آبی وسائل پر سیاست کے جلتے اور عوامی امیدوں کے بجھتے چراغ
چشمہ لفٹ کینال بارے وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے مابین ایم او یو سائن ہونے کے بعد عوامی سطح پہ کینال کی تعمیر کے مطالبات زور پکڑنے لگے،ڈیرہ اسماعیل خان کے بلدیاتی نمائندوں نے ضلع و تحاصیل کونسلوں کے مشترکہ اجلاس میں لفٹ کینال جیسے میگا پراجیکٹ کی منظوری کا خیرمقدم کیا اور جواں سال ضلع ناظم عزیزاللہ علیزئی کی دعوت پہ جشن بہاراں کے موقعہ پہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے لفٹ کینال کا اعلان کرنے کی حامی بھری تو ڈسٹرک گورنمنٹ نے سیاسی فائدہ اٹھانے کی خاطر تشہیری پینافلکس آویزاں کر کے کینال منصوبہ کا اعزاز پانے کی ناکام کوشش کر ڈالی،شومئی قسمت،وزیراعلی ٰآئے نہ لفٹ کینال کی تعمیر کا اعلان ہوا،ڈیرہ والوں کی مایوسیوں کو زبان دینے والے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی داور کنڈی کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ نے مولانا فضل الرحمٰن کی دلجوئی کی خاطر عین وقت پہ وزٹ ملتوی کر کے مقامی قیادت کی ساکھ خاک میں ملا دی، 2010ءمیں جب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے پہلی بار لفٹ کینال کی تعمیر کا مژدہ جاں فضا سنایا تو رکن قومی اسمبلی فیصل کنڈی نے بھی جذباتی ہو کے اسی طرح اشتہاری مہم کے ذریعے میگا پراجیکٹ کے حصول کا کریڈٹ لینے کی سعی فرمائی تھی مگر وفاقی وصوبائی حکومتوں پہ یکساں اثر رکھنے والے مولانا فضل الرحمٰن اس منصوبہ کو اپنی مساعی سے منسوب کرنے کی خاطر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دورہ ڈیرہ اسماعیل خان کی راہ میں حائل ہو گئے۔اب ایک بار پھر 20 مارچ کو
صحافیوں نے سوال کیا،جب بھٹو ساڑھے سات ہزار کیوسک دے رہے تو آپ دس ہزار کیوسک پانی وصول کر کے باقی ڈھائی ہزار کا تقاضہ کرتے؟ تو مفتی صاحب نے فرمایا” بھٹو اگر نہر تعمیر کر دیتے تو ہمارا چراغ کہاں جلتا“
۔کیا! تاریخ اسی طرح تقدیر کی مجبوریوں کو بے نقاب کرتی ہے؟ 1973ءمیں ذوالفقار علی بھٹو نے جب پولو گراونڈ میں ساڑھے سات ہزار کیوسک پانی کی حامل چشمہ رائٹ بنک کینال کی تعمیر کا اعلان کیا تو جے یو آئی نے دس ہزار کیوسک کے مطالبہ کے ساتھ شدید مزاحمت کر کے اس عظیم آبی منصوبہ کی راہ روک لی،بعدازاں1979ءمیں جنرل ضیاءالحق کی معیت میں مفتی محمود مغفور نے 48سو کیوسک کی نہر کا سنگ بنیاد رکھتے وقت یہ تاریخی جملہ دہرایا کہ”یک را بگیر دیگر را تقاضہ کن“(جو کچھ ملے، لے لو باقی کا تقاضا کرو)صحافیوں نے سوال کیا،جب بھٹو ساڑھے سات ہزار کیوسک دے رہے تو آپ دس ہزار کیوسک پانی وصول کر کے باقی ڈھائی ہزار کا تقاضہ کرتے؟ تو مفتی صاحب نے فرمایا” بھٹو اگر نہر تعمیر کر دیتے تو ہمارا چراغ کہاں جلتا“
