کیا نیوم منصوبہ اور یمن جنگ ایک ساتھ چل سکیں گے؟

1,016

اتوار29 اکتوبر کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں عرب اتحاد کا  ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں  حوثی باغیوں  کے خلاف برسرجنگ عرب اتحاد میں شامل ممالک کے وزرائے خارجہ اور مسلح افواج کے سربراہان  شریک ہوئے۔اجلاس کی صدارت سعودی وزیر خارجہ  عادل الجبیر نے کی۔

اجلاس کا مقصد یمنی صدر عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت کی تمام ملک میں عمل داری کا قیام ،باغیوں کے زیر قبضہ یمن کے تمام علاقوں کی بازیابی اور خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے مختلف اقدامات ،خطے میں ایران کی مداخلت کو روکنا  اورعرب اتحاد کی انسانی امدادی اور سیاسی سرگرمیوں  اور فوجی کارروائیوں کو مزید مربوط بنانے کے لیےمستقبل کے لائحہ عمل پر  غور و خوض  کرنا بتایا گیا ہے ۔یہی وہ مقاصد تھے  جن کے حصول کے لیے عرب اتحاد نے یمن میں مارچ 2015 میں حوثی باغیوں اور سابق صدر علی صالح کی وفادار فورسز کے خلاف کارروائی شروع کی تھی۔

اجلاس  نے رواں ماہ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ہونے والی اس سالانہ رپورٹ کو مسترد کیا گیا جس میں یمن میں آئینی حکومت کی بحالی کے لیے سرگرم عرب اتحاد پر یمن میں بچوں کے حقوق کی پامالی کا الزام عاید کیا گیا تھا اور کہا گیا  کہ” اقوام متحدہ کی یمن بارے رپورٹ میں بیان کردہ اعدادو شمار حقائق کے منافی ہیں اور یہ کہ غلط معلومات اور غیر مصدقہ اعدادو شمار کے ذریعے عرب اتحاد کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے ۔اعلامیہ  میں   کہا گیا  کہ  یمن میں بچوں کے حقوق اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا ارتکاب حوثی اورعلی صالح ملیشیاؤں کی جانب سے کھلے عام کیا جا رہا ہے اور جب تک  حوثی  اپنی کارروائیوں سے باز نہیں آتے، عرب اتحاد یہ جنگ جاری رکھے گا۔

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے  بھی  اس سوال کے جواب میں کہ یمن کی جنگ کب تک جاری رہے گی؟ بڑی شدومد سےکہا ہے کہ” یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک  ہمیں یقین نہ آ جائےکہ ہماری سرحد کے قریب کوئی  حزب اللہ نہیں ہے۔”اس بیان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ  فی الحال  اس جنگ کے خاتمے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے  یمن کی جنگ کو نیوم منصوبے سے جوڑتے ہوئے  مزید کہا کہ”ہم سعودی عرب کے نیوم جیسے بڑے بڑے منصوبوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں  اور چونکہ نیوم بحر احمر  کے ساتھ واقع ہے  اس لیے بحر احمر کے علاقے میں یمنی حوثیوں کو شکست دے کر یمنی ساحلوں سے انہیں بے دخل کرنا ضروری ہے۔انہوں نے گزشتہ  دنوں یمنی علاقوں اور باب المندب کے علاقے کا دورہ کیا اور کہا کہ اگر یہاں کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو عالمی تجارت کا 10 فیصد رک جائے گا۔

 نیوم  منصوبہ  سے متعلق اقتصادی کانفرنس میں بات کرتے ہوئے شہزادہ محمد  نے کہا کہ ہم تین براعظموں کے سنگم پر واقع ہیں اور فضائی اور بحری ٹرانسپورٹ روٹس کے اہم اور خصوصی محل وقوع کے حامل ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ دنیا کی 10 فی صد تجارت بحیرہ احمر کے ذریعے ہوتی ہے۔ ہمارا ایک شاندار فطری ماحول ہے، یہاں پہاڑ اور وادیاں ہیں ، ساحل سمندر اور جزیرے ہیں۔ موسم سرما میں پہاڑ برف سے ڈھک جاتے ہیں،موسم گرما میں درجہ حرارت معتدل رہتا ہے اور یہ دوسرے خلیجی شہروں اور دارالحکومتوں سے 10 ڈگری کم ہی ہوتا ہے۔ ہم مضبوط سیاسی عزم اور پختہ عوامی عزم وہمت کے مالک ہیں۔ سعودی عرب میں کامیابی کے تمام عوامل موجود ہیں،اس علاقے کی زمین تقریبا غیر آباد ہے اس لیے ہم نے سوچا کہ   ہم یہاں روایتی انداز میں ایک شہر بنائیں۔ ہمارے پاس ایک ایسی نئی نسل کو بنانے کا موقع موجود ہے جس کو نئے طرز ِزندگی، شہروں، ٹیکنالوجیز، صحتِ عامہ اور خدمات دستیاب ہوں۔”

اپنے اس خطاب میں جہاں  سعودی ولی عہد نے نیوم منصوبےکے خدو خال واضح کیے وہاں  یمن جنگ اورقطر تنازعہ  کی جانب بھی اشارہ  دیتے ہوئے کہا کہ”ہم اپنے آیندہ تیس سال کو انتہا پسندی کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے نہیں گزار دیں گے یا محدود تر اور چھوٹے چھوٹے معاملات ہی میں الجھ کر نہیں رہ جائیں گے۔ ہماری شناخت اور دین نے کبھی ہمیں اچھائی سے نہیں روکا ۔ ہم انتہا پسندی اور مایوسیاں پھیلانے  والے عناصر  کے باوجود بہتر بننے کی کوشش کریں گے۔ اگر آپ مجھ سے ان سماجی برائیوں کے بارے میں پوچھتے ہیں تو میں آپ سے یہ کہنا چاہوں گا کہ ایک مایوس شخص اور ایک انتہا پسند، دونوں ہی اپنی موت کو دعوت دے رہے ہیں۔”اس بیان سے تو یہ  معلوم ہوتا ہے کہ   سعودی عرب جلد  جنگ سے نکل کر اپنی معاشی ترقی  اور ملک  کی خوشحالی پر توجہ دینا چاہتا ہے لیکن  اتوار کے دن   ریاض میں ہونے والے عرب اتحاد کے اجلاس میں   حوثیوں کی جانب سے کاروائیوں کے خاتمے تک  جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

سوال  یہ ہے کہ  کیا سعودی عرب یمن میں لڑائی جاری رکھے گا یا    ویژن2030 کے تحت  نیوم جیسے  تعمیری منصوبوں کو آگے بڑھائے گا؟یاد رکھنا چاہیے کہ جنگیں  صرف مغلوب اقوام کے لیے ہی تباہی کا سندیسہ  لے کر نہیں آتیں  بلکہ  ان سے  غالب اقوام اور معاشرے بھی شدید متاثر ہوتے ہیں۔

سعودی ولی عہد اگر ویژن2030  کے تحت نیوم جیسے عظیم تعمیری منصوبوں  کو کامیابی سے ہمکنار دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں   یمن میں جنگ اور قطر کے ساتھ مخاصمت  پر نظرثانی کر کے  بات چیت اور مکالمے کے ذریعہ  مسئلے کا حل   تلاش کرنا ہو گا کیونکہ  ایک وقت میں  کسی ایک ہی چیز کا انتخاب کیا جا سکتا ہے،جنگ یا ترقی۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...