سعودی عرب کے موجودہ حالات، مذہبی طبقہ اور پاکستان

ڈاکٹر عبدالرحمن

3,056

سعودی عرب میں حالیہ دنوں  ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ اور تبدیلیوں کے حوالے سے تجزیوں اور قیاس آرائیوں کی بھرمار ہے۔ ہر شخص اپنے مخصوص فکری رجحان کے حوالے سے صورتحال کو دیکھ رہا ہے اور اس میں سے معانی کشید کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ پاکستان میں لوگوں کو اس ضمن میں درست معلومات تک عدم رسائی اور سعودی پاور پالیٹکس کا صحیح اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے جو تبصرے سامنے آرہے ہیں، وہ خواہشات کا آئینہ دار تو ہیں مگر معروضی حقائق سے میل نہیں کھاتے۔

اس مختصر تحریر میں ہم اپنے پرانے تھیسس کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سعودی عرب اور خطے میں جو کچھ بھی اس وقت ہو رہا ہے وہ سابق امریکی صدر اوبامہ کی مشرق وسطی کی پالیسی کو ریورس کرنے اور لپیٹنے کی مہم جوئی ہے۔ باقی سب اس کوشش کی تفصیلات اور پراسس ہے۔

صدر اوبامہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی کا مرکزی محور “جمہوریت پراجیکٹ” تھا جس کے تحت مشرق وسطی اور عرب ممالک میں نام نہاد جمہوری قوتوں کی تائید و حمایت کرتے ہوئے بادشاہتوں اور آمریتوں کو ختم کرنے کے اہداف واضح تھے۔ صدر اوبامہ کی اس مشرق وسطیٰ کی پالیسی کے بنیادی معمار وہ اخوانی فکر کے حامل لوگ تھے جو ایک عرصہ قبل امریکہ میں شفٹ ہوچکے تھے اور امریکی تھنک ٹینکس اور پالیسی سازحلقوں تک موثر رسائی رکھتے تھے۔ انہوں نے اوبامہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی کی تشکیل میں بالواسطہ اور بلاواسطہ اہم کردار ادا کیا اور ان کا اپنا ٹارگٹ یہ تھا کہ اخوانی فکر کی حامل مگر ماڈرن طرز کی حکومتیں پورے خطے میں قائم کردی جائیں جن کی اصل باگ ڈور امریکی اخوانی اشرافیہ کے ہاتھ میں ہو۔

اس پالیسی کے تحت جو اتھل پتھل مشرق وسطیٰ میں شروع ہوئی اور خونریزی میں بدل گئی وہ سب کے سامنے ہے۔ مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک کی کمزور حکومتیں ڈھیر ہونا شروع ہوگئیں اور اخوانی فکر کی حامل سیاسی قوتیں ابھر کر سامنے آگئیں۔ امریکی اخوانی اشرافیہ کے سامنے پاور پالیٹکس کا ماڈل ترکی کے اردگان کی صورت میں موجود تھا۔ یہ بظاہر ماڈرن آوٹ لک والا اسلام ہے جس میں “شریعت” سے زیادہ “مقاصد شریعت” کی بات کی جاتی ہے اور اس کی آڑ میں ہر طرح کی قید و بند سے آزاد لبرل معاشرے کی تشکیل میں کوئی رکاوٹ نہیں رہتی۔ ہاں البتہ اسلام کو ایک سیاسی نعرے کے طور پر قائم رکھتے ہوئے امت اور امت کے سیاسی مسائل پر بھرپور جذباتی موقف سامنے لایا جاتا ہے جس سے “تشخص” کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔

