مجھ سے جھوٹ مت کہیے!

1,324

 

سچ کی کو ئی تاریخ ہے؟ یہ سوال بجائے خود ایک تاریخ ہے یا پھر  ایسی دنیا میں  تاریخ کی کوئی شے بن کر رہ گیا ہے جو سچ کو متبادل حقیقت کے طور پر دیکھنےکی جانب تیزی سے مائل ہو رہی ہے  ۔ عمومی تصور یہ   ہے کہ سچ فطرتِ انسانی کا وصفِ لازم یا تمام جاندار مخلوقات کی جبلتِ  ازلی ہے ۔تاریخ  ہمیں بتلاتی ہے کہ سچ     کو ہمیشہ انسانوں کی خاصیتِ طبعی  کے طور پر دیکھا گیا ہے  جو مہ و سال کے پیہم تغیر کے ساتھ پنپتی رہی ہے، جس نے صدیوں سے  ہزار ہا تہذیبی  ،سماجی  اور  ثقافتی  بھوگ بھوگے ہیں۔ مذہب کو سچ کی قدروں کا اولین امین خیال کیا جاتا ہے،جو ان قدروں  کی تطہیرو بنیاد اور    دروغ کی شناخت کے لیے بطورمعیارسچ کی افزائش و نمو  کا دعویٰ رکھتا ہے ۔

تہذیبی عمل کی سبک روی کے سبب  سچ اور جھوٹ کو جانچنے کے نئے تناظرات  جنم لے رہے ہیں، “ما بعد سچ” بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ فلسفی مورخ جولیان باگینی اپنی  تازہ تصنیف ،” سچ کی مختصر تاریخ:  ما بعد سچ دنیا کی اشک شوئی” میں  فلسفیانہ نقطہِ نگاہ سے اسی نظریےکو زیرِ بحث لائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ  سچ  کی ابھی تک   کوئی مطہرصورت   سامنے نہیں آئی ، تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سچ  کبھی رواج  نہیں پاسکتا۔ انہوں نے سچ کی دس صورتیں بیان کی ہیں جو دراصل فلسفیانہ منطقی مباحث کا نچوڑ ہیں، اور وہ انہیں کی بنا پر سچائیوں کی تاریخ کھنگال لائے ہیں۔وہ سچ کی درج ذیل اقسام  تحریر کرتے ہیں:  دائمی، مستبد ،  مخفی،منطقی،مثبوت،اختراعی( تخلیقی، ایجادی) ، اضافی ، طاقتور، اخلاقی او رکُلّی۔

صاحبِ کتاب بذات خود اخلاقی سچائیوں کے پرچارک نظر آتے ہیں ۔ وہ   ان قدروں اور  بطوراجتماعی  کارِسماج   سچ کے امکانات پر یقین کی بحالی کے آرزو مند ہیں ۔بڑے وثوق سے وہ یہ بات کہتے ہیں کہ سچ کے متلاشیوں کوکلبیت کی بجائے  تشکیکیت کا پیرو ہونا چاہیے۔ در حقیقت وہ سچ کوتہذیبِ انسانی کی اولین اور بنیادی  قدر کے طور پر دیکھتے ہیں اور ان کے خیال  میں تیزی سے بدلتی دنیا میں  اسے قدرِ متروک نہیں بن جانا چاہیے۔باوجود اس کے کہ زمانہِ حال میں سچ آسان اور سادہ نہیں رہا ہے،  مصنف کسی ثبوت کے بنا یہ  دعویٰ کرتے ہیں کہ بیشتر لوگوں کا اب اس پر ایمان نہیں رہا اور یہ کہ دنیا  سچ کو خدا حافظ کہنے پر آمادہ ہے نہ ہی وہ ایسی کوئی خواہش رکھتی ہے۔

جولیان باگینی وضاحت کرتے ہیں کہ  سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق کرنا ایک پیچیدہ عمل ہےاور ہماری پسند نا پسند میں ہمارے جذبات کا کافی عمل دخل رہتا ہے۔ سچائیوں کو  احاطہِ ادراک میں لانا، ا ن کی دریافت،  تشریح و توضیح  اور  توثیق و تصدیق کرنا نہایت کٹھن ہے۔ جذبات نہ صرف سچ کو مجروح کرتے ہیں بلکہ ایک ایسی صورتِ حال پیدا کرتے ہیں جس میں  ہر ایک  سچائیوں   کی تفہیم کے لیے  خود ساختہ   راہ استوار کر لیتا ہے ۔ مصنف اسے  ممکنہ طور پر مابعد سچ صورت گری  کا عمل تصور نہیں کرتے  بلکہ ایسی متناقضانہ  نفسیات کا مظہر سمجھتے ہیں جن میں لوگوں کی اکثریت اکثریتی رائے کو قبول نہیں کرتی۔وہ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں  “دوسرے الفاظ میں ، لوگوں کی کثیر تعدادکم از کم کسی  ایک  ایسے الہامی تصور پر ایمان ضرور رکھتی ہے، جسے   اکثریت جھٹلا چکی ہو۔ یہ ہر اس شخص کے لیے عبرت ہے جو کسی اجماعی دانش پر اعتماد کرتا ہے۔”

