بریلویت کا احیاء

سہیل وڑائچ

2,096

خادم حسین رضوی کے تند و تیز جملوں ،افترا پردازیوں اور پر جوش اندازِ بیاں کی تائید  کیے بغیر یہ کہنابالکل بجا ہے کہ انہوں نے  ڈیڑھ صدی سے زائد عرصے پر محیط بریلوی مکتب فکر کی خاموشی توڑتے ہوئے اپنے روایتی حریفوں، دیوبندی اور سلفی مکاتب ِ فکر کے خلاف   بریلوی بیانیہ کے احیا کی پر زور سعی کی ہے۔نہ صرف یہ کہ خادم حسین رضوی  بریلوی کاز کیلئے خاصے مقبول ہوئے بلکہ انہوں نے ریاستی اداروں کی حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی  ، جو مولانا شاہ احمد نورانی ، مولانا عبد الستار نیازی اور احمد سعید کاظمی جیسی  بریلوی مکتب فکر کی نمایاںشخصیات جہدِ مسلسل اور  بریلوی اکثریت کی حمایت کے باوجود حاصل نہ کر پائیں۔تحریکِ لبیک یا رسول اللہ کے  سربراہ علامہ خادم حسین رضوی، امیر المجاہدین  کہلائے جاتے ہیں۔  ملک بھر سے ان کے معتقدین و کارکنان انہیں باباجی اور استاد جی کے نام سے پکارتے ہیں۔   خادم حسین رضوی   اعوان قوم سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنی نسبت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی غیر فاطمی اولاد سے بتلاتے   اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ممتاز قادری کا تعلق بھی اسی قوم سے تھا۔خادم حسین رضوی اٹک کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں ، جسےنَکّہ کلاں  کہا جاتا ہے۔  اس سے پیشتر اس گاؤں کو نکہ قاتلاں بھی   کہا جاتا تھا  جو یہاں ہونے والی  بہت زیادہ  قتل کی وارداتوں کو ظاہر کرتا ہے۔ تاہم  خادم حسین رضوی کے بعد سے اس علاقے کو نکہ باباجی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

ان کی عمر 52 سال ہے ۔ ایک سڑک حادثے کے بعد انہیں لاہور کے ایک ہسپتال میں لایا گیا۔ خادم حسین رضوی ہسپتال میں  اپنے علاج سے متعلق پرا سرار طور پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں تاہم ان کے مقربین کی جانب سے یہ چہ مگوئیاں سنی گئی ہیں کہ ہسپتال میں ایک مخالف فقہ سے تعلق رکھنے والے معالج کی وجہ سے ان کی ٹانگ ٹھیک نہ ہوسکی۔علامہ رضوی لاہور کی ایک مسجد میں اوقاف کی جانب سے   بطور امام پر سکون  انداز میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔  حکومت کی طرف سے انہیں 30000 روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی تھی۔ اسی دوران ممتاز قادری کی پھانسی ہوئی ، جس نے انہیں  سیخ پا کردیا اور وہ بغاوت کی حد تک  آن پہنچے۔ ممتاز قادری کی پھانسی کے خلاف ہونے والے جلوسوں اور دھرنے میں پر جوش انداز میں شرکت کی۔  حکومت کی جانب سے بارہا منع کرنے کے باوجود اس تحریک کا حصہ رہنے کی بنا پر انہیں ان کی ملازمت سے برخواست کردیاگیا۔

علامہ خادم حسین رضوی  کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں جاں نثار منسلک ہیں جو حرمتِ رسول ﷺ پر جان قربان کرنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ علامہ رضوی کو اس بات کا یقین تھا کہ فیض آباد دھرنا ان کی زندگی کا آخری احتجاج ہے  اور وہ اس مقدس مشن کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کیلئے بصد دل و جان تیار تھے۔ وہ اپنے کاز اور مشن سے اس قدر مخلص ہیں کہ فیض آباد دھرنے میں  ان کے دونوں بیٹے ،  24 سالہ حافظ محمد اسد اور 14 سالہ حافظ محمد انس ، دوسرے مظاہرین  اور عام  کارکنوں کے ساتھ بغیر کسی امتیاز کے شریکِ کا ر  رہے۔  یہ بھی  کہا جاتا ہے کہ محمد انس کا ہاتھ آنسو گیس کا شیل ہاتھ میں پکڑنے کے سبب جل بھی گیا تھا۔