اردگان نے اس اسٹریٹیجی کو پوری تندہی سے استعمال کیا اور خود کو امت مسلمہ کے لیڈر سے شروع کروا کر خلیفہ کے روپ میں پیش کردیا۔ ایک ایسا خلیفہ جو مسلم دنیا کے حساس و جذباتی سیاسی مسائل پر جذباتی تقاریر کرتا ہے مگر عملی طور پر اسرائیل، امریکہ اور یورپ کا سیاسی و عسکری حلیف ہے۔  ایک ایسا جذباتی ماحول اس کی شخصیت کے گرد قائم کر دیا گیا ہے جس کے زیر اثر آپ حقائق پر مبنی گفتگو نہیں کرسکتے۔ امریکی اخوانی اشرفیہ نے اپنے اپنے ملک میں خود کو چھوٹے چھوٹے اردگان کی شکل میں ابھرنے کے خواب آنکھوں میں سجا لیے تھے اور ان خوابوں کی آبیاری ایران نے بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لئے شروع کردی۔

مگر پھر تبدیلی آگئی اور سعودی عرب نے اس کھیل کو روکنے اور اس میں مزاحمت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ وجہ صاف ظاہر تھی کہ خلیج کے ممالک کے اخوانی بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے تیار ہو رہے تھے۔ ایرانی شرارت سے بحرین میں اس کی ابتداء کی گئی اور یہاں سے  ہی باقاعدہ طور پر سعودی عرب اور اوبامہ انتظامیہ سامنے آگئے۔ مصر میں مرسی کی حکومت کا سقوط بھی اوبامہ کے لئے سیٹ بیک تھا مگر اسے اس لئے برداشت کرلیا گیا کہ مصری سیکولر اور لبرل حلقے جو یورپ میں چھائے ہوئے تھے انہوں نے ہاتھ کھڑے کر دیے اور اخوانی خوابوں کو تحریر اسکوائر میں چکنا چور ہونا پڑا۔

سعودی عرب کی مزاحمت کے نتیجے میں اوبامہ انتظامیہ کے ساتھ سعودیہ کے تعلقات شدید خراب ہوگئے اور معاملہ رسمی سفارتی رکھ رکھاؤسے بھی نیچے آگیا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی انتخابات میں سعودی عرب کے اسٹیبلشمنٹ کا جھکاؤ ٹرمپ کی طرف رہا۔

ٹرمپ کی حکومت آتے ہی سعودی عرب نے وہ سیاسی کھیل کھیلا جو ازحد خطرناک ہے۔ محمد بن سلمان نے ٹرمپ کو اس شرط پر کہ امریکہ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے پرانی پالیسی پر چلا جائے، اپنے غیر مشروط تعاون اور مالی مدد کی پیش کش کی۔ ٹرمپ بذات خود داخلی محاذ پر اپنی اسٹیبلشمنٹ پر کنٹرول کی جدوجہد کر رہا تھا اور اس کے لئے اسے مالی وسائل کی ضرورت تھی تاکہ وہ اپنی عوام کے ساتھ کیے گئے انتخابی وعدے پورے کرسکے۔ یوں  ٹرمپ انتظامیہ اور محمد بن سلمان کے درمیان باہمی مفادات پر مبنی رشتہ قائم ہوگیا۔

محمد بن سلمان کے اب داخلی محاذ پر تین بنیادی ہدف ہیں:

 

 

 

1۔         سیاسی اخوانیوں کی تطہیر کا عمل

2۔         خطے میں اپنا کنڑول بحال کرنا اور ایران کو پیچھے دھکیلنا

3۔         داخلی محاذ پر کچھ حقیقی اور دکھلاوے کے اقدامات کرنا جن سے معیشت مستحکم ہو اور امریکہ کو اطمنان ہو کہ سعودی عرب انتہا پسندی کی طرف مائل نہیں ہے۔

