نظریات کی طوائف الملوکی

1,427

عسکریت پسندگروہ داعش اگرچہ اپنے زیرِ تسلط علاقوں سے  تیزی سے محروم ہو رہا ہے مگر اس کی نظریاتی کشش  اس رفتار سے متاثر نہیں ہو رہی کیونکہ عالمی اسلامی خلافت کی چمک دمک بیشتر مسلم معاشروں کے ذہنوں میں موجود ہے۔
عسکریت پسندوں کے نظریات اوراسلامی تعلیمات کی ایسی تشریحات جو اِن کی عسکری کارروائیوں  کو جواز بخشتی ہیں، کے علمی سطح پر رد کیلئے کچھ نامور مسلم اسکالرزنےنہایت عرق ریزی سے  کام کیا ہے ،مگر یہ کوششیں بڑے پیمانے پر ایک متبادل نظریاتی بیانیہ دینے میں نا کام رہی ہیں۔ خیال رہے کہ زیادہ تر مسلم عوام  بالخصوص نوجوان شدت پسند انہ بیانیے سے متاثر ہیں۔ روایتی فرقہ وارانہ حریفوں کی موجودگی   اور باہم بر سرِ پیکار پر تشدد بنیاد پرستانہ نظریات کی بہتات  کے سبب پاکستان میں یہ خطرہ دو چند ہو جاتا ہے۔

داعش اور القاعدہ نظریات کے مدِ مقابل ملی مسلم لیگ کی صورت میں جماعۃ الدعوہ ایک متبادل سیاسی  بیانیہ سامنے لائی ہے۔ مذکورہ گروہ کا خیال ہے کہ ان کے نظریاتی عزائم پاکستانی ریاست اور سماج کے اسلامی نظریاتی تشخص کو اجاگر کریں گے  جس سے نہ صرف  شدت پسندانہ نظریات کی اثر انگیزی پر زد پڑے گی بلکہ نوجوان نسل کو تعمیری سرگرمیوں  کی طرف مائل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔بیشتر حوالوں سے بحث طلب  مختلف النوع  سیاسی و سماجی مضمرات  کے علاوہ جماعۃ الدعوہ کی نظریاتی بالادستی  کے دو پہلو  نہایت اہم ہیں۔  اولاً یہ کہ ایک بنیاد پرست سلفی گروہ نظریہ پاکستان اورملک کے قومی تشخص کی آڑ میں پاکستان میں قومیت کے بنیادی تصورات  کو از سرِ نو تعمیر کرنا فرضِ عین  سمجھتا ہے۔  یہ بات کتنی مضحکہ خیز ہے کہ ایک عسکریت پسند گروہ اُس قومی نظریے  کا وارث بن چکا ہے جسے گزشتہ 70 برسوں میں ریاستی اداروں نے پروان چڑھایا۔ثانیاً یہ مجموعی طور جدید اسلامی ریاست کے نکتہِ نظر کی فراہمی اور اس کے قیام میں ہمارے اجتماعی شعور کی ناکامی کا مظہر ہے۔

پاکستانی ریاست ان کے نظریات کی اصلاح  کرنے  یاان پر قابو پانے کی بجائے دانستہ یا نا دانستہ  ایسے منفی نظریاتی رجحانات کو پنپنے اور پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کر رہی ہے۔ ریاست کی طرف سے نظریاتی پرورش کے لئے زرخیز ماحول کی فراہمی اور سماجی وسیاسی اشرافیہ میں سے بعض رہنماؤں کی طرف سے غیر لچکدارانہ اعتقادات کے اظہار سے فرقہ واریت کو ہوا ملی۔ اس صورتِ حال سے مختلف نظریاتی رجحانات  نے جنم تو لیا مگر یہ تنوع تنگ نظراور فرقہ وارانہ دائروں تک محدود ہے۔

معروف اسکالر خالد احمد بریلوی، دیوبندی اور اہلِ حدیث مکاتبِ فکر کے مابین  بڑھتی ہوئی مسلکی خلیج کو عیسائی مذہبی اصطلاحات  کے تناظر میں بیان کرتے ہیں۔  ان کے مطابق اول الذکر مکتبہِ  فکر Low Church اور آخرالذکر دونوں مکاتبِ فکر مجموعی طور پر  High Churchکی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ مسلکی عصبیت اور اور مزارات پر حملوں کو کلیساؤں کی باہمی کشمکش کا نام دیتے ہیں۔بریلوی مکتبہِ فکر کے بڑھتے ہوئے حالیہ تحرک کو بھی اسی پیرائے میں دیکھا جا سکتا ہے جو کہ کوئی شعوری یا اصلاحاتی جدوجہد نہیں بلکہ دیوبند کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کا ردِ عمل ہے۔ اسی طرح ملی مسلم لیگ کا قیام بھی  اہلِ حدیث مکتبہِ فکر کی جانب سے  سیاسی رسوخ کی ایک کوشش ہے  جو مستقبل میں فرقہ وارانہ پھیلاؤ کی غمازی کرتی ہے۔Low Church سنی عصبیت کی بناء پرپنپ رہا ہے اور  High Church پنے سیاسی اور نظریاتی پسِ منظر کی وجہ سے مائل بہ وسعت ہے۔افراط و تفریط کے اس ماحول میں کچھ معتدل آوازیں سنی جا سکتی ہیں لیکن ان میں معقول اظہاریے کا فقدان ہے۔علامہ اقبال کے نظریہ احیائے اسلام سے متاثر متوازی جدت پسندتحریک پاکستان میں سرگرمِ عمل تو ہے مگر اتنی توانا نہیں۔  متبادل جدیدیت کی جستجو میں عقلیت پسند مسلمان جمہوریت اور اسلامی تعلیمات میں مطابقت  پیدا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں تاہم روایت پرست علماء ان کے جدت پسندانہ بیانیے کے فروغ میں مزاحم ہیں اور انہیں سوادِ اعظم کا حصہ نہیں سمجھتے ۔ اپنے پیروکاروں کی معقول تعداد رکھنے کے باوجود جاوید احمد غامدی  جیسے عقلیت پسند اسکالرز خود کوعقلیت پسند کہلوانے سے ہچکچا رہے ہیں۔روایت پرست علماء اورعقلیت پسند مفکرین ، ہر دو طرح  کے نظریاتی تصورات سے غیر مطمئن لوگوں میں ایک اور سیاسی و سماجی رجحان  موجود ہے جو ان دونوں زاویہ ہائے فکر کی درمیانی  راہ پر گامزن ہے۔اگرچہ یہ کوئی منظم تحریک نہیں ہے مگر شہری و دیہی علاقوں کے بیشترمتوسط طبقات  عالمی تناظر میں   ایسے معتدل نظریات پر یقین رکھتے ہیں جو مذہب اور مادی دنیا، بالخصوص دنیا میں وقوع پذیر سماجی تغیرات کے ساتھ ہم آہنگی کی خواہش پر مبنی ہیں۔

