دو لاشیں نہیں ایک مجرم چاہیئے

963

یہ  بیس سیکنڈز کی ایک ویڈیو ہے جسے بی بی سی نے نشر کیا ہے  ۔  بیس  سیکنڈز  کی اس ویڈیو میں آٹھ فائر ہوئے ہیں،جس  میں دو افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ قصور کے یہ شہری بپھرے ہوئے تھے اور ان کا مطالبہ معصوم زینب کے قاتل کی گرفتاری تھا۔ یہ لوگ تھانوں پراور ڈی سی آفس پر پتھراؤ کررہے تھےانہوں نے کچھ توڑ پھوڑ بھی کی ہے۔ ویڈیو غور سے دیکھیں  تو سہو اور عمدا دونوں ہی معاملے دکھائی دیتے ہیں۔ ویڈیو میں ایک اہلکار گولیاں چلاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ اہلکار اپنی خودکار بندوق انسانی قد کے برابر لا کر سینوں اور چہروں کی بلندی پہ بندوق کی نالی کو لے جا کر مسلسل پانچ گولیاں چلاتا ہے۔ عین اسی لمحے ایک اور آواز پوری شدت سے گونجتی ہے جو فائرنگ کرنے والے کو سیدھے فائر کرنے سے روکنے کی کوشش کررہی ہے،مگر اتنی ہی دیر میں جتنی دیر میں یہ تین چار جملے بولے جاتے ہیں۔ پانچ فائر ہوچکے تھے۔ ایک جوان کی چلائی پانچ گولیوں سے دو جانیں ضائع ہوگئیں۔ بندوق بردار پولیس اہلکار وںکی تعداد پانچ تھی۔ گولیاں چلانے والے دو اہلکار تھے اور ان کی شناخت کوئی پیچیدہ گتھی نہیں ہے۔   اس ویڈیو میں دو پتھر آتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ جسے ہم بپھرے ہوئے ہجوم کا پتھراؤ کہہ سکتے ہیں۔ ہجوم کا مطالبہ بھی ہمیں معلوم ہے۔ ہجوم کی نفسیات کیا ہوتی ہیں اور وہ  کس حد تک متشدد ہوسکتا ہے ، اس کے نتیجے میں کیا کچھ جانی و مال نقصان ہوسکتا ہے، اسے سمجھنا بھی کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔ ہمارے سامنے ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جس میں ہجوم نے کسی بھی اشتعال کے سبب ایک یا ایک سے زائد معصوم جانیں لی ہوں۔

قصور شہر میں گذشتہ چند سالوں میں ایسے واقعات مسلسل پیش آرہے ہیں ۔  قصور تو شاید اس لئے بدنام ہوگیا کہ وہاں پہلے پہل جنسی زیادتیوں کی ویڈیوز بنانے کا معاملہ سامنے آیااور اب معصوم زینب کا سانحہ برپا ہوا ہے۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ سال دوہزار سولہ میں بچوں سے زیادتی کے ہوئے چار ہزار سے زائد واقعات میں چھبیس سو سے زیادہ تو محض پنجاب میں رپورٹ ہوئے تھے۔ ہرسال ایسے واقعات میں دس فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ آسانی کے لئے یہ سمجھ لیجئے کہ ہرروز گیارہ بچے پاکستان میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہ وہ اعداد ہیں جو رپورٹ ہوتے ہیں۔ عزت ،غیرت کے نام پر بیسیوں واقعات روزانہ ایسے بھی ہیں جنہیں چھپا لیا جاتا ہے۔

پولیس فورس کی تعدادانہیں دستیاب وسائل ، ان کی مشکلات اور ان کی عدم توجہی اور لاپرواہی ہمارا موضوع نہیں ،سو اسے بس اپنے دماغ میں پس منظر تک محدود رکھئے اور توجہ سے اپنے موضوع کو سوچیے کہ پانچ پولیس اہلکاروں نے جن کے ہاتھوں میں خودکار  بندوقیں تھیں، میں سے دو اہلکاروں نے نہتے لوگوں پر جو کہ بپھرے ہوئے تھے اور ان کی ٹانگوں پر یا انہیں ڈرانے کے لئے ہوائی فائرنگ کی جاسکتی تھی جیسا کہ ان کے ہی ایک ساتھی انہیں آواز دے کر بلکہ چلا کر سمجھانے کی کوشش کی۔ مگر اس کی آواز کو نہیں سنا گیا اور لوگوں کے چہروں اور سینوں کو نشانہ بناکر گولیاں ماری گئیں۔

یہ قتل عام “ان ڈسکریمینٹ کلنگ” ہے اور یہ جرم ہے۔ عمداً جرم جسے برپا کیا گیا ہے ایک ایسے ہجوم پر جو معصوم زینب کے قاتل کی گرفتاری کا مطالبہ کررہا تھا ۔

یادرہے کہ  زینب جمعرات کو اغوا ہوئی ۔ جمعرات ، جمعہ ، ہفتہ، اتوار ،پیر اور منگل  تک وہ چھ روز  گم رہی۔ پولیس میں رپٹ درج ہوچکی تھی اور پولیس اسے بازیاب نہیں کروا سکی تھی ، اس کی لاش منگل کو ایک کوڑے دان سے ملی۔ یہ چھ روز وہ اغواکار کے ہتھے رہی۔ چھ روز جبکہ وہ محض سات سال کی تھی۔ قصور شہر کے دیگر تھانوں میں چھ بچوں کے اغواء کے مقدمات درج ہیں  جنکی لاشیں نہیں ملیں اور نہ ہی وہ بازیاب ہوسکے ہیں مگر مجھے اب توصرف  یہ جاننا ہے کہ ان پانچ اہلکاروں کا معاملہ کیا ہوگا جنہوں نے ہجوم پربندوقیں تانیں اور ان دو اہلکاروں کو کیا سزا ملے گی جنہوں نے گولیاں برسائیں ۔

آخری بات جو یاد رکھنے کی ہے کہ لگ بھگ چھ سال پہلے کراچی میں پانچ رینجرز اہلکاروں نے ایک نہتے شخص کو چند انچ کے فاصلے سے دو گولیاں ماریں تھیں اور پھر اس کو تڑپ تڑپ کر مرنے کے واسطے چھوڑ دیا تھا۔ صدر پاکستان ممنون حسین نے رواں ہفتے مقتول سرفراز شاہ کے قاتل رینجرز اہلکاروں کو آزاد کرنے کاحکم سنایا ہے۔

صدر ممنون حسین کو مبارک باد کہ آپ نے ظلم اور بےدردی کے جس حکم کو آزاد کیا تھا وہ آج قصور میں دو نہتے شہریوں کے سینے میں بارود بن کے اتر گیا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...