اخوانیوں کی تطہیر کا عمل شاہ عبداللہ نے بھی شروع کیا تھا مگر محمد بن سلمان نے اس کو تیز تر کردیا ہے۔ قطر کے ساتھ محاذ آرائی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور امارات کے ساتھ قربتوں کی وجہ بھی یہی ہے ۔ کوئی بھی حکومت اپنے ان سیاسی مخالفین کو برداشت نہیں کرتی جو کسی بیرونی قوت کے ساتھ سازش کرکے سیاسی اہداف حاصل کرنا چاہتے ہوں۔ زیادہ تر اخوانی علماء اور قائدین کو پکڑا گیا ہے اور اس سے یہ ہدف بھی حاصل ہوگا کہ سعودی حکومت امریکہ کو دکھانے کے لئے یہ کہہ سکتی ہے کہ اس سے انتہاپسندی سے نپٹنے میں مدد ملے گی۔ یہ بعینہ وہ اسٹریٹجی ہے جو مشرف دور میں پاکستان آرمی نے استعمال کی تھی کہ جب بھی ڈو مور کا مطالبہ آتا تھا تو حافظ سعید اور مسعود اظہر کو چھوڑ کر ان عناصر کی پکڑ دھکڑ شروع کردی جاتی تھی جو بوجوہ اسٹیٹ کو پسند نہ تھے۔

سعودی عرب کے سلفی علماء اس ساری پکڑ دھکڑ سے مجموعی طور پر بچے ہوئے ہیں اور وہ حکومت کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ سلفیوں کے تشخص کا مسئلہ سعودی عرب میں خاصا پیچیدہ ہے۔ شاہ فہد اور اس کے بعد کے زمانے میں کئی سلفی العقیدہ علماء اخوانیوں کے زیر اثر آئے اور اس وقت بھی سلفی،اخوانی ہائیبرڈ تشخص کے حامل علماء سعودی عرب میں موجود ہیں۔ جن  میں سے کئی زیر حراست  بھی ہیں۔ نئی سلفیت جو اخوانیوں کے حوالے سے بہت سخت ہے، وہ اس وقت سعودی اسٹیٹ کو نیا بیانیہ فراہم کر رہی ہے  اور یہ واضح کررہی ہے کہ کیسے اخوانی  حزبیت نے مملکت کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس نئی سلفی سوچ کے علمبرداروں میں سے ایک ڈاکٹر سلیمان ابا الخیل  ہیں جو اس وقت سعودی اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب آچکے ہیں اور اخوانیوں کے خلاف فکری بیانیہ بنانے میں پیش پیش ہیں۔

اس لحاظ سے سعودی عرب اب سلفی و اخوانی الائینس (جس کا ثبوت رابطہ عالم اسلامی، ندوہ الشباب، اغاثہ کے دفاتر اور دیگر سعودی ادارے و جامعات تھے) سے ہٹ کر بتدریج ایک ایسی سلفی تعبیر کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں نئے الائینس فقہی و مذہبی بنیادوں کی بجائے سیاسی تعبیرات و موقف کی بنیاد پر بنیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب میں ان سلفی علماء کی پذیرائی ہوگی جو فقہی موشگافیوں اور جھگڑوں کو چھوڑ کر دیگر فقہی مسالک کے ساتھ مل کر چلیں گے۔ اب فوکس ان قوتوں کو دور کرنے پر ہے جو سیاسی اسلام کی تعبیرات کی آبیاری کرتی ہیں اور اس کے نتیجے میں پہلے سے مستحکم سیاسی سیٹ اپ کو ہٹانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس تناظر میں یہ نئی سلفی سوچ (نئی ان معنوں میں کہ ان حکومت کو صرف اسی تعبیر کی ضرورت ہوگی) روایتی آل شیخ ماڈل کو بھی چیلنج کرے گی جو سلفی اور اخوانی فکر کے درمیان سے راستہ نکال کر کام چلاتی تھی۔

