شِنا زبان کے رسم الخط کی ترویج

455

لکھاری بڑا بڑبولا ہوتا ہے۔ خیال اور جذبے کے اظہار کا ڈھنگ آئے تو بے تکان کہے جاتا ہے۔ اس کی سوچ، اس کا احساس، جب تک دماغ کی قید میں ہوں، ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ جب لفظ کے کومل پروں پہ سوار، کاغذ پہ اتر آتے ہیں تو قیامت ڈھاتے ہیں۔ لفظ بہت اہم ہیں۔ یہ اظہار کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ لفظ ہی کسی خیال کو، کسی جذبے کو زندگی کی تڑپ سے آشنا کراتے ہیں۔ ویسے تو لفظ ایک مجرّد شے ہے مگر زندگی کے رویے اور دل کے جذبے اس میں روح پھونک دیتے ہیں۔ پھر یہی لفظ صفحہ قرطاس پہ دل بن کر دھڑکنے لگتے ہیں۔ یہ جو لفظ ہیں، کسی زبان سے وجود میں آتے ہیں اور زبان ہی اصل میں خیال اور جذبے کی ترجمان ہوتی ہے۔ زبان ہی ذرائع ابلاغ کا بنیادی عنصر ہوتی ہے۔

کچھ عرصہ قبل جدید ’شنا‘ شاعری پہ لکھتے ہوئے ایک جگہ ذکر کیا تھا۔ ’’ادب میرا رومانس ہے اردو زبان میری محبوب۔ ان دونوں نے میری سوچ کو، میرے جذبے کو اظہار کا حسن دیا ہے۔ میرے قلم کو توانائی دی ہے۔‘‘

’شنا‘ میرا عشق ہے۔ ماں کی آغوش کی نرم گرم کروٹوں میں اس نے مجھے بولنا اور محسوس کرنا سکھا یا ہے۔ بچپن کے میرے خوابوں کے شبستاں میں ’شنا‘ سے ہی عکس ٹوٹتے اور بنتے رہے ہیں۔ گھر کے آنگن کی محدود فضا میں بھائی بہنوں کے ساتھ کھیلتے اور لڑتے ’شنا‘ نے ہی مجھے غصے اور مسرت کے اظہار سے آشنا کرایا ہے۔ یہ میرے ساتھ گُھٹنے گھٹنے چلتی گھر کے آنگن سے باہر نکلی۔ امپھری کے کھیتوں میں ہم عمر دوستوں کے ساتھ کھیلتے کودتے، مضبوط قدموں سے میرے ساتھ بڑی ہوتی رہی۔ مگر جوں جوں عمر کی مسافتیں اور تعلیم کے مدارج طے کرتا رہا۔ میں اس کی مٹھاس، اپنا پن اور روانی سے محروم ہوتا گیا۔ اس کی جگہ اردو اور انگلش کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا اور ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ نوبت یہاں تک پہنچی ہے، اس وقت کالج میں اردو ادب کا استاد ہونے کے باوجود میں لفظی اور معنوی صحت کے ساتھ ’شنا‘ لکھنے اور پڑھنے سے قاصر ہوں۔ ایک میں ہی کیا، اچھے اچھوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ کیوں کہ ’شنا‘ لکھنے کا چلن عام نہیں، جس کی وجہ سے ’شنائی تحریر‘ غیرمانوس لگتی ہے۔ کئی بار وعدے کیے گئے کہ اب ’شنا‘ زبان زیادہ دیر غیر مانوس نہیں رہے گی۔ اب یہاں کے شاعر اور ادیب، ’شنا‘ میں بھی ادب تخلیق کریں گے۔ پڑھنے والے بھی شنا کی حلاوت میں گُندھی تحریر سے آشنا ہو ں گے۔

شِنا زبان کا دامن صدیوں کے تہذیبی، ثقافتی اور لسانی جمال و کمال سے مالامال ہے۔ مگر المیہ ہے کہ اس کی ٖحیثیت اب بولی سے آگے کی نہیں رہی

