم آر ڈی کی تحریک کے متوازی شروع سے ہی ایک قوم پرست تحریک چلتی رہی ہے لیکن اسے سندھی عوام میں کبھی اس طرح پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی جس طرح بلوچستان میں قوم پرست تحریکوں کو حاصل ہوئی؟

مرتضیٰ سولنگی:   سندھ میں جی ایم سید کی جو قوم پرست تحریک تھی، وہ نیشنل عوامی پارٹی کے زمانے میں کسی حد تک فعال تھی لیکن بعدازاں جی ایم سید نے جب ایم آر ڈی کی جمہوری تحریک کی مخالفت کی اور ضیاء الحق نے کراچی کے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سنٹر میں ان سے ملاقات کی تو یہ قوم پرست تحریک کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ جئے سندھ محاذ نے یہ خاص مؤقف اختیار کیا کہ بھٹو صاحب قوم پرست تحریک کی کامیابی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں جئے سندھ  محاذ کے کارکنوں نے باقاعدہ پمفلٹ لکھے جن میں سے ایک کا عنوان کچھ یوں تھا،”ذوالفقار علی بھٹو کی مخالفت کیوں؟ “جس میں انہوں نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ اگر بھٹو زندہ رہتا ہے تو سندھی عوام کی اکثریت بھٹو کی حامی رہے گی، جس کے باعث قوم پرست تحریک کے کامیاب ہونے کا کوئی امکان نہیں، لہٰذا بھٹو کی شکست اور ان کا جسمانی طور پر منظرنامے سے ہٹایا جانا قوم پرست تحریک کی کامیابی کے لیے نہایت ضروری ہے۔یہ ان کا نقطۂ نظر تھا جب کہ سندھ کے عوام میں جو ترقی پسند اور جمہوری شعور تھا، وہ اس فکر سے ہم آہنگ نہیں تھا جس کے باعث قوم پرست تحریک کبھی بھی ایک عوامی تحریک میں تبدیل نہیں ہو پائی۔

تجزیات آن لائن:   آپ نے جس عہد میں صحافت کا آغاز کیا، اس وقت نثار عثمانی، منہاج برنا  جیسے اصول پسند صحافی ذرائع ابلاغ کے  منظرنامے پر نمایاں تھے، آج شعبۂ صحافت میں ایسے صحافی خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ کیا اس کی وجہ سماج کا مجموعی زوال تو نہیں؟

مرتضیٰ سولنگی:    جی باکل! یہ حالات سماج کے مجموعی زوال کی عکاسی کرتے ہیں۔ آپ یہ دیکھیں کہ اسّی کے اوآخر تک اس حقیقت کے باوجود کہ ترقی پسند فکر مقبول عام نہیں تھی، لیکن عوامی سیاست کا رجحان ضرور غالب تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نظریاتی اعتبار سے دو ہی کیمپ تھے۔ ایک ترقی پسند کیمپ اور ایک دائیں بازو کا کیمپ جو کہ جماعتِ اسلامی اور اس نوعیت کی جماعتوں سے نظریاتی طور پر ہم آہنگ تھا۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ اس عہد میں دائیں بازو کی سوچ بہت زیادہ Marginalized تھی، اس عہد کے تمام جمہوری سیاست دان ترقی پسند استعارے استعمال کیا کرتے تھے، خواہ وہ نیشنل عوامی پارٹی ہو، بلوچستان کی قوم پرست تحریکیں ہوں، سندھ میں رسول بخش پلیجو اور خود پیپلز پارٹی کے اندر بھی لیفٹ کا بہت بڑا عنصر موجود تھا۔ متذکرہ بالا وجوہ کے باعث مجموعی رجحان عالمی سطح پر بھی اور پاکستان میں بھی ترقی پسند فکر کی جانب جھکاؤ رکھتا تھا۔ بعدازاں سوویت یونین کی تباہی اور چین کے سرمایہ دارانہ نظام کو قبول کرلینے کے باعث عالمی و قومی منظرنامے میں ترقی پسند فکر کا زوال شروع ہوا۔ پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست دھڑے بندیوں کا شکار ہو گئی، لہٰذا کئی لوگوں نے سرے سے ہی ترقی پسند سیاست ترک کر دی۔ اس ترقی پسند فکر کے اثرات ٹریڈ یونین تحریک کے علاوہ ادب، فنونِ لطیفہ، صحافت اور دیگر شعبوں پر بھی مرتب ہوئے۔ اس زمانے میں ان تمام شعبوں میں ترقی پسند سوچ رکھنے والے لوگ نمایاں تھے۔ اب حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ اس وقت دائیں بازو کی فکر عوام میں سرایت کرچکی ہے اور بائیں بازو کی روشن خیال و ترقی پسند فکر Marginalized ہو کر رہ گئی ہے۔

