اگر کشمیر میں امن قائم ہو جائے،تو بھارت کو وہاں فوج کی تعیناتی کی ضرورت نہیں رہے گی

(گفتگو: سنبل خان،ترجمہ: حذیفہ مسعود )

1,321

عزیز احمد خان سفارت کاری اور خارجہ امور کا طویل تجربہ رکھنے والے سینیئر سفارت کار ہیں۔ خاص طور پر انڈیا اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سفارتی تاریخ، حرکیات، مسائل اور امکانات پر ان کی نظر بہت گہری ہے۔ سرکاری عہدوں سے سبکدوشی کے بعد بھی وہ مختلف پلیٹ فارموں میں سفارت اور خارجہ امور کے حوالے سے اپنی خدمات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ زیرنظر گفتگو میں انھوں نے پاکستان اور اس کے ہمسایہ ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی مختلف جہتوں پر گفتگو کی ہے جسے ’ہیرالڈ‘ کے شکریے کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔(مدیر)

عزیز احمد خان کا شمار قابلِ احترام پاکستانی سفارت کاروں میں ہوتا ہے۔وہ کم و بیش چار عشروں تک دفترِ خارجہ سے منسلک رہے اورخطے، بالخصوص بھارت اور افغانستان سے متعلقہ سفارتی معاملات میں اہم کردار ادا کیا۔انھوں نے جولائی 2003 سے نومبر 2006 تک نئی دہلی میں بطور ہائی کمشنر اور دسمبر 1996 سے جون 2000 تک کابل میں بطور سفیر خدمات سرانجام دیں۔اس دوران وہ ترجمان وزارتِ خارجہ اورایڈیشنل سیکرٹری خارجہ کے عہدوں پر تعینات رہے۔سبکدوشی کے بعد وہ بھارت اور افغانستان کے ریٹائرڈ و حاضر سروس سفارت کاروں کے ساتھ غیر رسمی مکالماتی سرگرمیوں (Track-II Dialogue) میں مصروف ہیں۔وہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کی مجلسِ مشاورت کے رکن رہے اور اسلام آباد میں قائم جناح انسٹیٹیوٹ میں رکنِ مجلس اور اعزازی نائب صدر کے عہدوں پر متمکن ہیں۔ اس سرکاری و غیرسرکاری حیثیت کے سبب قریب دو عشروں تک بھارت اور افغانستان کے حوالے سے پاکستانی خارجہ پالیسی کی تشکیل و نفاذ میں وہ ذی اختیار اور مؤثر شخصیت رہے ہیں۔وہ نہ صرف جنوب ایشائی تاریخ پر کامل دسترس رکھتے اور پیچیدہ سفارتی معاملات میں نہایت زیرک ہیں بلکہ مغربی و مشرقی ہمسایوں سے پاکستان کے تعلقات کی مختلف جہات کا مکمل ادراک بھی رکھتے ہیں۔
سنبل خان: آج کل آپ کی کیا مصروفیات ہیں؟
عزیز احمدخان: آج کل اپنے آپ کو وقت دے رہا ہوں۔ ہر وہ کام کرتا ہوں جو میں سمجھتا ہوں کہ کرنا چاہیے، جیسا کہ مطالعہ، دوستوں سے میل جول، سیرو سیاحت اور بیرون ملک رہائش پذیر اپنے بچوں سے ملاقات یا پھروہ چیزیں جن سے مجھے راحت میسر ہو۔ کچھ سرگرمیاں معمول سے ہٹ کر ہیں ، جن کا میں حصہ ہوں ، جو بھارت اور افغانستان کے پاکستان سے تعلقات اورپاکستان، بھارت اور افغانستان کے مابین سہ فریقی مکالمے سے متعلق ہیں جن کے سبب مجھے روز مرہ معمولات سے نکلنے اور کچھ دلچسپ کرنے کا موقع ملتا ہے۔
سنبل خان: دفترِ خارجہ سے آپ کافی عرصہ تک منسلک رہے، آپ نے فوجی اور عوامی ، دونوں طرح کی حکومتوں کے ساتھ کام کیا۔ آپ نے دونوں ادوار کے مابین خارجہ پالیسیوں کی تشکیل و ترتیب میں کوئی فرق محسوس کیا؟
عزیز احمد خان: میں نے 1969 میں فارن آفس میں شمولیت اختیار کی، جب جنرل یحییٰ نے ایوب خان کو بے دخل کر کے زمامِ اقتدار سنبھالی۔ بعد ازاں طویل عرصے کو محیط فوجی حکومت کے بعدہمیں وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ملی۔ پاکستان میں حکومت کی نوعیت جیسی بھی ہو، خارجہ پالیسی کے بارے میں اچھی بات یہ ہے کہ اس میں خاص حد تک تسلسل برقرار رہتا ہے۔حکومتی نوعیت بدل جائے یا حکومت تبدیل ہو، درحقیقت خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات کی مثال لیجئے، 1960 میں قائم ہونے والے تعلقات ابھی تک ویسے ہی خوشگوار ہیں۔ بھارت کے ساتھ مفاہمت کی کوششیں بھی ہر دورِ حکومت میں جاری رہی ہیں۔جہاں تک خارجہ پالیسی کی تعمیل کی بات ہے تو دفترِ خارجہ کافی حد تک آزاد ہے۔ لیکن خارجہ پالیسی مرتب کرنادفترِ خارجہ کاتنہا اختیار نہیں۔ دفترِ خارجہ اس کی تشکیل میں اپنا کردار ضرور ادا کرتا ہے مگر اس میں دیگر متعلقہ اداروں کی رائے بھی شامل ہوتی ہے۔اور جب قومی سلامتی کے امور کی بات آجائے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کی رائے انتہائی اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ اقتصادی معاملات سے متعلقہ حکمتِ عملی کی تشکیل میں کاروباری طبقہ کردار ادا کرتا ہے۔ خارجہ پالیسی میں عوامی رائے کی نمائندگی قانون ساز ادارے کرتے ہیں۔خارجی معاملات کے حوالے سے قانون ساز اداروں میں جب مباحث ہوتے ہیں تو ان کی سفارشات کی ایک یادداشت تیار کر لی جاتی ہے۔