علامہ رضوی  کی سادگی کے قصے زبان زدِ عام ہیں اور ان کے معتقدین عشقِ رسول ﷺ  جیسے مقدس مشن سے ان کی والہانہ  وابستگی کے بارے میں کئی واقعات بیان کرتے ہیں۔ ایک سرگرم بریلوی عالم ہونے کے باوجود  وہ فرقہ واریت کو پاکستان کیلئے ناسور سمجھتے ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ وہ اس مقدس مشن کیلئے اپنے حریف مکاتبِ فکر سے بھی  حمایت کی خواہش رکھتے ہیں۔

قریب ڈیڑھ صدی قبل جنم لینے والے مسلکی بیانیے تقریباً تمام علماء کرام پر ابھی تک اثر انداز ہیں۔ اس مسلکی کشمکش  کی شروعات  1857 کی جنگِ آزادی سے  کچھ عرصہ قبل اس وقت ہوئیں جب  شاہ ولی اللہ دہلوی کے جانشین شاہ  اسمٰعیل دہلوی نے  وہابی عقائد کے حق میں اپنی معروف کتاب تقویۃ الایمان تصنیف کی، جس میں حنفی عقائد پر اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔جواباً  دِلّی  سے تعلق رکھنے والے معروف عالمِ دین مولانا فضلِ حق خیر آبادی نے ایک علمی فتویٰ لکھا۔( علامہ رضوی مولانا خیرآبادی کے اس  کردار سے بہت متاثر ہیں اور انہیں قابلِ تقلید سمجھتے ہیں۔) بعد ازاں برطانوی حکومت کی جانب سے  جہاں مولانا فضلِ حق خیرآبادی کو 1857 کی جنگِ آزادی میں  شرکت کے جرم کی پاداش میں پھانسی دےدی  گئی، وہاں بیشتر وہابی علماء کو اسی جرم کی  پاداش میں کالا پانی بھیج دیا گیا۔  دونوں مکاتبِ فکر ایک ہی جرم کے سبب  انگریزی سرکار کے ظلم و ستم کا  نشانہ بنے، تاہم  ہر دو کے مابین مسلکی مخاصمت جاری رہی۔ 1857 کی جنگِ آزادی کے بعد مسلمانانِ برِ صغیر سرکارِ برطانیہ کے  حوالے سے   آئندہ کردار کی بنیاد پر تین طبقوں میں منقسم ہو گئے۔اہلِ سنت  حنفی  علماء  نے احیائے دین کیلئے  دیوبند میں ایک مذہبی مدرسے کی بنیاد رکھی، جو اصلاً حنفی الفکر ہونے  کے ساتھ ساتھ کسی حد تک وہابی عقائد کا پرچارک تھا اور بالآخر ہندوستانی سیاست میں  آزادیِ ہند کے کانگریسی نکتہِ نظر سے متفق ہوا۔  حال میں مولانا فضل الرحمٰن دیوبندی سیاست کے سرخیل ہیں۔ سپاہِ صحابہ جیسی انتہا پسند  جماعت اور مولانا مسعود ازہر کی تنظیم  جیشِ محمد سمیت دیگر جہادی تنظیمیں بھی اسی مکتبہِ فکر سے تعلق رکھتی ہیں۔

دوسری جانب سر سید احمد خان نے برطانوی سرکار اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو کم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔انہوں نے مسلم نوجوانوں میں انگریزی تعلیم اور سائنسی علوم  کے حصول  اور قومی سیاست میں دلچسپی لینے کا شعور بیدار کرنے میں رہنمایانہ کردار ادا کیا،   1886 میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھی  اور  اس کے ساتھ ہی محمڈن اینگلو اورینٹل کالج قائم کیا  ، جو ایم اے او کالج کے نام سے مشہور ہوا،    بعد ازاں  علی گڑھ یونیورسٹی میں تبدیل ہو گیا۔انہیں تعلیمی اداروں کے طلباءمسلم لیگ کے اولین  کارکن بنے اور قیامِ پاکستان کی جد و جہد میں قائدِ اعظم کا ساتھ دیا۔یہی فکر آج کے پاکستان کی اکثریتی فکر ہے۔