تجزیات آن لائن:   عہدِ حاضر میں ہم دیکھتے ہیں کہ میڈیا میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں آئی ہیں، بالخصوص الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا نے سرے سے صحافت کی تعریف ہی تبدیل کر دی ہے، آپ ان تبدیلیوں کا تجزیہ کس طرح کرتے ہیں؟

مرتضیٰ سولنگی:    دیکھیے!  شروع شروع میں جب ڈیجیٹل یا سوشل میڈیا آیا تو اس وقت اس بات کا امکان پیدا ہو چلا تھا کہ کارپوریٹ میڈیا کا صحافت پر کنٹرول کم ہو جائے گا اور عوام اپنی سوچ کا براہِ راست اظہار کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ ایسا ایک طرح سے اب بھی ہو رہا ہے لیکن جب معاشرے کے طاقت ور گروہوں نے یہ دیکھا کہ سوشل میڈیا کس طرح سے لوگوں کی آزادی کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے تو انہوں نے اب اسی میڈیا کو عوام کے خلاف استعمال کرنا شروع  کر دیا ہے۔ آپ دیکھیں کہ جتنے بھی طاقت ور گروہ ہیں، تنظیمیں ہیں، ادارے ہیں، انہوں نے اپنے سوشل میڈیا ونگ بنا لیے ہیں جو مستقل بنیادوں پر اپنے مخالفین کے خلاف زور و شور سے اپنی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ دوسری جانب ترقی پسند اور جمہوری سوچ رکھنے والے ان لوگوں پر غداری اور اسلام دشمنی کے لیبل چسپاں کیے جانے لگے ہیں جو اس میڈیا کو عوام کی آزادی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ انہی وجوہ کے باعث ہم اب یہ نہیں کہہ سکتے کہ ڈیجیٹل یا سوشل میڈیا درست طور پر عوام کی نمائندگی کر رہا ہے۔ آپ فیس بک و ٹویٹر پر اکثر یہ دیکھیں گے کہ ٹاپ ٹرینڈز کا عوام کی سوچ سے بڑی حد تک کوئی تعلق نہیں ہوتا کیوں کہ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو”کی بورڈ” جہادی ہیں اور وہ مسلسل ایک ہی چیز کے بارے میں پروپیگنڈا کر رہے ہوتے ہیں،وہ خودساختہ ٹرینڈز بناتے ہیں جن کا مقصد دراصل عوام پر یہ باور کروانا ہوتا ہے کہ فلاں فکر غالب ہے جو کہ درست طرزِعمل نہیں ہے۔

تجزیات آن لائن:   آپ نے سماجی میڈیا کے حوالے سے تو بات کی، لیکن ڈیجیٹل میڈیا میں ایسی نیوز ویب سائٹس بھی آ جاتی ہیں جو ملک میں انتشار یا افراتفری پھیلانے کا باعث بھی بن سکتی ہے جن کی رجسٹریشن کا کوئی میکانزم موجود نہیں ہے؟

مرتضیٰ سولنگی:   ایسی تمام تحریریں جو حکمران اشرافیہ کے مفادات سے متصادم ہوں گی تو آپ دیکھیں گے کہ پی ٹی اے فوراً حرکت میں آجائے گا اور ایسی ویب سائٹس بند کر دی جائیں گی۔ آپ نے بلاگرز کا حشر دیکھا۔ آپ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ آئے روز ان صحافیوں کے خلاف کارروائیاں کی جارہی ہیں جو نسبتاً آزادانہ طور پراپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس ملک میں عقوبت خانوں کا راج ہے۔ آپ یا تو خاموش رہیں یا صرف وہ زبان بولیں جو حکمران اشرافیہ کے مفاد میں ہو۔

یہ درست ہے کہ کچھ ویب سائٹس ایسی ہیں جن پر آپ کو متبادل بیانیہ نظر آ جاتا ہے جو ایک مثبت پیشرفت ہے لیکن ان ویب سائٹس کو غالباً صرف اسی لیے برداشت کیا جا رہا ہے کیوں کہ یہ بہت زیادہ اثرورسوخ کی حامل نہیں ہیں۔ اگر انہی ویب سائٹس نے حکمرانوں کے بیانیے کو چیلنج کرنے کی کوشش کی تو اس صورت میں ان پر بھی پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔

تجزیات آن لائن:    کچھ عرصہ قبل موجودہ حکومت اخبارات کے لیے ضابطۂ اخلاق تشکیل دینے جا رہی تھی جس پر کافی شور مچا کہ اخبارات کے لیے ضابطہ اخلاق کی تشکیل صحافت پر پابندیاں لگانے کے مترادف ہے۔ کیا آپ کے خیال میں الیکٹرانک میڈیا کی طرح پرنٹ میڈیا کے لیے بھی ضابطۂ اخلاق کی تشکیل ناگزیر نہیں ہے؟

