عامر رانا کے ناول ‘سائے’ پر ایک نشت کا احوال

1,580

معروف صحافی ، تجزیہ نگار و ادیب  عامر رانا کے ناول ‘سائے’ پر حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد کے زیر اہتمام جمعہ کی شب ایک نشت کا اہتمام کیا گیا. ہر دلعزیز دوست اور حلقے کے روح رواں معروف صحافی و ادیب احمد اعجاز کی پرخلوص اورمحبت بھری دعوت پر ہم بھی تمام کام کاج  چھوڑ کر مقررہ وقت سے صرف ٣٠ منٹ تاخیر سے اس پررونق محفل میں شرکت کے لیے اکادمی ادبیات پہنچ گئے.  گاڑی پارک کرکے رائٹرز ہاؤس کی جانب بڑھے تو سامنے برادرم احمد اعجاز کا ہنستا مسکراتا چہرہ نظر آیا جو بڑی تپاک سے آنے والے مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے. احمد  اعجاز کے ساتھ گرم جوشی سے مصافحہ و معانقہ کرنے کے بعد ہم نے اندر ہال کی راہ لی جہاں مہمانوں کی آمد کا سلسلہ ابھی جاری تھا.  یہ دیکھ کر انتہائی خوشی ہوئی کہ صدر محفل پاکستان کے معروف مصنف ، ادیب و دانشور جناب پروفیسر فتح محمد ملک صاحب دیگر ماہرین کے ہمراہ براجمان ہیں ، حاضرین محفل میں معروف صحافی اعتزاز سید ، سجاد  اظہر و دیگر شعرا و ادبا ، لکھاری و دانشور حضرات موجود تھے. ٹریفک جام کی وجہ سے تاخیر سے آنے پر دل ہی دل میں تھوڑی سی شرمندگی بھی ہوئی تاہم یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ قومی روایت کے عین مطابق پروگرام تاخیر کا شکار ہے اور نشت کے  باقاعدہ آغاز میں ابھی کچھ وقت باقی ہے.

پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوا اور نظامت پر فائز جناب خلیق الرحمان نے  ابتدائی کلمات کے بعد احمد اعجاز کو اسٹیج پر بلا یا جنہوں نے تمام مہمانوں کو رسیو کرنے اور دیگر انتظامی ذمہ داریوں سے عہدہ براں ہونے کے بعد تھوڑی دیر کے لیے کرسی پر بیٹھ کر سکھ کا سانس لیا تھا. احمد اعجاز نے مختصرا بتایا کہ 11/9 کے بعد پاکستان کے سماج پرکیا اثرات مرتب ہوے ہیں ، خوف و دہشت اور بے یقینی نے وطن عزیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور عامر رانا نے کس طرح ان حالات کو اپنے ناول میں موضوع بحث بنایا. تاهم ساتھ ہی انہوں نے یہ کہہ کر کہ باقی بات دیگر ماہرین کریں گے ، بال اسٹیج پر موجود ناقدین کے کورٹ میں ڈال دی. جنہوں نے یکے بعد دیگر ماہرانہ تنقید سے مصنف کے ناول کے تمام پہلوؤں کا منصفانہ جائزہ لینے کی مخلصانہ سعی کی. ماہرین میں اکمل شہزاد گھمن ، ڈاکٹر روش ندیم ،محمد شاہد حمید اور ڈاکٹر صلاح الدین نے خوب صورت اور ماہرانہ انداز میں ناول کے تمام پہلوؤں کا مصنف کی ذات اور ان کے صحافتی کیریئر  ساتھ جوڑ کر اور اس سے علیحدہ کر کے جائزہ لیا.  ماہرین نے عامر رانا کے ناول سائے کو ایک اچھی کاوش قرار دیتے ہوئے مصنف کو داد تحسین دی کہ انہوں نے ناول میں  کسی جنگجو ہیرو یا افسانوی کردار کے بجائے معاشرے کے عام کرداروں کو جگہ دی اور ان کی تمام خوبیوں اور خامیوں کو سب کے سامنے آشکار کرنے کی کاوش کی. گفتگو نے جب حد سے زیادہ طوالت اور  تکنیکی رخ اختیار کیا تو حاضرین محفل میں بوریت کے واضع آثار بھی نظر آنا شروع ہوئے اور کئی منچلے تو فیس بک پر تین پتی گولڈ گیم کیھلنے میں بھی مصروف پائے گئے.

