غلبہ اسلام کی جدوجہد اور اسلامی تحریکوں کے تصورات

1,564

غلبہ اسلام کی جدوجہد میں شریک ارکان کیسے سوچتے ہیں اور اسلامی تحریکوں کی کامیابی کی صورت میں بعد کی  صورت حال کے حوالے سے ان کے تصورات کیا ہیں۔ مذکورہ مکالمہ میں جناب رشاد بخاری نے اسے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔

(از معاون مدیر)

کل ایک دوست سے بڑا دلچسپ مکالمہ رہا۔ وہ بھی میری طرح بچپن سے کچھ آدرشوں کے اسیر، طالب علمانہ ذوق کے ساتھ زندگی کی جدوجہد میں شریک ایک عام آدمی ہیں۔ فرمانے لگے فکر مودودی پر اسلامی تحریکوں اور غلبہ اسلام کے تصور کے حوالے سے تنقید غلط ہے کیونکہ یہ نظریہ مودودی کا نہیں بلکہ حضور اکرمﷺ  کا تھا۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، حضور نبی کریم ﷺ نے مدینہ میں جو ریاست قائم کی تھی، وہ ایک مثالی ریاست تھی۔ ہمیں مذہب اور دین میں فرق کرنے کی ضرورت ہے، مذہب عبادات اور عقائد کا مجموعہ ہے اور یہ انسان کا ذاتی معاملہ ہوسکتا ہے لیکن دین سیاست،معیشت اور معاشرت سب کو محیط ہے اور اس کے لئے سیاسی جدوجہد ضروری ہے۔ اصل میں اسلام ایک سیاسی نظریہ ہے کیونکہ یہ ایک انسان نہیں پوری انسانیت سے مخاطب ہے اور تمام طرح کے انتظام و انصرام اس کا حصہ ہیں۔  اصل ہدف معاشرے کو اسلامی بنانا ہے، جس کے لئے حکومت کو اسلامی بنانا لازم ہے۔ میں نے سوال کیا کہ آپ کی مجوزہ اسلامی حکومت کا قیام کیسے ممکن ہوگا۔ کہنے لگے جمہوری جدوجہد کے ذریعے، انتخابات کے ذریعے، میں طاقت کے استعمال کے خلاف ہوں،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دنیا جائز طریقے سے قائم شدہ اسلامی حکومت کو بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اگر کہیں عوام کے ووٹوں کے ذریعے اسلامی حکومت کا امکان پیدا ہوتا ہے تو یہی جمہوریت کے چیمپئن تمام جمہوری اصولوں کو پامال کرتے ہوئے جبر، استبداد اور طاقت کے ذریعے ایسی کسی بھی ممکنہ حکومت کو فوری ختم کرنے کے لئے ہر حربہ اپناتے ہیں۔ افغانستان، مصر، الجزائرکی  مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ میں صرف یہ کہتا ہوں کہ  اگر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے ہیں توعوامی انتخاب کا احترام کرنا چاہیے کیونکہ جمہوری تقاضا یہی ہے ۔انہیں قانون سازی اور اس کے نفاذ کا اختیار بھی ملنا چاہیے کیونکہ مینڈیٹ ان کے پاس ہے۔

عرض کیا بجا ہے لیکن اگر غلبہ اسلام کی منزل حاصل ہوجائے، اسلامی تحریکوں کی سیاسی جدوجہد کامیاب ہوجائے اور ساری دنیا نہ سہی، کسی ایک ملک میں ہی  اسلامی حکومت کا قیام ممکن ہوجائے، جسے جبر سے بھی ختم کرنا ممکن نہ ہو تو آپ کے نزدیک نفاذ اسلام کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ کہنے لگے وہی طریقہ جو حضور نے مدینہ میں اختیار کیا تھا۔ میں نے پوچھا مثلاً؟ کہنے لگے مثلاً سب سے پہلا کام تو سود کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ میں نے عرض کی بہت اچھی بات ہے۔ یعنی اس میں کوئی حرج نہیں صرف اتنا کرنا ہوگا کہ عالمی معاشی اداروں سے جو سود کی بنیاد پر کام کرتے ہیں یا تو تعلقات ختم کرنے ہوں گے اور مکمل طور پر خودمختاری حاصل کرنا ہوگی یا پھر ان کے ساتھ کام کرنے کی شرائط  بدلنا ہوں گی۔ دنیا کے دیگر مروجہ سودی طریقوں اور عالمی معاشی اداروں سے چھٹکارا اور خودانحصاری کا حصول یقیناً قابل تحسین ہوگا لیکن اگر لامحالہ دنیا کے ساتھ کام کرنا ہی پڑجائے تو اس کی ایسی شرائط ابھی کچھ واضح نہیں ہیں جن پر فریقین کا اتفاق ہوسکے۔ چلیے ہمارے سامنے یہ واضح نہیں لیکن امید ہے کہ اسلامی معیشت کے ماہرین کے پاس اس سارے لائحہ عمل کی تفصیلات موجود ہوں گی۔