مرتضیٰ سولنگی:    میں یہ سمجھتا ہوں کہ ضابطۂ اخلاق تو ہونا چاہئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں کسی بھی قسم کے ضابطہ اخلاق پر عمل نہیں ہو رہا اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت دو طرح کا میڈیا ہے۔ ایک کارپوریٹ اور دوسرا سٹیٹ میڈیا ہے۔ سرکاری میڈیا مکمل طور پر حکومت اور کارپوریٹ میڈیا مالکان کے کنٹرول میں ہے جو میڈیا کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں اور وہ متوازی طور پر معاشرے کے طاقت ور گروہوں جیسا کہ اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتوں،عسکریت پسند گروپوں وغیرہ کا اثر قبول کرتے ہیں اور یوں وہ اپنے مفادات کا تحفظ کر رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا خواہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک، مالکان ادارتی پالیسی معاشرے کے طاقت ور گروہوں کے ساتھ اپنی ایڈجسٹمنٹ کے تناظر میں متعین کرتے ہیں ،چناں نچہ ضابطۂ اخلاق پر صرف اسی صورت میں عمل ہو سکتا ہے جب میڈیا کی ادارتی پالیسی پروفیشنل صحافی متعین کریں گے۔  پروفیشنل ایڈیٹرز چونکہ اس وقت صحافتی منظرنامے میں موجود نہیں ہیں جس کے باعث اکثر و بیشتر پرنٹ میڈیا میں بھی مالکان ہی ایڈیٹر اور چیف ایڈیٹر کا کردار ادا کر رہے  ہوتے ہیں جو رپورٹرز اور کالم نگاروں کو ڈکٹیٹ کرتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا میں بھی آپ کو یہی صورتِ حال نظر آئے گی کہ ادارتی پالیسی اور کرنٹ افیئرز کی پروگرامنگ پر مالکان براہِ راست اثرانداز ہوتے ہیں جس کے باعث یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ  ضابطہ اخلاق کی حقیقی معنوں میں اب کوئی اہمیت نہیں رہی۔

تجزیات آن لائن:    حکمران اشرافیہ میں بھی تقسیم نظر آتی ہے، ایک جانب سول و ملٹری بیوروکریسی ہے اور دوسری جانب سیاسی قوتیں ہیں۔ آپ ان میں کس طرح فرق واضح کریں گے؟

مرتضیٰ سولنگی:    یہ دونوں گروہ آپس میں منسلک ہیں اور پاکستان کی حکمران اشرافیہ کا حصہ ہیں۔ ان کے درمیان لڑائی ضرور ہوتی ہے ،لیکن یہ لڑائی ایک دوسرے کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس بات پر جاری ہے کہ سٹیئرنگ چیئر پر کون بیٹھے گا۔ مثال کے طورپر گاڑی چل تو رہی ہے لیکن اس کی سمت کون متعین کرے گا؟

پاکستان میں اب تک سکیورٹی ہیئتِ مقتدرہ اثرورسوخ کی حامل ہے،وہ عام انتخابات میں شریک ہوئے بغیر ملک کی سکیورٹی، خارجہ اور دیگر بنیادی نوعیت کی پالیسیاں تشکیل دے رہی ہے۔ سویلین حکمران دراصل جونیئر پارٹنرز ہیں۔ پاکستان میں سیاسی قوتیں اب تک عوام میں اپنی جڑیں بنانے میں کامیاب نہیں ہو پائے اور اسی وجہ سے عوام نے بھی ان کا جمہوری ماڈل دل سے قبول نہیں کیا۔ انتخابی عمل میں عوام کی شرکت نہ ہونے کے برابر ہے۔ متوسط اور نچلا متوسط طبقہ منتخب ہو کر ایوانوں میں نہیں آ سکتا جس کے باعث ملک میں جمہوری نظام کمزور ہے اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ چوں کہ اس حقیقت سے آگاہ ہے لہٰذا وہ جب بھی چاہتی ہے، جمہوری قوتوں پر اثرانداز ہوتی ہے اور ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ جب جمہوری حکومت کو ہٹایا جائے گا تو عوام سڑکوں پر نہیں نکلے گی کیوں کہ عوام نے اس جمہوریت کی ملکیت صحیح معنوں میں قبول ہی نہیں کی۔