سنبل خان: بیشتر مبصرین کا خیال ہے کہ خارجہ پالیسی سکیورٹی اداروں کے زیرِ اثر رہتی ہے۔ ہمارے جمہوری ادوار میں بھی قومی سلامتی کے ادارے خارجہ پالیسی پر اپنی برتری قائم رکھتے ہیں، اسی لیے امورِ خارجہ سے متعلق حکومتی حکمتِ عملی زیادہ تبدیل نہیں ہوتی؟ آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں؟
عزیزاحمدخان: ہاں بھی اور نہیں بھی۔آپ ذوالفقار علی بھٹو کا دورِ حکومت دیکھیں۔ میرا نہیں خیال کہ اس دور میں خارجی معاملات پر ملکی سلامتی کے ادارے اثر انداز رہے ہوں۔ اس کا تمام تر دارومدارقیادت پر ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ چند خاص امور میں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی رائے کو فوقیت دی جاتی ہے۔ جیسا کہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے اور کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگی برقرار رکھنے کے بھارتی مقصد کے سبب بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملات میں سیکیورٹی اداروں کا کردار اہم ہو جاتا ہے۔ اگر کشمیر اور سیاچن جیسے مسائل نہ ہوں توتمام تر توجہ اقتصادی و سماجی مسائل پر رہے گی اور اس طرح امورِ خارجہ میں سکیورٹی اداروں کے کردار کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ یہ ملکی حالات پر بھی منحصر ہے۔میرا نہیں خیال کہ سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد میں شمولیت کے فیصلے میں عوامی رائے کو مدِ نظر رکھا گیا ہو۔ حاکمِ مطلق ہونے کی حیثیت سے جنرل ضیاء الحق نے تنِ تنہا یہ فیصلہ کیاتھا۔
سنبل خان: بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات تنزلی کی جانب کیوں رواں دواں رہے ہیں؟ میرے خیال میں حالیہ صورتِ حال 1947 میں تقسیم کے ابتدائی ایام سے کہیں بدتر ہے؟
عزیز احمد خان: بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات کی بہتری میں ہمیشہ کشمیر کا عنصر مزاحم رہا ہے۔ بھارت تسلیم کرے یا نہ کرے، حقیقت یہی ہے کہ دونوں ممالک کے مابین بنیادی مسئلہ کشمیرہی ہے۔ اگر آپ پاک بھارت تعلقات کے گزشتہ 70 سالوں پر نظر دوڑائیں تو آپ دیکھیں گے کہ ان میں کشمیر کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے اور کشمیر ہی دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کا رخ متعین کرتا رہا ہے۔نسبتاً عمومی مسائل کے حل میں بھی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔جون 1989 میں دونوں ممالک کے سیکرٹری خارجہ کے درمیان معاہدہ طے پایا کہ سیاچن سے فوجیں ہٹا لی جائیں گی۔ جولائی 1989 میں اس وقت کے بھارتی وزیرِ اعظم راجیو گاندھی مختصر سرکاری دورے پر پاکستان آئے۔ ان دنوں بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیرِ اعظم تھیں۔ آپ اگر اس وقت دیا گیا مشترکہ اعلامیہ دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ جون میں ہونے والے معاہدے کو سراہنے اور جلد از جلد اس پر عملدرآمد کے لیے کامل دو پیراگراف مختص کیے گئے۔ مگر ابھی تک بھارتی اسٹیبلشمنٹ اس معاہدے پر عملدرآمد سے گریزاں ہے۔ہم سیاچن مسئلے کو نسبتاً سہل سمجھتے تھے مگر اس پر بات چیت کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ یہ اس قدر آسان مسئلہ نہیں ہے۔
سنبل خان: آپ کیوں سمجھتے ہیں کہ بھارت ان آسان مسائل کے حل سے گریزاں ہے؟
عزیز احمد خان: بھارتی قیادت سمجھتی ہے کہ بھارت ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے اور پاکستان بہت سی داخلی مشکلات سے دوچار ہے۔وہ سوچتے ہیں کہ وہ پاکستان کو رعایت کیوں دیں؟ وہ پاکستان پر نمایاں مسائل کے حل کے لیے دباؤ کیوں نہ بڑھائیں؟