تیسرا مسلمان گروہ  مولانا احمد رضا خان بریلوی کی قیادت میں ایسی روایت پرست حنفی فکر کی بنیاد پر وجود میں آیا جو  اولیاء و صوفیاء کے عرس اور ان کے  مزارات کی  عزت و تکریم پر مبنی تھی۔ اعلیٰ حضرت  مولانا احمد رضا خان بریلوی نے 1904 میں مدرسہ قائم کیا، تاہم اس مدرسے کے قیام سے پہلے ہی ہندوستان بھر میں بریلوی فکر دیوبندی  نکتہِ نظر کی مخالف فکر کے طور پر  پھیل چکی تھی۔

1857 سے 1947 کے دوران 90 برسوں میں سر سید کے تربیت یافتگان  کی کوششوں سے پاکستان   وجود میں آیا۔1946 میں بنارس میں منعقدہ کل ہند سنی کانفرنس   میں غیر سیاسی بریلوی علماء نے پاکستان کی ضرورت  پر زور دیا۔ پنجابی، پختون اور سندھی پیران و مشائخ نے بھی تحریکِ پاکستان کی حمایت کی۔  تاہم مولانا شبیر احمد عثمانی اور ان کے رفقاء کے علاوہ تمام دیوبند مکتب فکر  قیامِ پاکستان کا پر جوش مخالف رہا ۔ حتیٰ کہ دیوبندی علماء  1947 تک کانگریس کی حمایت  میں پیش پیش رہے۔ شروع دن سے ہی  قیامِ پاکستان کی مخالفت کے باوجود حیران کن طور پر دیوبندی  فکر قیامِ پاکستان کے بعد بھی ممتاز حیثیت کی حامل رہی۔ پاکستان کا مذہبی بیانیہ  دیوبندی علماء کی اکثریت ، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی  اور ان کے رفقاء  کے رہینِ منت رہا۔قیامِ پاکستان  کو بمشکل چند برس ہی گزرے تھے کہ یہ علماء قراردادِ مقاصد   لے آئے  ، جس کے سبب پاکستان میں ہندوؤں اور عیسائیوں کو خجالت  ورسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔

قیامِ پاکستان کے بعد مسلم لیگ کی حکومت کیلئے  سب سے پہلی مشکل بریلوی مکتبہِ فکر کے گڑھ مسجد وزیر علی خان  لاہور کے سبب پیش آئی۔ پہلے پہل مولانا عبد الستار خان نیازی،  ابوالحسنات سید محمد  احمد قادری ،  ان کا بیٹا اور امین الحسنات خلیل احمد قادری    اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کو فوجی عدالت نے احمدیوں کے خلاف تحریک چلانے کے جرم میں سزائے موت سنائی ، تاہم بعد ازاں سب کو رہا کر دیا گیا۔ختمِ نبوت کی عظیم تحریک کے بعد تقریباً 15 برس تک بریلوی مکتب فکر پر مکمل سکوت طاری رہا، ماسوائے   خواجہ قمرالدین سیالوی (موجودہ گدی نشین خواجہ حمیدالدین سیالوی کے والد) کی طرف سے بریلوی کاز میں  تحرک پید کرنے کی  کوششوں کے، جن میں انہیں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔

مولانا شاہ احمد نورانی کے پاکستانی سیاست میں قدم رکھنے سے بریلوی مکتب فکر کو تقویت ملی۔ مولانا نورانی میرٹھ سے تعلق رکھنے والے  اعلیٰ حضرت کے  خلیفہ شاہ عبد العلیم صدیقی کے بیٹے اور  سعودیہ سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ حضرت کے ایک اور خلیفہ  مولانا فضل الرحمٰن بن محمد کے داماد تھے۔ اپنے دورِ عروج میں مولانا نورانی نے 1970 کے عام انتخابات میں  قومی اسمبلی کی 7 نشستیں حاصل کیں اور اپنی وفات تک وہ بریلوی سیاست کے  روحِ رواں رہے۔ اپنے ماند پڑتے  سیاسی سفر کے آخرِ میں  وہ متحدہ مجلسِ عمل کے صدر منتخب ہوئے جن میں  بریلوی مکتب فکر کے ساتھ ساتھ تمام حریف مکاتبِ فکر دیوبندی، اہلِ حدیث اور شیعہ  بھی شامل تھے۔اواخرِ عمر میں اصولی سیاست  کے عوض ملنے والی تمام تر عقیدت و احترام کے باوجود بریلوی مکتب فکر پر ان کی گرفت کمزور پڑ چکی تھی  اور ان کی وفات کے فوراً بعد ان کی جماعت، جمعیت علمائے پاکستان کئی دھڑوں میں منقسم ہو گئی، جس سے جماعت کی رہی سہی قوت بھی جاتی رہی۔