تجزیات آن لائن:   کچھ مبصرین کا نقطۂ نظر ہے کہ روشن خیال اور ترقی پسند دانشورمحض اس بنا پر مسلم لیگ نواز کی موجودہ حکومت کی حمایت کر رہے ہیں کیونکہ ان کا یہ خیال ہے کہ اس وقت جمہوریت کی بقاء کو خطرہ ہے، کیا آپ بھی ایسا ہی سوچتے ہیں؟

مرتضیٰ سولنگی:     اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نواز لیگ کے تنخواہ دار تو اپنا کام کریں گے لیکن بہت سارے لبرل اور پروگریسو دانشوروں کا یہ خیال ہے کہ اقتدار کا اصل حق منتخب نمائندوں کو ہونا چاہئے، ہو سکتا ہے کہ وہ غلط ہوں لیکن سویلین بالادستی پر کوئی کمپرومائز نہیں کرنا چاہئے اور اگر وہ یہ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ اسٹیبشلمنٹ موجودہ حکومت کو کمزور کررہی ہے تو ان کا اس حکومت کی حمایت کرنا ضروری ہے۔ اس حد تک تو یہ بات درست ہے لیکن مسلم لیگ نواز اب بھی دائیں بازو کی جماعت ہی ہے۔ دوسری جانب ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی وہ جمہوری کردار ادا نہیں کر رہی جو اسے کرنا چاہئے بلکہ وہ کئی ایسی پالیسیوں کو قبول کر رہی ہے جو درحقیقت سکیورٹی ہیئتِ مقتدرہ کی پالیسیوں کا ہی تسلسل ہیں جس کے باعث روشن خیال دانشور یہ استفسار کرتے ہیں کہ ہم کہاں جائیں؟ کیوں کہ اس وقت کوئی روشن خیال جمہوری جماعت ملک کے سیاسی منظرنامے پر فعال نہیں ہے ۔ لہٰذا وہ یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ اس محاذ آرائی میں وہ کس فریق کا ساتھ دیں؟ یہ ایک مشکل سوال ہے۔

تجزیات آن لائن:    یہ مشکل سوال مشرف آمریت کے دور میں بھی پیدا ہوا تھا جب روشن خیال دانشوروں کی ایک بڑی تعداد نے کھل کر ان کے اقتدار کی حمایت کی تھی؟

مرتضیٰ سولنگی:      میرا نہیں خیال کہ ایک بڑی تعداد مشرف کیمپ میں شامل ہوئی ہو بلکہ ترقی پسند اور روشن خیال سیاسی کارکنوں اور دانشوروں کی اکثریت نے مشرف آمریت کی کھل کر مخالفت کی تھی۔ یہ سیاسی کارکن اور دانشور پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی تھے، اے این پی میں بھی تھے، اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے ساتھ بھی تھے۔ ان لوگوں نے کھل کر مشرف آمریت کی مخالفت کی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں آپ کو دو طرح کا لبرل ازم نظر آئے گا۔ کچھ لوگ ثقافتی طور پر لبرل ہیں، ان کا لبرل ازم صرف اور صرف مغربی لباس اور ایسی ہی دیگر سرگرمیوں تک محدود ہے۔ اس طرح کے لبرل دانش وروں کا کوئی سیاسی نظریہ نہیں ہے۔ وہ وفاداریاں تبدیل کرتے رہتے ہیں لیکن وہ دانش ور جو ترقی پسند سیاست کرتے ہیں، یا کرتے رہے ہیں،انہوں نے میرے خیال میں پرویز مشرف کا ساتھ نہیں دیا بلکہ ان کے دورِآمریت کی کھل کر مخالفت کی اور ان جماعتوں کی حمایت کی جو پرویز مشرف کے خلاف صف آراء تھیں۔

تجزیات آن لائن:   آپ ریڈیو پاکستان کے سربراہ بھی رہے، آپ کے دور میں طویل عرصہ کے بعد ریڈیو کا معیار بہتر ہوا۔ آپ نے ریڈیو پاکستان کی ترقی کے لیے کیا اقدامات کیے؟