سنبل خان: بھارت کے ساتھ غیر رسمی مکالموں کے دوران کوئی ایسا وقت آیا جب آپ کو لگا ہو کہ ہاں اب پیش رفت ممکن ہے؟ کیا آپ کی یہ کوششیں پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی امید دلاتی ہیں؟
عزیز احمد خان: صحیح، یہ غیر رسمی مکالمہ دونوں ممالک کے مختلف شعبہ جات کے ماہرین کو بحث و تمحیص کا ایک فورم مہیا کرتا ہے۔جیسا کہ ریٹائرڈ جرنیل، سابق سفارت کار، دانشور ، ماہرین، اہلِ صحافت اور تجزیہ کار وغیرہ۔طرفین سے ایسے لوگ شامل ہیں جو اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور وہ متعلقہ بیوروکریسیز کے مختلف معاملات میں سرکردہ رہے ہیں۔ اس غیر رسمی مکالمے کا مقصد اس فورم پر زیرِ بحث خیالات کو سرکاری پالیسی سازوں تک پہنچانا ہے۔جو لوگ اس غیر رسمی مکالمے میں شریک ہیں، ان کی سفارشات پر غور تو ہو سکتا ہے مگر وہ اپنے خیالات کو اپنی حکومتوں پر تھوپ نہیں سکتے۔مثال کے طور پر ایک مکالمے میں،ہم نے کافی غور وخوض کے بعد (1989 میں ہونے والے) سیاچن معاہدے پر عملدرآمدکا طریقۂ کار وضع کیا۔ ابتداء میں یہ بات خفیہ رکھی گئی مگر بعد ازاں اسے عام کردیا گیا۔ بھارت میں اس پر اتنا اودھم مچا کہ اس مکالمے میں شریک بھارتی ماہرین سر چھپاتے پھرتے تھے۔ انھیں وجوہات کی بنیاد پر سرکاری سطح پر ایساسوچنا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ پاکستانی لوگ اس معاملے میں زیادہ وسیع النظر ہیں۔ وہ سرکاری بیانیے سے خود کو باندھ کر نہیں رکھتے، اپنی آراء کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اور دوسری طرف میں نے دیکھا کہ چند ایک نمایاں شخصیات کے استثناء سے ،تقریباً تمام لوگ سرکاری مؤقف کے دائرہ کار میں ہی رہتے ہوئے بات کرتے ہیں۔
سنبل خان: بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں؟
عزیز احمد خان: بھارت ارتقائی مراحل سے گزررہا ہے۔ ممکن ہے وہ گاندھی اور نہرو کا سیکولر بھارت نہ رہے۔ ایک نیا بھارت جنم لے رہا ہے۔ دیکھئے یہ کیا رخ اختیار کرتا ہے۔اگر یہ وہی رخ اختیار کرتا ہے جیسا کہ کرتا دکھائی دے رہا ہے تو پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات مزید خراب ہو جائیں گے۔اور یہ بھی کہ اب ایسی کوئی بات باقی نہیں رہی جس پر بھارت کے ساتھ بات کی جائے۔ ہم ہر ایک چیز کونہ صرف زیرِبحث لا چکے ہیں بلکہ مسائل کا حل بھی تجویز کر چکے ہیں۔ہم مکمل طور پر جانتے ہیں کہ دو طرفہ مسائل کے حل کے لیے کیا راہ اختیار کرنی چاہیے۔ تمام مسائل، بشمول کشمیر مختصر دورانیے میں طے کیے جاسکتے ہیں، بشرطیکہ جانبین مل بیٹھیں اور(گزشتہ بات چیت کے نتائج پر) عملدرآمد کے لیے بات شروع کر دیں۔ اگر ہم ان تمام چیزوں کو دیکھیں جن پر ہم اتفاق کر چکے ہیں ، اور ان پر عملدرآمد شروع کردیں تو تمام نہ سہی، زیادہ تر مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ صدر مشرف مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے چار نکاتی فارمولا پیش کر چکے ہیں۔ لوگوں نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا مگر میں سمجھتا ہوں یہ ایک اچھا قدم تھا۔جو کچھ بھی رازداری سے زیرِ بحث رہا، وہ مسائل کا حتمی تصفیہ تو نہیں تھا مگر۱۵ سے۲۰ سال کے عرصے پر محیط باہمی اعتماد کی بحالی کا ایک عمل ضرور تھا۔ جو نتیجتاً دو طرفہ تناؤ کو کم کرتا، کشمیر میں تعینات ہندی افواج کی بھاری نفری کی واپسی میں مددگار ہوتا اور کشمیری عوام کے لیے سکھ کا باعث بنتا۔ ایک دفعہ ایسی فضا بن چکی تھی جہاں تناؤ میں کمی یا اس کا خاتمہ ممکن تھا اور جو ایک ایسے حتمی حل کا موجب بنتی جو کشمیری عوام، پاکستان اور بھارت، تینوں فریقوں کے لیے قابلِ قبول ہوتا۔ مجھے ایسا لگتا ہے ، خدا کرے میرا خیال غلط ہو، بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔حتیٰ کہ اب بھی کوئی بات چیت چل رہی ہے تو یہ نتیجہ خیز نہیں ہو گی۔ہاں اگرعالمی برادری بھارت پر دباؤ ڈالتی ہے تو ممکن ہے بھارت کوئی پیش رفت کرے مگر یہ بھی محض ایک رسمی تعمیل ہو گی۔