ضیاء دور کے بعد سے سوادِ اعظم ہونے کے باوجود بریلوی عوام ریاستی عدم توجہی اور  بے وقعتی کے احساسات سے دوچار رہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے دیوبندیوں اور اہلِ حدیثوں پر دستِ شفقت رکھا اور افغان جہاد میں قدم سے قدم ملا کر لڑنے کیلئے تیار کیاتھا۔ اکثریتی مکتب فکر ہونے کے باوجود بریلوی علماء نے افغان جہاد میں حصہ لیا نہ ہی کشمیر میں عسکری کارروائیوں میں  کبھی دلچسپی لی۔ اس کی بنیادی وجہ جہاں غیر عسکری بریلوی فکر  ہے وہاں شاہ احمد نورانی اور دیگر علماء کی طرف سے نجی جہاد کی ممانعت کی آراء بھی ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری بھی  ضیاء دور میں سامنے آئے۔  طاہر القادری ان دنوں شریف خاندان کی ملکیت اتفاق مل کی مسجد میں امام تھے۔   80  کی دہائی میں ڈاکٹر طاہر القادری  نے کراچی میں مولانا شاہ احمد نورانی کے ناراض دوست حاجی حنیف طیب کی نواز شریف سے ملاقات  کا اہتمام کیا تاکہ بریلوی اتحاد کاقیام ممکن بنایا جا سکے۔ تاہم بعد ازاں طاہر القادری اور نواز شریف میں اختلافات بڑھتے گئے اور آج وہ اپنی انتہا پر ہیں۔ڈاکٹر طاہر القادری اور نواز شریف نے بریلوی مکتب فکر کی حمایت سے اپنی سیاست کا آغاز کیا مگر اب ان کا سیاسی حلقہ مسلکی بندشوں سے آزاد ہے۔دیوبندی و اہلِ حدیث مکاتبِ فکر اور جماعتِ اسلامی نے افغان جہاد کے دوران ملنے والی بیرونی امداد سے اپنے آپ کو مستحکم کیا، بڑے بڑے مدرسے قائم کئے، مہنگی گاڑیاں خریدیں اور اپنے اثرو رسوخ کا دائرہ وسیع کیا۔جبکہ بریلوی مکتب فکرنے  دعوتِ اسلامی ( دیوبندکی تبلیغی جماعت کے مقابلے میں قائم کی گئی تنظیم)  اور سنی تحریک جیسی چھوٹی چھوٹی جماعتوں کے دامانِ عافیت  میں پناہ حاصل کی۔  مولانا الیاس عطاری قادری کی قیادت میں دعوتِ اسلامی  پر امن طریقے سے بریلوی تعلیمات کی تبلیغ اور  رسولِ اکرم ﷺ سے بے پناہ محبت کے پرچار پر یقین رکھتی ہے۔ دوسری جانب سنی تحریک اوائل میں جارحانہ عزائم کے ساتھ میدنِ عمل میں اتری ، تاہم کراچی میں رینجرز آپریشن کی مدد سے اس پر قابو پا لیا گیا ۔اس کے بعد سے سنی تحریک کے طریقِ کار میں نرمی پیدا ہو چکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دعوتِ اسلامی اور سنی تحریک سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر افراد  نچلے غریب  سماج کا حصہ ہیں۔ خادم حسین رضوی اور ممتاز قادری بھی نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ، جبکہ علامہ رضوی کے 70 فیصد معتقدین دعوتِ اسلامی کے غریب  سابقہ اراکین  میں سے ہیں۔

1929 میں راجپال کو قتل کرنے والے غازی علم الدین شہید  بھی پیشے کے لحاظ سے بڑھئی تھے۔گزشتہ آٹھ برسوں سے غازی علم الدین شہید کے سالانہ عرس کے منتظم علامہ خادم حسین رضوی ہیں۔غازی علم الدین  شہید کی پھانسی سے  اسلامی نشاۃِ ثانیہ کے شاعر علامہ اقبال اور  کمیونسٹ رہنما محمد بن تاثیر (مقتول گورنر سلمان تاثیر کے والد)   دونوں   یکساں دل گرفتہ ہوئے۔