بیرسٹر ظفر اللہ خان کی کتاب ” اسلام معاصر دنیا میں: ایک نیا بیانیہ” اسی طرح کے رجحان کی عکا س ہے۔ یہ کتاب تاریخِ اسلامی کی از سرِ نو تشکیل کرتی ہے اور اس پر استدلال کرتی ہے کہ مسلم روایت  علومِ وحی پر اطلاقِ علت کرتے ہوئے عالمگیر سچائیوں  میں وجوہات  کے وجود پر یقین رکھتی ہے۔ مسلم معاشرے میں سائنس کی ابتر صورتِ حال کے سبب غیر منظقی رویے  وسعتِ فکر کو زنگ آلود کر رہے ہیں۔ مصنف کا خیال ہے کہ اگر مسلمان جدید دنیا میں ایک معتبر مقام پانا چاہتے ہیں تو انہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ تغیر پذیر سماجی روایات اور اسلام میں ہم آہنگی پر بھی بات کرتے ہیں۔

پاکستان کاآزاد خیال طبقہ اسلامی علمی مکالمے میں دلچسپی نہیں لیتا۔ وہ مذہب کو ایک سیاسی و سماجی تناظر میں دیکھتا ہے مگر مذہبی اصلاحات  کے مباحث کا حصہ بننے سے گریزاں ہے۔ اس طبقہِ فکرکی عدم موجودگی نے مذکورہ بحث کو روایتی دائروں تک محدود کر دیا ہے۔وہ قائدِ اعظم کے اس نظریے سے متاثر ہیں کہ مذہب کسی بھی شخص کا نجی معاملہ ہے اور ممکن ہے کہ اِن حضرات  کی مذہبی مباحث  میں دلچسپی سے  انہیں   اپنےاس نظریے کی عدمِ پیروی کا اندیشہ لاحق ہو۔ تاہم یہ آزاد خیالی صرف  سماجی و سیاسی اشرافیہ کے مختصر طبقے کو متاثر کر پائی ہے۔ کچھ صوفیانہ اور روحانیت پرستی جیسے ملے جلے رجحانات بھی پاکستان میں موجود ہیں مگر  ان میں سے وہی باقی رہ پاتے ہیں جو اپنے پیروکاروں کا ایک وسیع حلقہ بنانے میں کامیاب رہے ہوں۔آزادانہ اور کھلے فکری ماحول میں کچھ نظریات  ممکنہ طور پر زندہ نہیں رہ سکتے ،سو انہیں ایک کثیر الجہت منظم ڈھانچے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً تمام مذہبی اور نظریاتی تحریکیں ، سیاسی، رفاہی، تعلیمی اورعملی شاخوں پر مبنی تنظیمی ڈھانچوں کی صورت میں موجود ہیں۔  ایک تحریک جتنی زیادہ  فعال تنظیموں پر مشتمل ہو گی  اسے اپنی بقاء اور ترقی کے اتنے ہی مواقع میسر ہوں گے۔

اگرایک بنیاد پرست،عسکریت  پسند اور فرقہ وارانہ گروہ بہتر تنظیمی وسائل رکھتا ہے تو وہ ملکی نظریے کا اپنے تئیں محافظ بن کر ریاست کو یرغمال بنا سکتا ہے، وہ ملکی نظام یا جمہوری اقدار کی پاسداری کو ضروری خیال نہیں کرتا۔ کمزور تنظیمیں ہمیشہ اس کوشش میں رہتی ہیں کہ وہ کس طرح وسائل کو بروئے کار لاکر قوت حاصل کریں اور اپنے سے زیادہ طاقتور کو للکار سکیں۔وسائل کی یہ چھینا جھپٹی نہ صرف فکری وسعت کو منجمدکرنے اور مسلکی اختلافات کو ہوا دینے کا باعث بنے گی بلکہ کسی بھی وقت یہ کشمکش مزیدبھیانک رخ اختیارکرسکتی ہے۔

(ترجمہ: حذیفہ مسعود، بشکریہ: ڈان)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...