سنبل خان: تو کیاآپ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو اسٹیٹس کو کی بنیاد پر بھارت سے تعلقات قائم کرنے چاہئیں؟
عزیز احمد خان: اگر بھارت بات چیت پر آمادہ نہیں ہے تو پاکستان ماسوائے کوشش کرتے رہنے کے کیا کرسکتا ہے۔ہم یہ ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ ہم وہی کریں گے، جو بھارت چاہے گا۔
سنبل خان: آپ کے خیال میں دونوں ممالک کے مابین فقدانِ امن اور چھوٹے پیمانے پر موجود باہمی مخاصمت برقرار رہے گی؟
عزیز احمد خان: نہیں۔ آپ کو مسائل حل کرنے چاہئیں۔بھارت کے لیے بھی یہی بہتر ہے تاکہ وہ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 500 ملین شہریوں کی بہتری پر اپنی تمام تر توجہ مرکوزکر سکے۔اسی طرح اگر بھارت عالمی طاقت بن کر ابھرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن طور پر رہنا ضروری ہے۔ اس وقت غالباً بھوٹان کے علاوہ تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھارت کے تعلقات قابلِ تعریف نہیں ہیں۔
سنبل خان: یعنی بنیادی طور پر بھارت کو پاک بھارت مسائل پر توجہ اس لیے دینی چاہیے کہ وہ ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت ہے؟
عزیز احمد خان: بنیادی طور پر خطے میں امن کے لیے اور اپنے مفادات کے لیے بھی۔ ان اخراجات کو دیکھیے جو بھارت کو لائن آف کنٹرول پر تعینات فوجیوں ، اور کشمیر میں تعینات 750,000 بھارتی فوجیوں کے لیے برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ اگر کشمیر میں امن قائم ہو جاتا ہے تو بھارت کو وہاں فوج کی تعیناتی کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اسی لیے مسائل کا حل خود بھارت کے مفاد میں ہے۔ اور وہ جتنا جلدی ایسا کریں گے، اتنا ہی یہ ان کے لیے سود مند رہے گا۔بھارت دہشت گردی کے مباحث میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے اور ہمیں بھی اس موضوع میں دلچسپی ہے۔ بھارت پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کی کارروائیوں میں ملوث رہا ہے،یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، بھارت عشروں سے ایسا کرتا چلا آرہا ہے۔ اولاً بلوچستان میں مشکلات کو سوویت یونین نے جنم دیا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعداس کی دلچسپی یہاں ختم ہوگئی اور بھارت نے اس خلا کوپورا کیا۔کلبھوشن یادیو والا معاملہ ابھی ہی کی بات ہے۔ یقیناً بھارت یہی کہے گا کہ وہ معصوم ہے اور پاکستانی خفیہ اداروں نے ایران میں کہیں جا کر اسے پکڑا ہے مگر حقیقت وہی ہے جس کا وہ (کلبھوشن یا دیو) اعتراف کرچکا ہے۔کلبھو شن سے پہلے کشمیر سنگھ اورسربجیت سنگھ والے معاملے بھی اسی نوعیت کے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا تھاکہ وہ عام افراد تھے اور غلطی سے سرحد عبور کر لی تھی۔ آخر کار جب وہ رہا ہوکر بھارت پہنچے تو جاتے ہی دعویٰ کیا کہ وہ پاکستان میں جاسوسی کرنے گئے تھے اور انھوں نے پاکستان میں کئی دہشت گرد کارروائیاں کی ہیں۔ دہشت گردی کے مسئلے پر دونوں ممالک کو بات چیت کرنی چاہیے۔یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ داعش کے ظہور سے دہشت گردی مزید پیچیدہ شکل اختیار کر چکی ہے۔ پاکستان اور بھارت کومل کر کام کرنا پڑے گاتاکہ اس آفت کے سامنے بند باندھا جا سکے۔
سنبل خان: پاک افغان تعلقات بھی اسی طرح کی صورتِ حال سے دوچار ہیں، درحقیقت تنزلی کی جانب رواں دواں ہیں۔ آپ کافی عرصہ ان معاملات میں شریکِ کار رہے۔آپ ان تعلقات کی موجودہ حالت کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