مرتضیٰ سولنگی:      سب سے پہلے تو نیوز پالیسی کو لبرلائز کیا، حزبِ اختلاف کو بھی نمائندگی دی گئی۔ مجھے یاد ہے کہ پہلی بار حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں کے انٹرویوزاور خبریں ریڈیو پر نشر ہوئیں۔ یوں ریڈیو پاکستان پر موجود ریاستی کنٹرول بڑی حد تک ختم کیا گیا۔ دوسرایہ کہ  میں  خود ترقی پسند سوچ کا حامل ہوں جس کے باعث میں نے ترقی پسند لوگوں کو ریڈیو پاکستان پر اظہارِ خیال کے مواقع فراہم کیے۔ یہ واضح کر دینا بھی ضروری ہے کہ میں نے ریڈیو براڈکاسٹنگ کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے اور دنیا کے ایک اہم ریڈیو چینل میں کام کر چکا ہوں، لہٰذا میں نے اپنے اس تجربے کو استعمال کیا۔ دنیا کے بڑے ریڈیو چینلز کے ساتھ  تعاون کا آغاز کیا اورعملے کی تربیت کا اہتمام کیا اور جیسا کہ ہم انٹرنیٹ کے زمانے میں جی رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اس وقت تک ریڈیو پاکستان کی اپنی کوئی ویب سائیٹ نہیں تھی۔ میرے زمانے میں ہی ریڈیو پاکستان کی اردو اور انگریزی ویب سائٹس کا آغاز ہوا۔  یوٹیوب، فیس بک اور ٹوئٹر پر ریڈیو پاکستان کے اکاؤنٹس بنائے گئے،  ٹویٹر اکاؤنٹ میں نے خود بنایا۔ ان اقدامات کے مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ دوسرا، میں نے پروفیشنل لوگوں کو اہم عہدے دیے۔ لیکن یہ کوئی ساختیاتی یا بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں نہیں تھیں۔ یہ انفرادی نوعیت کی کوششیں تھیں۔ بنیادی تبدیلی یہ ہے کہ ریکروٹمنٹ پالیسی ازسرنو تشکیل دی جائے جس کے تحت صرف پروفیشنل لوگوں کو بھرتی کیا جائے اور سفارشی لوگوں کو باہر کا راستہ دکھایا جائے اور وزارتِ اطلاعات کے کنٹرول کو ختم کیا جائے۔ ماہرین پر مشتمل ایک خودمختار بورڈ قائم کیا جائے جو عوامی مفاد مدنظر رکھتے ہوئے ریڈیو پاکستان کے معاملات چلائے۔

تجزیات آن لائن:   کیا الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کی ترقی کے اس دور میں لوگ ریڈیو سماعت کرتے ہیں؟

مرتضیٰ سولنگی:      دیہاتی علاقوں میں لوگ  گھروں میں ریڈیو سنتے ہیں لیکن جو درمیانے اور بڑے شہر ہیں وہاں اب گھروں میں ریڈیو نہیں سنا جاتا،ریڈیو یا تو موبائل پر یا پھر گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے سنا جاتا ہے۔ یورپ اور امریکا میں بھی لوگ زیادہ تر گاڑیوں میں ہی ریڈیو سنتے ہے لیکن ان خطوں میں “ورک ریڈیو” کا کلچر بھی عام ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اپنے دفتر میں ہلکی آواز میں اپنی پسند کا ریڈیو چینل سماعت کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ فیکٹریوں میں بھی ہر فرد کے پاس اپنا ایک ورک ریڈیو ہوتا ہے۔

تجزیات آن لائن:   آپ نے قائداعظم کی 11 اگست 1947 کی تقریر تلاش کرنے کی کوشش بھی کی؟

مرتضیٰ سولنگی:      کوشش کی مگر مجھے اس میں  کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ لیکن ہم قائداعظم، محترمہ فاطمہ جناح ، لیاقت علی خان اور دیگر پاکستانی حکمرانوں و سیاست دانوں کی جتنی بھی آڈیو فائلز موجود تھیں، انہیں ڈیجیٹلائز کرنے میں ضرور کامیاب رہے۔ یہ فائلز اب ڈیجیٹل فارمیٹ میں موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ مواد کو میَں نے یوٹیوب پربھی اَپ لوڈ کیا تھا لیکن میرے عہدہ چھوڑنے کے بعد کوئی بھی نئی فائل ریڈیو پاکستان کے یوٹیوب چینل پر اَپ لوڈ نہیں ہوئی۔

تجزیات آن لائن:    آپ موجودہ حکومت کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں اور کیا شریف خاندان  واقعی اختلافات کا شکار ہے؟