ماہرین کے تنقیدی جائزے کے بعد مصنف  محمد عامر رانا کو حاضرین سے بات کرنے کی دعوت دی گئی تو انہوں نے آتے ساتھ ہی ہلکے پھلکے انداز میں  کہہ دیا کہ مصنف کو اپنی کتاب پر بات کرنے کے لیے نہیں بلانا چاہئیے جس پر حاضرین محفل میں ‘ مجھے کیوں بلایا ‘ ، ‘ مجھے کیوں نکالا ‘ کی ملی جلی آوازیں آنا شروع ہو گئیں جس سے محفل کشت و زعفران ہو گئی اور حاضرین محفل کی تھکاوٹ بھی کسی حد تک کم ہوئی. ساتھ ہی عامر رانا نے اپنی پہلی کہانی کا قصہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جب انہوں نے پہلی کہانی تحریر کی اور ایک ماہر کے سامنے رکھی تو ماہر نے اس کا تنقیدی جائزہ لینا شروع کیا جس دوران وہ 20 منٹ تک سانس روکے ماہر کے چہرے پر نظریں گاڑے ان کے تبصرے کا انتظار کرتے رہے . 20 منٹ بعد ماہر نے تبصرہ کیا ‘ اے کی لکھیا او عامر’  ( عامر یہ تم نے کیا لکھ دیا ). جب عا مر رانا نے یہ کہا کہ دوستوں کو یہ معلوم نہیں کہ یہ ناول اس کہانی کے بعد لکھا ہے تو سامعین لوٹ پوٹ ہو گئے. عا مر رانا نے یہ بھی بتایا کہ اس ناول کا ایک باب گم ہو گیا جس کی وجہ سے ناول تاخیر کا شکار ہو ہوا ، ساتھ ہی انہوں نے اپنے نئے آنے والے ناول ‘—-‘ کے متعلق بھی بتایا.

آخر میں صدر محفل جناب فتح محمد ملک صاحب کو خطاب کی دعوت دی گئی. جنہوں نے مصنف کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس ناول میں پاکستان ، مسلمانوں اور دیگر تمام انسانوں کے لیے مصنف کے اندر ایک ‘مقدس بے چینی’ نظر آتی ہے جو ایک انگیزے کے طور پر مصنف کو پاکستان کے مسائل حل کرنے میں متحرک رکھتی ہے. وطن عزیز اور عالم انسانیت کے لیے مصنف عامر رانا کی اس ‘مقدس بے چینی’ کو زندہ رہنا چاہیے. انہوں نے مصنف کو تاکید کی کہ وہ اپنا قلم نہ روکیں اور مسلسل لکھتے رہیں. پاکستان کے معروف مصنف ، ادیب و دانشور جناب پروفیسر فتح محمد ملک نے کہا قایداعظم کا فرمان ‘ اتحاد ، ایمان اور تنظیم’ تھا جسے بدل کر ‘ ایمان،  اتحاد  اور تنظیم’ کر دیا گیا .  ‘ اتحاد ، ایمان اور تنظیم’ یعنی قوم بنا کسی مذہبی تقسیم کے اپنی سیاسی قیادت پر اعتماد کرتے ہوۓ منظم ہو کر ملک و ملت کی ترقی کے لیے کام کرے گی ، مگر بدقسمتی سے قوم کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر دیا گیا.

پروگرام کے آخر میں شرکا کی چائے سے تواضع کی گئی. تمام موجود دوست احباب سے مختصر حال احوال دریافت کرنے کے کے بعد ہم نے اپنے احمد اعجاز سے اجازت لے کر  گھر کی راہ لی.

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...