درختوں کو قومی اثاثہ قرار دیا جائے
قارئین! آپ پاکستان میں جس بھی شہر یا دیہات میں رہتے ہیں، کبھی آپ نے اپنے اردگرد غور کیا ہے کہ جتنے بھی سائن بورڈز لگے ہیں ان پر کتنے اور کیسے کیسے پوسٹر چسپاں ہیں اور دیواروں پر کیا کیا کچھ لکھا اور لگا ہوا نظرآتا ہے؟ آپ نے کبھی سوچا کہ یہ سب ہمارا مشترکہ اثاثہ ہیں؟ آخر وہ لوگ کون ہیں جو ان کو بدنما کرتے ہیں؟ اور آپ کون ہیں جو اس پر چپ سادھ چکے ہیں؟ کیا ایسا ہونا چاہیئے؟ ہم ایسا ہر گز نہیں چاہتے ہیں کہ ہمارا اردگرد کا ماحول بدنمائی کی مجسم تصویر بنے تو ایک اور مسئلہ جو اس وقت پورے عالم انسانیت کا مسئلہ ہے وہ ہے درختوں کا بے دریغ کٹنا۔ چاہے وہ کسی کے صحن میں ہی کیوں نہ لگا ہو۔ وجہ عالمی سطح پر درجہ حرارت کا خطرناک حد تک بڑھناہے۔ دنیا بھر کی طرح درختوں کو کاٹنے پر قوانین بنائے جا چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس پر سخت ترین قوانین موجود ہیں۔ جس میں درخت کاٹنے پر قید اور جرمانے کی سزا واضح طور پر موجود ہیں۔
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر سایہ دار رہ میں ہیں
کیا خوب کہا تھا جناب حید ر علی آتش نے، لیکن انہیں کیا پتہ تھا کہ یہ سارے سایہ دار شجر اب تو عنقا ہونے کو ہیں۔ دنیا نظر نہ آنے والی آگ کی حدت سے بھسم ہورہی ہے اور اس مہربان زمین پر زندگی مشکل ہوتی جارہی ہے۔ ایک مشہور حکایت ہے کہ ایک بوڑھا شخص اخروٹ کا ننھا منا پودا لگا رہا تھا تو وہاں سے ایک بادشاہ کا گزر ہوا۔ بادشاہ کو کچھ عجیب لگا کہ ایک بوڑھا شخص جو قریب قریب مرنے کو ہے کیسے ایک ایسا درخت لگا رہا ہے جو برسوں بعد پھل دے گا؟ قریب جاکر پوچھا کہ اے مرد خدا! تجھے کیا سوجھی ہے کہ درخت لگا رہا ہے؟ تُو تو اس کا پھل کبھی بھی نہیں کھا سکے گا۔ بوڑھے نے کہا کہ میں نے اس سے پہلے ان درختوں کا پھل کھایا جو مجھ سے پہلے لوگوں نے لگایا تب وہ بھی نہیں کھا سکے تھے۔ آج میں یہ پودا لگارہا ہوں کل کو یہ تناور درخت بنے گا اور اس کا پھل دوسرے کھائیں گے۔ بادشاہ کو یہ بات بہت پسند آئی اور اس نے اسے انعام سے نوازا۔ بوڑھا خوش ہوا اور کہا کہ دیکھا ابھی پودا لگایا نہیں اور اس کا پھل مجھے مل گیا۔ بادشاہ کو یہ بات بھی اچھی لگی اور اس نے دوبارہ اسے انعام دیا تب اس بوڑھے شخص نے کہا میں اپنی پوری زندگی میں کبھی ایسا درخت نہیں دیکھا کہ ایک سال میں دوبار پھل دے۔ بادشاہ حیرت میں پڑگیا کہ بوڑھے شخص نے تو اسے لاجواب کردیا۔ تب اس نے اس بوڑھے کو مزید انعام و اکرام سے نوازا۔ حکایت میں مقصد انعام و اکرام کا تذکرہ نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ یہ ایک انسانی اور اجتماعی ذمہ داری ہے اور صدقہ جاریہ بھی۔