مرتضیٰ سولنگی:      شریف خاندان میں اختلافات موجود ہیں جن کا وقتاً فوقتاً اظہار ہوتا رہتا ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف کا انداز فکر ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے۔ شہباز شریف کے صاحب زادے حمزہ شہباز اور مریم نواز کی سوچ میں بھی فرق واضح ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز اپنے ذاتی تجربات کے باعث ہیئتِ مقتدرہ سے خاصے نالاں ہیں اور اسٹیبلشمنٹ بھی ان سے نالاں نظر آتی ہے۔ لیکن یہ بھی واضح رہے کہ مسلم لیگ نواز کا ووٹ بنک شہباز شریف اور ان کے صاحب زادوں کا نہیں ہے۔ ن لیگ عملاً نواز شریف کی شخصیت کے گرد ہی گھومتی ہے اور نواز شریف کے بعد اہم ترین کردار مریم نواز کا ہے۔ پارٹی میں یہ اختلافات موجود ہیں۔ اگر آئندہ انتخابات کی بات کی جائے تو اس حوالے سے کوئی حتمی رائے احتساب عدالتوں میں زیرِسماعت مقدمات پر فیصلوں کے بعد ہی دی جا سکتی ہے اور یہ کہ ان فیصلوں کے پنجاب کے ووٹ بنک پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ میری رائے میں نواز شریف کا ووٹ بنک متاثر نہیں ہوا۔ حال ہی میں شمالی پنجاب کے ضلع چکوال میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج سے بھی یہ صورتِ حال واضح ہو جاتی ہے۔ چکوال بنیادی طور پران اضلاع میں سے ایک ہے جہاں سے فوج میں بھرتی ہوتی ہے اور وہاں بڑے پیمانے پر فوج کی حمایت موجود ہے لیکن اس کے باوجود آپ نے دیکھا کہ ان ضمنی انتخابات میں نواز لیگ کے امیدوارعام انتخابات سے بھی زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نواز لیگ کے ووٹ بنک پر موجودہ صورتِ حال کے کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ یقیناً کچھ نئے سیاسی کردار منظرنامے پر نمایاں ہوئے ہیں جو موجودہ سیاسی عمل پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ کچھ مبصرین کا یہ خیال تھا اور ہے کہ یہ سیاسی کردار نواز لیگ کو کمزور کریں گے جیسا کہ خادم رضوی اینڈ کمپنی جنہوں نے لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 سے اچھے خاصے ووٹ حاصل کیے تھے‘ چکوال کے ضمنی انتخابات میں بھی 16 ہزار ووٹ حاصل کیے لیکن اس کے باوجود نواز لیگ کے امیدوار کا کامیاب ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ برسراقتدار جماعت کا ووٹ بنک کم نہیں ہوا لیکن یہ کہنا فی الحال قبل از وقت ہے کہ عام انتخابات میں دیگر سیاسی جماعتیں جیسا کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کیسی کارکردگی دکھاتی ہیں؟ انہی وجوہات کے باعث کئی مبصرین کا یہ خیال ہے کہ مسلم لیگ نواز اگر وفاق اور پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو اس صورت میں بھی اس کے پاس اس قدر طاقت نہیں ہو گی کہ وہ اپنے طور پر اپنی حکومت بنا سکے۔ بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ پنجاب اور وفاق میں قائم ہونے والی اگلی حکومت بھی مخلوط ہی ہوگی۔

مسلم لیگ نواز کا ووٹ بنک شہباز شریف اور ان کے صاحب زادوں کا نہیں ہے۔ ن لیگ عملاً نواز شریف کی شخصیت کے گرد ہی گھومتی ہے اور نواز شریف کے بعد اہم ترین کردار مریم نواز کا ہے۔ مسلم لیگ نواز اگر وفاق اور پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو اس صورت میں بھی اس کے پاس اس قدر طاقت نہیں ہو گی کہ وہ اپنے طور پر اپنی حکومت بنا سکے۔ بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ پنجاب اور وفاق میں قائم ہونے والی اگلی حکومت بھی مخلوط ہی ہوگی۔

 

تجزیات آن لائن:   کیا آپ مستقبل میں مسلم لیگ نواز سے الگ  کوئی نیا دھڑا قائم ہوتا تو  نہیں دیکھ رہے؟

مرتضیٰ سولنگی:      اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو مسلم لیگوں کے حوالے سے خودکفیل بنایا ہے۔ اس وقت “اے”سے لے کر”زیڈ” تک مسلم لیگیں قائم ہیں۔ ایک عوامی مسلم لیگ ہے تو دوسری ملی مسلم لیگ، ایک مسلم لیگ ضیاء الحق بھی ہے۔ اس فہرست میں اگر ایک اور مسلم لیگ کا اضافہ ہو بھی جاتا ہے تو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ غور طلب نکتہ یہ ہے کہ ماضی میں ملک کی بنیادی سیاسی قوتیں دو تھیں جو اب تین ہیں ۔ پی ٹی آئی اگر حکومت بنانے میں ناکام ہو جاتی ہے اور عمران خان وزیراعظم نہیں بن پاتے تو ان نتائج کے اثرات پی ٹی آئی کی مستقبل کی سیاست پر بھی مرتب ہوں گے۔ فی الحال سیاسی صورتِ حال واضح نہیں ہے۔ سندھ کے حوالے سے اب تک کے تجزیوں کے مطابق پیپلز پارٹی باآسانی کامیاب ہو جائے گی لیکن کیا جنوبی پنجاب سے وہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے گی؟ ایسا کوئی بھی نتیجہ اخذ کرنا فی الحال قبل از وقت ہوگا۔