شنا گلگت بلتستان خطے کی سب سے بڑی زبان ہے۔ صدیوں سے ان علاقوں میں بولی جاتی رہی ہے۔ اس کا دامن ان صدیوں کے تہذیبی، ثقافتی اور لسانی جمال و کمال سے مالامال ہے۔ مگر المیہ ہے کہ اس کی ٖحیثیت بولی سے آگے نہیں رہی ہے۔ بولنے، سننے اور گانے سے ہٹ کے اس کی فعالیت نہایت مایوس کُن رہی ہے۔ ادبی شکل میں زیادہ تر موسیقی والی شاعری کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے۔ چند ایک کتب، نثر اور نظم میں منظرِ عام پر آئیں بھی تو ایسے، جیسے کسی وِشال جھیل میں کوئی کنکر پھینک دیں تو اک ذرا جھیل کی سطح پہ ارتعاش ہوتا ہے پھر وہی سکوت۔ ’شنا‘ کے فروغ میں سب سے پہلی رکاوٹ اس کے حروفِ تہجّی تھے۔ گلگت کے امین ضیا، عبدالخالق تاج اور شکیل احمد نے اگرچہ اپنی بساط کے مطابق ’شنا‘ حروف تہجی سے متعلق ابتدائی کا م کیا تھا۔ مگر ان کا دائرہ محدود تھا۔ صوتی لسانیات کے کئی پہلؤوں پر ان کا آپس میں اختلاف تھا۔ ’شنا‘ کے صوتی اظہار کے لیے مخصوص حروف تو انہوں نے تشکیل دیے تھے لیکن ایک دوسرے سے جدا جدا۔ اس کی وجہ سے متفقہ اور معقول حروف تہجی کا موجود نہ ہونا تھا۔

’شنا‘ صوتیات میں بہت سی آوازیں ایسی ہیں جن کا اظہار اردو، عربی اور فارسی حروف سے ممکن نہیں۔ لفظ ’شنا‘ پر ہی غور کرلیں۔ پہلے حرف ش  سے جو آواز نکلتی ہے، اصل تلفظ سے مختلف ہے۔ اسی طرح ترازو، بارش، آبشار، سر، انڈا اور گدھا جیسے الفاظ کے لیے ’شنا‘ میں جو لفظ استعمال ہوتے ہیں انہیں بول تو سکتے تھے مگر لکھتے ہوئے اردو سے حروف مستعار لیتے تھے۔ مذکورہ بالا تینوں اہلِ قلم اور ان کے علاوہ بھی “شنا ” لسانیات کے ماہرین نے ان مخصوص اصوات کے لیے حروف وضع تو کیے تھے مگر ایک دوسرے سے مختلف ہونے کی وجہ سے “شنا” لکھنے پڑھنے کا چلن عام نہیں ہوسکا تھا۔ مگر2017 کا سال شنا کے لیے خوش بختی کا پیغام لے کر آیا تھا۔ پہلے قانون ساز اسمبلی میں مادری زبانوں کے تحفظ کے لیے اسے تدریس میں شامل کرنے کی قرارداد منظور کی گئی۔ پھر حکومت اور انتظامیہ کی سر پرستی میں دو روزہ قومی ادبی میلہ بھی منعقد ہوا۔ زبان و ثقافت اور فنونِ لطیفہ کے فروغ کے لیے ’گلگت بلتستان لینگویج، کلچر اینڈ آرٹ اکیڈ می‘ کے قیام کا اصولی فیصلہ بھی ہوا تھا۔

ان کے علاوہ مادری زبانوں کے تحفظ اور ترقی کے لیے ایک ریجنل لینگویجز کمیٹی بھی قائم کی گئی تھی۔ جس نے نہایت اہم اور موثر کا م بھی کیا۔ جی بی کی پانچ بڑی زبانوں کے اہلِ قلم اور ماہرینِ لسانیات اس میں شامل ہیں۔ ابتدائی چندنشستوں کی بحث و تمحیص کے بعد تمام زبانو ں کے لیے ایک قابل قبول، مانوس اور بہت حد تک مشترک حروفِ تہجی کی تشکیل پر اتفاقِ رائے ہوا۔

شنا زبان کو ایک رسم متفقہ رسم الخط دینے اور تعلیمی نظام کا حصہ بنانے کے بہت سے وعدے کیے گئے تھے لیکن یہ زبان ابھی تک کسی ٹھوس مرحلے کو نہیں پہنچ سکی اور اس کے رسم الخط کو مانوس نہیں بنایا جاسکا۔ حکومت کا فرض ہے کہ جس طرح پہلے وعدے کیے گئے اور کہا گیا کہ اس کے لیے کوششیں بروئے کار لائی جائیں گی ان وعدوں کو پورا کیا جائے اور اس زبان کو زندہ رکھنے کے لیے اس کے رسم الخط کو خطے میں مقبول و عام بنایا جائے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...