کچھ سال پہلے لدھیانہ یونیورسٹی کے ایک سابق وائس چانسلر پروفیسر گروچن سنگھ اپنی جنم بھومی فیصل آباد میں آئے تھے تو وہ اپنی درسگاہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد بھی گئے، تب یہ دیکھ کر حیران و پریشان ہو گئے کہ وہاں ان کی علمی درسگاہ میں قدیمی درخت سرے سے ہی غائب تھے۔ اندازہ کریں کہ ایک زرعی یونیورسٹی اپنے اثاثوں کا تحفظ نہ کرسکی
کچھ سال پہلے لدھیانہ یونیورسٹی کے ایک سابق وائس چانسلر پروفیسر گروچن سنگھ اپنی جنم بھومی فیصل آباد میں آئے تھے تو وہ اپنی درسگاہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد بھی گئے، تب یہ دیکھ کر حیران و پریشان ہو گئے کہ وہاں ان کی علمی درسگاہ میں قدیمی درخت سرے سے ہی غائب تھے۔ اندازہ کریں کہ ایک زرعی یونیورسٹی اپنے اثاثوں کا تحفظ نہ کرسکی۔ اسی طرح قانون پر عملداری دیکھیے کہ بھارتی اداکار رشی کپور پر باقاعدہ ایف آئی آر کاٹی گئی کہ جب اس نے اپنے بنگلے کے سامنے چھ شاخوں کو تراشنے کی باقاعدہ اجازت لے لی تھی لیکن جب تفتیش کی گئی تو پتہ چلا چھ سے زیادہ شاخوں کو کاٹا گیا تھا۔
کراچی ہائی وے پر ایک مشہور کیس درج ہوا کہ جب وہاں چھ سو کے قریب نیم جیسے اہم اور نایاب درختوں کو کاٹا گیا تو دوسری طرف چھ ہزار کے قریب درختوں کو جب ایم نائن موٹروے کراچی اور حیدرآباد کے درمیان کا ٹا گیا تو پتہ چلا تو کیس درج کرنے میں محکمہ ماحولیات کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ مثالیں بہت ہیں، ایک مثال اور پیش خدمت ہے جب میں سن بلوغت کو پہنچ رہا تھا تب کوئٹہ کی مشہور ترین ٹھنڈی سڑک (موجودہ زرغون روڈ) کو وی آئی پی سڑک بنانے کے لیے نایاب اور قدیمی درختوں سے محروم کردیا گیا۔ اس سڑک پر کسی کتاب میں کوئی شعر پڑھا تھا شاید اس طرح تھا:
یہ ٹھنڈی سڑک چناروں کے سائے
کبھی تم بھی آﺅ خدا تم کو لائے
کوئٹہ کی ٹھنڈی سڑک کے درختوں کوکاٹنے کی اجازت کس دل سے اور کس نے دی ہوگی؟ کوئٹہ جہاں درختوں کی دیکھ بھال سخت ترین سردی میں بہت مشکل ہوجاتی ہے، وہاں تناور درختوں کو کاٹ کر پرے پھینکنا ظلم کی انتہا ہے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا اس پر کیا رد عمل ریکارڈ پر موجود ہے؟ پاکستان میں ممکن ہے بے شمار کیسز درخت کاٹنے پر درج ہوچکے ہوں لیکن ان کے اثرات اور ثمرات دیکھنے کو نہیں مل رہے ہیں۔ ضروری ہے کہ موجودہ قوانین کو اٹھارویں ترمیم کی روشنی میں زیادہ موثر انداز میں نظر ثانی کرکے اس حد تک قابل عمل بنایا جائے کہ درختوں کو قومی اثاثہ قرار دیا جائے اور اس پر کسی بھی سمجھوتے سے گریز کیا جائے۔
جب درخت کی اہمیت، خوبصورتی اور قدر وقیمت پر موجودہ دور میں بچے بچے کو بنیادی تصور میں مشکل نہیں تب اس طرح کی قانون سازی اور اس کی عملداری پر فقط خلوص و نیک نیتی ہی درکار ہے۔ ہم اور آپ ایک درخت لگائیں یا ایک ارب درخت، اس سے پہلے ضروری ہے کہ یہ لازمی سیکھ لیں کہ درختوں کی حفاظت کس طرح سے کی جائے؟
فیس بک پر تبصرے