میں نے عرض کیا جہاں تک میرا اندازہ ہے اور مختلف اسلامی تحریکوں کے قائدین کے بیانات اور تصانیف یا منشورات کی روشنی میں اسلامی حکومت کے قیام کا مقصد اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم کرنا ہے، یعنی کہ شریعت کے نفاذ کے ذریعے ایک مکمل اور مثالی اسلامی معاشرے کا قیام۔ دنیا میں شریعت کے نفاذ کی جو دو ایک مثالیں ہمارے سامنے آئی ہیں ،مثلا افغانستان اور مصر میں ان کی ترجیحات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ شریعت کے نفاذ کا مطلب ہے، سود کے نظام کا خاتمہ، تعلیم اور معاشرتی رویوں کی اسلامائزیشن، اسلامی سزاؤں یعنی حدود جس میں چوری پر ہاتھ کاٹنا، زنا پر سنگسار کرنا، فتنہ اور فساد پرایک ہاتھ اور ایک پاؤں کاٹ دینا وغیرہ شامل ہیں کا نفاذ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام۔ ان تمام اقدامات کے ذریعے توقع ہے کہ ایک حیا دار معاشرہ میں امن و امان، خوشحالی، روحانی ترفع اور دینی تقویٰ کی منزل حاصل ہوجائے گی۔   تاہم ایک سوال میرے ذہن میں شخصی آزادیوں کا ہے۔ دین میں تو کوئی جبر نہیں ہے لیکن کسی سماج کے اندر مندرجہ بالا تمام اقدامات کرنے کے لئے جبر کا سہارہ لینے کی ضرورت پیش آئے گی۔ مغربی تہذیب کی دلدادہ  اور جدیدیت کی آلائشوں میں مبتلا عوام کی ایک بڑی تعداد جو بے شک اسلامی نظام کو تمام مسائل کا حل سمجھتی ہے، وہ اتنی آسانی سے ان تمام اقدامات کو قبول نہیں کرپائے گی کیونکہ وہ دینی تقاضوں سے واقف نہیں ہے۔  پھرنہی عن المنکر کے اعلیٰ مقاصد کے کے لئے ذاتی اخلاقیات کا نفاذ کرنے والی پولیس بھی ناگزیر ہوجائے گی۔ فرمانے لگے آپ چیزوں کو الجھا رہے ہیں۔ میں بھی پڑھاتا رہا ہوں اور میرے والد صاحب بھی استاد تھے۔ وہ بچوں کو جسمانی سزا کے قائل نہیں تھے اور میں بھی نہیں ہوں۔ لیکن وہ فرماتے تھے کہ اگر کسی کو سزا دینے کی ضرورت پیش آہی جائے، کیوں کہ بعض بچے کسی صورت نہیں سمجھتے، اس لئے ایک ہی بار انہیں ایسی سزا دی جائے کہ ان کو بھی زندگی میں یاد رہے اور دوسروں کو بھی کان ہو جائیں۔

میں نے پھر عرض کیا کہ آپ جمہوریت کے ذریعے اسلامی اقتدار حاصل کرنے کی بات کرتے ہیں تو جہاں تک مسلم مفکرین کو میں سمجھ سکا ہوں، زیادہ تر جمہوریت کو اسلام کے اصولوں سے متصادم سمجھتے ہیں۔ بعض زمانے کی مجبوریوں کے تحت، قبولیت عامہ اور خصوصاً دنیا چونکہ جمہوریت کو آج کل درست سمجھتی ہے اس لئے جمہوری نظام کو اسلامی شورائی تصور کے تحت قبول کرنے اور اسی طریقہ کار سے حکومت اور اقتدار کے حصول کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ تاہم اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ وہ ایک بار طاقت کے حصول کے بعد اسی نظام کو برقرار رکھیں گے یا خلافت کے قیام یا کم از کم شورائی آمریت کی طرف چلے جائیں گے کیونکہ میں نے بعض علما سے سنا ہے کہ اسلامی نظام میں مختلف سیاسی جماعتوں کے قیام کی بھی گنجائش نہیں ہے۔

