جنگ ایک المیہ ہے جس میں انسان بطور ایندھن استعمال ہوتے ہیں۔ خواہ ان کی ضرورت محاذ پر ہو یا نفرت پھیلانے کے لیے، مقتدر قوتیں ان کا بھرپور استعمال کرتی ہیں۔ شام میں مختلف متحارب عسکری اور دہشت گرد گروپوں کو دنیا بھر سے انسانی وسائل میسر ہیں۔ ایسے میں بشار الاسد کو تقویت فراہم کرنے والی قوتوں نے بھی اسی حربے کو آزمایا ہے اور معمولی تربیت کے بعد نوجوانوں کو جنگ میں جھونک رہے ہیں۔ ایران میں افغان پناہ گزین اس سلسلے میں تر نوالہ ثابت ہوئے ہیں۔ یہ تحقیقی رپورٹ اسی المیے کو بیان کرتی ہے۔(مدیر)
جنگ اور غربت نے افغانیوں کو بم کے ٹکڑوں کی مانند دنیا بھر میں بکھرا کر رکھ دیا ہے۔لاکھوں افغانوں نے بلوغت کی آنکھ پاکستان اور ایران میں پناہ گزینوں کے لیے قائم خیمہ بستیوں میں کھولی،اور ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو روزگار کے لیے خلیجی ممالک میں چلے گئے۔ہجرت کا سلسلہ تاحال جاری ہے اور گزشتہ چند برسوں میں بکھرے ہوئے افغانیوں کے ساتھ ساتھ ایک اور خونی جغرافیے کا اضافہ ہوا ہے اور وہ ہے شامی صدر بشار الاسد کا جنگی معرکہ۔
دو سال قبل ۱۹ سالہ عبدالامین، بامیان (جو افغانستان کے غریب ترین صوبوں میں سے ہے) کے گاؤں فولادی میں واقع اپنے گھر سے مزدوری کی غرض سے ایران گیا جہاں دو ملین غیر رجسٹرڈ افغانی اور ایک ملین افغان پناہ گزین رہائش پذیر ہیں۔اس کی ہمشیرہ اور بہنوئی اصفہان میں رہتے تھے۔اسے امید تھی کہ بامیان سے زراعت کے ذریعہ گزرنے والی غربت زدہ زندگی میں کچھ بہتری آئے گی۔
صوبہ بامیان کی دوتہائی آبادی ۲۵ ڈالر فی کس ماہانہ آمدنی پر گزربسر کرتی ہے۔بے پناہ غربت اور روزگار کے مواقع کی عدم فراہمی سے مجبور ہو کر ہزاروں افغان نوجوان کام کی تلاش میں بامیان سے غیرقانونی طور پر ایران کا سفر اختیار کرتے ہیں اور متعدد کا انجام عبدالامین جیسا ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کی جنگ کا آلہ کار بن جاتے ہیں۔
عبدالامین، اصفہان کے گھروں میں کام کر کے تقریبا دو سو ڈالر ماہانہ کی معمولی تنخوہ کمانے میں کامیاب ہو گیا اور گزشتہ برس اپنی جمع پونجی لے کر افغان پناہ گزینوں کے ایک گروپ کے ساتھ عراق چلا گیا تاکہ کربلا کی زیارت کر سکے۔یہ وہ شہر ہے جہاں حضرت محمدؐ کے نواسے حضرت حسینؓ کو ۶۸۰ عیسوی میں قتل کیا گیا تھا۔
زیارات کے بعد عبدالامین واپس ایران لوٹا لیکن اسے تین ماہ تک کوئی کام نہ ملا۔اور جیسا کہ ایران میں عموماً افغان پناہ گزینوں کے ساتھ ہوتا ہے، عبدالامین کو بھی ذلت اور نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔ عبدالامین مسلسل ملک سے نکالے جانے کے خوف میں گھرا رہا۔امین کا کہنا ہے کہ: ایران ہمارا ملک نہیں ہے یہ اجنبیوں کا ملک ہے،یا تو آپ مشکلات برداشت کر کے کچھ پیسہ کمانے کی کوشش کریں یا مر جائیں۔
گزشتہ برس ایرانی حکام نے امین کو ایک تجویز دی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ نکالے جانے کے خوف سے آزاد ہو کر ایران میں قانونی طور پر اقامت حاصل کر سکتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ دس سال تک قیام کے علاوہ ایرانیوں نے اسے ۸۰۰ ڈالر ماہانہ کی پیشکش بھی کہ بشرطیکہ وہ حضورؐ کی نواسی سیدہ زینبؑ کے مزار کی حفاظت کی غرض سے جنگ کے لیے شام جانے پر آمادگی ظاہر کرے۔
