حلقہ این اے فور میں ضمنی الیکشن
صوبے میں برسراقتدارجماعت نے بھی اس سیٹ پر ہونے والے ضمنی الیکشن کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ارباب عامر کو ٹکٹ دیا ہے جو حال ہی میں اے این پی سے مستعفی ہو کر تبدیلی کی ٹیم میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں ۔ اس سے پہلے ارباب عامر ٹاون تھری کے ناظم بھی رہ چکے ہیں ۔
پشاورکے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے فور پر 26اکتوبر کو ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان کانٹے دارمقابلہ متوقع ہے، جس کےلئے تمام سیاسی جماعتوں نے تیاریاں مکمل کرلی ہیں اور تمام امیدوار بھرپور جوش و جذبے سے سیاسی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نشست جیتنے کے لئے تحریک انصاف ،مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی پورا پورا زور لگارہی ہیں۔ اس حلقے پر ہونے والے ضمنی انتخابات کو آئندہ انتخابات کے حوالے سے بہت اہم تصور کیاجارہا ہے جس سے نہ صرف یہ اندازہ لگایا جائے گا کہ کس پارٹی کی کتنی مقبولیت ہے بلکہ یہ بات بھی واضح ہو جا ئیگی کہ آئندہ انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی متوقع پو زیشن کیا ہو گی ۔ اس اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے تمام بڑی جماعتوں کی مرکزی قیادت بھی انتخابی مہم میں مصروف ہے۔یہ نشست پاکستان تحریک انصاف کے ناراض ایم این اے گلزارخان کی وفات پر خالی ہوئی تھی ، پاکستان پیپلزپارٹی نے انکے فرزند اسد گلزارخان کو میدان میں اتاراہے۔ اس حلقے میں ان کا خاندان اچھے اثرورسوخ کا حامل ہے۔ مسلم لیگ (ن) 2013 کے الیکشن میں اس حلقہ سے دوسری پوزیشن حاصل کرنے والے امید وارناصر موسیٰ زئی کو سامنے لائی ہے ، ناصر موسیٰ زئی نے بیس ہزارسے زائد ووٹ لئے تھے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے مضبوط امیدوار کو میدان میں اُتارا ہے تاکہ اگر سیٹ جیتی نہ جاسکے تو زیادہ سے زیادہ ووٹ لیکر آئندہ انتخابات کیلئے پارٹی پوزیشن مضبوط ہو ۔ خوشدل خان 2008ءکے عام انتخابات میں حلقہ پی کے 10 سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اوراپنے دورحکومت میں ڈپٹی سپیکر صوبائی اسمبلی بھی رہے جبکہ 2008 کے الیکشن میں این اے فور پربھی اے این پی کے ہی امیدوارنے کامیابی حاصل کی تھی۔ روایتی طور پر یہ حلقہ اے این پی کا رہا ہے تاہم 2013کے عام انتخابات میں اے این پی نے اس سیٹ پر 15700 ووٹ لیکر چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی۔
صوبے میں برسراقتدارجماعت نے بھی اس سیٹ پر ہونے والے ضمنی الیکشن کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ارباب عامر کو ٹکٹ دیا ہے جو حال ہی میں اے این پی سے مستعفی ہو کر تبدیلی کی ٹیم میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں ۔ اس سے پہلے ارباب عامر ٹاون تھری کے ناظم بھی رہ چکے ہیں ۔ ارباب عامر چونکہ ظہیرخان کا بھائی ہے جو اے این پی کے پلیٹ فارم پر اسی حلقہ سے 1990،1993،1997اور 2008 میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوتے رہے ہیں۔ تاہم اے این پی نے 2013 کے الیکشن میں اس کو نظر انداز کرکے ارباب محمد ایوب جان کو پارٹی ٹکٹ دیا تھا ۔ ایک اندازے کے مطابق ارباب ظہیرخان کا اپنا ذاتی ووٹ کافی زیادہ ہے اور اس حلقے میں کافی اثرورسوخ بھی رکھتے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف یہ سمجھتی ہے کہ اربا ب ظہیر کا ذاتی ووٹ ملاکر پی ٹی آئی یہ سیٹ آسانی کے ساتھ جیت سکتی ہے ۔
این اے فور پر ہونے والے ضمنی انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے پشاور کے سینئر صحافی عقیل یوسفزئی نے کہا ہے کہ ضمنی الیکشن میں اپوزیشن جماعتیں پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دیں گی۔ ایک طرف صوبائی حکومت نے صوبے کے عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کیے تو دوسری طرف حکومت سمیت منتخب نمائندوں نے بھی حلقہ کو مکمل نظر انداز کیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پارٹی نظریاتی رہنما کو میدان میں اتارنے کی بجائے ایک روایتی امیدوار کو سامنے لے آئی ہے۔ جس سے پارٹی کے کچھ رہنما ناراض ہو کر آزاد الیکشن لڑرہے ہیں۔ عقیل یو سفزئی کہتے ہے کہ آزاد امیدوار سامنے آنے سے پارٹی کے ووٹ کو بھی کافی نقصان ہوگاتاہم اگر حکمران جماعت اس کے باوجود سہ فریقی اتحاد کو شکست دینے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پی ٹی آئی ائند ہ الیکشن میں ناقابل شکست ہو جائیگی ۔ تحریک انصاف نے پینتیس ہزار لیڈ سے اس سیٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔
اگرچہ حکمران جماعت کا امیدوار باقی امیدوارں کی بنسبت مضبوط نظرآرہا ہےلیکن دوسری طرف اس کے حریف پاکستان مسلم لیگ (ن)بھی اس کو شکست دینے کے لئے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے اوردیگر پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی دوسری بڑی مخالف جماعت جمعیت علماءاسلام (ف)نے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ جے یوآئی گزشتہ انتخابات میں اس حلقہ سے بارہ ہزار ووٹ لیکر پانچویں نمبر پر رہی تھی اور 2002 کے الیکشن میں اس حلقہ سے متحدہ مجلس عمل نے میدان مار لیا تھا۔ قومی وطن پارٹی نے بھی ن لیگ کے امیدوار کی حمایت میں اعلان کر رکھا ہے جو ہر حال میں اپنے سابق اتحادی کو شکست خوردہ دیکھنا چاہتی ہے۔ پاکستان راہ حق پارٹی جو اس حلقے میں کافی سارے ووٹوں کی مالک ہے،نے بھی ن لیگ کے امیدوار کو کامیاب کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے ۔
دوسری طرف صوبائی حکومت کی اتحادی جماعت ، جماعت اسلامی بھی پی ٹی آئی کو ناکام دیکھنا چاہتی ہے، جماعت اسلامی نے بھی اپنا امیدوار میدان میں اتاراہے۔ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے جماعت سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنا امیدوار پی ٹی آئی کے حق میں دستبردار کریں مگر جماعت اسلامی یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہے اور کہا ہے کہ پی ٹی آئی کا امیدوار بیٹھ جائے ۔ کچھ عرصہ سے جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے درمیان اختلافات چلے آرہے ہیں اور مختلف مواقع پر اتحاد ختم کرنے کی دھمکیاں بھی دیتے رہے ہیں۔
جہاں تک اس ضمنی انتخاب سے آئندہ الیکشن میں سیاسی پارٹیوں کی مقبولیت کااندازہ ہوجائیگا، وہاں پر یہ با ت بھی واضح ہو رہی ہے کہ آئندہ الیکشن میں اپوزیشن پارٹیاں پی ٹی آئی کو زیر کرنے کیلئے اتحاد کی طرف جا ئیں گی تو دوسری طرف پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑے نظر آئیں۔ بینک آف خیبر سکینڈل اور حال ہی میں جماعت اسلامی کے بونیر سے ایم این اے شیراکبر خان کی وکٹ اڑانے کے بعد جماعت اسلامی کے صوبائی حکومت سے اختلاف مزید بڑ ھ گئے ہیں اور پارٹی اس بات پرغور کر رہی ہے کہ الیکشن سے پہلے اتحاد ختم کردیں۔ این اے فور میں پی ٹی آئی کے امیدوار کی حمایت نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو شرائط جماعت آئندہ الیکشن کے لئے تحریک انصاف کے سامنے رکھ رہی ہے اس کے لئے وہ تیار نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت نہ صرف پشاور میں بلکہ سوات میں بھی جہاں جماعت اسلامی کا بہت بڑا ووٹ بینک ہے، کوئی سیٹ دینے کے لئے تیا ر نہیں ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ اگر جماعت اتحاد سے نکلتی ہے تو یہ قدم ان کے حق میں جائیگا اور پارٹی اس پوزیشن میں ہوگی کہ آزادانہ فیصلے کر سکے۔ اس الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ، جمعیت علما ءاسلام( ف) ،قومی وطن پارٹی اور پاکستان راہ حق پارٹی کے اتحاد سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں ان جماعتوں کے درمیان اتحاد ہو سکتاہے۔ اس سلسلے میں پاکستان مسلم لیگ( ن) کے جمعیت علما ءاسلام اور جمعیت علماء اسلام کے پاکستان راہ حق پارٹی کے ساتھ کسی حدتک مذاکرات بھی جاری ہیں۔ آفتاب احمد خان شیرپاﺅ کی پارٹی بھی اے این پی کے علاوہ ہر اس پارٹی سے اتحاد کریگی جو پی ٹی آئی کے خلاف لڑیگی۔صوبہ خیبر پختونخواکی سیاست پر گہرے نظر رکھنے والے سینئر صحافی شمیم شاہد بتاتے ہے کہ ملی مسلم لیگ اور لبیک پاکستان پارٹی کے آنے سے مذہبی پارٹیوں کا ووٹ بینک مزید تقسیم ہوجائیگا اور یہی وجہ ہے کہ جے یو آئی نے اپنے امیدوار کو مسلم لیگ (ن )کے حق میں دستبردار کرکے اپنی توانائیوں کو آئندہ کے لیے محفوظ کرلیا ہے۔
ایک بات تو صاف ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی ، پی ایم ایل این اور اے این پی میں سے جو بھی یہ سیٹ جیتے گی اس کی مقبولیت صوبے میں مجموعی اور پشاور میں خصوصی طور پر بڑھے گی اور جو بھی پارٹی ہارےگی اس کو جنرل الیکشن میں کافی سیٹ بیک ہوگا۔
فیس بک پر تبصرے