نوجوانوں میں اخلاقی بے راہ روی ۔۔۔ اسباب اور حل
گزشتہ دنوں پاکستان کی چند یونیورسٹیز میں منشیات سپلائی کرنے کی خبریں اخبار میں شائع ہوئیں کہ یونیورسٹیوں میں طلباء و طالبات کو منشیات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ فقط خبرہی نہیں بلکہ مستند اورثقہ انویسٹی گیشن ہے، جسے کسی بھی صورت جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے جس پہ یونیورسٹی انتظامیہ کو اقدامات کرنے چاہئیں۔ یہ ہمارے مستقبل کا سوال ہے، تعلیم حاصل کرنے کے بعد ،نوجوان نسل نے آئندہ وقت میں پاکستان کے مختلف شعبوں میں اپنا کردارادا کرنا ہے لیکن اس مسئلے سے بھی ایک اور بڑا مسئلہ ہے جس کے دوپہلو ہیں ایک پہلو تعلیمی اداروں (یونیورسٹیز) کے حوالے سے اور دوسرا پہلو معاشرتی حوالے سے، لیکن ان دونوں کا تعلق ہماری نوجوان نسل سے ہے۔۔۔ اور وہ مسئلہ ’’اخلاقی بے راہ روی ‘‘ ہے جس کاآغاز ’’دوستی اور فرینڈشپ‘‘ سے ہوتا ہے ۔ یونیورسٹیز خاص طور پر پرائیویٹ یونیورسٹیز اس کی آماجگاہ بن چکی ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ ایسے تعلقات کا اظہار برملا کیا جاتا ہے۔ دوستوں کو تمام تعلقات و واقعات کی خبر ہوتی ہے۔۔۔
لاہور کی ایک یونیورسٹی جس کا تعلق ، جماعت اسلامی سے بتایا جاتا ہے۔ اس یونیورسٹی کے سربراہ (جن کے والد مرحوم جماعت کے اہم راہنماتھے) نے اسے پنجاب یونیورسٹی طرز پہ ، جمعیت طلبہ کو یہاں کھل کھیلنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ ان کے خیال کے مطابق والدین بھاری فیسیں دے کر اپنے بچوں کو یہاں تعلیم کے لئے بھیجتے ہیں لہٰذا وہ یہاں کا ماحول ’’خراب‘‘ نہیں ہونے دیں گے۔ تعلیمی اداروں کے بہترین ماحول کے لئے صحت مند اور علمی سرگرمیوں کے علاوہ ایک اخلاقی ضابطے کا ہونا ازحد ضروری ہے جس کامقصد کسی کی شخصی آزادی کوسلب کرنا نہیں یونیورسٹی کے تعلیمی مقاصد کوحاصل کرنا ہو۔۔۔ میں ہر گز اس کی حمایت نہیں کر رہا کہ کسی خاص فرقہ اور جماعت کے افکار و خیالات کا یونیورسٹی میں آنے والوں کوپابند ٹھہرادیا جائے بلکہ میں اس اخلاقی بے راہ روی کے سدباب کی گزارش کر رہاہوں جس نے کئی زندگیاں تباہ ہی نہیں بلکہ نوجوانوں کو انکے بنیادی مقصد سے ہی دور کردیاہے جووہ یونیورسٹی لے کر آتے ہیں۔یہ مسئلہ ایک تعلیمی ادارے کا نہیں ہے یہ تقریباً تمام اداروں کا مسئلہ ہے۔ اس کے اسباب مختلف ہو سکتے ہیں ۔ بیرونی سبب فلموں ، ڈراموں اور گانوں کا وہ آزادانہ ماحول ہے جس نے نوجوانوں کوجذبات اور خواب کی دنیا کا باسی بنادیا ہے ۔ دوسرا سبب اسے بد قسمتی سے Status Symbleخیال کر لیا گیا ہے۔ یہ وہ اشرافیہ کا کلچر ہے جس نے نوجوان نسل کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔
ایک سبب اندرونی ہے اور وہ یونیورسٹی انتظامیہ کی ’’مجرمانہ غفلت‘‘ ہے۔ اکثر اوقات تعلیمی ادارے اپنی جناب سے ایسا ماحول پیداکرتے ہیں جس میں اخلاقی حدود سے تجاوز کرنے کے مواقع مہیا کئے جاتے ہیں ۔ جہاں انتظامیہ منشیات فروشی پہ قابو نہ پا سکے ،دیگر معاملات پہ وہ کیسے کنٹرول کرپائے گی۔ انتظامیہ کی اسی غفلت کے نتیجے میں ایسے ایسے واقعات رونماہو رہے ہیں جنہیں نقل کرنے میں شرم و حیاء آڑے آتی ہے اور انسان حیران ہی نہیں بلکہ دکھی ہوتا ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے کیسا ماحول اور کیسی تعلیم و تربیت نوجوان نسل کودے رہے ہیں۔ میڈیا کے اس دورمیں،یہ واقعات پوشیدہ نہیں بلکہ زبانِ زدّعام ہیں ۔