تقریبا ۲۰۱۳ء میں جب اسدی افواج باغیوں کے سامنے پسپا ہو رہی تھیں تو ایران نے اربوں ڈالر شام کو دیے اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کو شام لے کر آیا، اس کے ساتھ ساتھ عراق، افغانستان، پاکستان اور دیگر علاقوں سے شیعہ ملیشیاگروہوں کو جمع کرنا شروع کر دیا۔ ایران __ دمشق،حلب اور رقہ میں بڑے شیعہ مزاروں کا تحفظ چاہتا ہے لیکن غیرملکی شیعہ ملیشیاگروہوں کو شامی جنگ میں استعمال کرنا مشرق وسطیٰ پر گرفت اور اثرو رسوخ بڑھانے کے لیے اس بڑی جنگ کا ایک اور پہلو تھا جس کی قیادت ایرانی افواج کے سربراہ قاسم سلیمانی کر رہے ہیں۔
ایران اور شام کے تعلقات اس وقت سے ہیں جب ایران عراق جنگ کے دوران شام نے ایران کی مدد کی تھی،اس کے علاوہ دونوں ممالک اسرائیل دشمنی میں بھی شریک ہیں،اسی طرح ایران کی لبنان میں حزب اللہ تک رسائی کے لیے شام ہی واحد گزرگاہ ہے۔
حزب اللہ کے ٹھکانوں میں پایا جانے والا اکثر اسلحہ ایران سے براستہ شام ہی پہنچتا ہے۔ بشارالاسد کے شام پر کنٹرول سے تہران کے لیے حزب اللہ کو سپلائی ممکن ہوتی ہے اور بحرمتوسط سے لنک بھی قائم ہوتا ہے۔
ایران کی جانب سے حزب اللہ کے اسدی افواج کے ساتھ مل کر لڑنے کے مطالبے کے چند ماہ بعد ایران نے دیگر شیعہ ملیشیا گروہوں کی تیاری شروع کر دی اور فاطمیین (سابق برگیڈ)کے نام سے ۲۰۱۴ء کے اوائل میں ایک گروہ تشکیل دیا،یہ افغان پناہ گزینوں کی ملیشیا تھی،اس ملیشیا کو پاسداران انقلاب اور حزب اللہ کے قدیم جنگجوؤں نے ٹریننگ دی،یہ ملیشیا اندازاً۸۰۰۰ سے ۱۴۰۰۰جنگجوؤں پر مشتمل ہے۔ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ یہ جنگجو رضاکار ہیں۔
فاطمیین برگیڈ کے اولین بھرتی ہونے والے اصل میں افغان ہزارہ شیعہ تھے جو نوّے کی دہائی کے اوائل میں ہونے والی خانہ جنگی اور سوویت یونین کے قبضہ کے بعد ایران میں آباد ہو گئے تھے جس کے بعد طالبان کی حکومت قائم ہو گئی تھی۔ ان بھرتیوں میں پاکستان(افغانوں کو پناہ دینا والا دوسرا بڑا ملک) کی جانب سے نوّے کی دہائی کے وسط میں پشتون سنی افغانوں اور ان کے بچوں کو طالبان تیار کرنے کے لیے کی جانے والی بھرتیوں کی بازگشت تھی۔
گزشتہ چند برسوں میں ایران نے عبدالامین جیسے غیررجسٹرڈ افغانیوں کی بھرتیوں میں اضافہ کر دیا ہے جو کہ حال ہی میں روزگار کی تلاش میں افغانستان سے آیا تھا۔ افغان پناہ گزینوں کی مالی حالت اور قانونی طور پر بے یقینی کی کیفیت سے قطع نظر ایرانی افغان پناہ گزینوں کو شام میں اسدی حکومت کی بقاکے لیے لڑائی کی غرض سے بھرتی کر کے ان کے شیعہ عقیدے کا استحصال کر رہے ہیں۔
ایرانی پروپیگنڈے نے ان پناہ گزینوں کے لیے شامی جنگ کو اس طور پر دلفریب بنا دیا ہے کہ یہ ایمان و عقیدے کے دفاع اور مقدس مقامات کے تحفظ کی جنگ ہے۔ہیومن رائٹس واچ کے سابق ریسرچر احمد شجاع کا کہنا ہے کہ :ان کی اکثریت اَن پڑھ ہے،ان میں سے بیشتر عربی نہیں بول سکتے اور اکثریت کبھی افغانستان یا ایران کی حدود سے باہر نہیں نکلی،اور بہت سے مذہبی شیعہ ہیں۔
مثال کے طور پر عبدالامین کا خیال ہے کہ شام کی جنگ اسد اور جہادی تنظیم النصرہ فرنٹ، جو۲۰۱۲ء میں رسمی طور پر بنی،کے مابین لڑائی کے نتیجہ میں شروع ہوئی۔اسے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ جنگ اس وقت شروع ہوئی جب النصرہ کے رہنما (جوامین کے مطابق اسد کا ساتھی تھا) نے ایک مسجد پر سٹور بنانے کا ارادہ کیا جس پر اسد، جو کہ علوی ہے، فوراً مسجد اور تمام مقدس جگہوں بالخصوص ملک میں شیعہ مزاروں کی حفاظت کے لیے آگے بڑھا۔جس کے جواب میں (عبدالامین کے مطابق) النصرہ نے عوام کو اسد کے سقوط اور مزارات کے گرانے پر اکسایا۔