سعودی معیشت کو جو خطرات لاحق ہیں وہ حقیقی اور دیرپا ہیں۔ تیل کی اساس پر کھڑی معیشت کا کوئی مستقبل نہیں اور معاشی طور پر مضبوط اور متنوع اکانومی محمد بن سلمان کے لئے ایک چیلنج ہے۔ چونکہ یہ چیلنج حقیقی ہے اور اسے پڑھے لکھے اور اندرون و بیرون مملکت لوگ سمجھتے ہیں،سو بڑی چابکدستی سے محمد بن سلمان نے کرپشن کا معاملہ اس سے جوڑ کر سیاسی مقاصد بھی حاصل کرلئے ہیں۔ جو قوتیں سعودی عرب کی معیشت کے حوالے سے کئے گئے اقدامات کو درست سمجھتی ہیں ان کے لئے کرپش  والی بات پر کوئی بڑا اعتراض کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ گو کہ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ صحیح سلوگن کو غلط سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے کا اندیشہ ہے مگر ایسا کہاں نہیں ہوتا؟ سرمایہ دارانہ نظام میں ایک حد تک کرپشن بذات خود مطلوب ہے ورنہ بڑے پراجیکٹس میں نجی سرمایہ کاری نہیں ہوسکتی۔ اس میں شک نہیں کہ سعودی عرب میں کرپشن اس وقت قابل قبول حد سے بہت  زیادہ بڑھ چکی ہے۔ محمد بن سلمان نے اپنے سیاسی مخالفین سے اس کام کا آغاز کیا مگر اس سے بھی معاشی فوائد ہی نکلنے  کی توقع ہے، بشرطیکہ سیاسی استحکام حاصل کرلیا گیا۔ نظریاتی محاذ پر محمد بن سلمان کو کچھ اقدامات بہرحال ایسے اٹھانے پڑیں گے جو اس کے امریکی و مغربی اتحادیوں کو اپنے اپنے ممالک میں فیس سیونگ دے سکیں۔ اس لئے انتہا پسندی سے دوری اور اس سے نفرت کی باتیں ہوتی رہیں گی.مگر ابھی تک محسوس یہ ہورہا ہے کہ یہ معاملہ حقیقت سے زیادہ کاسمیٹک رہے گا اور اس کا بھی زیادہ نشانہ اخوانی ہی بنیں گے۔ ہاں البتہ سعودی معاشرے کے اندر کچھ  اقدامات ضرور ایسے ہوں گے جو بحیثیت مجموعی لبرل قوتوں کو مضبوط کریں گے۔ ان میں خواتین کی ڈرائیونگ، نیوم شہر کی تعمیر جیسے منصوبے اور دیگر کئی اقدامات شامل ہیں۔ اس سے وہاں کا مذہبی حلقہ اپنا نفوذ کم ہوتا محسوس کرے گا اور ان کے بیرون دوست بھی ڈسٹرب ہوں گے۔ یہاں ایک مرتبہ پھر پاکستان کے مشرف ماڈل کی طرف اشارہ کرنا مفید ہوگا کہ کس طرح میڈیا کی آزادی اور لبرل قوتوں کی سرپرستی ایک طرف جاری رہی اور دوسری طرف ایک اسٹریٹجی کے تحت اسٹیٹ کی حامی جہادی قوتوں کو بھی محفوظ رکھا گیا۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہی کچھ سعودی عرب میں ہونے جارہا ہے۔ وہاں کا کور مذہبی حلقہ محفوظ رہے گا مگر معاشرتی لیول پر کچھ نہ کچھ لبرل اقدامات سامنے آئیں گے جس سے مذہبی حلقوں کا مجموعی اثر ڈھیلا پڑے گا۔

پاکستان کا مفاد

 

 

 

