بھارت،چین مخاصمت
اس ہفتے بھارت اور چین کے درمیان “ڈوگلام “کے معاملہ پرہونے والی کشیدگی میں اس وقت کمی آئی جب دونوں ملکوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی اپنی افواج کو دو مہینے پہلے والی پوزیشن پر واپس لے جائیں گے۔ جنگ کی پشین گوئی کرنے والے مبصرین کو ناکامی کا سامناکرناپڑا۔
بھارت اور چین کی سرحدی معاملوں کو لے کر کشیدگی کوئی نئی بات نہیں ۔ دونوں ملکوں کا بارڈر تقریبا 3500کلومیٹر لمبا ہے اور گاہے بگاہے ان سرحدی علاقوں میں ان دونوں ممالک میں چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں اور دونوں ممالک انہی مسائل کو لے کر 1962 ء میں ایک جنگ بھی لڑچکے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان کشمیر اور اروناچل پردیش کے سرحدی علاقوں کے حوالے سے تنازعہ رہا ہے۔ڈوکلام اس میں اب ایک نیا
اضافہ ہے۔ڈوکلام سکم میں واقع یہ چھوٹی سی سرحدی پٹی سٹرٹیجک لحاظ سے بھارت اور چین دونوں ممالک کے لئے بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔ خصوصا بھارت کے لئے جس کا اپنی شمال مغربی ریاستوں سے رابطہ اسی راستے سے جڑا ہو ا ہے۔بھارت اور چین دونوں ہی ایٹمی طاقتیں ہیں اور اس علاقے میں اپنی اپنی بالا دستی کے خواہاں ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ چین یہ بالادستی اپنی معیشت اور تجارت کے زور پر حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ بھارت اسے سیاسی اور عسکری طریقے سے حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس معاملے میں کہیں نہ کہیں اسے امریکہ کی آشیرباد حاصل ہے جو چین کے دنیا بھر میں ابھرتے ہوئے کردار سے خوف زدہ ہے اور اسے نکیل ڈالنا چاہتا ہے۔ بھارت اور چین دونوں ہی برکس اور اقتصادی تعاون کی تنظیم شنگھائی کونسل کے رکن ہیں ۔ اس کے باوجود ایک دوسرے کے حوالے سے شبہات کا شکار ہیں خصوصا بھارت بحر ہند میں چین کے کردار کے حوالے سے پریشان ہے اور اسکی تشویش میں اس وقت سے زیادہ اضافہ ہوا ہے جب سے چین نے جبوتی کی بندرگاہ پر اپنا ملٹری بیس بنایا ہے ۔ بھارت کے برعکس چین کا کہنا ہے کہ براعظم افریقہ میں چینی کاروباری ادارے ابھی تک 60 سے 70 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرچکے ہیں اور یہ ملٹری بیس ان کے مفادات کی حفاظت کے لئے بنائی گئی ہے۔سری لنکا کی بندرگاہ ہمبوٹوٹا کو لیز پر لینے کا معاملہ ہو یا پاکستان کی بندرگاہ گوادر کا انتظام سنبھالنا ہو ،بھارت چین کے ان سب اقدامات سے ناخوش ہے ۔ اس کا ماننا ہے کہ تجارت اور کاروبار کے نام پر چین ان بندرگاہوں پر اپنے ملٹری بیس بنانا چاہتا ہے تاکہ بھارت کے سمندری راستے بند کیے جاسکیں۔
دوسری طرف چین بھارت اور امریکہ کی نئی دوستی کے حوالے سے تشویش کا شکار ہے، امریکی صدر ٹرمپ کی حالیہ ا فغان پالیسی جس میں اس نے بھارت کو نیا کردار ادا کرنے کو کہا ہے ،چین نے اسےسخت ناپسند کیا ہے ۔ اسے خدشہ ہے کہ بھارت کا افغانستان میں بڑھتا کردار اسکے “ون بیلٹ ،ون روڈ”منصوبے کو ناکام کرنے کی سازش ہے تاکہ اسے اقتصادی طور پر نقصان پہنچایا جاسکے۔دونوں ملکوں کے درمیان شکوک وشبہات کی اس فضا میں مبصرین کا ماننا ہے کہ ڈوگلام کے حوالے سے بھلے دونوں ممالک کی کشیدگی میں بھلے وقتی طور پر کمی آئی ہے لیکن دونوں ملکوں میں یہ مخاصمت جاری رہنے کا امکان ابھی بھی باقی ہے۔
فیس بک پر تبصرے