اس 48 سو کیوسک میں سے 8 کیوسک پہاڑ پور کینال کا اور 13 سو کیوسک پنجاب کا حصہ تھا،سی آر بی سی نہر کا یہی مہمل منصوبہ سیاسی رکاوٹیں عبور کر کے 30 سال کی تاخیر کے بعد 2003 ءمیں جب مکمل ہوا تو پلّوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔حیران کن امر یہ ہے کہ ذولفقار علی بھٹو نے گومل یونیورسٹی اور گورنر فضل حق نے ریڈیو اسٹیشن،پنجاب سے جوڑنے والا دریا خان پل،چشمہ روڈ اورجنوبی وزیرستان سے ملانے والی ٹانک روڈ تعمیر کرا کے ڈی آئی خان کی علمی و تجارتی گزرگاہوں کو کشادہ کیا تو یہاں کی مغموم بستیوں میں معاشی خوشحالی کے آثار ہویدا ہونے لگے۔ 1962ءمیں جب ایوب خان نے گومل زام ڈیم کی تعمیر کی ابتدا ءکی تو مفتی محمود مغفور قومی اسمبلی کے رکن تھے،صوبائی نشستیں ان علاقائی وڈیروں کے ہاتھوں میں تھیں جو آبی وسائل کی تعمیر کو اپنی بالادستی کی موت سمجھتے تھے،انہی مقتدر طبقات کی کھلی مزاحمت نے گومل زام ڈیم منصوبہ کو پچاس سال کےلئے سرکاری دفاتر کی آہنی الماریوں میں دفن کر دیا،پرویز مشرف کے عہد میں2002 ءمیں فرزند ڈیرہ جنرل غلام احمد علیزئی کی کوششوں سے گومل زام ڈیم کی تعمیر دوبارہ شروع ہوئی جو جنرل کی ناگہانی موت کے بعد مشکلات کے گردابوں میں گھر گئی،اس منصوبہ کو اگرچہ 2007 ءمیں مکمل ہونا تھا لیکن چینی انجینئرز کے اغواءاور ہلاکت کے بعد ڈیم کی تعمیر کا کام التواءمیں پڑ گیا،چودہ سال کی تاخیر کے بعد ساڑھے سات ارب کا منصوبہ 21 ارب روپے کی لاگت سے2016 میں تکمیل کو پہنچا،
منصوبہ کو اگرچہ 2007 ءمیں مکمل ہونا تھا لیکن چینی انجینئرز کے اغواءاور ہلاکت کے بعد ڈیم کی تعمیر کا کام التواءمیں پڑ گیا،چودہ سال کی تاخیر کے بعد ساڑھے سات ارب کا منصوبہ 21 ارب روپے کی لاگت سے2016 میں تکمیل کو پہنچا
اب پیپلزپارٹی پارلیمٹیرین کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات فیصل کنڈی کی تعمیراتی کمپنی نے گومل زام ڈیم سے وابستہ واران کینال کی تعمیرکے خلاف ہائی کورٹ سے حکم امتناہی حاصل کر کے اس عظیم آبی منصوبہ کو لا محدود مدت کے لئے تکنیکی مسائل میں الجھا کر دامان کے مکینوں کی آرزوں کا خون کر ڈالا،ٹانک کے شہری انکے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔افسوس کہ ہماری سیاست میں بسیط اور دور رس ترقیاتی منصوبوں کا فقدان غربت و افلاس کی توسیع کا سبب بنتا ہے اور سیاستدان اپنی طاقت کی بنیاد انہی مظلوم لوگوں کی افلاس پہ رکھتے ہیں جو امیدوں کے بھوکے ہوتے ہیں،علاقائی وڈیرے اور پاور پالیٹکس کے شناور مذہبی سیاستدان جو اقتدار کے حصول کےلئے باہم دست و گریباں ہیں وہ علاقائی ترقی کی راہ روکنے کی خاطر متحد ہو جاتے ہیں۔1974 ءمیں بنوں سے جے یو آئی کے رکن قومی اسمبلی صدر شہید نے گومل یونیورسٹی کے قیام کے خلاف مہینوں مزاحمتی تحریک برپا رکھی اور اسی گروہ نے طویل المدتی پالیسیوں کے تحت مادر علمی کی بقاءکو خطرات سے دوچار رکھا ہوا ہے۔