پاکستان میں نواز شریف حکومت کے خاتمے کے بعد سے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں کسی حد تک گرمجوشی دکھائی دے رہی ہے۔ نواز شریف سے سعودی ناراضگی کوئی چھپی ہوئی بات نہیں تھی اور نواز شریف جس جگہ آج کھڑے ہیں، اس میں سعودی کردار بھی واضح ہے۔ جنرل راحیل شریف کی سعودی عرب میں موجودگی بہت ہی اہم فیکٹر ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی افغان او رانڈیا پالیسی کے جو انتخابی نعرے تھے ،ان کے شر سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے پاکستان کی آرمی نے سعودی عرب کو ایک مرتبہ پھر شیلٹرکے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ٹرمپ اور محمد بن سلمان کی ڈیل میں اگر ہم براہ راست شامل نہ بھی ہوں تو بھی محمد بن سلمان کی ٹیم کے حصے کے طور پر توقع یہ ہے کہ ہمارے اسٹریٹجک و معاشی مفادات کا بھی خیال رکھا جائے گا۔ جہاں ٹرمپ ایڈمنسٹریشن زیادہ ٹائٹ کرنے کی کوشش کرے گی وہاں راحیل فیکٹر کو بروئے کار لا کر راستہ نکالا جاسکتا ہے۔

راحیل شریف کا محمد بن سلمان ٹیم کا حصہ ہونا اور ممکنہ طور پر حالیہ اقدامات کی مشاورت و پالیسی میں شریک ہونا خاصا  رسکی معاملہ بن سکتا ہے۔ کیا محمد بن سلمان حالات کو کنٹرول کر کے حکومت سنبھال لیں گے؟ یہ ملین ڈالر سوال ہے اور اسی سے سارا رسک وابستہ ہے۔ سعودی شہزادوں کی اندرونی لڑائی میں پڑنا ہمارے لئے مشکل کام ہے مگر اس سے پوری طرح بچنا بھی ممکن نہیں۔ ہمیں بہرحال امریکہ کا حل نکالنا ہے اور اس وقت محمد بن سلمان یہ کام کرسکتے  ہیں۔ اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ایک نوجوان شہزادہ اگر پاور میں آجاتا ہے تو ہمارے لیے  لمبے عرصے تک  یہ دردسر ختم ہوجائے گا کہ اگلے بادشاہ کے ساتھ کون اور کیسے نپٹے گا۔

خلاصہ بحث یہ ہے کہ سعودی عرب میں آنے والی حالیہ تبدیلیاں صرف کسی وقتی ابال یا صرف سیاسی مہم جوئی کا حصہ نہیں۔ گو کہ محمد بن سلمان اپنی جانشینی کو مستحکم اور اسے سہولت سے بادشاہت میں ڈھالنے کے لئے راستے کی رکاوٹیں ہٹا رہے ہیں مگر معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اوبامہ کے اخوانی مشیروں نے جو گیم ترتیب دی تھی اس کے خلاف سعودی پہلے ہی سے صف آراء ہوچکے تھے اور محمد بن سلمان نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ کے بعد اس میں تیزی لائی ہے۔ اسے قطعی طور پر اس انداز میں دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ سعودی عرب کوئی  لبرل اور سیکولر اسٹیٹ بننے جارہی ہے۔ وہاں روایتی مذہبی حلقے کی پذیرائی باقی رہے گی بشرطیکہ اسلام ازم کی وبا اس میں سے نکال دی جائے۔ اس وبا کے تدارک کے لئے نیا بیانیہ شروع ہوچکا ہے اور فرقہ واریت سے بالاتر وسیع المشربی کی حامل سلفی تعبیر کو پروان چڑھائے جانے کی توقع ہے۔ ایک ایسی تعبیر جس میں اہل سنت کے ڈسکورس کو سامنے لا کر غیر سیاسی پہلوؤں کو نمایاں کیا جائے گا۔

پاکستان کا بحیثیت اسٹیٹ اس سارے عمل میں جو بھی کردار ہے وہ پاک فوج کے ہاتھ میں ہے۔ پاکستان کی سویلین لیڈرشپ اس سے آوٹ ہے اور انہیں اتنا ہی پتا ہے جتنا بتانا مطلوب ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...