کہنے لگے آپ نیتوں کا حال کیسے جانتے ہیں آپ تو ایک بار بھی ان کو موقع دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ میں نے کہا کہ میں تو ایک معمولی سا فرد ہوں میں تو کسی کو کسی چیز کی اجازت یا موقع دینے یا نہ دینے کی کوئی اہلیت نہیں رکھتا لیکن سچ سچ بتائیے کہ آپ ایک اسلام پسند سیاسی کارکن اور اسلام کے پیغام کو سمجھنے والے ایک سچے مسلمان کے طور پر کیا جمہوریت کوواقعی اسلامی سمجھتے ہیں؟ کہنے لگے “نہیں” اور اسی لیے میں نے سات سال قبل جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔  میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ انتخابات میں مسلسل ہار رہے ہیں تو اچھا ہے کیونکہ جب تک وہ اصلاً اسلامی نظام کے قیام کے اہل نہ ہوجائیں، ان کی جیت بے فائدہ ہوگی۔ میں نے عرض کیا تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ جمہوریت کو غیر اسلامی سمجھتے ہوئے بھی اس لیے اس میں حصہ لینے کو جائز سمجھتے ہیں کہ آپ کے خیال میں یہ آج کے دور میں اقتدار حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ یعنی آپ کے نزدیک جمہوریت اقتدار کے حصول کا ایک عارضی راستہ ہے اور کچھ نہیں۔

کہنے لگے دیکھیے! آپ میری بات سمجھ نہیں رہے جہاں تک شخصی آزادیوں کی بات ہے تو میں تمام اسلامی شعار، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ پردے وغیرہ کا قائل ہوں اور اپنے خاندان کے لئے بھی یہی پسند کرتا ہوں، تاہم اگر کوئی اپنی انفرادی حیثیت میں ان شعائر پر عمل نہیں کرنا چاہتا تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ حتی کہ اگر کوئی اپنی ذاتی حیثیت میں مجھے ڈسٹرب کیے بغیر شراب پیتا ہے، لڑکیوں سے دوستیاں کرتا ہے، فلمیں دیکھتا ہے تو بھی مجھے کوئی پریشانی نہیں، میں ان کی اصلاح کی خواہش رکھوں گا لیکن ان پر کسی جبر کا قائل اس وقت تک نہیں ہوں  جب تک وہ اجتماعیت کے لئے خطرہ نہ بنیں۔  ہاں آپ شائد چودہ سو سالوں میں اسلامی نظام کے قیام کی بہتر مثالیں سامنے نہ آنے کی وجہ سے مایوس ہوچکے ہوں لیکن اگر مجھے چودہ سو سال نہیں، چودہ ہزار سال  بلکہ پچاس ہزار سال بھی انتظار کرنا پڑے تو میں مایوس نہیں ہوں گا۔ ان کے اس جذباتی بیان کے ساتھ ہی مغرب کی اذان ہوئی اور ہم نے اپنا مکالمہ ختم کرکے ایک دوسرے سے رخصت لی۔ جاتے ہوئے ہمارے دوست نے کہا کہ آئندہ ہم اس موضوع کے بجائے کسی اور موضوع پر بات کریں گے، آخر دنیا میں سو اور موضوعات ہیں جن پر بات کی جاسکتی ہے۔

اس مکالمے کے دوران جذبات میں اتار چڑھاؤبھی آیا ، سنجیدگی اور تحمل کے ساتھ  گفتگو بھی کی تاہم نفاذ اسلام کے منصوبوں کے حوالے سے شرح صدر نہ ہوسکا۔ خواب، خواہش،مثالیت پسندی، حقیقت، ابہام اور نتیجہ کہاں جدا ہوتے ہیں اور کہاں آپس میں گھل مل جاتے ہیں واضح نہ ہوسکا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...