دہشت گردی پر جامع کنونشن کے لیے ہندوستان کی کوششیں

1,216

رواں سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ہندوستان نے ایک بار پھر اقوام عالم پر زور دیا کہ وہ عالمی دہشت گردی پرجامع  کنونشن پر اتفاق رائے پیدا کریں۔1992 میں ہندوستان نے مجوزہ معاہدہ اقوام متحدہ میں پیش کیا جس کی رو سے دہشت گردی کی تمام اقسام کو ایک جرم قرار دیا گیا ۔ یہ معاہدہ  دہشت گردوں اور ان کے مالی معاونین کو فنڈز، ہتھیاروں اور محفوظ پناہ گاہوں تک رسائی سے روکتا ہے۔ اقوام عالم کا دہشت گردی کی تعریف پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے دو دہائیاں گزر جانے کے بوجود یہ معاملہ اب تک کھٹائی میں پڑا ہے۔ تاہم پچھلے دو سال سے ہندوستان اس کنونشن پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے زور و شور سے کوششیں کر رہا ہے۔مجوزہ معاھدے کے ابتدائی ڈرافٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان اس  معاھدے سے دہشت گردی کی تعریف سامنے لانا چاہتا ہےجو اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے  فوجداری قوانین میں شامل ہو ، جس کے مطابق ہر قسم کے دہشت گرد گروہ اور دہشت گردی کے کیمپوں کا خاتمہ ، دہشت گردوں کو خصوصی قوانین کے تحت ٹرائل ، کراس بارڈر دہشت گردی کو پوری دنیا میں ایسا جرم بنانا جس کے تحت مجرموں کا تبادلہ ہو سکے۔

 دراصل ہندوستان اس معاہدے کی آڑ میں  تحریک آزادی کشمیر میں  پاکستان کی سیاسی ، سفارتی اور اخلاقی مدد سے کشمیریوں کو محروم کرنا چاہتا ہے، ساتھ ہی اس تحریک کو بیرونی فنڈنگ اور غیر ریاستی عناصر کی مدد سے چلنے والی تحریک کے طور پر پیش کر کے عالمی دہشت گردی اور  تحریک آزادی کے درمیان فرق کو ختم کرنا چاہتا ہے۔

عالمی دہشت گردی پر جامع  کنونشن امریکہ ، اوآئی سی اور لاطینی امریکہ کے ممالک کی مخالفت کی وجہ سے تعطل کا شکار ہے۔ ان تینوں کو دہشت گردی کی تعریف پر اعتراضات ہیں۔ ساتھ ہی یہ اپنے اسٹریٹجک مفادات کے تحفظ کے لیے کچھ چیزوں کو اس معاہدے سے نکالا چاہتے ہیں۔ فلسطین و کشمیر کی آزادی کے تناظر میں  او آئی سی آزادی کی تحریکوں کو دہشت گردی کے زمرے سے نکالنے کی متمنی ہے جبکہ امریکہ چاہتا ہے کہ زمانہ امن میں کسی ملک کی فوج اپنے ملک میں اگر کوئی اقدامات کرے تو ان کو دہشت گردی نہ کہا جائے۔

ہندوستان چاہتا ہے کہ عالمی برادری افراد و اقوام کا فرق کیے بغیر دہشت گردی کے خلاف متحد ہو۔  ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان اس معامله پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کیونکہ دونوں کو عسکریت پسندی سے شدید خطرات لاحق ہیں اور اس معاہدے کی آڑ میں ہندوستان آزادی کشمیر جبکہ اسرائیل فلسطین کی آزادی کی تحریک کو دبانا چاہتا ہے۔ اس سال جولائی میں نریندر مودی نے اسرائیل کے دورے کے دوران  دہشت گردی کے جواز کی ہر وجہ کو مسترد کرتے ہوئے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے پر زور دیا۔ ہندوستان پاکستان کو عالمی دہشت گردی کے ساتھ نتھی کر کے عالمی سطح پر تنہا کرنا چاہتا ہے۔ وہ عالمی برادری کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے وا لے ظلم و ستم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بھی دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔2016 میں ہندوستانی وزارت خارجہ کے اس وقت کے ترجمان وکاس سوارپ نے کہا تھا کہ عالمی دہشت گردی پر جامع  کنونشن کے لیے اتفاق رائے کی ہندوستانی  کوششیں پاکستان کو تنہا کرنے کی حکمت عملی کا حصہ ہیں کیونکہ اس طرح ہندوستان کو دہشت گردوں کے خلاف قانونی کاروا ئی کے لیے قانونی طاقت ملے گی۔ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مجرموں کے تبادلے کا با ہمی معاہدہ نہیں ہے اس لیے دونوں ممالک مجرموں کے تبادلے کے پابند نہیں ہیں۔ اس سے حافظ سعید اور مسعود اظہر جیسے لوگوں پر ہندوستانی قانون کے مطابق مقدمہ چلانے کی ہندوستانی خواہش پر پانی پھر جاتا ہے۔ ہندوستان اس طرح کی قانونی کمزوریوں کو عالمی دہشت گردی پر جامع  کنونشن کے ذریعے ختم کرنا چاہتا ہے۔