غیرملکی شیعہ ملیشیا گروہوں نے اسدی حکومت کو تقویت دینے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا اور انھی ملیشیا گروہوں نے ہی حلب کے فیصلہ کن معرکے میں بری افواج کو آگے بھیجا۔ حلب میں فتح سے بشار الاسد کو اور ایران کو مزید وقت مل گیا جس نے شامی محقق جوشو لانڈریس کے مطابق ایران کے لیے لبنان تک عملداری کی کمان بنانے کا ہدف قریب تر کر دیا۔
ایران اور اسد کی اس جنگ میں سینکڑوں افغان قتل ہوئے اور مارے جانے والے افغان جنگجوؤں کی میّتوں کی دفن سے قبل تہران اور قم کی گلیوں میں رسمی نمائش کی گئی اور ایرانی مرشد اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای اور جنرل قاسم سلیمانی شام میں افغان ملیشیا کے قتل ہونے والے جنگجوؤں کے خاندانوں سے ملے اور ان کے بیٹوں کی اسلام اور مقدس مزارات کے دفاع کی خاطر دی گئی قربانی پر شکریہ ادا کیا۔
جنوری میں اتھینز میں پناہ گزینوں کے لیے لگائے گئے الینیکو ایئرپورٹ کیمپ میں میری ملاقات ایک ۲۱ سالہ افغانی مرتضیٰ سے ہوئی ،مرتضیٰ قم میں بھی رہ چکا تھا،مرتضیٰ( جو شام میں قتل ہونے والے سینکڑوں افغان پناہ گزینوں کی قبریں قم میں دیکھ چکا تھا )نے کہا :یہ اس طرح کی رسوم شام میں مرنے والے ایرانیوں کے لیے قطعاً نہیں ادا کرتے،یہ انھوں نے صرف افغان جنگجوؤں کے لیے کیا جس کا مقصد یہ ہے کہ ایرانیوں کو تسلی دی جائے کہ شام میں مرنے والے ایرانی نہیں بلکہ صرف اور صرف افغانی ہیں۔
جون ۲۰۱۶ء میں ہیثم صالح نے، جو شامی اپوزیشن رہنما ہیں، افغان صدر اشرف غنی کو ایک پیغام بھیجا جس میں افغان جنگجوؤں کو روکنے کے لیے کہا۔ افغانوں کی شامی جنگ میں بڑے پیمانے پر اموات نے بہت سے افغان دینی رہنماؤں کو مجبور کیا کہ وہ ایرانی پالیسی کے خلاف آواز اٹھائیں۔یہاں تک کہ جنگی ہیرو گلبدین حکمت یارنے بھی، جنھوں نے حال ہی میں افغان حکومت کے ساتھ امن معاہدہ کیا ہے، اپنی کابل واپسی کے موقع پر اس بارے میں بات کی۔بعض اندازوں کے مطابق شام میں قتل ہونے والے افغانوں کی تعداد ۰۰ ۶ سپاہیوں تک پہنچتی ہے۔امین کا کہنا ہے کہ اس کے ۱۵ دوست شام میں قتل ہوئے۔
حلب میں زخمی ہونے کے بعد عبدالامین دو ما قبل بامیان لوٹ آیا جبکہ اس کے ہاتھ میں ایران میں دس سال قیام اور ایران میں یا جنگ کے بعد اگر وہ شام میں رہنا چاہے تو وہاں گھر دیے جانے کا معاہدہ تھا۔اس کے ساتھ شام میں لڑنے والے افغانوں کی اکثریت ایران میں رہ گئی۔ عبدالامین کا کہنا ہے کہ: اس کا ان کے ساتھ ٹیلی گرام ایپلی کیشن کے ذریعہ مستقل رابطہ ہے۔
بامیان کا صوبہ تاحال پُرامن اور پسماندہ ہے،اور اس صوبے کی طرف جانے والے راستے خطرناک ہیں لیکن عبدالامین اپنی زراعت والی پرانی زندگی کی طرف لوٹ آیا ہے۔اس کے بقول : میں اس لیے واپس آگیا ہوں کہ دیکھوں میرے لیے کیا بہتر ہے۔آخر میں اس کا کہنا تھا کہ :اگر میں یہیں پر سیٹ ہو گیا تو ٹھیک بصورت دیگر میں ایران لوٹ جاؤں گا،اب مجھے وہاں سے نکالے جانے کا خوف بھی نہیں ہو گا۔
(بشکریہ نیو یارک ٹائم)
فیس بک پر تبصرے