عزیز احمد خان: نائن الیون اور افغانستان پر امریکی حملے کے بعد جس نہج سے واقعات رونما ہوئے ،یہ ہماری بد قسمتی ہے۔افغان اقتدار سے الگ کر دینے کے بعد امریکا نے طالبان سے بات چیت کے لیے ذرہ برابر کوشش نہیں کی۔ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جو ان کے لیے ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے کا محرک بنے۔امریکیوں نے غلط حکمتِ عملی اپنائی، یہ سوچ کر کہ وہ طالبان کو غاروں سے نکال کر تباہ کرڈالیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ حامد کرزئی نے عبوری صدر کا عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد اعلان کیا کہ ریاست کے خلاف لڑنے والے اگر ہتھیار ڈال دیں تو انھیں( قومی دھارے میں واپسی پر) خوش آمدید کہا جائے گا۔ اور اگلے ہی دن غالباً امریکا کے دباؤ میں آکرانھوں نے یہ بیان واپس لے لیا۔ ریاست مخالف عناصر سے بات چیت کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، بالخصوص پختون علاقوں میں جہاں سے طالبان نے جنم لیا تھا اور نہ ہی یہاں کوئی ترقیاتی کام کروائے گئے۔ اور پھر جو عبوری حکومت قائم کی گئی اس میں بھی زیادہ تر لوگ شمالی اتحاد سے تعلق رکھتے تھے،جو طالبان مخالف جذبات کے حامل تھے۔ان کا خیال تھا کہ وہ طالبان کو طاقت کے ذریعے کچل دیں گے۔ممکن ہے وہ اس میں کامیاب ہو جاتے ، بشرطیکہ وہ حکومتی نظم پر زیادہ توجہ دیتے۔
سنبل خان: پاک افغان تعلقات کی بہتری کے لیے پاکستان کیا اقدامات کرسکتا ہے؟
عزیز احمد خان: غیر معمولی طور پر باہمی اعتماد کا فقدان ہے۔ہر فریق دوسرے کو دوہری چال چلنے کا الزام دے رہا ہے۔ امریکی اور افغان سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ دوہرا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اور ہم امریکا اور افغانستان کے بارے میں ایسا ہی سوچتے ہیں۔ نتیجتاً افغان صورتِ حال بدتر ہو چکی ہے۔ طالبان دوبارہ ابھر رہے ہیں، داعش اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے۔تحریک طالبان پاکستان ،جسے ہم ختم کر چکے ہیں افغانستان میں ٹھکانہ بنا چکی ہے۔ پاکستان کو افغان حکومت کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ کوئی اور راستہ ہے نہیں۔ امریکا کو بھی دیانت دارانہ طور پر بات چیت کرنے اور یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ باہمی تعاون کیسے ممکن ہے کیونکہ افغانستان کے تمام مسائل امریکا کے پیدا کردہ ہیں۔تینوں ممالک کو چاہیے کہ وہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے باہمی تعاون کی جہتوں پر غور کریں۔
سنبل خان: آپ افغانوں کے ساتھ بھی غیر رسمی مکالموں میں شریک رہے ہیں۔اس دوران کونسی ایسی وجوہات سامنے آئیں جو مشکلات پیدا کر رہی ہیں؟
عزیز احمد خان: افغانوں کا خیال ہے کہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں ہیں اور وہ افغانستان میں کارروائیوں کے لیے خود کو یہیں منظم کرتے ہیں۔ہم نے افغانوں سے کہا کہ طالبان رہنما ممکن ہے یہاں رہائش پذیر ہوں لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ایسا کوئی نظام العمل ہونا چاہیے کہ ہم انھیں اس بات پر قائل کر سکیں کہ افغانستان میں کارروائیاں ہمارے علاقوں سے منظم نہیں کی جاتیں۔
سنبل خان: اس نظام العمل سے آپ کی کیا مراد ہے؟
عزیز احمد خان: میرا مطلب تشہیرو اشاعت سے دور رہتے ہوئے خفیہ ایجنسیزاور سکیورٹی فورسز کے مابین خاموش بات چیت کا عمل ہونا چاہیے۔ اگر کہیں شکوک و شبہات ہیں تو انھیں دور کرنا چاہیے۔یہ پاکستان کے مفاد میں ہے، کیونکہ پاکستان یہ طے کرچکا ہے کہ اس کی زمین کی کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، چاہے وہ بھارت ہو، افغانستان یا کوئی اورملک۔ چونکہ یہ تمام سرگرمیاں ہمارے قابو میں نہیں ہیں تو ہم نے افغان پناہ گزینوں کو یہاں سے بے دخل کرنا شروع کردیا۔لیکن یہ اتنے تلخ طریقے سے نہیں ہونا چاہیے تھا۔
سنبل خان: حال ہی میں مبینہ طور پر ٹی ٹی پی کی جانب سے کیے گئے حملوں کے بعد پاک افغان سرحد بند کر دی گئی تھی۔یہ عمل افغانستان میں غم و غصے کا موجب بنا کیونکہ اس سے زیادہ تر عام افراد اور تاجر متاثر ہوئے۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