تجزیات آن لائن:    آپ نے سندھ کی سیاست کا ذکر کیا، ہم یہ دیکھتے ہیں کہ صوبے میں اب تک پیپلز پارٹی کے خلاف نہ ہی قوم پرستوں کا کوئی مضبوط اتحاد قائم ہو سکا ہے اور نہ ہی پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نواز خود کو صوبے میں سیاسی طور پر مستحکم کرنے میں کامیاب ہو پائی ہیں، ایم کیو ایم بھی تقسیم کا شکار ہے، ان حالات میں سندھ کی سیاست کا تجزیہ کس طرح کریں گے؟

مرتضیٰ سولنگی:      مجھے سندھ کی سیاست میں پیپلز پارٹی کے علاوہ کوئی اور جماعت نظر نہیں آ رہی۔ اب تو صورتِ حال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے مخالف وڈیرے بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں۔ پیر پگاڑا کی مسلم لیگ فنکشنل کے کافی لوگ جام مدد علی سے لے کر امتیاز شیخ تک، پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔ جیسا کہ میں نے قوم پرستوں کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ ان کا عوام میں کوئی خاص اثر و رسوخ نہیں ہے۔ سندھ کی سیاست میں فی الحال کوئی سیاسی جماعت سرگرم نظر نہیں آتی۔ ایم کیو ایم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، جبکہ ملک کی دیگر دو بڑی جماعتوں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نواز نے کبھی سنجیدگی سے سندھ کے سیاسی منظرنامے میں داخل ہونے کی کوشش ہی نہیں کی۔ 2013 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو کم از کم سندھ کے شہری علاقوں میں کچھ مقبولیت ضرورحاصل ہوئی تھی لیکن انہوں نے وہ بھی کھو دی۔ کراچی سے مسلم لیگ نواز کا ایک آدھا ایم این اے اور ایم پی اے ہی منتخب ہوا تھا ،ان کے ساتھ نواز لیگ کی قیادت کے تعلقات اس قدر شاندار رہے کہ وہ بھی نواز لیگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی صوبے سے اس لیے کامیاب ہو کہ اس کی کارکردگی بڑی شاندار ہے بلکہ اس لیے ضرور کامیابی اس کی جھولی میں آگرے گی کہ اس کی مخالفت کرنے والی تمام جماعتیں نااہل ہیں۔

تجزیات آن لائن:    پنجاب کی سیاست میں پیپلز پارٹی کا کیا کردار دیکھتے ہیں؟

مرتضیٰ سولنگی:       پنجاب میں موجود قیادت کے باعث  میرا نہیں خیال کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں کوئی بہت بڑی کامیابی حاصل کر پائے گی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے پیپلز پارٹی ایک پاپولر لیڈر سے محروم ہوئی ہے اور پارٹی میں اب تک ان کی متبادل قیادت ابھر کر سامنے نہیں آ سکی۔ بلاول بھٹو ایک حد تک ضرور مقبول ہیں لیکن چوں کہ لوگوں کی اکثریت کا یہ خیال ہے کہ پارٹی کا کنٹرول ان کے ہاتھ میں نہیں ہے اور پیپلز پارٹی کی بنیادی فیصلہ سازی بلاول نہیں کر رہے جس کے باعث مجھے پیپلز پارٹی کے پنجاب کی سیاست میں اَپ سیٹ کرنے کے  بہت زیادہ امکانات نظر نہیں آتے۔

تجزیات آن لائن:   پیپلز پارٹی اور پاکستان عوامی تحریک کے ممکنہ اتحاد کے بارے میں کس طرح تجزیہ کریں گے؟

مرتضیٰ سولنگی:      یہ تو ہاتھی اور چوہے کا اتحاد ہوگا کیوں کہ پاکستان عوامی تحریک کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے۔ یہ ایک پیر اور مرید والا سلسلہ ہے۔ طاہرالقادری کا سیاسی اثر و رسوخ ضرور ہے، وہ ہمارے ملک میں بہت سے اور پیروں کا بھی ہے جنہیں مختلف سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں لیکن طاہر القادری کوئی مستقل مزاج انسان نہیں ہیں۔ دوسرا وہ غیر ملکی شہریت چھوڑنے پر بھی تیار نہیں ہیں جس کے باعث ان کے لیے کوئی بھی قائدانہ کردار ادا کرنا ممکن نہیں ہے۔ وہ قانونی طور پر بھی انتخابات لڑنے کے اہل نہیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ لاہور میں جاری سیاسی سرگرمیاں دراصل انتخابات سے قبل ہونے والی جوڑ توڑ کا حصہ ہیں کیونکہ انتخابات میں اب صرف چار پانچ ماہ ہی باقی رہ گئے ہیں۔ ان سرگرمیوں کا مقصد درحقیقت حکمران جماعت کو مزید کمزور کرنا بھی ہے، اس کے علاوہ ان سرگرمیوں کا کوئی اور مقصد نہیں ہے۔

