ایران کے جوہری معاہدے سے متعلق خدشات کیوں؟

928

ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے رواں ہفتے ماسکو کا دورہ کیا جہاں اُنھوں نے اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوورف کے علاوہ صدر ولادیمر پوٹن سے بھی ملاقات کی۔

ان ملاقاتوں کے بعد دونوں ممالک کی طرف سے کہا گیا کہ

تمام فریق جوہری معاہدے کے مکمل نفاذ سے متعلق اپنے وعدوں کی پاسداری کری

واضح رہے کہ 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس، روس اور جرمنی کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد تہران کے نیوکلیئر پروگرام سے متعلق معاہدہ طے پایا تھا۔

کانگریس کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت امریکی صدر کے لیے لازمی ہے کہ وہ ہر 90 روز کے بعد اس کی تصدیق کریں کہ ایران اس معاہدے پر عمل درآمد کر رہا ہے یا نہیں اور اب اس بارے میں آئندہ تصدیق کا عمل اکتوبر میں ہو گا۔

لیکن امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے حالیہ بیانات میں یہ عندیہ بھی دے چکے ہیں کہ شاید اب کی بار ایران اپنے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے کی تصدیق حاصل نا کر سکے، کیوں کہ امریکہ صدر مطابق کہ اُن کے خیال میں شاید ایران معاہدے کی پاسداری نہیں کر رہا ہے۔

معاہدہ طے پانے کے بعد ایران پر کچھ پابندیاں نرم کر دی گئیں تھیں اور اس معاہدے کی روح کے تحت ایران نے اپنی جوہری افزودگی کی سطح کم کر دی تھی کیونکہ امریکہ اور بعض مغربی ممالک کا کہنا تھا کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن تہران یہ دعویٰ کرتا آیا ہے کہ اس کا پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔

رواں سال ایران کے صدر حسن روحانی کا بھی ایک بیان سامنے آ چکا ہے کہ اُن کا ملک عالمی طاقتوں سے طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد کر رہا ہے لیکن ساتھ ہی اُنھوں نے متنبہ بھی کیا کہ اگر امریکہ نے دھمکیاں اور ایران پر پابندیاں جاری رکھیں تو ایران اپنی جوہری سرگرمیاں زیادہ تیز رفتار سے دوبارہ شروع کر دے گا۔

ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بارے میں ہمارے قارئین کیا سوچتے ہیں اور کیا اس معاہدے کا برقرار رہنا اہم ہے۔۔۔۔ آپ کی رائے کی صورت میں یہ اس بارے میں بامعنی بحث شروع ہو سکتی ہے اس لیے اس حصہ لیجیئے

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...