عزیز احمد خان: جب پاکستان نے ضربِ عضب شروع کیا تو امریکا اور افغانستان کی افواج کو اس خدشے سے آگاہ کیا گیا کہ پاکستانی طالبان افغانستان منتقل ہو سکتے ہیں۔مگر اس طرف سے کوئی اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔ دوسرا یہ کہ وہ افغان علاقے جہاں ٹی ٹی پی کے ٹھکانے موجود ہیں، وہاں تک رسائی مشکل ہے۔آپ وہاں کسی کی نظر میں آئے بغیر آرام سے چھپ سکتے ہیں۔میں نہیں سمجھتا کہ افغان فوج ان علاقوں میں کارروائی کی استطاعت رکھتی ہے۔فوج ان علاقوں میں بھی کنٹرول قائم نہیں کرسکتی جو جغرافیائی لحاظ سے نسبتاً آسان ہیں۔امریکیوں کے پاس ڈرون ہیں، ان کے پاس اور طرح کی سہولیات ہیں۔انھیں اس پر توجہ دینی چاہیے کہ کس طرح ان افغان علاقوں سے پاکستانی طالبان کو نکالا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے مفاد کے لیے نہیں ،اس لیے کہ مجھے خدشہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگ داعش میں شامل ہو سکتے ہیں، اور داعش کے پاس ان عناصرکو دینے کے لیے رقم بھی ہے۔کچھ افغان طالبان بھی داعش کے ساتھ منسلک ہوسکتے ہیں کیونکہ ملا عمر کی وفات کے بعدان میں مضبوط مرکزی قیادت کا فقدان ہے۔امریکیوں کو را ( بھارتی خفیہ ایجنسی) اور این ڈی ایس( افغان خفیہ ایجنسی) کے گٹھ جوڑ کی خبروں پربھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جن کے مطابق دونوں خفیہ ایجنسیاں ان عناصر کو پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ در اندازی کی یہ سرگرمیاں پاک بھارت تعلقات کی اصل آئینہ دار ہیں۔
سنبل خان: نائن الیون سے پہلے طالبان حکومت سے آپ کا واسطہ رہا۔ہم نے سن رکھا ہے کہ وہ خودسر اور سخت گیر ہیں ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ان میں کچھ لچک آئی ہے یا اب بھی اسی طرح ہیں؟
عزیز احمد خان: سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ وہ کن حالات میں سامنے آئے۔یہ کہہ دینا آسان ہے کہ پاکستان نے انھیں تخلیق کیا۔ان دنوں افغانستان 450 مختلف جنگجو راہنماؤں میں بٹ چکا تھا، چھوٹے چھوٹے علاقوں پر ان کا تسلط قائم تھا۔ افغان حکومت کی عملداری کابل کے ایک چوتھائی حصے کے سوا افغانستان میں کہیں نہیں دکھائی دیتی تھی۔ طالبان کااندازِ حکومت جابرانہ تھا، زندگی سے متعلق ان کا رویہ قرونِ وسطیٰ سے مماثلت رکھتا تھا۔ انھوں نے نظامِ حکومت اس طرح چلایاجیسے کوئی مُلّا یا قبائلی راہنما کسی گاؤں کا نظام چلاتا ہے۔ لیکن جو بھی انکی خامیاں رہی ہوں ، ایک بات انتہائی قابلِ ستائش ہے کہ انھوں نے تمام جنگجو سرداروں کی عملداری کو ختم کرتے ہوئے امن و امان کو یقینی بنایا۔
سنبل خان: ان کے ساتھ آپ کی ملاقاتیں کیسی رہیں؟
عزیز احمد خان: وہ پر عزم اور سخت گیر تھے، تاہم ان میں کچھ حقیقت پسند لوگ بھی تھے۔وہ عام حالات میں نرم خو نظر آتے تھے۔ہم نے اس وقت شمالی اتحاد اور طالبان کے درمیان مفاہمت کے لیے کوششیں کی تھیں۔ طالبان اور شمالی اتحاد سے ہمارا مسلسل مطالبہ تھا کہ انھیں ایک دوسرے کے لیے گنجائش پید ا کرنی چاہیے۔ جب کابل میں بطور سفیر میری تعیناتی ہوئی تو سب سے پہلے میں جن لوگوں سے ملا ، وہ شمالی اتحاد سے تھے۔ اس ملاقات میں سیکرٹری خارجہ نجم الدین شیخ میرے ہمراہ تھے۔
سنبل خان: شمالی اتحاد میں سے آپ کی ملاقات کس سے ہوئی؟
عزیز احمد خان: وفد کی سربراہی عبدالرشید دوستم کر رہے تھے اور تمام اتحادی جماعتوں کے نمائندے اس وفد میں شامل تھے ۔اگلے دن ہم قندھار گئے ، ملا عمر سے ملاقات کی اور انھیں تفصیلی طور پر بتایا کہ کیا کچھ ہو رہا ہے اور ہم کیاسمجھتے ہیں کہ کیا ہونا چاہیے۔ اس دور میں طالبان اور شمالی اتحاد کے ساتھ ایسی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ شمالی اتحادکے لوگ بھی طالبان کی طرح سخت گیر اورخودسرتھے۔ امن و سلامتی کا قیام ایک ایسی چیز تھی جس کے سبب طالبان کو عوام کا اعتماد حاصل تھا۔ افغان عوام یہ محسوس کر رہے تھے کہ کم ازکم انھیں جنسی زیادتیوں، ڈکیتیوں اور قتل و غارت سے نجات مل گئی ہے۔ اسی لیے وہ طالبان کی حکومت سے مطمئن تھے۔
سنبل خان: افغانستان میں طالبان سے مفاہمت پاکستانی حکمتِ عملی کا بنیادی مقصد ہے؟ پاکستان مفاہمت کے عمل کو جاری رکھنے کے لیے سفارتی طور پرکچھ کر سکتا ہے؟