ستم ظریفی دیکھئے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب قیادت نے ماضی میں بھی ٹانک زام ،چودہوان زام،شیخ حیدر زام ،گومل زام ڈیم اور سی آر بی سی نہر جیسے اجتماعی فلاح کے منصوبوں کی راہ روکنے کی شعوری کوشش کی اور آج جب چشمہ لفٹ کینال کی تخلیق کے امکانات قریب آئے ہیں تو یہی منتخب نمائندے اسے تنازعات میں الجھا کے مقامی آبادی کے مستقبل کو تاریکیوں میں ڈبونے کی مشق کر رہے ہیں ۔چشمہ لفٹ کینال کی ابتدائی منظوری 2001ءمیں جنرک مشرف نے صدارتی ریفرنڈم کی مہم کے دوران دی، اس وقت اسکی لاگت کا تخمینہ 70 ارب تھا،2010 میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے جب اس منصوبہ کی تعمیر کا اعادہ کیا تو اسکی لاگت 90 ارب روپے تک پہنچ چکی تھی،اب یہ ڈیڑھ کھرب کا منصوبہ ہے،جسے عملی جامہ پہنانا دشوار ہو گا لیکن لفٹ کینال کی بجائے جناح بیراج سے خیبر پختون خواکے دو اضلاع کو ایک ایسی نہر مل سکتی ہے جسکی لاگت چشمہ لفٹ کینال سے چالیس فیصد کم پڑے گی،ڈیرہ اسماعیل خان کے سابق کمشنر مشتاق خان جدون کی سروے رپوٹ میں جناح بیراج رائٹ بنک کینال کو قابل عمل منصوبہ ثابت کیا گیا۔دریا سندھ میں کالاباغ سے تین کلومیٹر ڈاون سٹریم پہ بنا جناح بیراج، چشمہ بیراج سے تقریباً 35 کلومیٹر اوپر میانوالی میں قائم ہے،جناح بیراج کی بحالی و ریگولیشن پنجاب حکومت کے محکمہ آبپاشی کے پاس ہے،جناح بیراج پراجیکٹ کی منصوبہ بندی انگریز نے انیسویں صدی میں کی لیکن اس کا حتمی پلان 1919ءمیں منظور ہوا جبکہ تعمیر 1939ءاور 1946ءکے درمیان مکمل ہوئی،جناح بیراج سے 950 کیوسک پانی کی حامل تھل کینال پنجاب کے بھکر، خوشاب، میانوالی، لیہ اور مظفر گڑھ سمیت پانچ اضلاع کی12 لاکھ ایکڑ اراضی کو آبپاشی کے وسائل مہیا کرتی ہے۔جناح بیراج توسیع منصوبہ پہ کام کرنے والے انجینئرز اور ایریگیشن سسٹم کے ماہرین سے مثبت رائے ملنے کے علاوہ انگریز دور کے پرانے ریکارڈ میں ایسے اشارے ملنے کے علاوہ خود جناح بیراج کے سٹریکچر میں رائٹ بنک کینال کی تعمیر کی گنجائش ملتی ہے،حکومت یہاں سے گرویٹی کینال یا گرویٹی کم لفٹ تعمیر کر کے خیبر پختون خوا کے دو اضلاع کی 20 لاکھ ایکڑ اراضی کو آپباشی کے وسائل فراہم کر سکتی ہے،ماہرین کے مطابق تین کلو میٹر نہر کے لئے ایک فٹ کی گرویٹی کافی ہوتی ہے جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان،جناح بیراج سے103 فٹ ڈاون سٹریم میں واقع ہونے کی وجہ سے تین سو کلو میٹر کی گرویٹی کینال حاصل کر سکتا ہے،جدون رپوٹ میں کہا گیا :
“بدقسمتی سے جناح بیراج سے دریا کے بائیں جانب کی زمینیں ہی سیراب ہوتی ہیں جو کہ پنجاب میں آتی ہیں جبکہ دریا کی دوسری جانب لکی مروت اور ڈیرہ اسماعیل خان کی لاکھوں ایکڑ اراضی کو بارانِ رحمت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے “۔
فیس بک پر تبصرے