مصنف کے نزدیک سچ کے متلاشیوں کی ایک دلچسپ قسم مطلق ظاہر پرستوں کی ہے جو اپنے تیقن کو مجازی استعارات و تمثیلات سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتےاورلفظیت سے متعلق  ان میں     سے بیشتر کا رویہ جو دل کو بھائے لو، جو نہ بھائے پھینک دو جیسا  ہے، جو کچھ چیزوں کو سچ مان کر  ان پر یقین کر لیتے ہیں  اور باقی کو قصے کہانیاں  کہہ  کے رد کردیتے ہیں۔

چوتھے باب  میں منطقی سچ  کے خد و خال پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے مصنف عمل استنباط  پر روشنی ڈالتے ہیں ، اس دوران ان کی اپنی قائم کردہ آراء اس بحث کو اہم بنا دیتی ہیں  جو بجائے خود معقولیت سے آہنگ نہیں رکھتیں اور جن  کی عقلی توجیح پیش کرنا ناممکن ہے۔تاہم مخفی یا پوشیدہ سچائیوں کا اپنا دائرہ ہے۔انتہائی قدیمی تصور ہے کہ کچھ سچ ایسے ہیں جنہیں محض چند ایک افراد پرافشا کیا گیا ہے اور یہی تصور عقیدے کی بنیاد ہے، جہاں نہ صرف تمام مذاہب بلکہ سائنس اور توہمات ہم آمیز ہو جاتے ہیں۔

صاحبِ تصنیف  سازشی نظریات سے اعراض نہیں برتتے بلکہ وہ انہیں سچ تک پہنچنے کا راستہ خیال کرتے ہیں۔وہ نمایاں طور پر اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ تجربات میں پیش رفت نہ ہونے کی بنا پر سائنس دان زیرِ غور مفروضے سے مکمل طور پر دست بردار نہیں ہو جاتے  بلکہ وہ اختیار کردہ طریق و قیاس پر نظرِ ثانی  کرتے  ہیں تاکہ غلطی کی نشاندہی ہو سکے،  اس طرح موافق تجربات سے مفروضے کو پرکھنے کی دوبارہ کوشش کی جاتی ہے۔  اسی طرح جو لوگ حکومت کو مرکز مانتے ہوئے سچ اور وجوہات کے اثرات  کا تجزیہ کر رہے ہیں، انہیں  ابھی مایوس نہیں ہو جانا چاہیے۔مگر شاید ہم غلط چیزوں کو کھنگالتے رہے ہیں۔ جولیان باگینی اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں کہ کسی مطلق سچ کی علتِ اصلی کا موجود نہ ہونا ممکنات میں سے  ہے۔ ان کے مطابق عقلیت ایک ایسا آمیزہ ہے جو  محض منطق  سے تیار نہیں ہوتا بلکہ اس کے اجزائے ترکیبی میں  تجربہ و مشاہدہ، ثبوت و شواہد،  فہم و ادراک، نکہتِ خیال اور ابہام کے لیے حساسیت شامل ہیں۔ عقلیت    سچ کے قریب تر لے جانے کا  با اعتماد راستہ ہے۔

مصنف حقیقت پر مبنی سچائیوں کو  تفصیلاً بیان کرتے ہیں جس  کے تحت بنیادی طور پر اٹھارویں صدی کےسائنسی نقطہِ نظر  اور  تجرباتی سچائیوں  کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہاں وہ خالصتاً  الٰہیانہ زاویے سے  اس بات پر زوردیتے ہیں کہ ایسے نقطہ ہائے نظر ہمیں آگہی سے روشناس کرانے کی بجائے غیریقینیت کے اندھیروں میں لا کھڑا کرتے ہیں، کیوں کہ غیر یقینیت  تجرباتی  سچائیوں کا لازمہ ہے۔ دوسری طرف وہ  اس بات پر بھی  متفق ہیں کہ تجزیے کے لیے سچ کی  ہمہ دم موجودگی اسے مزید معتبر  بنا تی ہے۔