عزیز احمد خان: یہ مفاہمتی عمل افغان قیادت اور افغان شراکت داروں کے مابین ہے۔ یہ افغان حکومت اورافغان طالبان ہیں جنھیں مل بیٹھنا اور بات چیت کرنا ہے۔ہم اس مذاکراتی عمل کے لیے صرف سہولت فراہم کر سکتے ہیں۔( امریکا، پاکستان، چین اور افغانستان پر مشتمل) چار فریقی گروپ کی تشکیل اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ایک اچھا قدم تھا۔ اس کے ممبر ممالک واقعتاً اہمیت کے حامل ہیں۔ امریکا، افغان معاملات میں اہم فریق ہے۔ پاکستان کے طالبان اور افغان حکومت، دونوں کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔اور چین واحد ملک ہے جس کے طالبان سے براہِ راست کوئی مفادات وابستہ نہیں ہیں۔ جب طالبان برسرِ اقتدار تھے تو چین ان کے ساتھ خاموشی سے تعلقات قائم کر چکا تھا، ان کے معاملات میں دخل اندازی اور ان پر کوئی دباؤڈالے بغیر، صرف افغانستان کی بہتری کے لیے۔اور میرا خیال ہے کہ افغان طالبان چینیوں پر اعتماد کرتے ہیں، اسی وجہ سے آپ دیکھ چکے ہیں کہ طالبان کے اکثر اجلاس چین میں منعقد ہوتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ اس (چار فریقی) گروپ کا احیاء ہو، ضرورت اس بات کی ہے کہ طالبان کے دوحہ دفتر یا جو بھی طالبان رہنما بات چیت کے لیے میسر ہوں ، سے رابطے کے لیے خطے کے دیگر ممالک اس گروپ کے ساتھ تعاون کریں۔
سنبل خان: پاکستان اور روس کے مابین تعلقات کے نئے دورکے آغاز اور ان میں وسعت کو آپ کس زاویے سے دیکھتے ہیں؟
عزیز احمد خان: اگرچہ پاکستان کے قیام سے ہی روس کے ساتھ تعلقات کے لیے کوششیں شروع کر دی گئی تھیں مگر ہم نے عموماً انھیں نظر انداز کیے رکھا ہے۔ اگر آپ وہ وقت یاد کریں جب ایوب خان کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو نے روس کا دورہ کیا تھا۔ اسی دوران روس نے یہاں سٹیل مل قائم کی۔بعد ازاں سرد جنگ کی وجہ سے، اور پھر بلا ضرورت یا شاید مجبوراً امریکی کیمپ میں ہماری شمولیت نے ان تعلقات کو اس طرح نہیں پنپنے دیا جیسے کہ یہ پنپنے چاہئیں تھے۔میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو اس موقعے سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ دنیا اس وقت ملٹی پولر بننے جارہی ہے۔ پاکستان اور روس کے درمیان تجارت اور تکنیکی تعاون کے غیرمعمولی امکانات موجود ہیں۔
سنبل خان: پاکستان کے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کیا رخ اختیار کر رہے ہیں؟کیانئی امریکی انتظامیہ سے ساتھ ہمارے تعلقات اوباما انتظامیہ کی نسبت بہتر جارہے ہیں؟
عزیز احمد خان: ٹرمپ انتظامیہ نے ابھی تک پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی کا اظہار نہیں کیا ہے، سو ہمیں انتظار کرنا ہو گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔افغانستان میں قیامِ امن کے لیے پاکستان اور امریکا کو مل کر کام کرنا ہوگا۔اس حوالے سے امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر ہربرٹ ریمنڈ میک ماسٹر کا حالیہ دورہ اہمیت کا حامل ہے۔
سنبل خان: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ جنوبی ایشیا، بالخصوص افغانستان کے حوالے سے امریکا اور پاکستان کے اہداف ایک ہی ہیں ؟
عزیز احمد خان: مختلف سازشی نظریات جنم لے رہے ہیں کہ امریکا افغانستان میں مستقل موجودگی کے بہانے تلاش کر رہا ہے تاکہ وہ وسط ایشیا کے وسائل پر تسلط برقرار رکھ سکے۔ میں ان سے اتفاق نہیں کرتا۔ وسط ایشیائی ممالک اپنے وسائل سے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، چاہے وہ تیل ہو، گیس یاکوئی اور معدنیات۔اور وہ ہر اس ملک کو خوش آمدید کہیں گے جوایسا کرنے کے لیے ان کی معاونت کر سکتاہے۔ وہ امریکا کا بھی خیر مقدم کریں گے اگر وہ معدنیات، تیل یا گیس کو زمین سے نکالنے کے لیے اپنی کمپنیوں کو یہاں بھیجے گا۔ امریکا افغانستان میں اپنی فوج کے قیام پر اتنی خطیر رقم کیوں خرچ کرے گا ؟( جبکہ وہ اپنی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے ان وسائل تک رسائی حاصل کر سکتا ہے) مجھے یقین ہے کہ امریکا افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے۔ ان کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ افغانستان ماضی کی طرح دہشت گردی کی سرگرمیوں کا مرکزنہ بنے۔ اس بات کا بھی خدشہ موجودہے کہ افغانستان داعش کی آماجگا ہ بن سکتا ہے۔ہمیں اور تمام دنیا کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