تجزیات آن لائن:   محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی میں بھی ایسا ہی ایک اتحاد تشکیل پایا تھا جس کے سربراہ طاہر القادری تھے؟

مرتضیٰ سولنگی:       محترمہ کے دور میں سیاسی حرکیات مختلف تھیں۔ آپ دیکھیں کہ ضیاء الحق کی وفات کے بعد  پیپلز پارٹی مخالف اور  پیپلز پارٹی کے حامی جیسے تصورات مقبول ہوئے۔ پیپلز پارٹی مخالف سیاست کے فروغ کے لیے ایجنسیوں نے نہایت اہم کردار ادا کیا اور اس حوالے سے بہت سارے ٹھوس شواہد منظرِعام پر آچکے ہیں کہ آئی جے آئی کی تشکیل کے پس پردہ کیا محرکات کارفرما تھے؟ حمید گل کا کیا کردار تھا؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس زمانے کا سیاسی کلچر ہی ایک دوسرے کی حکومت کمزور کرنا تھا۔ اس وقت حکومتیں گرانے کے لیے اتحاد تشکیل پاتے تھے جو وقتی نوعیت کے ہوتے تھے اور بنیادی طور پر ان کا مقصد اس وقت کی حکومتوں کو عدم استحکام کا شکار کرنا اور اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اسے اقتدار سے رخصت کرنا ہوتا تھا۔ یہ سارا ڈرامہ نوّے کی دہائی میں بھی جاری رہا۔ دو بار پیپلز پارٹی اور دو بار نواز لیگ کی حکومت گرائی گئی اور دونوں جماعتوں نے ہی اسٹیبشلمنٹ کی مدد حاصل کی۔

تجزیات آن لائن:   اس کا مطلب یہ ہوا کہ محترمہ بھی اسٹیبشلمنٹ کی مدد حاصل کرتی رہیں؟

مرتضیٰ سولنگی:      1993 میں جب نواز حکومت اقتدار سے رخصت ہوئی تو اسحاق خان نے جو کابینہ تشکیل دی، اس میں کون لوگ شامل تھے؟ محمود اچکزئی اور افتخار گیلانی اس بارے میں آپ کو زیادہ تفصیل فراہم کر سکتے ہیں،افتخار گیلانی اس وقت پیپلز پارٹی میں شامل تھے۔ وہ محترمہ سے ملاقات کے لیے لندن بھی گئے تھے کہ کسی بھی طرح سے مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کے درمیان سمجھوتہ ہوجائے لیکن ادھر “یار لوگ” اسحاق خان اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر نواز حکومت گرانے کی تیاری مکمل کر چکے تھے۔ کچھ اسی طرح چھ  اگست 1990کو نواز شریف نے اسحاق خان کے ساتھ مل کر محترمہ کی حکومت گرائی تھی۔1997میں جب نواز شریف برسرِاقتدار آئے تو انہوں نے محترمہ کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا آغاز کیا۔ 1998میں محترمہ نے خودساختہ جلاوطنی اختیار کرلی اور آصف علی زرداری اس پورے عرصہ کے دوران پابندِ سلاسل رہے۔ نواز شریف کی دوسری حکومت البتہ پیپلز پارٹی نے نہیں گرائی۔ نواز شریف کی اس حکومت کے خاتمے کا سبب وہ آرمی چیف بنے جنہیں چودھری نثار اور شہباز شریف کی سفارش پر اس عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نوے کی دہائی میں اس طرح کے چھوٹے اتحاد تشکیل پاتے رہتے تھے جن کا بنیادی مقصد اس وقت کی برسرِاقتدار حکومتوں کو گرانا اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اقتدار میں آنا ہوتا تھا جس سے بعدازاں ان دونوں جماعتوں نے توبہ کرلی۔

14 مئی 2006کو لندن میں جب میثاقِ جمہوریت ہوا، اور اگر آپ اس دستاویز کا مطالعہ کریں تو دونوں جماعتوں نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا اور یہ عہد کیا کہ آئندہ ہم اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر جمہوری عمل کو عدم استحکام کا شکار نہیں کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دستاویز آج بھی قابلِ عمل ہے اور مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ یہ دستاویز اس وقت کی اجتماعی جمہوری دانش کا بہترین اظہار تھی۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...