دوسرا پہلو اس کا یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں شادی کے بعد اور رشتہ ازواجیت میں منسلک ہو جانے کے بعد بھی ’’دوستی اور فرینڈ شپ‘‘ کا کلچر فروغ پا رہاہے اس میں چند اسباب وہی ہیں جو میں بیان کر چکا لیکن ان کے علاوہ بھی مزید اسباب ہیں مثلاً لڑکا لڑکی کی شادی کا جلد فیصلہ ۔۔۔ انکے سروں پہ محبت اور جیون بھر ساتھ نبھانے کا ایسا بھوت سوار ہوتا ہے کہ وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں اور اس کی ذمہ داریوں کاادراک کیئے بغیر یہ قدم اٹھا بیٹھتے ہیں جس کا احساس عورت کوکم لیکن مرد کو زیادہ ہوتا ہے۔ یہ احساس آوارگی ختم ہونے کی وجہ سے مزید بڑھ جاتا ہے ۔ محبوبہ جب بیوی بنتی ہے تو زندگی اپنی رومانویت کھو دیتی ہے اور رومانس کا عادی انسان کبھی اس کے بغیر رہ نہیں سکتا۔۔۔ اس لئے وہ دوبارہ اسی راہ پہ چل پڑتاہے جہاں سے وہ آیا ہوتا ہے۔ اس لئے طلاق کی شرح42 فیصد تک پہنچ چکی ہے ۔
اس بے راہ روی کی تیسری وجہ خاندانی یونٹ (Family Unit) کاکمزور ہونا اور والدین کا اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتنا ہے ۔ میرے خیال کے مطابق، ہمارے ان تمام مسائل کی بنیادی وجہ خاندان کے تصورکا کمزور ہونا ہے ۔ اگر ہم دوبارہ ’’خاندانی نظام‘‘کو قائم کر لیں تو بیرونی عوامل و اسباب کے اثرات کسی حد تک کم کیئے جا سکتے ہیں ۔ یونیورسٹیز کے آزادانہ ماحول میں وہی نوجوان بچے اور بچیاں اکثرطور پر اخلاقی بے راہ روی سے محفوظ رہتے ہیں جن کی اپنے گھر سے اچھی تربیت ہوتی ہے ،جن کاخاندان مضبوط اعلیٰ اقدار پہ قائم و دائم رہتا ہے۔ والدین اپنی اولاد کو تربیت کی صورت میں وہ سب کچھ دیں جو ان کی ذمہ داری میں شامل ہے تو کسی ماحول سے متاثر ہونے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ چوتھی وجہ بچوں کی شادی کے معاملے میں والدین کا جبری فیصلہ ہے جبکہ والدین کا فیصلہ نہیں مشورہ اہم ہوتا ہے۔فیصلہ کن رائے بچوں کی زندگی برباد کرنے کا سبب بنتی ہے جس کا ایک نتیجہ اپنے Spouseسے کسی طرح بھی قلبی تعلق نہ رکھنا اور اسے اپنے والدین کی پسند قرار دیتے ہوئے متبادل صورت میں بے راہ روی کی راہ اختیار کرنا ہے۔
آخر میں،ایک سوال مذہبی طبقے اور دانشوران پاکستان سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ سماج کی ایسی بگڑتی صورتِ حال پہ کیا انہیں تشویش ہے کہ نہیں؟۔اگر ہم مجموعی صورتِ حال دیکھتے ہیں تو مذہبی طبقہ اور دانشورِان پاکستان تین مسئلوں میں شدید طریقے سے الجھے ہوئے ہیں ایک مسئلہ امت مسلمہ کی مجموعی صورتِ حال،دوسرا مسئلہ پاکستان میں ’’نفاذِ اسلام‘‘ اور تیسرا مسئلہ پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ۔
قارئین! جب تک وہ ان تین ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہو جاتے، کانفرنسز ، جلسوں ،جلوسوں اورٹاک شوزکے موضوعات سماج، نوجوان نسل اور اخلاقیات نہیں بنیں گے۔ لہٰذا اُس وقت تک اپنی مدد آپ کے تحت سماجی اصلاح کی کوشش جاری رکھیئے۔
فیس بک پر تبصرے