صاحبِ کتاب  اس بات کی توضیح کرتے ہیں  کہ  طاقت یا رتبہ  کسی بات کو سچ یا مبنی برحقیقت نہیں بنا تے۔ وہ نو گیارہ   کے 11 دنوں بعد کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے خطاب کا حوالہ دیتے  ہیں، جب امریکی صدر نے دنیا سے کہا “یا تو تم ہمارے ساتھ ہو، یا پھر دہشت گردوں کے” ،  اس وقت وہ کوئی حقیقت نہیں بیان کر رہے تھے، بلکہ وہ اتمامِ حجت کر رہے تھے۔وہ مزید کہتے ہیں  اس جملے سےپیش تر ادا کیے جانے والا جملہ سب کچھ واضح کر رہا ہے، جو عموماً  بیان نہیں کیا جاتا   “ہر خطے کی ہر قوم کو ابھی یہ فیصلہ کرنا ہے۔” صدر بش کا یہ کہنا حقیقت کا بیان نہیں ، بلکہ حقیقت کی اختراع  تھا۔  اور یہ کہہ کر”  آج سے یا تو کوئی قوم ہمارے ساتھ ہے، یا پھر ہمارے خلاف”، وہ دراصل اسے   سچ کر کے دکھا رہے تھے۔

جدیدیت نے سچ  کے زاویے کو مزید وسعت عطا کردی ہے اور  اسی سبب اختراعی( تخلیقی، ایجادی)  سچ  کو قبولِ عام حاصل ہو گیا ہے۔ جس طرح الفاظ کا بدلاؤ سچ کو بدل سکتاہے اسی طرح  نئی سچائیاں اصطلاحات کے معنیٰ و مفہوم  بدل سکتی ہیں۔وہ دلیل دیتے ہیں کہ ہم جنس پرستانہ شادیوں نے شادی کے معانی ہی بدل کر رکھ دیے ہیں،اور اب  شادی کےتقاضوں  سے متعلق نئی سچائیاں جنم لے رہی ہیں۔مصنف اضافی سچ کی ساختیات پر  بھی قلم اٹھاتے ہیں ، لیکن وہ اسے مبالغہ آرائی سے بالکل الگ تھلگ  قرار دیتے ہیں۔

سچ کو ایک معمہ تسلیم کرتے ہوئے  جولیان باگینی اپنے فلسفیانہ دلائل کا نتیجہ پیش کرتے ہیں۔ ان کی جانب سے پیش کی گئی سچ کی 10 اقسام کو  اختصار کے ساتھ اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے:

الف- الہامی سچائیوں  کا تقابل غیر الہامی سچائیوں کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا ، تاہم انہیں مختلف انواع کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

ب- ہمیں اپنے تئیں نہیں، اپنے لیے سوچنا چاہیے۔

ج- ہمیں کلبیت نہیں، تشکیکیت کا پیرو ہونا چاہیے۔

د۔عقلیت تیقن نہیں، شرافت کی متقاضی ہے۔

ر۔ہم تبھی سمجھدار ہو سکتے ہیں جب ہم یہ جان لیں کہ ہمیں کس طرح بے وقوف بنایا جاتا ہے۔

س۔سچائیوں کو کھوجنے کے ساتھ ساتھ انہیں تخلیق کرنے کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔

ص۔ متبادل تناظرات کو ضرور زیرِ غور لایا جانا چاہیے ، لیکن متباد ل  سچائیوں کے طور پر نہیں ، بلکہ سچ کی آرائش و  افزودگی کے لیے۔

ط۔ طاقت سے سچ نہیں بنتا،  سچ طاقت بننا چاہیے۔

ع۔ بہتر اخلاقیات کے لیے بہترآگہی  کا ہونا ضروری ہے۔

ف۔سچ کو نظریہ کلیت کی رو سے سمجھنا چاہیے۔

صاحبِ کتاب کی دیگر تصانیف کی طرح یہ کتاب بھی  نہ صرف  ماضی و حال کے تناظرات میں ربط قائم کرتی ہے  بلکہ سچ کےدائرہِ کار  میں وسعت پیدا کرتی ہے ، جو ہم روز مرہ زندگی میں استعمال کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ  یہ کتاب اس خیال پربھی  معترض ہے کہ
ما بعد  سچ ، سچ سے  مختلف نوعیت کی کوئی شے ہے۔

(ترجمہ: حذیفہ مسعود، بشکریہ ڈان)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...