9/11 کے بعد دنیا خاص کر امریکہ دہشت گردی اور آزادی کی تحریکوں میں کسی قسم کا فرق کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ ہندوستان کے پالیسی سازوں نے اس صورت حال کا بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ انہوں نے کشمیر کی آزادی کی تحریک کو عالمی دہشت گردی سے جوڑ کر پاکستان پر دباؤ بڑھایا کہ وہ تحریک آزادی کشمیر کی سیاسی ، اخلاقی اور سفارتی مدد بند کرے۔ ہندوستان نے خطے اور عالمی تبدیل شدہ صورت حال سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور تحریک آزادی کشمیر کا زور کم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔داخلی طور پر مستحکم ہونے کے بعد ہندوستان نے نام نہاد جارحانہ دفاع کی حکمت عملی اپناتے ہوئے پاکستان سے بھاگنے والے دہشت گردوں کو پاکستان کے خلاف خارجہ پالیسی کے ایک ٹول کے طور پر ایسے وقت میں استعمال کرنا شروع کیا جب پاکستان اپنی سرزمین پر امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا۔ ہندوستان نے امریکی آشیر باد سے افغانستان میں بھی اپنا اثرو رسوخ بہت زیادہ بڑھایا جس کا ایک مقصد پاکستان کی مغربی سرحد پر ایک نیا محاذ کھولنا تھا۔ غیر ریاستی عناصر کی مدد سے پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ کا آغاز کر دیا گیا۔ یہ سب ہندوستانی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوال نے سرعام  تسلیم کیا تھا جس نے اس حکمت عملی کو “جارحانہ دفاع”کہا۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو  کا اعترافی بیان بھی افغانستان سے پاکستان میں بھارت کے ملوث ہونے کا ثبوت ہے۔پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اہم اتحادی  تھا، اس کے باوجود امریکہ افغانستان میں امریکی قبضے کے خلاف لڑنے والے افغان طالبان کو پاکستان کی خفیہ حمایت کے بارے میں ہمیشہ پاکستان پر شک کرتا رہا ہے۔ افغان طالبان کی مبینہ امداد روکنے کے لیے پاکستان میں فوجی آپریشنز کی وجہ سے بھاگنے والے دہشت گردوں سے  طالبان کا پاکستانی ورژن “تحریک طالبان پاکستان” (ٹی ٹی پی) کے نام سے بنا دیا گیا۔ افغانستان میں موجود محفوظ پناہ گزینوں سے پاکستان میں تباہی پھیلانے کے لئے دہشت گردوں کو  تربیت، اسلحہ اور پیسہ فراہم کیا گیا جس سے انہوں نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی۔ پاکستان میں سیکورٹی فورسز کے افراد سمیت 50 ہزار سے زائد افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے جب کہ پاکستان کو126  بلین ڈالر کا معاشی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا تاہم پاکستان مختلف فوجی آپریشنز کی مدد سے دہشت گردوں کو کچلنے میں کامیاب ہو گیا۔ ہندوستانی حاضر سروس نیوی افسر کی گرفتاری پاکستانی خفیہ اداروں کا ایک بہت بڑا کارنامہ تھا جس نے ہندوستان کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا۔

جب پاکستان میں قدرے اندرونی استحکام پیدا ہوا تو پاکستان نے ایک بار پھر نئے جوش و جذبے سے عالمی فورمز پر کشمیر کا مسئلہ اٹھانا شروع کیا جس سے ہندوستان کوہمیشہ کی طرح بہت زیادہ تکلیف ہوئی، جس کا اظہار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارتی وزیر خارجہ کے ردعمل سے بھی ہوتا  ہے،جہاں وہ پاکستان کی طرف سے کشمیر کا ذکر کیے جانے پر آپے سے باہر ہو گئیں۔2016 میں کشمیری نوجوان برہان وانی کی ہندوستانی فوج کے ہاتھوں شہا دت سے چلنے والی آزادی کشمیر کی نئی لہر نے ہندوستان کومجوزہ عالمی دہشت گردی پر جامع  کنونشن  کےپیچھے چھپنے اور پاکستان کو عالمی دہشت گردی سے نتھی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ہندوستان اس طرح کے ہتھکنڈوں سے عالمی برادری کی توجہ کشمیر سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہو گا  کیونکہ اس سے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ پاکستان اور ہندوستان کو آخر کار مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر کشمیر کے دیرینہ مسئلے کا حل ڈھونڈنا ہو گا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...