بریلوی حضرات نواز شریف  اور ان کی جماعت سے ایک طرف  اس بات پر نالاں ہیں کہ  وہ مولانا فضل الرحمٰن سے تعلق خاطر رکھتے ہیں جبکہ دوسری طرف اس بات پر کہ   رانا ثناء اللہ لشکرِ جھنگوی کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ان کے اندر نواز شریف کی  جانب سے عدم توجہی  کا احساس بھی موجود ہے اور ممتاز قادری کی پھانسی جیسے حالیہ واقعات نے نواز شریف اور بریلوی مکتبہ فکر کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو مہمیز دے دی ہے۔

بریلوی بیانیہ ہمارے نصابی بیانئے سے کافی حد تک مختلف ہے۔ ہمارا نصاب سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل شہید کو   ہیرو کے طور پر پیش کرتا ہے ، جنہوں نے پختون مسلمان بھائیوں کو سکھوں سے آزادی دلانے کیلئے جہاد کیا۔ہماری معاصر مذہبی شخصیات تاریخ سے گہرا ربط  رکھتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ جماعۃ الدعوہ   کے  سربراہ حافظ سعید سید احمد شہید کو اپنا  ہیرو قرار دیتے ہیں۔سید احمد شہید حنفی العقیدہ ،  مگر ان کے شاگرد شاہ اسمٰعیل شہید سلفی عقائد کے حامل تھے۔ تاہم بریلوی حضرات کے نزدیک  دونوں شخصیات سلفی عقائد کی پرچارک  تھیں اور انہوں نے پختون سنی مسلمانوں کے عقائد کو بزورِ طاقت تبدیل کرنےکی کوشش کی۔

دوسرا بڑا فرق یہ ہے کہ بریلوی مکتبہِ فکر رسول ِ مکرم ﷺ کے یومِ ولادت  پر ربیع الاول میں جلوس نکال کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں ، جس کو دیوبندی اور سلفی علماء بدعت قرار دیتے ہیں۔ بریلوی حضرات رسولِ مکرم ﷺ سے محبت کے بارے میں زیادہ حساس واقع ہوئے ہیں اور انہیں اس حوالے سے سلفیوں اور دیوبندیوں کے عقائد پر شدید تحفظات ہیں۔ بریلوی مسلک کے بانی مولانا احمد رضا خان بریلوی  نے رسولِ مکرم ﷺ سے کی تعظیم نہ کرنے کی بنا پر سلفی اور دیوبندی علماء کے خلاف کئی فتاویٰ  بھی جاری کئے۔

علامہ خادم  حسین رضوی کی جماعت کا نام “لبیک یا رسول اللہ” ایک خاص پسِ منظر کا حامل ہے  جو اسے دیوبندی، سلفی اور جماعتِ اسلامی  سے الگ پہچان دیتا ہے۔ کیوں کہ ان مکاتبِ فکر کے نزدیک “یا رسول اللہ”کہنا  بدعت اور اسلام کی روح کے خلاف ہے۔علامہ خادم حسین  رضوی دنیا بھر میں تیزی سے بریلوی مکتب فکر کے رہنما کے طور پر مقبول ہو رہے ہیں۔ ایک احمدی دوکاندار کو قتل کرنے کے جرم میں برطانوی جیل میں قید غازی تنویر عطاری  علامہ  رضوی کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

باوجود اس کے کہ اس وقت  خادم حسین رضوی کی قیادت میں بریلوی جذبات اپنے عروج پر ہیں ، لیکن بریلوی مکتب فکر ہمیشہ  نظم و ضبط اور باہمی ربط و تعلق کی کمی کا شکار رہا ہے۔دیگر اکثریتی مکاتبِ فکر کی طرح بریلوی مکتب فکربھی  عوامی تحریک بپا کرنے کی اہلیت  رکھا ہے،    تاہم یہ  دیر پا تنظیمی نطم و نسق    کبھی پیدا نہیں  کرپایا۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا خادم حسین رضوی کثیر بریلوی  عوام کو ایک جماعت کے جھنڈے تلے متحد کر پائیں گے یا پھر ہر بار کی طرح اب بھی  آئندہ کسی مختصر المدتی تحریک تک منتشر ہو جائیں گے؟

 

(ترجمہ: حذیفہ مسعود، بشکریہ:  دی نیوز)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...