سنبل خان: کیا امریکا اور بھارت کے مابین بڑھتے ہوئے دفاعی مراسم پاکستان اور امریکا کے تعلقات پر مضر اثرات ڈال سکتے ہیں؟
عزیز احمد خان: یہ بڑھتے ہوئے تعلقات پاکستان کے لیے اچھا شگون ہو سکتے ہیں۔اگر امریکا کے بھارت کے ساتھ گہرے تعلقات ہوں گے تو اس کے لیے پاکستان سے تعلقات کی بہتری پر بھارت کو آمادہ کرنا آسان ہو گا۔اگر امریکا کو یہ احساس ہو جائے کہ برِ صغیرمیں تنازعات کی موجودگی اس کے مفادات کے لیے زہرِ قاتل ہے اور وہ یہ جانتا ہے کہ پاکستان پاک بھارت تعلقات میں بہتری کا زیادہ متمنی ہے تو ممکن ہے وہ دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت کے لیے موزوں کردار ادا کرے۔امریکا ہمارا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار اور سب سے زیادہ امداد فراہم کرنے والا ملک ہے۔ہمارے زیادہ تر فوجی ہتھیار امریکا سے آتے ہیں۔ہمیں امریکا سے اپنے تعلقات کے فروغ کے لیے کوششیں جاری رکھنا ہوں گی۔
سنبل خان: ان حالات میں جبکہ تقریباً تمام ہمسایوں کے ساتھ ہمارے تعلقات روبہ زوال ہیں، آپ موجودہ وزیرِ اعظم کو کیا تجاویزدینا چاہیں گے؟
عزیز احمد خان: میں حکومت سے کہنا چاہوں گا کہ وہ افغانستان کے ساتھ کشیدگی نہ بڑھائے۔ یقیناً صورتِ حال مایوس کن ہے مگر ہمیں افغانستان کو درپیش مشکلات کا ادراک کرنا ہوگا۔میں سرحدی نگرانی کا مکمل حامی ہوں۔ اسمگلنگ اور غیر قانونی نقل و حمل کے باعث سرحد کی نگرانی ضروری ہے۔لیکن ہمیں یہ بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے کہ عام افراد برسوں سے آمدورفت کے لیے سرحدی راستے استعمال کر رہے ہیں۔ دستاویزی ریکارڈ رکھنا اہمیت کا حامل ہے مگر سرحدی علاقوں میں رہائش پذیر آبادیوں کے افراد کوسرحد پار موجود رشتہ داروں کے ہاں خوشی غمی میں شرکت کے لیے کابل یا جلال آبادسے پاسپورٹ لے کے آنے کا کہنا بذاتِ خود انتہائی تکلیف دہ ہے۔ ریکارڈ رکھنے کا کوئی اور راستہ بھی نکالا جا سکتا ہے۔ہمیں افغانوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا چاہیے ، کیونکہ صرف دہشت گر دعناصر ہی سرحد پار نہیں کرتے۔ اس طرح سرحد بند کردینا انتہائی مذموم عمل تھا۔اسی طرح پناہ گزینوں کو وطن واپس جانا چاہیے مگر ان میں اچھی خاصی تعدادایسی ہے جو یہیں پیدا ہوئے۔وہ کسی اور جگہ سے واقف نہیں۔ انھوں نے تعلیم یہیں سے حاصل کی۔ کابل میں نجی و سرکاری شعبہ میں کام کرنے والے کم و بیش 30,000 افراد ایسے ہیں جنہوں نے پاکستان سے تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ہمیں سوچنا ہے کہ ہم نے کہیں انھیں مشکل میں تو نہیں ڈال دیا۔بجائے اس کے کہ ہم ان کی نیک خواہشات کماتے ، ہم ان کی خفگی و ناراضی مول لے رہے ہیں۔ یہ جاننا کس قدر اذیت ناک ہے کہ کابل میں موجود ہر شخص پاکستان مخالف ہے۔ یہی کچھ ٹرانزٹ ٹریڈ کے ساتھ ہورہا ہے۔ اس کے ذریعے اسمگلنگ ہوتی رہی ہے۔ مگر اس میں تنہا افغان نہیں، پاکستانی بھی ملوث رہے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم اس پر قابو کیسے پا سکتے ہیں۔شاید ہمیں اپنی پالیسیوں میں ہم آہنگی لانے کی ضرورت ہے جبکہ درآمدات پر محصولات کی شرح دونوں اطراف میں پہلے ہی برابر ہے۔
حکومت کو میری تجویز ہے کہ بھارت کے ساتھ بھی تحمل کا مظاہرہ کرے۔بھارت تبدیلی کے پیہم عمل سے گزررہا ہے۔ہمیں دیکھنا ہے کہ ہندوتواکا اثرو رسوخ کہاں تک رہتا ہے۔ یہ اثرو روسوخ بھارت میں ہندو طالبانائزیشن کا پیش خیمہ ہے یا پھرمحض ایک عارضی پڑاؤ۔ ہمیں بھارت کو یہ پیغام دیتے رہنا چاہیے کہ وہ جب بھی چاہے ہم مفاہمتی عمل کے لیے تیار ہیں مگر یہ خیال رہے کہ ہم بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اس پر دباؤ نہیں ڈال سکتے۔ہمیں امریکا جیسے اپنے با اثر دوستوں سے یہ کام لینا چاہیے کہ وہ بھارت کو قائل کریں کہ پاکستان کے ساتھ مفاہمت اس کے اپنے مفاد میں ہے۔
( بشکریہ: ہیرالڈ)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...